غالب کے اردو فارسی خطوط کا تاریخی، ادبی، موضوعی اور...

362
1 ور تقابلیخی، ادبی، موضوعی اوط کا تاریردو فارسی خطلب کے ا غا جائزہچ ڈی ایلہ برائے پیقی مقا تحقی مقالہ نگارگران نلخالقفظ عبدا حاکٹر بادشا ڈا بخاری منیرردو، جامعہ پشاور شعبہ ا۱۲ ۔۲۰۱۰ ء

Transcript of غالب کے اردو فارسی خطوط کا تاریخی، ادبی، موضوعی اور...

1

غالب کے اردو فارسی خطوط کا تاریخی، ادبی، موضوعی اور تقابلی

جائزہ

تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی

مقالہ نگار

نگران

ڈاکٹر بادشا حافظ عبدالخالق

منیر بخاری

شعبہ اردو، جامعہ پشاور

ء۲۰۱۰۔۱۲

2

3

4

فہرست

عنوان باب نمبر شمار

پیش لفظ ( ۱

غالب کی مکتوب نگاری کا تاریخی و سیاسی پس باب اول (۲

منظر

غالب کے مختصر سوانحی حاالت، مکتوب نگاری

کی تعریف،

مکتوب نگاری کی رویت ابتداء سے لیکر غالب تک

غالب کے اردو خطوط کا تحقیقی جائزہ، باب دوم ( ۳

یب کی جمع آوری مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مکات

اور

گروپ بندی کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ

غالب کے فارسی خطوط کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ باب سوم (۴

غالب کی فارسی گوئی خطوط کی تناظر میں

غالب کے اردو فارسی خطوط کے تاریخی ادبی باب چہارم (۵

اور

خطوط کا موضوعاتی جائزہ، غالب کے اردو فارسی

الگ الگ تاریخی، ادبی اور موضوعی تجزیہ

غالب کے اردو فارسی خطوط کا تقابلی جائزہ باب پنجم (۶

غالب کے فارسی گوئی کا اجمالی جائزہ

فرضیہ کی توثیق و تحقیق کا محاکمہ اور حاصل چھٹا باب (۷

تحقیق

کتابیات ( ۸

انسان کی تخلیقی صالحیتوں میں ایک اہم کام خطوط نویسی کی شروعات ہیں اس بات سے

انکار ممکن نہیں کہ حروف اور الفاظ کا سب سے اہم مقصد ایک انسان کے جذبات و خیاالت

کو دوسرے انسانوں تک پہنچانا ہے۔ انسان نے جب سے اس دنیا قدم رکھا ہے تو اسے زندگی

ضروریات کے تحت محنت اور مشقت کی ضرورت پیش آئی اور یوں گزارنے کیلئے اپنے

انہیں ایک دوسرے کے مسائل سننے اور ان کا حل ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہوا یہ ایک

فطری عمل ہےاس فطری عمل کیلئے ابتداء میں اشارو ں کنایوں سے کام لیا گیا پھر رفتہ رفتہ

رت اختیار کی، یوں مختلف زبانیں وجود میں اشاروں کی زبان ایک بولتی ہوئی زبان کی صو

5

آتی گئی اور بالمشافہ ایک انسان دوسرے انسان کے مسائل سننے اور ان کا حل نکالنے کے

قابل ہوا اس کے برعکس ہزاروں الکھوں میلوں کی دوری میں ایک دوسرے تک آواز کی

ن کے حاالت سے آگاہی رسائی ممکن نہ تھی مر اپنا مدعا اپنے ہم نفسوں تک پہنچانے اور ا

بے قراری دلوں کو مضطرب رکھتی تھی اسی صورت میں خط و کتابت کی ضرورت

محسوس ہوتی رہی تاکہ اپنے خیاالت و جذبات یا حاالت و واقعات ایک کاغذ پر لکھ کر

مکتوب الیہ تک پہنچائے جائیں اور یوں خطوط نویسی کی ابتداء ہوگئی۔

حوالے سے یقینا مشکالت کا سامنا ہوا ہوگا کیونکہ ابتدائی طور ابتداء خطوط کی ترسیل کے

پر ڈاک وغیرہ کا کوئی نظام موجود نہیں تھا تا ہم وقت کے ساتھ ساتھ خطوط نویسی کا رواج

عام ہوتا گیا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ لکھنے پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا

وادب کی شمعیں روشن ہوتی گئی۔ ادب میں خطوط اور تصنیف و تالیف کے ذریعے علم

نویسی یا مکتوب نگاری کے صنف کو کتابت مراسلت یا ترسیل کے ناموں سے بھی یاد کیا گیا

ہے۔

شروع میں خط لکھنے کیلئے کوئی خاص چیز میسر نہیں تھی اس وقت جو بھی چیز میسر

ی ابھی کاغذ کی کوئی پہچان آجاتی اس زمانے کے لوگ بیٹھ کر اس پر خط لکھ جاتے ۔ یعن

وغیرہ نہیں تھی ۔ شروع میں لوگ خط ، پتھر، تانبے، موم اور لکڑی پر رقم کرتے تھے۔اس

ھائی ہزار سال پہلے کی حضرت عیسی کی پیدائش سے کوئی ڈ قسم کے خطوط کی ابتداء تو

ہے۔ اس قسم کے خطوط کے بارے میں غالم حیدر لکھتے ہیں۔

ی آبادی میں مٹی مصر کی ایک بہت پران

کی ایک سل دبی ہوئی ملی ہے اس میں

ایک شاہی پیغام بر کا حال لکھا ہے کہ جب

وہ پیغام لے کر شروع کرتا تھا توپہلے

اپنے قرضے چکاتا ۔ اپنے مال کو بچوں

بار گلے میں بانٹ دیتا اور سب سے آخری

مل مل کر رخصت ہوتا ۔ اس تختی کے

ل حضرت حا متعلق خیال ہے کہ اس پر یہ

6

کی پیدائش سے کوئی دو ڈھائی عیسی

(۱)ہزار سال پہلے کھودا گیا تھا۔

میں لوگوں کے جن گوں نے خط لکھنے کیلئے کئی طرح تجربات کیےواس کے عالوہ ل

جسموں پر بھی خطوط لکھے گئے۔ کیونکہ اس وقت نہ قلم، نہ دوات اور نہ کاغذ کوئی بھی

دشاہوں اور امیروں نے پتھر کی سلوں پر خط لکھنا اور چیز میسر نہیں تھی۔ اسی طرح با

ایک تجربہ کبوتروں کی مدد سے ن میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنا شروع کیا۔ ا

تھا۔ بقول غالم حیدر ایک جگہ سے دوسری جگہ خط پہنچانے کا طریقہ

"مصر بائبل اور ایشیاء کے بہت سے

عالقوں سے ایسے بہت سے خط زمین

سلیٹ کے ے ہوئے ملے ہیں جومیں دب

انبے یا کاسے کی سے ، تپتھروں ، سی

سے تین چار ہزار سال پر آجیوں تخت

(۲)پہلے لکھے گئے تھے۔

ان میں ایک موم کی چھوٹی اسی تسلسل میں خطوط لکھنے کے کئی طریقے ایجاد کئے گئے۔

ہوئی۔ اس وقت کاغذ کی ایجاد کے بعد اس میں مزید پیش رفت بڑی تختیاں بھی شامل ہیں۔

کاغذ کا دستیاب ہونا بہت مشکل کام تھا اور کئی مراحل سے گزر کر کاغذ تیار ہوتا تھا۔ لیکن

اس سے کم از کم خط لکھنے والوں کے لئے آسانی تو پیدا ہوگئی کاغذ کے تیار ہونے میں

نی سب سے زیادہ استعمال لکڑی کا تھا۔ اسی طرح مکتوب نگاری کی تاریخ بہت پرانی ہے یع

ابھی کاغذ ایجاد بھی نہیں ہوا تھا تا ہم مجبورا ابتداء میں انسان درختوں کے پتوں لوہے کی

پلیٹوں اور مٹی کے لوحوں پر لکھتا تھا اس وقت بھی خطوط لکھے جاتے تھے اور ایک جگہ

سے دوسری جگہ بھیجنے کا انتظام بھی موجود تھا وقت کے ساتھ ساتھ تحریریں بھی آگے

اور مکتوب نگاری بھی اسکے ذیل میں آگئی۔ مکتوب نگاری کی شروعات کے بڑھتی گئیں

حوالے سے"کلیات مکاتیب اقبال" کے مقدمے میں سید مظفر حسین برنی لکھتے ہیں۔

خطوط نویسی یا نامہ نگاری کا آغاز اسی

زمانے میں ہوگیا ہوگاجب انسان نے رسم

7

الخط ایجاد کیا اور لکھنا سیکھا چنانچہ تین

سال قبل کی تین مٹی کی لوحیں ایسی ہزار

نکلی ہیں جن پر مصر کے فراعنہ کے نام

میں سمرتا ۱۸۸۷سے خطوط کندہ ہے یہ

)عراق( کے مقام پر کھدائی کے دوران

(۳)۔دریافت ہوئیں

میں کھدائی کے دوران جو مٹی کے لوحیں دستیاب ہوئی ہیں ان پر خط کی جو عبارت ۱۸۸۷

یں ہے جن سے اس وقت کے مصر کے حاالت و وقاعات پر درج ہے وہ سریانی زبان م

روشنی پڑتی ہے بہر حال پھر بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ پہال خط کب اور کس زبان میں لکھا

گیا ہے تحقیق کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السالم کو اس وقت

ن خطوط کا متن سامنے خطوط لکھے تھے جب وہ عزیز مصر بنائے گئے تھے ابھی تک ا

نہیں آیا تاہم اس بارے میں یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ جیسے آج ہم اس خط کا نام لیتے

ہیں اس کی شکل و صورت کیا تھی لیکن ان تمام مباحث کے باوجود خط کا اولین اور مستند

ھا یہ خط نمونہ وہ ہے جسے حضرت سلیمان علیہ السالم نے ملکہ بلقیس کے نام ارسال کیا ت

اپنی اصلی شکل و صورت اور متن کے ساتھ محفوظ ہے قرآن مجید میں مذکورہ خط کی

طرف سے واضح اشارہ ملتا ہے۔ موالنا فتح محمد خان جالندھری نے اس بات کی حقیقت پر

کچھ یو روشنی ڈالی ہے۔

پتوں چھالوں اور مٹی کی لوحوں پر جو

خطوط تحریر کیے جاتے تھے وہ مختصر

روباری قسم کے ہوتے تھے چنانچہ اور کا

ایک ایسا ہی خط حضرت سلیمان علیہ السالم

کی طرف سے دسویں صدی قبل مسیح میں

فلسطین سے بجانب حبشہ ارسال کیا گیا تھا

حضرت سلیمان علیہ السالم کی سلطنت

ق م( موجودہ مشرقی اردن ۹۹۲ق م تا ۹۵۲)

8

تا یمن وسیع و عریض مملکت تھی غالبا سب

ال خط عبرانی زبان میں تحریر کیا گیا سے پہ

جو ملکہ سبا کے نام ارسال کیا گیا تھا وہ

مختصر با معنی اور تبلیغی خط تھا اور جس

کی بدولت ملکہ سبا )بلقیس( مشرف بہ اسالم

ہوئی تھی ملکہ سبا کا ذکر مورخین اپنی اپنی

تصنیفات میں کرتے آئے ہیں یہ خط ہد ہد کے

تھا کالم پاک میں خط ذریعے ارسال کیا گیا

مذکورہ کا ذکر موجود ہے مذکورہ خط کے

حوالے سے تفصیلی مباحث سورۃ نمل کی

(۴)۔تفسیر میں درج ہیں

( کہتے ہیں PAPERکاغذ کو پیپر ) غالم حیدر لکھتے ہیں انگریزی زبان میں چونکہ

کو سب سے پہلے اگر پیپایئرس کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ آج کل جو کاغذ تیار ہورہی ہیں اس

چینیوں نے ایجاد کیا۔

آج سے کو آٹھارہ انیس سو سال پہلے چینی

بادشا کے ایک وزیر سائی لون

بھگ اسی اصول پر کاغذ تیار کرلیا لگنے

آج بنتا ہے مگر اس کو یہجس پر

ساری دنیا میں پھیلنے میں کئی سو سال لگ

(۵)گئے۔

لے گئے اور اس میں ہر طرح کے اے نکخط پہنچانے کیلئے کئی ایک طریق انہی میں سے

لوگوں نے حصہ لیا اس میں کئی آدمیوں کی دوڑ بھی شامل ہیں۔ اسی طریقے کو سب سے

پہلے چین کے بادشاہوں نے کوئی چار ہزار سال پہلے ایجاد کردیا تھا ۔ مگر اس طریقے کا

9

ب سب سے پہلے حال چین میں بھی مل پاتا مگر تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس طریقے کو س

بقول غالم حیدر: ایران کے بادشاہوں نے شروع کیا تھا۔

اس طریقے کو ایران کے ایک بہت بڑے

بادشاہ بادشاہ سائیروس نے شروع کیا تھا۔ یہ

ی سے کوئی ساڑھے پانچ سو حضرت عیس

سال پہلے حکومت کرتا تھا۔اس نے گھڑ

کے ذریعے ڈاک النے لے جانے کا ں سوارو

(۶)انتظام کیا۔

اس وقت بادشاہوں کے یہاں باقاعدہ ڈاک آتی تھی اور حکومت میں ڈاک کا ایک الگ دفتر بھی

ہوتا تھا۔ اس کے بعد عرب اور مصر کے بادشاہوں نے بھی اپنے لیے ڈاک کا بڑا اچھا انتظام

بھی طے کیا الک یعنی اٹلی، فرانس ، برطانیہ وغیرہ کا سفرکیا اس کے بعد یورپ کے مم

رھویں اور اٹھارویں صدی میں اس کی جھلک تیز معلوم ہونی لگی۔ کیونکہ اس وقت یعنی ست

سارا انتظام گھوڑوں پر کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد مہنگا خط اور سستے خط کا دور بھی آگیا

اور پھر آخر میں ایک دور یہ بھی آیا کہ عام آدمی کی ہاتھوں میں بھی یہ خط آسانی سے

بقول غالم حیدر: پہال ٹکٹ چال۔کا ا میسر آنے لگا اور دنی

آج ہی وہ دن ہے جب دنیا میں پہال ڈاک کا

کا ٹکٹ چال ہے۔ انگلستان کی ملکہ وکٹوریہ

چہرہ کالے رنگ میں اس ٹکٹ پر چھپا ہے۔

لوگ ٹکٹوں کو بڑے غور سے دیکھ رہے

(۷)ہیں۔

وں نے ایک کمپنی کھولی ن میں انگریزہندوستان آپہنچا ۔ ہندوستا ہوتے ہوتے آخر میں یہ خط

جس کا نام "ایسٹ انڈیا کمپنی" تھی۔ یہ کمپنی پہلے انگریزوں نے تجارت کی عوض کھولی

تھی بعد میں یہ لوگ ہندوستان پر حکومت کرنے لگے یعنی ہندوستا کے حکمران بن گئے

طرح سے ان ہی کی ایجاد ہے۔ دیکھا جائے ہندوستان میں ڈاک ایکاگر

10

پنی کے ایک بہت بڑے افسر ایسٹ انڈیا کم"

تھے الرڈ کالئیو جو بنگال کے گورنر بھی

کیا ء میں۱۷۶۶انتظام نے ڈاک ک تھے۔انہوں

"پھر باقاعدہ شروع کرنے کی کوشش کی

(۸)۔

کے تمام شہروں میں خط کا رواج آہستہ آہستہ عام ہونے لگا۔ اور پھر ایک ن ہندوستا ور یوں ا

میں ڈاک کو ہر امیر غریب کیلئے آسان کردیا گیا۔ ویسے اگر دیکھا ایسا وقت آگیا کہ ہندوستان

جاکر بتال کام ہے ایک آدمی کا حال دوسرے کو جائے تو خط کا صرف ایک کام ہے اور وہ

دینا یعنی یہ اس کا اصل کام ہے۔ یعنی کچھ لوگوں نے اپنے ہی حال کو کچھ ایسے ڈھنگ سے

ال تھا یا جو اس بلکہ ان کے چاروں اطراف کا جو ح۔ لکھا کہ وہ صرف ان کا حال نہیں رہا

وقت کے خاص خاص خبریں تھے ان کا پتہ بھی پڑھنے والوں کو ہوجاتا تھا مصنف مرزا

غالب کے بارے میں رقم طراز ہیں۔

میں ایک بہت بڑھے شاعر تمھارے ملک

ا غالب انھوں نے اپنے دوستوں کو تھے۔ مرز

بڑے اچھے اچھےخط لکھے ان کے کچھ

ء کی اس گڑبڑ کے حاالت ۱۸۵۷طوں سے خ

جتنی اچھی طرح معلوم ہوجاتے ہیں کسی اور

(۹)طریقے سے معلوم نہیں ہوسکتے۔

11

)مکتوب نگاری کی تعریف(

خطوط نگاری یا مکتوب نویسی ادب کی قدیم ترین شکل ہے۔ ہم ایک شخص سے کوئی بات

کہنا چاہیں اور وہ سامنے موجود نہ ہو تو ایسی بات اور گفتگو اسے لکھ کر بھیجنا خط نویسی

یا مکتوب نگاری کہالئے گا۔ چند معلومات کو ایک پیغام کی شکل میں بصورت تحریر ال کر

چانہ خط نگاری کا مقصد ہے۔ مکتوب الیہ تک پہن

خطوط نویسی کے حوالے سے ڈاکٹر سید عبدہللا یوں رقمطراز ہیں۔

معمولی کاروباری چیز "خطوط نگاری ایک

ہے مگر یہ آرٹ بھی ہے۔خطوط نگاری کا

مقصد چند معلومات کو پیام کی شکل میں چند

کو تخریر کئے جانے میں مکتوب الیہ ںباتو

پیدا ادب ولین مقصدتک پہنچانا ہے اس کا ا

کرنا نہیں بلکہ یہ اپنی بنیادی حیثیت سے

چیز ہے۔ خطوط نگاری رسمی اور کاروباری

وہ آرٹ ہے جس میں دو آدمیوں کے درمیان

(۱۰)چند باتیں ہوجاتی ہیں۔"

رسمی اور کاروباری چیز ہے۔ البتہ خط نگاری کو قدرتی بنیاد ی اعتبار سے مکتوب ایک

اور کچھ قدرتی پابندیاں بھی حاصل ہیں۔ کہ خط ایسی تحریر کا نام ہے رعایتیں حاصل ہیں

جس میں کام کی باتیں صرف دو آدمیوں کے درمیان نجی حیثیت سے پیش کیجاتی ہے۔ خط

ایک سے زیادہ کوئی چیز شخصی اور ذاتی نہیں ہوتی اسی وجہ سے خط جہاں اصال

ے۔ یہ نجی حیثیت خط کی خوبی بھی ہے کاروباری چیز ہے وہاں انتہائی طور پر نجی بھی ہ

اور خامی بھی۔جہاں تک خطوط نویسی میں کسی موضوع کا تعلق ہے اس بارے میں ڈاکٹر

رشید االسالم لکھتے ہیں۔وخ

ت چیت کے لیے کسی "جس طرح با

نہیں اور گفتگو موضوع کی ضرورت

12

میں کسی موضوع کا نہ ہونا اس کے

ہونے سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوتا

۔ اسی طرح خط میں اصول کی ہے

ضرورت نہ خیال کی ضرورت نہ

طرح موضوع کی ضرورت جس

زندگی اپنی راہیں خود بنالیتا ہے خط

بھی اپنی باتیں خود ہی پیدا کرلیتا

(۱۱)ہے"

ارئیں ہوتے ہیں۔ لیکن فنکار کے ذہن میں نہ سامعین یا ق لکھتے وقت ناول ، افسانہ یا ڈراما

میں کوئی سامع یا قاری اور نہ ہی کوئی محفل ایک لکھنے واال ہوتا خط لکھنے والے کے ذہن

رشید االسالموہے اور بات پڑھنے واال اس عمل میں بقول ڈاکٹر خ

"صرف دو انسانوں کی خودی بیدار

ہوتی ہے اور صرف دو انسان زندہ

ہوتے ہیں اس کے عالوہ ساری دنیا

(۱۲)غنودگی کے عالم میں ہوتی ہے"

کہ انسان کے وہ دلچسپ اور نازک پہلو جو اس کے بلند ادبی کارناموں میں ظاہر یہی وجہ ہے

نہیں ہو خطوں میں نمایاں ہوجاتے ہیں۔

انسانی ذہن و تہذیب کی عظیم فتوحات میں ادبی فتوحات ایک خاص نام اور مقام کے حامل ہیں

ڈاکٹر فرمان جن میں مکتوب نگاری کی ایک بھر پور روایت پائی جاتی ہے اس حوالے سے

فتح پوری لکھتے ہیں۔

)خطوط نگاری کی روایت(

13

خطوط نگاری کی ابتداء سلطنت روما

ممکن ہوئی ہیں۔ میں کے زیر سایہ

قدیم تہذیب کے دوسرے مرکزوں میں

بھی فروع پایا لیکن یہ ثابت نہیں۔ یہ

عجیب بات ہے کہ یونان میں یہ شغل

نہ عوام میں محبوب ہوا نہ خواص

ت ہر ریاس اس لیے کی یہاں میں۔ شاید

ایک دنیا تھی۔ شعبوں میں ، ورزش

کے میدانوں میں دوستوں کی محفلوں

لوگ ایک دوسرے سے مل سکتے میں

تھے۔ غرض تسکین کے سارے سامان

موجود تھے۔ اس لیے یونان میں

مکتوب نگاری کی روایت نہیں ملتی۔

اس روایت کی نشونما کے لیے شرط

دہ حکومت ۔ ہے۔وسیع معاشرت باقاع

ذیادہ لوگوں کے جاننے کے مواقع ،

قفیت،ایک ایسی اعملی زندگی سے و

زبان دور نزدیک بولی اور سمجھی

جاتی ہو۔ جس میں ادبی اصطالحیں

ہوں، یہ شرائط پہلی بار رومی

(۱۳۔)معاشرت میں پورے ہوئے

جائے کہ انگلستان لکھنے کا آغاز پندرھویں صدی میں ہوا یا یوں کہا خط انگریزی زبان میں

گئے۔ پندرہویں یےمیں اس سے قبل جو مکاتب لکھے گئے وہ لکھنے والوں کے ساتھ دفنا د

صدی کے مکاتب بیشتر واقعات کی صورت میں ہیں جن میں الفاظ کا ہجوم قیامت سے کم

بقول فرمان فتح پوری: نہیں۔

14

"اٹھارویں صدی کے ادیب کا نام ولیم

ور کوپر ہے اس زمانے میں دو ا

ایک ہوئے ہیں۔پیدا مکتوب نگار

جس کی زندگی کا مشہور شاعر ہیں

بیشتر حصہ کیمبرج یونیورسٹی کی

منزلوں میں گزرااور جس کے کردار

کا سب سے نمایاں اس کی فطری

جھجک تھی۔ وہ ان لوگوں میں سےتھا

جن کو انسان سے محبت ہوتی ہے

لیکن اپنے خاص مذاق کے باعث

اہر نہیں خواص کے دائرے سے ب

جاسکتے اور عوام انھیں اجنبی معلوم

(۱۴)ہوتے ہیں۔"

یت کے تنبیہی خطوط، تغز یوں تو خطوط نویسی کی کئی قسمیں ہیں مبارک باد کے خطوط

مالمت کی جائے اور وہ خطوط جن میں پر خطوط، ناصحانہ خطوط وہ خطوط جس میں کسی

بحث کررہے ہیں یہ ایک صنف نثر کو تشفی دی جائے وغیرہ۔لیکن ہم جو خطوط نویسی پر

کے پیش نظر ہے۔

کیلئے مشہور نہیں اس کے مکاتب بھی ادب کا سرمایہ ہیں۔ لیمب ب اپنے مجامینچارلس لیم

کی زندگی اور اسلوب میں وہی بات ہے جو گرمیوں کی چاندنی میں ہوتی ہے۔ اس کے مزاج

اس انداز سے کہا ہے کہ میں ہلکی سے افسردگی پائی جاتی ہے۔ لیمب نے موت کا ذکر

انسانوں سے محبت کرنے کو جی چاہتا ہے۔

"چارلس لیمب کے بعد کیٹس کے

خطوط ہیں۔ شیلی اور بائیرن کے

خطوط ہیں۔ سیاست دانوں، نقادوں اور

مذہبی پیشواؤں کے خطوط ہیں۔ لیکن

15

جو نظر، ندرت اور نیرنگی کیٹس کے

خطوط میں ہے وہ ان لوگوں کے یہاں

(۱۵)"کم یاب ہیں۔

ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ خطوط نوسی کی ابتداء جو سلطنت روما کے زیر سایہ میں مختصرا

ہوئی تھی انہیں مختلف مراخل سے گزر کر آج ایک بہترین صورت میں بحیثیت ایک صنف

رشید االسالم کہ ،ونثر کے ہم تک پہنچا ہے اور بقول ڈاکٹر خ

"عورتوں میں خوش ہونے اور خوش

الحیت مردوں سے زیادہ کرنے کی ص

ہوتی ہے۔ یہی صالحیت خطوط کی

جان ہے۔ شاید اس لیے یہ خیال عام

ہوگیا ہے۔ کہ خط لکھنا عورتوں کا

حصہ ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ

دنیا کے بہترین خطوط خواتین ہی کے

(۱۶)۔"قلم سے سرزد ہوئے ہیں

ت سے کرتے ہیں۔ اسی نوعیت ہم جن خطوط کا مطالعہ ایک علمی و ادبی فن پارے کی حیثی

دو شکلیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ خطوط جنہیں لکھتے وقت مکتوب نگار کو یہ خیال کی عموما

ہوتا ہے اور نہ خدشہ کہ ان اشاعت کی نوبت بھی آسکتی ہے اور دوسرے وہ خطوط جو

اشاعت پزیر ہونے کی امید پر یا یقین کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ صنف نثر کی حیثیت سے

عموما پہلی نوعیت کے خطوں کو زیر بحث الیا جاتا ہے۔

خط کے لغوی اور اصطالحی معنی

خط عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے

معنی "سطر" یا"تحریر" کے ہیں۔

لیکن عربی میں یہ لفظ اصطالحی

طور پر "تحریر" کے معنی میں

16

استعمال ہوا ہے اور مکتوب یا

(۱۷مراسلے کے معنی میں بھی۔)

عالوہ دیگر لغات میں مکتوب بہ معنی نامہ، مراسلہ، مرقوم، بھی ملتا ہے۔اس کے

"خط وہ تخریر ہے جس میں مکتوب

نگار اپنے خیاالت ، جذبات اور اپنا

مؤقف لکھ کر مکتوب الیہ کو بھیجتا

(۱۸)ہے۔"

ن تک محدود رہنے والی تحریر ہے اور لکھنے والے کو عام طور پر خط دو افراد اکے درمیا

ہے وہ ان دونوں کے درمیان اکثر یہ خیال ہوتا ہے کہ جو باتیں وہ مکتوب الیہ کو لکھ رہا

انہ رائے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مکتوب نگار یں رہیں گی۔ اس لیے خط میں بے باکازمصیغہ ر

است اور بغیر جھجھک پیش کردیتا ہے۔ی طور پر اپنا نقطہ نظر بال کم وکغیر شعور

القات" یعنی خط آدھی مالقات ہے۔ خط کے مکتوب نصف المول ہے "العربی کا مشہور ق

ذریعے ایک قسم کی مالقات تو ہو جاتی ہے مگر کچھ ایسی ہی مالقات ہوتی ہے کہ خط

لکھنے واال اپنے جذبہ و خیال کو حروف کی شکل دے کرصفحہ کاغذ پر بکھیر دیتا ہے۔ لیکن

طور پر اس کے کیا اثرات ی ذہن پر فوراسے اس کا قطعی پتا نہیں چلتا کہ مخاطب کے

یں۔ہمرتب ہوئے یا مکتوب الیہ کے نظریات سے متفق ہو کہ ن

فف مالقات" کے بجائے "بہتر از مالقات" کہنا چاہئے کیوں ایک خیال یہ بھی ہے کی خط کو ل

کہ رو برو مالقات میں بعض جو تلخیاں اور غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں ان کی صفائی اور

ممکن ہو سکتا ہے۔خطوط کے دائرے میں وہ تمام امکان خطوط ہی کے ذریعےالے کا از

ارتقاء اور زندگی کے مختلف موضوعات سموئے جاسکتے ہیں جن کا تعلق انسان کی ذہنی

سے ہوتا ہے اور انہی موضوعات کو فکروفن کے سانچے میں ڈھالنے کا اس توجیہ گوشوں

وزمرہ زندگی سے ہے اور خطوط نگاری اپنی ادبی کے ساتھ ہے کہ خط کا تعلق ہماری ر

شکل میں ان تمام تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔

17

ایک خاس ادبی خطوط نگاری کی

اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں عمومی

زندگی اور روزمرہ کے مسائل زیر

بحث آتے ہیں اور انٹخاب کا وہ رویہ

جو دوسری اصناف سخن میں اکثر

فکر و فرمائی پیش نظر رہتا ہےیہاں

(۱۹)شریک نہیں ہوتی۔

دوسرے مذاہب میں خطوط کے تاریخ اور شواہد سامنے آئے ہیں اسی طرح اسالم جس طرح

میں بھی اور اس سے پہلے پیغمبروں کے خطوط کے نمونے ملے ہیں۔

ان میں قدیم ترین خط وہ ہے جو قرآن

پاک کی بغض لقیروں کے مطابق

السالم نے حضرت یعقوب علیہ

رت یوسف علیہ السالم کو اس حض

وقت لکھا تھا جب وہ عزیز بنا دئے

(۲۰)گئےتھے۔

۔سامنے نہیں آئے کہ اس کی اصل شکل کیا ہےابھی تک نمونے اصل ےک وطخطلیکن

وہ ہے۔ جو دراصل خط کا اولین نمونہ

م نے ملکہ حضرت سلیمان علیہ السال

بلقیس کو ارسال کیا تھا۔ یہ خط اپنے

لفظ بہ لفظ بجنسیہ ساتھپورے متن کے

(۲۱)قرآن پاک میں موجود ہے۔

خطوط کا اچھا میں و ادب عربی زبان دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ہیں عربی زبان

خاص ذخیرہ موجود ہے خطوط کا یہ ذخیرہ واضح کرتا ہے کہ اس صنف کے لکھنے والوں

نے اس میں غیر معمولی دلچسپی لی ہے۔

18

خطوط لکھے وہ یں جن سربراہان اور دیگر افراد کوختلف اوقات مجو منے ملسو هيلع هللا ىلص آنحضرت

خطوط اب مرتب ہوکر کتابی شکل میں عربی زبان میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان خطوط

کے دیگر زبانوں میں تراجم بھی ہوچکے ہیں۔

ضرت ابوبک صدیق رضی ہللا عنہ ح

عہد میں بھی خطوط تحریر ہوئے کے

ہللا عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی

کا کام حضرت عمر فاوق رضی ہللا

عنہ کے انجام پایا۔ انہوں نے

باقاعدہ"داراالنشا" قائم کرنے میں

دلچسپی لی۔آپ رضی ہللا عنہ نے

ع مکے خطوط بھی مجتملسو هيلع هللا ىلص رسول اکرم

(۲۲)و محفوظ کرائے۔

حضرت علی کرم ہللا وجہ نے اپنے دور خالفت میں جو خطوط اپنے سلطنت کے گورنر اور

دیگر افراد کو تخریر کئے اب وہ کتابی شکل میں منظر عام پر آچکے ہیں اور دیگر زبانوں

میں ان کا اردو ترجمہ ملتا ہے۔

"بنو امیہ اور بنو عباس کے عہد میں

انشا پردازی کا فن وجود میں آیا یا

درہے کہ انشا پردازی اور مکاتیب کا

فن حکومت کی زیر اثر وجود میں آیا ۔

ے "دیان االنشاء" کے حکومت ن

باقاعدہ شعبے قائم کئےرفتہ رفتہ

مکتوبات کی جانب اس درجہ توجہ دی

جانے لگی کہ خطوط کے فن پر

باقاعدہ کتابیں لکھی گئیں۔ خطوط کی

ہئیت ، اسلوب، اقسام و مفاہم متعین

19

سیکھنے کی جانب ہوئے اس صنف کو

ول ہونے لگی۔ لوگوں کی توجہ مبذ

کے خطوط کے بہترین انشا پردازی

مجموعے نصابی طور پر بڑھائے

جانے لگے ہر درجے کے مخاطب

کے ساتھ اس انداز کے القاب و آداب،

اسلوب اور مضامین سامنے آئے اور

خطوط نویسی باقاعدہ ایک فن کا درجہ

(۲۳)اختیار کرگئی۔

کے بارے نسرین ممتاز اپنی کتاب تحقیق مکتوبات میں ایک اور جگہ لکھتی ہیں خط کی ابتداء

میں جو ادبی یا نجی خطوط ہولکھتی ہیں۔

عربی انشاء پردازی اور مکتوب

نویسی کی تاریخ میں عبدالحمید بن

ی کا نام سر فہرست ہے انہوں نے یحی

نہ صرف مکتوب نگاری کی ابدتاء کی

بلکہ موضوع، مضمون، نیز القاب و

آداب میں جدت و ندرت بھی پیدا کی۔

اور حکومت کے محکمہ انشا

کاروباری خطوط کے عالوہ عبدالحمید

نے بہت سے نجی خطوط بھی لکھے۔

عربی زبان و اداب میں یہ پہال مکتوب

نگار ہے جس کے مکاتب نجی اور

اور ادبی حیثیت ذاتی نوعیت کے ہیں

سے ترقی یافتہ شکل میں سامنے آئے

(۲۴)ہیں۔

20

ا جائزہ لیں تو اس میں بھی ادیبات میں خطوط نگاری کواگر فارسی زبان عربی کے بعد

پرانی ہے اور عہد قدیم سے سرکاری اور نجی خطوط کے کی روایت کافیمکتوب نگاری

۔نمونے ملتے ہیں

"مغلیہ دور میں ہندوستان میں فارسی

کھے جاتے تھے۔ اردو میں خطوط ل

جب اپنی حیثیت منو زبان و ادب نے

لی تو اردو میں بڑا مکتوب نگار کا نام ا

سدہللا خان غالب ہے۔ بعض مرزا ا

محقیقین اور ناقدین کے نزدیک مرزا

غالب سے پہلے غالم غوث بے خبر

(۲۵)نے اردو خطوط لکھے"۔

ی مستحکم ہوچکی ہے مشاہیر کے خطوط کے کئی بڑاردو میں خطوط نویسی کی روایت

سا کہ خطوط غالب ، مکاتیب غالب،تب ہوکے منظر عام پر آچکے ہیں جیایک مجموعے مر

مکایب اقبال، مکاتیب مناظر احسن گیالنی، خطوط اکبر آلہ آبادی، مکاتیب مختارالدین آرزو،

ین ہاشمی، مکاتیب گیان چند ، سر سید احمد خان، الطاف حسین حالی، موالنا مکاتیب رفیع الد

ابوالکالم آزاد، سید سلیمان ندوی، رشید احمد صدیقی، قاضی عبدالغفار اور عبدلماجد دریابادی

کے خطوط خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

مرزا غالب نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں خطوط لکھے ہیں ان کی زندگی ہی میں

ان کے خطوط کا مجموعہ "عود ہندی" کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کا دوسرا

و حواشی غالب مجموعہ منظر عام پر آیا۔ لیکن جب امتیاز علی خان عرشی نے خطوط

حاسن کے کئی گوشے سامنے آئے۔ غالب تو خطوط غالب کے متعلیقات کے سات ترتیب دیے

ا نے کے فارسی خطوط کا پر تور وہیلہ یں غالب کے اردو ماردو میں ترجمہ کیا ہے۔ مقالہ ھذ

فارسی خطوط کا تقابلی مطالعہ مختلف جہتوں سے کیا جائےگا لیکن اس سے قبل غالب کی

بحث اس لیے ناگزیر ہے کہ ان کی زندگی کے مختلف واقعات اور سوانح و شخصیت پر

حاالت کی روشنی میں مذکورہ مباحث پیش کیے جائے۔

21

)مرزا غالب کی مختصر سوانح عمری(

الدولہ دبیرالملک مرزا اسدہللا خان بیگ نام ، مرزا نوشہ عرف ، اور نجم -:تاریخ پیدائش

ء ( آگرہ میں پیدا ہوئے۔ مرزا ۱۸۹۷خر اکتوبر اوا) ھ ۱۲۱۲رجب 8ملے نظام جنگ خطبات

ھ کا لکھا ہوا 1280اسدہللا خان خط بنام نواب عالء الدین احمد خان رئیس لوہار جو غالبا

لکھتے ہیں۔

ھ میں پیدا ہوا ہوں ۱۲۱۲" میں جب

اب کے رجب کے مہینے سے

(۲۶)ترواں برس شروع ہوا ہے۔" ہان

ھ۱۲۱۲رجب 8طوط سے پیدائش واضح ہے کہ میں اس کے ساتھ ساتھ مرزا غالب کے خ

کر بھی کئی ب )کی تاریخ پر بھی وہ خود( کا ذکو آگرہ میں پیدا ہوا۔ پیدائش کے ساتھ نام و نس

غالب خود کہتے ہیں کہ میرا انترواں ، ذکور ہیں۔ پیدائش کے حوالے سے خطوط میں م

مہ میں نثر میں اپنی پیدائش اکترواں برس شروع ہوگیا خود غالب نے دیوان فارسی کے خات

ئش کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا کے بارے میں ایک دلچسپ رباعی لکھی ہے جس میں اپنی پیدا

جو اس کی شاعرانہ زندگی تصور پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں ہے

غالب چو زنا سازی فرجام نصیب

ہم خوف عدد درام وہم ذوق حبیب

ںتاریخ والدت من ازعالم قری

(۲۷ ) ہم "شورش شوق" آمدو ہم لفظ غریب

نوں ھ تاریخ والدت نکلتی ہے اور دو ۱۲۱۲شورش شوق "اور غریب" دونوں لفظوں سے

ہیں۔ بہترین تصور پیش کرتےی شعر غالب کی زندگی کا نہایت اچھ

کو مرزا اسدہللا خان اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں منشی حبیب ہللا خان ذکا حیدر آبادی

لکھتے ہیں۔

22

ویں " اس مہینے یعنی رجب کی آٹھ

سے بہترواں برس شروع ہوا تاریخ

(۲۸) ہے"

ک ان خطوط سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غالب کی تاریخ پیدائش کے بارے میں کسی قسم کی ش

نہیں کیونکہ انہوں نے کئی خطوط میں کئی بار پیدائش کا ذکر کیا ہیں ۔ اس سے کی گنجائش

دوح صاحب کو لکھتے ہیں۔مم ضرورت نہیں ایک اور خط میں نوابزیادہ دلیل کی

"قاعدہ عام یہ ہے کہ عالم آب و گل

کے مجرم عالم ارواح میں سزا پاتے

بھی ہوا ہے کہ عالم ہیں لیکن یوں

ارواح کے گنہگار کو دنیا میں بھیج کر

ھ ۱۲۱۲رجب ۸سزا دیتے ہیں چنانچہ

کو مجھے روبکاری کے واسطے یہاں

(۲۹دنیا میں( بھیجا" ) )یعنی

ان شہادتوں کے ساتھ ساتھ داخلی اور خارجی محقیقین اس پر متفق ہے کہ مرزا اسدہللا خان

ھ ہیں۔ خارجی شہادتوں پر اگر نظر دوڑایا جائے تو ۱۲۱۲ برج۸غالب کی تاریخ پیدائش

کی تاریخ کچھ اس طرح ہیں۔داخلی اور خارجی شہادتوں کی بنیاد پر مرزا اسدہللا خان غالب

پیدائش کچھ یوں ہیں محمد شمس الحق کچھ یوں رقم طراز ہیں۔

"نام مرزا اسدہللا غالب تحلص ،

۱۷۹۷دسمبر ۲۷مرزا نوشہ عرفیت

فروری ۱۵کو آگرہ میں پیدا ہوئے

کو دنیائے ادب کا یہ ء ۱۸۲۹

درخشاں ستارہ اس جہان فانی سے

(۳۰)رحصت ہوا۔

23

کی تاریخ پیدائش کے بارے میں ایک اور نقاد کچھ یوں رقم مرزا اسدہللا خان غالب اسی طرح

طراز ہیں۔

" غالب کا اصلی نام مرزا اسدہللا بیگ

ان تھامرزا نوشہ عرف تھا اور نجم خ

لہ دبیر الملک اسدہللا خان بہادر الدو

نظام جنگ خطاب تھا۔ تاریخ والدت

۳۱ہے"۔ ۱۷۹۷دسمبر ۲۷

لب کی تاریخ پیدائش کے بارے میں لکھتی ہیں کچھ یوں میں عا "نقوش ادب الہور"فرزانہ سید

رقم طراز ہیں۔

" اٹھارھویں صدی عیسوی اپنے چند

آخری سال گزار رہی تھی۔ اسی دور

میں آگرہ کے شہر میں پر آشوب

ء میں غالب پیدا ۱۷۹۷ہجری ۱۲۱۲

(۳۲)ہوا؟

کر کرتے ہیں۔ں ذھ یو کچ کا حمید ہللا ہاشمی حیات غالب میں غالب کے تاریخ پیدائشجبکہ

۲۷ھ بمطابق ۱۲۱۲رجب ۸غالب "

ء کو بدھ کے دن آگرہ ۱۷۹۷دسمبر

(۳۳ )میں پیدا ہوئےتھے۔

، عرف اور خطاب کے بارے میں غالب کی اردو اور فارسی تحریروں میں جگہ جگہ نامنام :

ی مرتبہ منشیہ شہادت ملتی ہیں۔ مرزا اسدہللا خان کی اپنی مشہور کتاب "دشنبو" جس کو پہلی

الئق میں چھپی تھی اور چھپائی کا سارا خرچہ منشی ہر شیو نرائن آرام کے مطبع مفید خ

گوپال تفتہ ، منشی نبی بخش حقیر اور مرزا حاتم علی بیگ مہر کے ذمے تھا ایک خط میں

غالب تفتہ کو "دشنبو" کے شروع کی عبارت کے متعلق ہدایات دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

24

نرائن کو سجھا دنیا کہ منشی شیو "

زنہار ) سرورق "دشنبو" پر ( عرف

کا لکھنا نہ لکھیں۔ اجزائے خطابی

نامناسب بلکہ مفر ہے۔ مگر ہاں نام

لفظ بہادر کا اور بہادر کے بعد کے بعد

اسد ہللا خان غالب بہادرکے بعد لصتخ

تخلص اسد ہللا خان غآلب بہادر"۔

(۳۴)

نشی شیو نرائن کو ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔اسی طرح اپنے نام کے بارے میں م

"سنو میری جان ، نوابی کا مجھ کو

خطاب ہے نجم الدولہ اور اطراف و

اس سب مجھ اء جوانب کے امر

کونواب لکھتے ہیں بلکہ بعض انگریز

بھی ۔ چنانچہ صاحب بہادر نے جو ان

دنوں ایک روبکاری بھیجی ہےتو لفافہ

ہے۔ لیکن یاد خان لکھاپر نواب اسدہللا

کہ نواب کے لفظ کے ساتھ مرزا رہے

یا میر نہیں لکھتے۔ یہ خالف دستور

ہے یا نواب اسد خان لکھو یا مرزا اسدا

لکھو اور بہادر کا لفظ دونوں ہلل خان

(۳۵حال میں واجب اور الزم ہے")

ہوں مرزا اسدہللا خان کے اپنے خطوط سے ان کی تاریخ پیدائش ممکن واضح ہے کیونکہ ان

نے کئی خطوط میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ایک اور خط میں مرزا ہرگوپال تفتہ کو

لکھتے ہیں۔

25

"سنو صاحب لفظ مبارک م، ح، م ، د )

یعنی محمد( کے ہر حرف پر میری

جان نثار ہےمگر چونکہ یہاں سے

والیت تک حکام کے ہاں سے یہ لفظ

محمد اسدہللا خان نہیں لکھا جاتا میں

مرزا و بھی موقوف کردیا ہے رہا نے

تم کو اور موالنا و نواب اس میں سے

بھائی )منشی بنی بخش حقیر( کو

(۳۶اختیار ہے جو چا ہو لکھو۔" )

اسی طرح متعدد خطوط میں خود اپنے نام کے حوالے سے کئی بار ذکر کیا ہے اب اس کے

بعد عرف اور تخلص کا ذکر ہے۔

مرزا اسدہللا خان غالب نے عرف کا ذکر اپنے اردو دیوان کے دیباچہ کی نثر کے عرف:

و" چھپ رہی تھی تو منشی شیو نرائن نے مرزا اسدا ہلل میں "دستبآخر میں کیا ہے جس زمانے

خان غالب کو ایک خط ارسال کیا تھا جس کے لفافے پر مرزا نوشہ صاحب غآلب لکھا تھا۔

و " کے ابتداء پر بھی یہی عبارت درج نہ دستبخوف پیدا ہوا کہ کہیں "اسدا ہلل خان غالب کو

ہوجائے مرزا ہر گوپال تفتہ کو لکھتے ہیں۔

و نرائن کے مطبع ) منشی شی "صاحب

خط کے لفافے پر لکھا ہے۔ " مرزا

نوشہ صاحب غالب "ہلل پر غور کرو

کتنا بے جوڑ جملہ ہے ڈرتا ہوں۔

یں ۔ صفحہ اول کتاب پر بھی نہ لکھ د

کا دیوان یا اردو کا پنج آہنگ آیا فارسی

یا مہر نمروز چھاپے کی کوئی کتاب

اس شہر )آگرہ( میں نہیں پہنچی جو وہ

) منشی شیو نرائن( میرا نام دیکھ لیتے

26

تم نے بھی میرا نام انہیں نہ بتایا

عرف سے وجہ اس صرف اپنی نفرت

واویال کی نہیں ۔ بلکہ وجہ یہ ہے کہ

ام کو تو عرف معلوم ہے دہلی کے عو

لکتہ سے والیت تک یعنی وزرا کمگر

کے محکمہ اور ملکہ عالیہ کے

حضور میں کوئی اس ناالئق عرف کو

نہیں جانتا پس اگر صاحب مطبع نے

مرزا نوشہ لکھ دیا تو میں غارت

(۳۷ہوگیا، کھویا گیا")

غالب کو عرف پسند نہ مرزا اسد ہللا خان غالب کے اس خط سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ

تھا۔ ابتداء میں شاید عرف اس لئے اختیار کرلیا تھا کیونکہ اس زمانے میں عرف کا استعمال

کی وجہ یہ معلوم ہوتی کے "مرزا نوشہ" عرف اختیار کرنے عام دستور تھا اور مرزا غالب

ہے کہ ایک تو غالب کے والد مرزا عبدہللا بیگ کا عرف "مرزا دولھا" تھا لیکن جب جوانی

کا دور گزر گیا تو طبیعت میں سنجیدگی اور متانت پیدا ہوگئی تو عرف سے دل اچاٹ ہوگیا۔

ی بادشا سراج نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب دودمان تیمور یہ کہ آخرخطاب:

ء کو مال تھا۔ ۱۸۵۰جون ۴الدین بہادر شاہ مرحوم کی طرف سے

ث سے ہے پیشہ آبا سپہ گریسولیب

کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے

کہ مرزا غالب سپہ گری احتیار نہ کرسکے اور ان کی شہرت سپہ لیکن اتفاق کی بات یہ ہے

ی جو بنیادی حصوصیات ہوتی ہیں غالب گری نہیں بلکہ شاعری ہی بن گئی مگر سپہ گری ک

نے ہر موقع پر اس کا ذکر کیا ہے۔

مرزا اسدہللا کے والد مرزا عبدہللا بیگ خان عرف مرزا دولھا تھے اور مرزا غالب کے والد:

مرزا عبدہللا بیگ کا دوسرا بھائی نصرہللا بیگ تھے اپنے والد کی وفات کے بعد دونوں اپنے

27

دان کی شادی خواجہ غالم حسین خان کمی ں مصروف رہے۔ عبدہللا بیگآبائی پیشہ سپہ گری می

کی بیٹی سے ہوئی اور ان سے دو بیٹے پیدا ہوئے ان میں سے ایک کا نام مرزا اسدہللا غالب

بیگ تھا۔ جو کہ جوانی میں پاگل ہوگئے تھے۔اور اسی یوسف خان تھا اور دوسرے کا نام

ہوگیا۔ غالب ابھی بچہ تھا کہ ان کے والد عبدہللا بیگ کا زمانے میں ایام غدر میں ان کا انتقال

انتقال ہوگیا اور غالب کی پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا نصرہللا بیگ نے اٹھالی اور جلد

ہی ان کا بھی انتقال ہوا جس وقت غالب کے والد انتقال ہوا تھا اس وقت غالب کی عمر پانچ

اس وقت غالب کی عمر نو برس کے تھے۔ چچا کے برس تھا اور جب چچا کا انتقال ہوا تو

انتقال کے بعد مرزا غالب کی پرورش کی ذمہ داری ان کی ننھیال میں ہوئی اپنے والد کے

بارے میں منشی حبیب ہللا خان ذکا حیدر آبادی کو رقم طراز ہیں۔

ان لکھنؤ "باپ میرا عبدہللا بیگ خ

جاکر نواب آصف الدولہ کا نوکر

ز حیدر آباد جاکر نواب رہا۔بعد چند رو

نظام علی خان کا نوکر ہو سو سواروں

کی جمعیت سے مالزم تھا کئی برس

رہا ۔ وہ نوکری ایک خانہ جنگی ںوہا

کے بکھیڑے میں جاتی رہی۔ والد نے

گھبرا کر الور کا قصد کیا ۔ راؤ راجا

بختاور سنگھ کا نوکر ہوا وہاں کسی

(۳۸لڑائی میں مارا گیا" )

اندان کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ منشی ھبیب ہللا خان ذکا حیدر اپنے خمیں ایک اور خط

آبادی کو غالب لکھتے ہیں۔

" نصرہللا بیگ خان میرا حقیقی چچا

مرہٹوں کی طرف سے اکبر آباد کا

بیدار تھا۔ اس نے مجھے وص

ء میں جرنیل لیک کا عمل ۱۸۰۶پاال۔

28

ہوا ۔ صبیداری کمشنری ہوگئ اور

یک انگریز مقرر صاحب کمشنر ا

نے ہوامیرے چچا کو جرنیل لیک

ر سو سواروں کی بھرتی کا حکم دیا چا

سوار کا برگیڈیر مقرر ہوا۔ ایک ہزار

روپیہ ذات کا اور الکھ ڈیڑھ الکھ

روپیہ سال کی جاگیر حیات عالوہ

زبانی کے تھی۔ کہ بہ مرگ ناگاہ

مرگیا۔ رسالہ بر طرف ہوگیا۔ ملک کے

ئ وہ اب تک پاتا عوض نقدی مقرر ہوگ

(۳۹ہوں"۔)

چودھری عبد الغفور خان سرور مارہروی لکھتے ہیں۔

" میں پانچ برس کا تھا کہ باپ مرا ، نو

براس کا تھا کہ چچا مرا، اس کی

جاگیر کے عوض میرے اورمیرے شر

حقیقی واسطے شامل جاگیر نواب ءکا

مرحوم دس ہزار ان احمد بخش خ

ل مقررہوئے انہوں نے نہ روپے سا

دیئے مگر تین ہزار روپے سال"۔

(۴۰)

ندگی کا زمانہ رنگینیوں اور ویسے تو مرزا اسدہللا خان غالب کی بچپن یعنی ابتدائی ز

وں میں گزرا اور اس کے حوالے سے غالب نےط کئی جگہوں پر خود لکھا ہے کہ"میں سرمبت

لہو لعب اور آگے بڑھ کر فسق و فجور عیش و عشرت میں مہنمک ہوگیا" یہ کوئی نئی بات

29

نہیں تھی کیونکہ اس زمانے میں اس قسم کے صورت حال کا پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں

ی یتیمی کا بھی اثر شامل ہے۔دہللا خان غالب کستھی۔ مرزا

تھے تو تخلص اسد کئے شروع سدہللا خان نے اردو میں شعر کہنےابتداء میں مرزا اتخلص:

رکھا تھا۔ لیکن جب فارسی زبان میں شعر کہنے شروع کئے تو تخلص غالب اختیار کیا۔اور

میں غالب ع اس کے ساتھ جب غالب کو کسی مقط بعد میں اردو میں بھی غالب تخلص رہا۔لیکن

تخلص النے میں تکلف ہوتا تھا تو بال تکلف اسد ہی رکھ لیتے تھے۔اسی لیے پچیس برس کی

عمر کے بعد مرزا غالب نے جو اردو میں جو غزلیں کہیں ان میں سے دس بارہ میں تخلص

اسد ہے لیکن بعض اوقات تخلص کی جگہ مرزا نے پورا نام بھی استعمال کیا ہے۔

غالب ابیک ترکوں کا مشہور خاندان لب نے جس خاندان میں آنکھ کھولی مرزا غانسب نامہ:

مرزا غالب کے خاندان کا پہال فرد ان کے دا دا محمد شاہ بادشاہ کے زمانے مین ہندوستان تھا۔

ن کی عمارت کا کا ہاں اور ا آئے اور انہوں نے سب سے پہلے الہور میں نواب معین الملک

لفقار الدولہ اکے داد الہور سے کراچی منتقل ہوگئے اور وہاں ذوتخت الٹ گیا تو مرزا غالب

مرزا نجف کے ہاں میں انہیں ایک اچھی مالزمت مل گئی ۔ اور پھاسو کا پرگنہ بطور جاگیر

کے عطا ہوا ۔ غالب کے دادا نے اس دہلی میں رہائش احتیا کرلی۔اور وہاں پر مرزا غالب کے

ا ہوئے مرزا اسدہللا خان غالب منشی حبیب ہللا ذکا آبادی کو والد عبدہللا بیگ خان دہلی میں پید

لکھتے ہیں۔

"میں قوم کا ترک سلجوفی ہوں۔ دادا

نر سے شاہ عالم کے وقت ہمیرا ماور ال

ضغیف میں ہندوستان میں آیا سلطنت

ہو گئی تھی ۔ صرف پچاس گھوڑے

اور نقارہ و نشان سے شاہ عالم کا

ذات نوکر ہوا ایک پرگنہ سیر حاصل

میں ہ کی تنخواہ اور رسالے کی تنخوا

پایا ۔ بعد انتقال اس کے جو الملوک

30

کا ہنگامہ گرم تھا وہ عالقہ نہ طوائف

(۴۱رہا۔" )

کے عالوہ فارسی کے کئی خططوط میں اپنے خاندان کا ذکر کیا ہے غالب ط اردو خطوغالب

کچھ لوگوں م نہ ہوسکاہےکے دادا کے بارے میں یعنی اس کے نام اور انتقال کے بارے معلو

کہ ان کا نام کیا تھا اور نہ ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ ان کا انتقال کب ہوا ۔ اس کے کا خیال ہے

لی لکھتے ہیں۔ کہ غالب کے دادا کی زبان ترکی تھی اور ان ن خابارے میں موالنا الطاف حسی

ں سے ایک مرزا کے کئی بیٹے تھے لیکن ان میں سے صرف دو کے نام معلوم ہیں ان می

عبدہللا بیگ خان جو مرزا غالب کے والد ہیں اور دوسرے مرزا نصرہللا بیگ خان ہیں۔مرزا

ی صحیح ہے یا غلطکہ ان کےدادا شاہ عالم بادشاہ زمانے میں ہندوستان کے غالب کا یہ دعو

ہ سے شروع ہوتا ہے اور ی ۱۵۷۹آئے اگر دیکھا جائے تو شاہ عالم کی بادشاہی کا زمانہ

الملک جن کے پاس مرزا غالب کے داد الہور میں آئے تھے اور مالزم ہوئے نواب معین

شاہ محمد میں وفات پاگئے تھے اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ غالب کے دادا ۱۷۵۱تھے۔اور

تخت نشینی کے سنین معلوم نہ کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے تا ہم ان بادشاہوں کے

ہ ہوسکی۔ اس کے ساتھ ساتھ مرزا غالب اپنے ان کی تصدیق نہونے کی وجہ سے اس بی

اندان پر جا بجا فخر کرتے ہیں کبھی اپنے اپ کو سلجوقی کہتے ہیں اور کبھی اپنے آپ کو خ

توراتی بتاتے ہیں اور کبھی اپنے آپ کو ایبک ہونے پر فخر کرتے ہیں کرتے ہیں۔ غالبنے

ندان کا پیشہ سپہ ا مشہور خاندان تھا۔ اس خاترکول کجس خاندان میں آنکھ کھولی وہ ایبک

الب نے ایک جگہ کام کرتے آئے تھے اس کے لیے خود غگری تھا اور وہ ہمیشہ سے یہی

اس کا اظہار کیاہے۔کیونکہ اس زمانے کے نقوش غالب کی شخصیت پر بڑے گہرے ہیں۔

ستی اور یار باشی رشراب نوشی، بے فکری، خود پ کیونکہ زندگی بھر ان کا اثر باقی رہا ہے۔

کی خصوصیات ان کی شخصیت میں اسی ماحول نے پیدا کی ہیں ۔غالب کے بچپن کے حاالت

معلوم نہیں بہر حال پھر بھی ان کی شباب اگر چہ لہو و لعب اور کے بارے میں تفصیال

عیش و عشرت میں گزرا دوسرے بچوں کی طرح انہوں نے شطرنج اور چو سر کھلے،

، یاروں اور دوستوں کی محفل میں بھی بے فکری کی زندگی بسر کی اس پتنگ بھی اڑائے

حوالے سے خواجہ الطاف حسین حالی لکھتے ہیں۔

31

"شیخ معظم جو اس زمانے میں آگرے

کے نامی معلوں میں سے تھے۔ان سے

تعلیم

پاتے رہے۔ اس کے بعد ایک شخص

پارسی نزاد جس کا نام آتش پرستی

د تھااور بعد مسلمان مزکے زمانے ہر

ہونے کے عبدالصمد رکھا گیا غالبا

آگرے میں سیاحانہ وارد ہوا،جو کہ دو

برس تک مرزاکے پاس اول آگرے

میں اور پھر دلی میں مقیم رہا۔ مرزا

نے اس سے فارسی زبان میں کسی

قدر بصیرت پیدا کی اگر چہ کبھی

کبھی مرزا کی زبان سےیہ بھی سنا

دا فیاض کے سوا کو مبگیا کہ "مجھ

ند نہیں ہے۔ اور کسی سے قلم

نام ہے۔ یعبدالصمدمحض ایک فرض

کہتے ہ مجھ کو لوگ بے استادچونک

تھے ان کا منہ بند کرنےکو میں نے

(۴۲استاد گھٹر لیا ہے" ) یایک فرض

اس میں شک نہیں کہ عبد الصمد نام ایک فارسی زبان کے شاعر تھے اور مرزا غالب نے اس

سے فارسی زبان سیکھی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ کئی مواقوں پر مرزا غالب نے خود اس

بات کی تصدیق کی ہے اور ان پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن کچھ لکھنے والے اس بات کو

عبدالصمدجو نو مسلم ایرانی شاعر تھے ہندوستان میں سیاحت کے ماننے کےلیے تیار نہینمال

عرض سے آئے تھے اور دو برس تک مرزا غالب کے یہاں آگرہ اور دہلی میں مقیم رہے ان

سے مرزا غالب نے بہت فائدہ اٹھایا۔ لیکن تعجب اس بات کی ہے۔ کہ اس استاد کا وجود بھی

32

بحث بنا ہوا ہے اور اس بارے میں شک و شبہ ابد تک بعض ارباب علم و فضل میں موضوع

حالی مرحوم کے اس بیان سے ہوئی۔ خواجہ الطاف حسین الطاف حسین کی ابتداء غالبا خواجہ

حالی لکھتے ہیں۔

"کبھی کبھی مرزا کی زبان سے یہ

گیا ہے کہ مجھ کو مبد فیاض سنابھی

لمند نہیں ہے اور کسی سے قکے سوا

م عبد الصمد محض ایک فرضی نا

مجھ کو بے ہے۔چونکہ لوگ

کہتے تھے ان کا منہ بند کرنے استاد

کو میں نے ایک فرضی استاد گھڑ لیا

(۴۳ہے" )

اس میں شک نہیں کہ عبد الصمد نام ایک فارسی زبان کے شاعر تھے اور مرزا غالب نے اس

وں پر مرزا غالب نے خود اسعقتھی اور اس کے ساتھ ساتھ کئی مو سے فارسی زبان سیکھی

بات کی تصدیق کی ہے اور ان پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن کچھ لکھنے والے اس بات کو

ی شاعر تھے ہندوستان میں سیاحت مال عبدالصمدجو نو مسلم ایران ماننے کےلیے تیار نہیں

عرض سے آئے تھے اور دو برس تک مرزا غالب کے یہاں آگرہ اور دہلی میں مقیم رہے کی

ہے۔ کہ اس استاد کا وجود ت فائدہ اٹھایا۔ لیکن تعجب اس بات کیان سے مرزا غالب نے بہ

تک بعض ارباب علم و فضل میں موضوع بحث بنا ہوا ہے اور اس بارے میں شک و بھی اب

حالی مرحوم کے اس بیان سے ہوئی۔الطاف حسین خواجہ شبہ کی ابتداء غالبا

"کبھی کبھی مرزا کی زبان سے یہ

کو مبد فیاض گیا ہے کہ مجھ سنابھی

لمند نہیں ہے اور کسی سے قکے سوا

عبد الصمد محض ایک

33

مجھ کو فرضی نام ہے۔چونکہ لوگ

کہتے تھے ان کا منہ بند بے استاد

کرنے کو میں نے ایک فرضی استاد

(۴۴گھڑ لیا ہے" )

وہی لکھا جو کچھ سنا ، ممکن ہے مرزا غالب نے جوانی نا خواجہ الطاف حسین حالی نے یقی

کی نفی کی گئی ہے اس سے بات کی ہو لیکن اس میں جس استاد ی مرتبہ اس قسم کیمیں کئ

صاف ظاہر ہے کہ اس کا تعلق علم و تعلیم سے نہیں بلکہ صرف شاعری سے ہے نثر سے

اس کا کوئی تعلق نہیں۔

مرزا غالب کا بچپن اور غفوان شاب کا زمانہ عیش و آرام کا زمانہ شادی، خانگی زندگی:

تھا اور یہ زمانہ انہوں نے سیر و تفریح ، لہو و لعب اور شطرنج بازی میں گزارا ، ان کی

یتیمی بھی نواب زادوں کی یتیمی تھی ۔ آگرہ میں میں وہ بنارس کے راجہ چپت سنگھ کے

لڑایا کرتے تھے۔ نوجوانی ہی میں وہ آگرہ چھوڑ کر صاحبزادے راجہ بلوان سنگھ سے پتنگ

دہلی چلے گئے اور وہیں کے ہو رہے۔ ان کی شادی مرزا الہی بخش معروف کی صاحبزادی

کے ساتھ رہیں اور مرزا کی وفات کے ٹھیک تھی۔ جو زندگی بھر مرزامراؤ بیگم سے ہوئی

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک ساتھ بعد فوت ہوئیں کچھ لوگ کہتے ہیں چھ ماہ بعد اور

ء کو ٹھیک تیرہ ۱۲۲۵رجب ۷پانچ سال بعد وفات پائی۔مرزا اسدہللا خان غالب کی شادی

ی بخش خان معروف کی چھوٹی صاحب زادی امراؤ بیگم سے ہوئی۔ برس کی عمر میں نواب الہ

واح کی گناہ ر کو عالم ارے جس مکتوب میں وہ اپنی حیات مستعاء الدین احمد خان کالنواب ع

گاری کی سزا قرار دیتے ہیں اس کے بارے میں غالب خود لکھتے ہیں۔

ء کو روبکاری کے ۱۲۱۲رجب ۸"

واسطے یہاں بھیجا گیا۔ تیرا برس

ء کو ۱۲۲۵رجب ۷ حواالت میں رہا۔

واسطے حکم دوام حبس صادر میر ے

میں ڈال ہوا۔ ایک بٹیری میرے پاؤں

کیا دی اور دہلی شہر کو زندان مقرر

34

اور مجھے اس زنداں میں ڈال دیا۔

فکر نظم و نثرکو مشقت ٹھہرایا۔"

(۴۵)

کے انتقال ک دوست امراؤ سنگھ کی دوسری بیوی ہرگوپال تفتہ نے اپنے اور غالب کے مشتر

ء کے ایک ۱۸۵۸دسمبر ۱۹کی اطالع دی تھی اس کے جواب میں مرزا اسدہللا خان غالب

خط میں لکھتے ہیں۔

ھ کے حال پر اس کے "امراؤ سنگ

واسطے مجھ کو رحم اور اپنے

واسطے رشک آیا ۔ ہللا ہللا ایک وہ ہیں

کہ دو بار ان کی بٹیریاں کٹ چکی ہیں

ہم ہیں کہ ایک اوپر پچاس اور ایک

میں کاپھندا گلے برس سے جو پھانسی

ہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی پڑا ہے نہ پھندا

(۴۶نکلتا ہے ۔ ")

ھی کہا ہے یعنی زندان سے تشبیہ دی ہے بکو زندان نے اپنے بیوی مرزا اسدہللا خان غالب

لیکن اس کے عالوہ کئی ایک خطوط میں محبت کا اظہار بھی کیا ہے۔ یعنی غالب کو اپنی

بیوی سے بڑی محبت تھی اس کے ساتھ ساتھ بیگم صاحبہ بھی اپنے شوہر کی راحت و آسائش

ے لخاظ سے دونوں میں نمایاں فرق تھا۔ کیونکہپر اپنی جان قربان کرتی تھیں۔لیکن اعمال ک

فطرتا رند تھے ۔لیکن ان کی بیگم صاحبہ بے حد پرہیز گار اور عبادت گزار خاتون تھیں غالب

یادگار غالب میں خواجہ الطاف حسین حالی نے لکھا ہے کہ مرزا غالب کی بیوی نے چونکہ

رتن الگ کرلئے تھے۔ اس لیے کہ پرہیز گار تھی اس لیے انہوں نے اپنے کھانے پینے کی ب

غالب کم از کم شرب نوشی کے بارے میں پرہیز گار نہ تھے۔ اس کے باوجود دونوں میں

قائم رہی۔تک گہری محبت آخری دم

35

ن غالب کے سات بچے ی بچہ نہ تھا ۔ مرزا اسدا ہلل خاپنا کوئاخان غالب کا مرزا اسدہللااوالد:

داد میاں پندرہ مہینے سے زیادہ زندہ نہ رہا۔ سیف الحق منشیپیدا ہوئے لیکن کوئی بچہ بھی

خان سیاح کو لکھتے ہیں۔

کا پیدا ہونا اور اس کا "تمہارے ہاں لڑ

مرجانا معلوم ہو کہ مجھ کو بڑا غم ہوا۔

بھائی اس داغ کی حقیقت مجھ سے

پوچھوکہ اکتر برس کی عمر میں سات

بچے پیدا ہوئے لڑکے بھی اور لڑکیاں

ور کسی کی عمر پندرا مہینے بھی ا

(۴۷سے زیادہ نہ ہوئی۔" )

مرزا سدا ہللا خان غالب کے ہاں جب اوالد کی طرف سے مایوسی ہوگئی تو اسی دوران غالب

بنا لیا۔ دین خان جو عارف تخلص تھا کو بیٹانے اپنی بیگم صاحبہ کے بھانجے مرزا زین العاب

ہ عارف رشتے میں بہت قریبی تھے اور مرزا غالب ان سے بے حد محبت کرتے تھے کیونک

اس کے ساتھ ساتھ بڑے خوش فکر شاعر بھی تھے لیکن عارف بھی جوانی کے عالم میں

دہللا خان غالب ان کی وفات پر حد درجہ غمگین ہوا سدائمی مفارقت کا داغ دے گئے۔ مرزا ا

۔ردو کی بہترین نظموں میں سے ہےا ایک نوحہ لکھا جو اور ان کی وفات پر

آخری ایام میں غالب نے اپنے خطوط میں اپنے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ غالب کی

زبانی سنئے قاضی عبدالجمیل جنون کے نام خط میں یوں لکھتے ہیں۔

"میں زندہ ہوں لیکن نیم مردہ۔ آٹھ پہر

پڑا رہتا ہوں۔ اصل میں صاحب فراش

ہوں۔ بیس دن سے پانو پر ورم ہوگیا

سے نوبت گزر کر ہے۔ کف پاوپشت پا

پنڈلی تک آماس ہے، جوتے میں پاؤں

سماتا نہیں۔بول و براز کے واسطے

36

اٹھنا دشوار۔ یہ سب باتیں ایک طرف،

ء میں ۱۲۷۷درد مخلل روح ہے۔

میرا نہ مرنا، صرف میری تکذیب کے

واسطے تھا، مگر اس تین برس میں ہر

روز مرگ نو کا مزا چکھتا رہا ہوں۔

صورت زیست حیران ہوں کہ کوئی

کی نہیں، پھر میں کیوں جیتا ہوں؟

روح میری اب جسم میں اس طرح

گھبراتی ہے، جس طرح طائر قفس

میں۔ کوئی شغل، کوئی اختالط، کوئی

جلسہ، کوئی مجمع پسند نہیں۔ کتاب

سے نفرت، شعر سے نفرت، جسم سے

( ۴۸نفرت، روح سے نفرت۔ )

کانوں کی کمزوری، نظر کی کمزوری، دل و اسی طرح ایک اور خط میں اپنے اپاہچ پاؤں،

دماغ کی کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے نواب میر غالم بابا خان کے نام ایک خط میں لکھتے

ہیں۔

"پاؤں سے اپاہچ کانوں سے بہرہ،

ضعف بصارت، ضعف دماغ، ضعف

دل، ضعف معدہ، ان سب ضعفوں پر

(۴۹ضعف طالع۔)

لکھتے ہیں۔ چوہدری عبدالغفور سرور کے نام ایک خط

"میں اموات میں ہوں، مردہ شعر کیا

کہے گا؟ غزل کا ڈھنگ بھول گیا،

معشوق کس کو قرار دوں، جو غزل

37

کی روش ضمیر میں آوے؟ رہا قصیدہ،

کون ہے؟ انوری میری زبان سے کہتا

ہے۔

اے دریغا نیست ممدوحے سزاوار مدیح

اے دریغانیست معشوقے سزاوار غزل

(۵۰)

حسین مودودی کو لکھتے ہیں۔حکیم سید احمد

"بہتر برس کا آدمی، پھر رنجور

دائمی، غذا ایک قلم مفقود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ

روٹی، نہ بوٹی، نہ پالؤ، نہ خشکا، نہ

آنکھ کی بینائی میں فرق، ہاتھ کی

گیرائی میں فرق، رعشہ متولی، حافظہ

(۵۱معدوم۔ )

عالؤ الدین عالئی کے نام لکھتے ہیں۔

ر، خلق کا مردود، بوڑھا، "خدا کا مقہو

ناتواں، بیمار، فقیر، نکبت میں گرفتار۔

(۵۲)

میر حبیب ہللا ذکاء کے نام تحریر کرتے ہیں۔

"قریب مرگ ہوں، غذا بالکل مفقود اور

امراض متولی، بہتر برس کی عمر، انا

الیہ راجعون ) (۵۳ہلل وانا

ا ہوتے ہیں۔مرزاں قربان علی خاں بیگ سالک کے نام خامہ فرس

38

"سچ تو یہ ہے کہ غالب کیا مرا، بڑا

کافر مرا۔ ہم نے از راہ تعظیم، جیسا

بادشاہوں کو مرنے کے بعد جنت آرام

گاہ، عرش نشیمن خطاب دیتے ہیں،

چونکہ یہ اپنے آپ کو شہنشاہ قلمرو

سخن جانتا تھا"سقر مقر" اور "زاویہ

ہاویہ" خطاب تجویز کر کرکھا

الدولہ بہادر" ایک ہے۔"آیئے نجم

قرض دار کا گریبان میں ہاتھ، ایک

قرض دار بھوک سنا رہا ہے۔ میں ان

سے پوچھ رہا ہوں۔

!جی حضرت نواب صاحب"

!نواب صاحب کیسے اوغالن صاحب

آپ سلجوقی وافراسیابی ہیں، یہ کیا بے

حرمتی ہورہی ہے؟ کچھ تو بولو، کچھ

تو اسکو۔

ی بولے کیا؟ بے حیا، بے غیرت، کوٹھ

سے شراب، گندھی سے گالب، بزاز

سے کپڑا، میوا فروش سے آم، صراف

سے دام قرض لیا جاتا تھا۔ یہ بھی تو

(۵۴سوچا ہوتا کہ کہاں سے دو گا؟" )

عبدالرزاق شاکر کے نام لکھتے ہیں۔

39

"درویش دل ریش و فروماندہ کشاکش

معاصی کے خاتمہ بخیر ہونے کی دعا

ی ہوس۔ (۵۵)مانگیں، ہللا بس ماسو

خواجہ الطاف حسین خالی فرماتے ہیں کہ مرنے سے چند روز پہلے یہ کیفیت طاری وفات:

ہوتا ہوگئی تھی کہ کبھی ہوش میں اور کبھی بے ہوش ہوجاتے کچھ وقت کے لیے افاقہ بھی

جاتے وفات سے ایک روز پہلے الطاف حسین حالی عیادت کو گئے تو ہو لیکن پھر بے ہوش

قہ ہوا تھا اور نواب عالءالدین احمد خان کو خط لکھو رہے تھے کیونکہ کئی دنوں کے بعد افا

۔نواب عالء الدین غالب نے لکھ دیا نواب صاحب نے حالت پوچھی تھی تو اس کے جواب میں

احمد خان کو

"میرا حال مجھ سے کیا پوچھتے ہو

وں سے سایایک آدھ روز میں ہم

(۵۷)پوچھنا۔"

۱۲۷۵ء ) بمطابق آخری ذی قعدہ ۱۸۶۹فروری ۱۵رہ ستاکا یہ درخشاں الغرض ادب و شعر

۔ء کو ہمیشہ کو خاموش ہوگئے

یاد رہے کہ مرزا غالب کے جنازے میں تمام اکابر اسالمیہ شریک ہوئے لیکن جنازے کے

تمام مراسم طریق اہل سنت کے مطابق ادا کئے گئے ، دہلی دروازہ کے باہر نماز جنازہ ادا کی

ی بخش خان گئی اور حضرت شیخ ن ظام الدین رحمۃ ہللا علیہ کی درگاہ کے قریب نواب الہ

معروف کے مزار کے قریب دفن کئے گئے۔

40

"غالب کی مکتوب نگاری کی جدت و ندرت"

اردو نثر نے مرزا غالب کے زمانے تک تین بڑی بڑی انگڑائیاں لی تھیں۔ جس میں پہلی

نثر عطاء حسین تحسین کی )باغ و بہار( انگڑائی مال وجہی )سب رس( کی نثر ، دوسری بڑی

" اور تیسری بڑی انگڑائی فورٹ ولیم کالج کی سادہ و سلیں میرا من کے ) ۱۷۷۵کا ترجمہ "

باغ و بہار ( والی نثر، مرز غالب کےط خطوط اردو نثر کی ترقی کی چوتھی منزل پر ہیں

اہوا انہی اہم منازل کے اور اسی منزل سے اردو میں سنجیدا اور رواں نثر کا باقاعدہ آغاز

دوران سودا کے نثر اور انشاء کی داستان سرائی کے چھوٹے چھوٹے ارتقائی مندرجات بھی

کو صرف ہیں۔ لیکن جو طرز مرزا غالب نے اپنایا وہ آج تک غالب رہا اور صرف خود ہی

دوسروں کو مشورہ بھی دیا۔ بلکہ نہیں اپنایا غالب نے

یروی کریںالزم نہیں کہ حضر کی ہم پ

(۵۸مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے۔ )

ے للکارا اور اپنے ہم عصروں پر یوں ز کا طرز جدید اختیار کرنے کے لیطرکا بلکہ ان

پھبتی کسی۔

ہیں اہل خرف کس روش خاص پہ نازاں

(۵۹پا بستگی رسم ورہ عام بہت ہے۔ )

ندرت مرزا غالب کے ہیں جدت و اردو نثر میں بھی مرزا غالب ایک انفرادی مقام رکھتے

ادبی مزاج و مذ ان کے خطوط نے اپنی جدت پسندی کی وجہ سے اق کی جان ہے حصوصا

اردو خطوط نگاری کو ایک نیا انداز دیا وہ بنے بنائے راستوں پر چلنے کے بجائے خود اپنا

خطوط بے تکلف راستہ بناتے ہیں۔عام اور فرسودہ انداز میں بات کہنا ان کا طریقہ نہیں یہ

طرز بیان اور بے ساختہ اظہار کا نادر نمونہ ہیں یہ غالب کی قدرت زبان کا اعجاز تھا۔ انتہا

تو یہ ہے کہ مرزا غالب تقریبا ہر خط میں مکتوب الیہ کو نئے انداز پر خطاب کرتے ہیں۔ مثال

۔میر مہدی مجروح کے نام کے بعض خطوں کی ابتدائی عبارتیں کچھ اس طرح سے ہیں

(۶۰بر سر فرزند آدم ہر چہ آید بگز رد" ) "بھائی تم سچ کہتے ہو:

41

غالب کے خطوط میں ایسی بے ساختگی روانی اور سالست ہے۔ جو ان سے قبل اردو فارسی

ان کی باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔ ایک مکتوبات میں ہمیں نظر نہیں آتی۔ غالب کے خطوط بالکل

کرتے ہیں۔نداز میں مخاطب مہدی مجروح کو اس ااور خط میں میر

مہدی " برخوردار کا مگار، میر

مجروح، اردو بازار کے مولوی

پر علم ب لو اے والے مرتفویصاح

عباس رضی ہللا عنہ ابن علی رضی

(۶۱ہللا عنہ کا سایہ")

ایک اور جگہ پر مرزا غالب خط کی ابتداء کچھ اس انداز میں کرتے ہیں۔

کے بعد دعا" نور چشم میر مہدی کو

یات فارسی" کا پنچا معلوم ہو کہ "کل

(۶۲مجھے معلوم ہوا" )

غالب کبھی کبھی جب سادہ بیان چھوڑ کر مکالمہ نگاری پر آجاتے ہیں۔ تو ناول یا ڈرامے کا

لطف آنے لگتا چند ہی فقروں سے وہ ایک ایسی جیتی جاگتی تصویر سامنے ال کھڑی کرتے

ے ہیں ۔ غالب ایک مکمل آرٹسٹ ہیں اور ان کے ہیں جس میں جملہ آثار حیات نظر آتے لگت

آرٹ کے مظاہر ان کے مکتوبات میں بھی موجود ہیں ان کے خطوط کی زبان میں اصل روز

مرہ کا لطف موجود ہے۔ مگر ان کی خوبی یہ ہے کہ کہیں پر بھی ابتذال کا شائبہ نہیں ہوتا

اں سادگی اور اس کے پہلو نمای ایک ادبی شان پائی جاتی ہیں ۔ ان لطائف کے ساتھ ایک بلکہ

شوخی و ظرافت ایسے محاسن ہیں جو ان خطوط کو خد درجہ ممتاز کر دیتے ہیں ۔ بہ پہلو

مرزا اسدہللا خان غالب میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں۔

'صاحب'

سبیل ڈاک آئے کل "دو خط تمھارے بہ

اجنبی دو پہر ڈھلے ایک صاحب

ی منڈے بڑی ھسانوے سلونے، ڈاڑ

42

والے تشریف الئے ۔ تھارا خط کھوں آن

(۶۳)دیا"

یا رس گھول دیتی ہے عام اور راع و ایجاد کا نت طرازی مرزا غالب کے خطوط میں اختجد

ہ انداز میں بات کہنا ان کا طریقہ نہیں انہوں نے خطوط نویسی کو ایچ اور ایجاد کا فرسود

نام ایک خط کی ابتداءکچھ یوں مہدی کےم نہیں ۔ میر طریقہ نو بخشا، جو ادبی اجتہاد سے ک

کرتے ہیں۔

"!ہاہاہا! میرا پیارا میر مہدی آیا"

آؤ بھائی مزاج تو اچھا ہے؟ بیٹھو،

(۶۴رور ہے۔ " )یہ رام پور ہے۔ دالنہ

جدید دور میں افسانوی ادب کے محقیقین اگر بہ نظر غائر ان کے خطوط کا مطالعہ کریں۔ تو

مکالمہ نگاری جو جدید افسانے کی جان اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ جو بڑی آسانی سے

اور ڈرامے کی ریڑھ کی ہڈی ہے اس اولین جراثیم غالب کے خطوط میں واضح اور وافر

مقدار میں ملتے ہیں۔ بد قسمتی سے ان کی توجہ ڈرامہ نگاری کی طرف نہیں گئی ورنہ آج

ہوتا۔اردو ڈراما ارتقاء کے اوج ثریا پر

ان کا قلم ہر ہر فقرے جدت و ندرت

ے گل زاد کہالتا ہے اور ان کے نئے نئ

وں میں طرز تحریر، گل زاد

ع مکالمات اور سب انشاءضائع بدائ

کے پھولوں میں ت مسے بڑھ کر مفاہ

ایک ماہر گلدستہ ساز کے بنائے ہوئے

گل دستےکی مانند سارے پھول ایک

خاص ترتیب سے رکھے ہوتے ہیں۔ ان

و مقبول ترین طریقہ وہی ایجاد ن کی

کا وہی انداز نو حسن تحریر اور ان

43

انتخاب ٹھہرا۔جو لطف یہاں ہے، وہ

اور کہاں ہے؟ پانی سبحان ہللا! شہر

دریا ہےاور سے تین سو قدمپر ایک

شبہ چشمہ آب بےسی اس کا نام ہے۔ وک

حیات کی کوئی سوت اس میں ملی ہے۔

ب خیر ، اگر یوں بھی ہےتو بھائی آ

حیات عمر بڑھاتا ہے، لیکن اتنا شیریں

(۶۵کہاں ہوگا ؟ ")

ایک اور جگہ مرزا غالب میر مہدی کو لکھتے ہیں۔

'لو صاحب:

"یہ تماشہ دیکھو میں تو تم سے پوچھتا

ہوں کی میر سرفراز حسین اور نصیر

نکہ میر نصیر ہیں۔ حاال الدین کہاں

الدین شہر میں ہیں اور مجھ سے نہیں

آئے ہیں اور سرفراز حسین ملتے۔ میر

میرے ہاں نہیں اترے۔ ال حول وال قوۃ"

(۶۶)

مرزا اسدا ہلل خان غالب کے خطوط نے اپنی جدت پسندی کی وجہ سے اردو خطوط نگاری کو

ایک نیا اندازدیا غالب ایک خط میں نواب عالؤ الدین خان عالئی کو کچھ یوں رقم طراز ہیں۔

"میر جان عالئی ہمہ دان!

ل مقدر کا کیا کہنا ہے دفعہ دخاس

اتیر" تمھارے پاس س"فرہنگ لفات د

ل تم اس کی نقہے۔ میں چاہتا تھا کہ

44

سے منگاؤں تم نے "دساتیر" مجھ سے

(۶۷مانگی" )

غالب کے خطوط میں بے پناہ خلوص نظر آتا ہے۔ یہ خطوط بے تکلف طرز بیان اور بے

ت زبان کا اعجاز تھا ان کے خطوط کی زبان ساختہ اظہار کا نادر نمونہ ہیں یہ غالب کی قدر

جگہ جگہ عبارت آرائی کے باوجود سادہ سہل اور رواں ہے۔ نواب عالؤ الدین خان کو مرزا

غآلب ان الفاظ سے یاد کراتے ہیں۔

"عالئی موالئی!

"اس وقت تمھارا خط پہنچا۔ ادھر پڑھا

ادھر جواب لکھا ۔ واہ کیا کہنا ہے۔"

(۶۸)

ر موجزن رہتی ہے اس پر آختاکے بجائے آمد کی نمایاں کیفیت اول آورد خطوط میں ان کے

کہ ان کی سادگی و پرکاری معمولی سے معمولی مطالب میں وہ ادبیت اور ترفع پیدا طرہ یہ

کردیتی ہے۔ جو قاری کو پہلی تاثر میں ڈبولیتی ہے لیکن سادگی اور شگفتگی کے بین بین

سے تھامے رکھتے ہیں ان کی تحریروں میں یضبوطلکھتے ہوئے وہ شگفتگی کا دامن م

تاثیر کی سب سے بڑی وجہ ان کی خلوص اور صداقت ہے جس سے اس کے دل کی آواز

جب بھی لکھتے ہیں تو بالکل جیسے ایک سماعتوں میں رس گھلتی نظر آتی ہے وہ

جاری رہا ہو لیکن اس کے اندر بال کا شور ولولہ اور جوش گہرےسمندر خاموش شانت بہہ

ہو۔ اس لیے بعض مقامات پر ان کی تاب گویائی لب تصویر کی جبش کی عین سبب بن جاتی

ہے۔

45

حوالہ جات

نیشنل بک ٹر سٹ انڈیا )نئی دہلی( –خط کی کہانی -خط کی کہانی -غالم حیدر (1

۱۸ص ۱۹۷۶

نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا )نئی دہلی (–خط کی کہانی - غالم حیدر (2

۲۰ص ۱۹۷۴

نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا )نئی دہلی ( –خط کی کہانی - غالم حیدر (3

۲۲ص ۱۹۷۴

۔ (4 ۱۹۷۴ // ایضا

۲۲ص

5) ۱۹۷۴ // ایضا

۲۷ص

6) ۱۹۷۴ // ایضا

۶۱ص

7) ۱۹۷۴ // ایضا

۶۹ص

8) ۱۹۷۴ // ایضا

۷۹ص

سنگ میل پبلی کیشنز الہوراصناف ادب –رفیع الدین ہاشمی (9

۱۷۴ص ۲۰۰۸

یف نثر الہور اکیڈمی الہورممتاز منگلور می ایم اے ط (10

۸۱، ۸۲ص ۱۹۶۷

اء اردو اکیڈمی سندھ کراچی فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اردو نثر کا فنی ارتق (11

۲۴۵ص ۱۹۷۹

12) ۲۴۶ص // ایضا

13) ۲۴۷ص // ایضا

14) ۲۴۸ص // ایضا

46

15) ۲۴۹ص // ایضا

ی کیشنز الہور رفیع الدین ہاشمی اضاف ادب سنگ میل پبل (16

۲۲۹ص ۲۰۰۸

مد دہلوی نیشل اکادمی دہلی ہنگ آصیفہ )جلد دوم( مرتبہ مولوی سید احرف (17

۱۱۹ص ۱۹۷۴

ہذب لکھنوی، نامی پریس لکھنو)الف( مہذب اللغات )جلد دوم( مرتبہ م (18

۹۱۷ء ص ۱۹۷۸

ھنوسن نیر، نیشنل پریس لکلغات )جلد دوم( مرتبہ مولوی نورالحارنو )ب(

۶۳۹ص ۱۹۵۹

)ج( القاموس الجدید ) اردو عربی ڈکشنری تالیف وحید الزمان کیرانوی طبع دوم اشاعت

۱۹۶۷ القرآن دہلی،

یف اور اردو مکتوب نگاری کی تاز بصیر ڈاکٹر "خط کا مفہوم ، تعرنسرین مم (19

وء ( شعبئہ اردو سندھ یونیورسٹی جام شور۱نمبر ) ات'تحقیق، مکتوب روایت" مثمولہ

۷ص۲۰۱۲ جنوری، جون

و پیڈیا آف اسالم )جلد چہارم( انسائیکل (20

۱۱۵۲ء ص ۱۹۳۴

سورۃ النمل ۱۹قرآن مجید پارہ (21

نسرین ممتاز بصیر، ڈاکٹر تحقیق مکتوبات (22

۱۹ص ۱نمبر

23) // ایضا

24) // ایضا

روفیسر ڈاکٹر وقار احمد رضوی بے خبر نے غالب سے پہلے اردو میں خطوط پ (25

۷ص ۲۰۱۰دسمبر ۴لکھئے مثمولہ سرماہی ادبی صفحات پشاور شمارہ

، ۲ -دہلیسٹی ٹیوٹ، ایوان غالب مارگ، نئی غالم رسول مہر "غالب" غالب ان (26

۱ء ص ۲۰۰۵

27) ۲ص // ایضا

47

28) ۱ص // ایضا

ء ۱۹۶۲مہر خطوط غالب شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم غالم رسول (29

۶۹ص

محمد شمس الحق )مولف( ہمانہ غزل جلد اول اسالم آباد نیشنل بک فاؤنڈیشن (30

۱۴۳ص ۲۰۰۸

یوسف سلیم چشتی )مولف( شرح دیوان غالب ، الہور، مکتبہ تعمیر انسانیت سن (31

۱۹ن ص

۹۱ء ص ۱۹۸۹یکیشنز فرزانہ سید، نقوش ادب، الہور سنگ میل پبل (32

حمیدہللا ہاشمی ۔ حیات غالب مثمولہ گفتہ غالب، الہور مکتبہ دانیال باروسن ندارد (33

۱۶ص

۲ء ص ۲۰۰۵غالم رسول مہر "غالب" انٹی ٹیوب دہلی (34

۲ص // (35

۳ص // (36

۳ص // (37

۳ص // (38

۱۰ص // (39

۱۳ص // (40

۱۳ص // (41

۷۔۸ص // (42

۱۸ء ص ۱۹۸۷غالب" مکتبہ عالیہ الہور خواجہ الطاف حسین خالی، یادگار (43

۱۸ء ۱۹۸۷خواجہ الطاف حسین خآلی "یادگار غالب" مکتبہ غالیہ الہور (44

۱۹۶۲غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سولہ (45

۶۹ – ۷۰ء ص

۲۲ص // (46

۴۵۸ص // (47

۲۵۵ص ء ۲۰۰۵غالم رسول مہر "غالب" غالب انٹی تیوٹ دہلی (48

48

غالم رسول مہر " خطوط غالب " شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم (49

۳۰۷ء ص ۱۹۶۲

۳۱۷ص // (50

۳۱۶ص (51

۲۷۵ص (52

۲۹۵ص (53

۲۹۹ص (54

۶۸ص (55

۷۳ص (56

۶۸ص (57

۶۹ص (58

۷۴ص (59

ص // // (60

49

50

دوسرا: باب

کا غالب کے اردو خطوط

تحقیقی جائزہ

51

مرزا اسدہللا خان غالب سے پہلے خطوط نویسی فارسی روایات و اسالیب کی حامل تھی۔ اول

تو اردو میں مکتوب نگاری کا رواج نہیں تھا اور اگر اردو میں کوئی خط لکھتا بھی تھا تو وہ

پہلے شخص فارسی تبتع میں تکلفات سے بوجھل اور گراں ہوتا تھا۔ مرزا اسدہللا خان غالب

ہیں جنہوں نے اردو خطوط نویسی کو اس طرح رواج دیا کہ ان کے بر جتہ اور بے تکلف

انداز بیان کے اعجاز سے خطوط نویسی کو اردو میں ایک دلچسپ اور خیال افروز صنف نثر

ثابت ہوئی بلکہ اردو نثر کے ارتقاء اور ترقی کا پیش خیمہ بھی قرار پائی۔ غالب پہلے شخص

اپنے خطوں میں شخصیت کو بے نقاب کرتے ہیں اور اس شخصیت کا کمال یہ ہے کہ ہیں جو

عظمت و رفعت کے بجائے وہ انسانیت پر اعتماد کرتی ہے۔ اور ایک بت بن کر اپنی پرستش

کرانے کے بجائے وہ انسان بن کر دلوں میں رہتی ہے۔

رنگ میں اپنی مثال غالب کے خطوں میں جو شخصیت سامنے آتی ہے وہ ہر حال میں اور ہر

آپ ہے وہ اپنے کالم پر نازاں اور اپنی قسمت پر ماتم کناں ہے لیکن غالب کی شاعری سے یہ

پتہ نہیں چلتا کہ الطاف حسین حالی نے انہیں حیوان ظریف کیوں کہا ہے۔ ان کے خطوط سے

معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی طبیعت میں ظرافت کا کتنا حصہ ہے۔

گاری ایک کاروباری چیز ہے۔ مگر بعض لوگوں نے اسے آرٹ یوں کہنے کو خط ن

بھی بنایا۔ خط اولین مقصد ادب نہیں ۔ خط دراصل ایک ایسی تحریر کا نام ہے۔ جس میں کام

کی باتیں صرف دو آدمیوں کے درمیان نجی حیثیت سے پیش کی جاتی ہیں خط سے زیادہ

کے قائم مقام ایک چیز ہے۔ خط کوئی چیز ذاتی اور شخصی نہیں ہوتی۔ خط نگاری گفتگو

کاغذ کا ایک ایسا ٹکڑا ہے۔ جو مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے درمیان رابطے کا مؤثر

ذریعہ بنتا ہے۔ یہ خط دونوں حضرات کے تعلق کا ایسا وسیلہ ہے۔ خط گفتگو کا ایک ایسا

ی واسطہ ہے جو میلوں کی دوری کو سمیٹ کر محض چند جملوں تک لے آتا ہے۔ خط ک

تحریر لکھنے والے کے قلم کی ہر جنبش کے ساتھ اس کے اندرونی خیاالت و احساسات کو

اس کے مخاطب تک پہنچا دیتی ہے۔اس تحریر سے نہ صرف خط لکھنے والے کی کیفیات

کی ترجمانی ہوتی ہیں۔ بلکہ اس کا ہر لفظ اس جذبے کی گواہی دیتا ہے۔ خط کے ذریعے

متعلق ڈاکٹر غالم رسول مہر لکھتے ہیں۔محسوسات و خیاالت کے بیان کے

"پھر خطابت و نگارش کے دائرے میں جو کچھ ہمارے سامنے آتا ہے۔

52

ضروری نہیں کہ وہ ہر شخص کے محسوسات و واردات قلب یا افکار

و خیاالت کا واقعی صحیح مظہر ہو۔ بناوٹ اور وضحیت انسان کی فطرت

(۱میں داخل ہے۔ )

مدعا نہایت سیدھے سادے طریقے سے بیان ہوا ہے لیکن اس غالب کے خطوط میں دلی

سادگی میں جو حسن و تاثیر ہے وہ شاید ہی اردو کے کسی اور کے ہاں موجود ہو مرزا غالب

کے بعد بہت سے لوگوں نے اس طرز خاص کو اپنانے کی کوشش کی لیکن انہیں کامیابی

ر ان ہی کی ذات پر ختم ہوگیا۔نہیں ہوئی۔ گویا یہ انداز تحریر غالب سے شروع ہوا او

مرزا غالب مرزا خاتم علی بیگ کو لکھتے ہیں۔

"میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنایا

ہزار کوس سے بیٹھے بزبان قلم باتیں کیا کرو ہجر میں وصال

(۲کے مزے لیا کرو")

ہمیشہ تقلید سے گریزاں رہی ہے اور اسی جذبے مرزا اسدہللا خان غالب کی انفرادیت یوں بھی

نے انہیں اردو خطوط نویسی میں ایک طرز خاص کی ایجاد پر متوجہ کیا۔

تصانیف غالب یا غالب کا نثری سرمایہ:

مرزا اسدہللا خان غالب کا نثری سرمایا )دونوں زبانوں میں( فارسی اور اردو دونوں

سرمائے میں تاریخی مضامین، دیباچے، زبانوں میں موجود ہے۔ غالب کے اس نثری

تقریظیں، روزنامچہ اور خطوط وغیرہ شامل ہیں۔

(پنچ آہنگ : 1

"غالب کی پہلی فارسی نثری تصنیف کا نام 'پنچ آہنگ" ہے یہ کتاب

( ۳ھ( )۱۲۴۱ء )۱۸۲۵

ء میں قلعہ دہلی۱۷۴۹میں شروع کی گئی اور اگست

53

کے مطبع سلطانی میں۔

(۴م نجف خان بہادر کے اہتمام میں اس کا پہال ایڈیشن چھپا' )عضدالدولہ حکیم غال

پانچ آہنگ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہیں اسی لیے اس کا نام "پنچ آہنگ( رکھا گیا۔ پنچ

آہنگ میں مرزا غالب نے خط لکھنے کے آداب اور طریقے بتائے ہیں۔ اول باب میں آداب و

پر استعمال ہونے والے فقروں اور جملوں کے متعلق القابات کے ساتھ ساتھ مختلف موقعوں

بیان ہے۔ دوسرے باب میں اسطالحات، محاورات فارسی معیادر اور ان کے ساتھ کئی الفاظ

کے معنی تفصیل ہیں۔ تیسرے باب میں استعمال کئے جانے کے لئے منتخب اشعار ہیں۔

شامل کئے ہیں اور آخری چوتھے باب میں مرزا غالب نے اپنی تقریظیں اور مختلف دیباچے

باب غالب کے چند خطوط پر مشتمل ہے۔

"یہ بھی فارسی زبان میں ہے۔ ( مہرنیم روز : 2

(۵ھ(" )۱۲۶۶ء )۱۸۵۰

یہ کتاب بہادر شاہ ظفر کے کہنے پر لکھنا شروع کی اور کتاب کا موضوع "تاریخ خاندان،

روز" اور دوسرے حصے کا نام "ماہ تیموریہ" ہے اس کتاب کے پہلے حصے کا نام "مہر نیم

نیم ماہ" جب کتاب کا نام "پرتوستان" تجویز کردہ تھا لیکن

(۶ھ( )۱۲۷۱ء )۱۸۵۴

میں محض اس کا پہال حصہ مکمل ہوا۔

اس کتاب میں امیر تیمور بادشاہ ہمایون تک کی تاریخ لکھی گئی ہے جب کہ کتاب کے

کر بادشا بہادر شاہ ظفر تک کی تاریخ دوسرے حصے میں جالل الدین اکبر بادشاہ سے لے

لکھی جانی تھی اس کتاب کا صرف پہال حصہ ہی مکمل ہوکر "مہر نیم روز" کے نام سے

شائع ہوا۔

دشنبو:( 3

54

ء کے متعلق حاالت واقعات پر مشتمل روزنامچہ جونکہ ۱۸۵۷یہ کتاب غالب نے

سے اپنی وفا داری طاہر فارسی زبان پر مبنی ہے اس کتاب کی وجہ تصنیف انگریز حکومت

کرکے قلعہ سے اپنے داغ کو مٹانا تھا غالب نے اس کتاب میں اصل صورتحال سے قطع نظر

انگریزوں کے نقطہ نظر کی حمایت کی ہے۔

ء تک کی روداد بیان کی گئی ہے۔۱۸۵۸ء یکم جوالئی ۱۸۵۷مئی ۱۱'اس میں

، منشی بنی بخش حقیریہ کتاب مطبع مفید خالئق آگرہ سے مرزا ہرگوپال تفتہ

ء کو شائع ۱۸۵۸مرزا خاتم علی اور منشی شیو نرائن آرام کی کی زیر نگرانی نومبر

(۷ہوئی۔" )

اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ کہ یہ کتاب خالص فارسی زبان میں لکھی گئی ہے اور

اس کتاب میں عربی زبان کا ایک لفظ شامل نہیں۔

نسخہ حمیدیہ : (4

یہ کتاب مرزا غالب کے ابتدائی اردو کالم کا مجموعہ جسے وہ قلم انداز

(۸کرچکے تھے' )

دیوان اردو : (5

دیوان اردو کے پانچ ایڈیشن تو مرزا کی زندگی میں شائع ہو چکے تھے اس

شرحیں لکھی گئیں۔ بعد کئی ایڈیشن چھپےاور کئی یعنی متعددکے

ہ مرزا کو فارسی کالم پر ناز تھا جیسا کہ غالب کے اس مرزا غالب کو اردو کالم پر نہیں بلک

شعر سے ظاہر ہے۔

فارسی ہے تابہ بینی نقشائے رنگ رنگ

(۹بگدزاز مجموعہ اردو کہ ہیرنگ من است )

لیکن غالب کو شہرت فارسی کالم کی وجہ سے نہیں بلکہ اردو کالم کی وجہ سے ملی۔ جیسے

وہ "بیرنگ" کہتے تھے۔

55

سبد چیں : (6

الب کی اس مختصر مجموعہ فارسی کالم اور دیگر کلیات جو درج مرزا غ

ء میں سبد چیں ۱۸۴۷کرنے سے رہ گئے تھے اس میں شامل ہیں یہ مجموعہ

کے عنوان سے شائع ہوا

باغ دودر : (7

یہ مرزا غالب کے اشعار کا آخری شعری مجموعہ ہے جو ابھی تک نہیں چھپی۔

عود ہندی : (8

یہ مرزا اسدہللا خان غالب کے اردو خطوط کا وہ مجموعہ ہے جو غالب کی

ء ۱۸۴۸وفات سے صرف چار ماہ پہلے میرٹ سے شائع ہوا۔

اردوئے معلی : (9

ء میں شائع ہوا یہ بھی اردو ۱۸۴۹اس کے دو حصے ہیں پہال حصہ مارچ

خطوط کا مجموعہ ہے۔

شامل نہیں ہوئے تھے وہ اور اس کا دوسرا حصہ جو خطوط حصہ اول میں

بھی دوسرے حصے میں شامل کرکے خواجہ الطاف حسین حالی نے اسے

مرتب کرکے مطبع مجتبائی کے سپرد کردیا تھا تو دونوں حصے بشمول حصہ

ء میں شائع ہوئی۔۱۸۹۹اول

نادرات خطوط غالب: (10

خطوط اور ان کے صاحب ۷۷3الب کے "منشی بنی بخش حقیر کے نام غ

بدالطیف کے نام ایک خط پر مشتمل مجموعہ غالب کے نامور زادے منشی ع

شاگرد میرن صاحب کا مرتب تھا جسے ان کے نواسے آفاق حسین آفاقی

(۱۰ء میں ادارہ نادرات کراچی سے شائع کیا۔ )۱۹۴۹نے

56

متفرقات غالب : (11

اس کتاب میں کچھ خطوط ، کچھ نظمیں اور مثنوی کے اشعار شامل ہیں

فارسی نظم اور فارسی نثر پر مشتمل ہیں۔ یعنی یہ مرزا کے

نادر خطوط غالب (12

میرزا کے ستائیس اردو مکاتیب کا مجموعہ جو کرامت حسین کرامت ہمدانی

(۱۱بہاری صغیر بلگرامی اور صوفی میری کو لکھے گئے تھے۔ )

قاطع برہان : (13

یہ بھی غالب کی فارسی تصنیف ہے۔ اس میں غالب نے محمد حسین بن خلف

تبریزی "برہان قاطع" تھی اس کتاب میں غالب نے غلطیوں کی نشان دہی کی ہے اس کتاب میں

غالب کا لہجہ نہایت سخت اور تنقیدی رہا جس کے باعث مخالفوں کاایک طوفان کھڑا ہوگیا

لیکن غالب نے ان مخالفتوں کے جواب میں کئی رسالے لکھے جن میں "تیع تیز" "لطائف

دافع تذیان" اور اپنے دوست کے نام سے "سواالت عبدالکریم " وغیرہ غیبی" "نامہ غالب" "

ء میں چھپا جب اس کا حصہ یعنی ایڈیشن "درفش ۱۸۶۸شامل ہیں۔ اس کتاب کا پہال ایڈیشن

کاویانی" کے نام سے چھپا۔

( مکاتیب غالب: 10

"نواب یوسف علی خان بہادر اور نواب کلب علی خان بہادر

خطوط پر مشتمل مجموعہ ۱۱۷ر کے نام فرمان روایات رام پو

(۱۲ء میں بمبئی سے شائع ہوا۔" )۱۹۳۷مکاتیب غالب کے نام سے

( قادر نامہ :11

یہ کتاب غالب نے عارف کے بچوں کے لئے آٹھ صفحہ کا مختصر سالہ تصنیف

کہا ہے اس میں خالق باری کی طرز پر فارسی لغات کا مفہوم اردو میں واضح کیا ہے۔

57

گل رعنا :( 12

یہ بھی اردو اور فارسی کالم کا مرتبہ انتخاب ہے۔

یہاں تک مرزا اسدہللا خان غالب کے تمام مکاتیب کا ذکر کیا گیا جو انہوں نے شاعری اور نثر

کے خوالے سے لکھے ہیں اب یہاں پر صرف مکاتیب یا نثری کتابوں کا ذکر کرتے ہیں۔ جو

( ۳ ( اردوئے معلی ۲ ( عود ہندی۱ انھوں نے لکھے ہے۔ کچھ یوں ہے۔

( ۷ ( نامہ ء غالب۶ ( سواالت عبدالکریم 5 ( لطاف غیبی۴ نکات و اقعات غالب

تیغ تیز

غالب کے ان نثری سرمایہ میں عود ہندی واحد علمی و ادبی سمایہ ہے جو غالب کی زندگی

اہتے ہوئے بھی میں شائع ہوا اور مرزا صاحب کے اپنے شاگرد تھے۔ جو اپنے استاد کے نہ چ

خطوط کا مجموعہ چھپانے میں کامیاب ہوگئے۔ خطوط کا یہ مجموعہ نومبر کے درمیان یعنی

ء میں منشی شیو نرائن نے جو آگرے میں ایک مطبع کے مالک اور مرزا اسدہللا ۱۸۵۸

خان غالب کے شاگرد بھی تھے انھوں نے غالب کے اردو خطوط کا مجموعہ چھپانے کا ارادہ

غالب کیلئے یہ بھی بالکل قطعی نئی اور زرائد بات تھی۔ مرزا غالب نے اس تجویز کیا لیکن

کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے واضح الفاظ میں منشی شیو نرائن آرام کو لکھا۔

"اردو کے خطوط جو آپ چھاپا چاہتے ہیں، یہ بھی زائد بات ہے کوئی رقعہ ایسا

لگا کر لکھا ہوگا، ورنہ صرف تحریر ہوگا کہ جو میں نے قلم سنبھال کر اور دل

سرسری ہے۔ اس کی شہرت میری سنخوری کے شکوہ کے منافی ہے۔ اس

سے قطع نظر کیا ضرور ہے کہ ہمارے آپس معامالت اوروں پر ظاہر ہوں

(۱۳خالصہ یہ کہ ان رقعات کا چھاپا میرے خالف طبع ہے۔" )

تھی بلکہ اس میں اس کے ساتھ خطوط چھاپنے کی خواہش صرف منشی شیو نرائن کی نہیں

منشی ہر گوپال تفتہ بھی شریک تھے اور دونوں کی بہت زیادہ خواہش تھی کہ یہ خطوط

ء کے ایک اور خط میں جو مرزا غالب ۱۸۵۸نومر ۲۰ضرور چھاپنے چاہیئے اسی طرح

نے شیو نرائن اور ہرگوپال تفتہ کو لکھا کہ ۔

58

یں ہے لڑکوں کی سی ضد نہ کرو اور "رقعات چھاپے جانے می ہماری خوشی نہ

اور اگر تمہاری اسی میں خوشی ہے تو صاحب مجھ سے نہ پوچھو"تم" کو

(۱۴اختیار ہے۔ یہ امر میرے خالف رائے ہے" )

ان خطوط سے ان دور کی زبان اور اس وقت کے لب و لہجہ کا پتہ چلتا ہے کیونکہ مرزا

حصوصیات کے حامل ہیں۔ جو اس دور میں عام غالب اسلوب اور مزاج کے اعتبار سے منفرد

رائج یعنی غالبکے خطوط میں قافیہ پیمائی اور اس کے ساتھ عبارت آرائی ہے لیکن غالب کی

زبان ان مشکل موضوعات کو آسان اور شگفتہ اسلوب کی بنا پر جاذب نظر بنا دیتی ہے۔ وہ

ہیں اور یہی چیزغالبا ان مشکل سے مشکل مسائل کو بھی رنگین اور پر کاری سے پیش کرتے

کی اردو نثر کو باکمال بنا دیتی ہے ان حصوصیات کو موالنا حامد حسن قادری ان الفاظ میں

بیان کرتے ہیں۔

"نثر اردو میں غالب کی اولویت اور اولیت نے جو طریقہ ایجاد کیا

اور اس میں جو جدتیں پیدا کیں اور ان کو جس التزام، اہتمام اور

(۱۵ے ساتھ برتا، اس میں غالب اول بھی ہیں اور آخر بھی۔" )کمال ک

( عود ہندی :۱

عود ہندی مرزا غالب کے خطوط کا پہال مجموعہ ہے جو مرزا غالب کی وفات سے

چند ماہ پہلے شائع ہوا تھا۔ اس کتاب کی ایک ایڈیشن ہندوستان سے شائع ہوئی اور دوایڈیشن

آچکی ہے۔ یہ واحد مجموعہ تھا جوغالب کی زندگی میں پاکستان میں چھپ کر منظر عام پر

پہلی مرتبہ شائع ہوا اور آخری مجموعہ بھی تھا کیونکہ مرزا غالب اس مجموعہ کی اشاعت

کے بعد حیات نہیں رہے۔عود ہندی کے بارے میں پروفیسر وحید احمد خان لکھتے ہیں ۔

ء کو غالب کی زندگی ۱۸۴۸ اکتوبر ۲۷"خطوں کا پہال مجموعہ "عود ہندی" کے نام سے

میں

شائع ہوا۔ یہ دن صرف غالب کی سوانح نگار اور نقاد ہی کے لیے خاص اہمیت نہیں رکھتا

59

بلکہ تاریخ نثر اردو میں ایک بڑے انقالب کی خبر دیتا ہے۔ جو اسباب انیسویں صدی کے

م الشانشروع میں اردو نثر کے ظہور اور اس صدی کے نصف آخر میں اس کی ترقی کاعظی

(۱۶اور مقبول عام کتاب کی اشاعت میں نمایاں حصہ لیا۔ )

۲: ( اردوئے معلی

ھ ۱۲۷۸قعدہ ۲۱یہ خطوط غالب کا دوسرا مجموعہ ہے۔ یہ پہلی دفعہ

ء میں اکمل المطابق دہلی سے شائع ہوا۔ غالب کے دوسرے ۱۸۴۹مارچ ۶بمطابق

ی زندگی میں عمل میں آیا اور اس کا بڑا مجموعے کا زیادہ تر جمع و تربیت کا کام غالب ک

حصہ طباعت ان کی زندگی میں انجام پایا تھا لیکن کتابی صورت میں یعنی با قاعدہ کتابی

صورت غالب کے وفات کے بعد ممکن ہوا۔

عود ہندی کا کام غالب کی نظر سے بہت دور اور سست روی سے ہوا تھا اسی صورت میں

جلدی ہوسکے غالب اس کے حق میں تھے۔ ایک جگہ منشی دوسرے مجموعے کا کام جتنا

غالم غوث بے خبر کو لکھتے ہیں۔

"اجی حضرت یہ منشی ممتاز علی خان کیا کررہے ہیں؟ رقع جمع کیے اور نہ چھپوائے

فی الحال پنجاب احاطہ میں ان کی بڑی خواہش ہے۔ جانتا ہوں کہ وہ آپ کو کہاں

تو حضرت کے اختیار میں ہے۔کہ جتنے ملیں گے آپ ان سے کہیں کہیں مگر یہ

خطوط آپ کو پہنچے ہیں وہ سب یا ان سب کی نقل بطریق یا رسل آپ مجھ کو بھیج

(۱۷دیں جی یوں چاہتا ہے کہ اس خط کا جواب وہی پارسل ہو۔ )

ء میں شائع ہوا تھا پھر جب دوسرا حصہ بھی تیار ۱۸۴۹یہ تو تھا غالب کا پہال حصہ جو

الطاف حسین حالی نے دونوں کو مال کر ایک ساتھ جاری کیا لکھتے ہیں۔ ہوگیا تو موالنا

( برس بعد ۳۰"اردوئے معلی )حصہ اول( کی اشاعت کے تیس )

ء میں موالنا الطاف حسین حالی نے اردوئے معلی )حصہ دوم(۱۸۹۹

60

کے عنوان سے خطوط غالب کا ایک اور مسودہ فراہم کیا جسے اردوئے

(۱۸میت ایک ہی جلد میں شائع کیا۔" )معلی )حصہ اول( س

یہ رسالہ جس شخصیت نے جاری کیا تھا۔ وہ خود اس رسالے کے بارے میں جو اضافہ کیا گیا

ہیں وہ خود لکھتے ہے مولوی عبداالخد مالک مطبع مجتبائی کے بقول۔

" اس حصے میں خاص کر وہ رقعات ہیں جن میں انھوں )غالب( نے

ہیں، یا شاعری کے متعلق کوئی ہدایتلوگوں کو اصالحیں دی

کی ہے، یا کوئی نکتہ بتایا ہے، اور بعض کتابوں کے دیباچے اور

(۱۹ریو لو بھی ہیں۔" )

ء کے بعد اردوئے معلی کے دونوں حصے ایک ساتھ شائع ہوتے رہے اور آج تک ۱۸۹۹

میں آئی یہ سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں اردوئے معلی کی دو اشاعتیں ابھی تک عمل

ہیں۔پاکستان میں اس کی پہلی اشاعت الہور سے ہوئی الہور اکیڈمی والوں کی بہت زیادہ محنت

اور کوشش کے باوجود بھی اس میں کچھ غلطیاں ہیں لیکن پھر بھی ان کی یہ ناکام کوشش ہے

کہ خطوط غالب اردوئے معلی شائع ہونے میں کامیاب ہوئے اس کی پہلی اشاعت الہور سے

لکھتے ہیں۔ ہوئی

ء میں یہ مجموعہ پہلی مرتبہ الہور اکیڈمی الہور سے شائع ۱۹۶۴"جنوری

ہے "حرف آغاز" مرزا ادیب کا تحریر کردہ ہے، ۴۰۰ہوا۔ صفحات کی تعدا

اس میں انہون نے اوال غالب کے مختصر سوانح حیات پیش کیے ہیں اور

ی نثری بعد ازاں خطوط کے حوالے سے غالب کی شخصیت اور ان ک

(۲۰حصوصیات کا جائزہ لیا ہے" )

61

اردوئے معلی یعنی خطوط غالب کی دوسری اشاعت بھی الہور سے ہوئی یہ مجموعہ تین

جلدوں پر مشتمل ہیں بحیثیت مجموعی تین جلدیں بڑی مہارت اور انتہائے محققانہ انداز سے

ہیں۔شائع کیے ہیں۔ اس کی اشاعت کے بارے میں ڈاکٹر شکیل پتافی لکھتے

"سید مرتضی حسین فاضل لکھنوی نے یہ مجموعہ تین جلدوں میں مرتب کیا

جسے مجلس ترقی ادب نے الہورسے شائع کیا۔ پہلی دو جلدیں غالب صیدی

ء ۲۹۷۰ء میں شائع ہوئیں جب کہ تیسری جلد ایک سال بعد ۱۹۴۹کے موقع پر

(۲۱میں شائع ہوئی۔ )

مانہ زوال و انخطاط کا زمانہ تھا۔ لیکن اس زمانے میں سیاسی، سماجی اعتبار سے مغلوں کا ز

ان سب کچھ کے باوجود دلی میں علم و ادب کی محفلیں جم رہی تھی اور کچھ شعراء تو خراب

حاالت کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہوگئے تھے لیکن اس کے باوجود پھر مرزا غالب، استاد

ے ادبی محفلوں میں گرمی باقی رہ گئی ابراھم ذاوق، حکم مومن خان مؤمن، شفتہ کی وجہ س

اور ان علمی محفلوں کے چرچے پھر سے نظر آنے لگے۔ بہت سے باکمال اور علم و ادب

سے ذوق رکھنے والے ابھی دلی میں باقی تھےجن کی وجہ سے دلی کے محفلیں جم رہ تھی۔

ن آزودہ، موالنا ان میں موالنا اسماعیل شہید، موالنا سید احمد بریلوی، نواب صدر الدین خا

فضل حق خیر آبادی، امام بخش صہبائی اور نواب مصطفی خان شیفتہ وغیرہ نے دلی میں علم

و عمل کی فضا پیدا کردی تھی۔ یہ تمام شخصیات اپنی اندر ایک تخریک تھیاور ہر ایک کے

اندر ایک اجتہادی شان نظر آتی ہے۔ مرزا اسدہللا خان غالب بھی ان میں ایک اہم شخصیت

تھے۔ غالب کی حصوصیت یہ ہے کہ صرف شاعری میں ان کا مقام اعلی ارفع نہیں بلکہ اس

کے ساتھ ساتھ اردو نثر میں وہ ایک منفرد اسلوب کے مالک ہے ان حوالے سے وہ ہمارے نظم

و نثر میں منفرد مقام کے حامل ہیں۔

تھے ایک بالکل سادہ مرزا اسدہللا خان غالب سے پہلے اردو نثر میں دو مستقل اسلوب موجود

آسان اور عام فہم انداز جس کو فورط ولیم کالج کی کتابوں میں پیش کیا گیا ہے فورٹ ولیم کالج

یہ ادارہ ڈاکٹر گل کرسٹ کے زیر اثر قائم ہوا لیکن اس سے پہلے بھی کچھ کتابیں ایسی تھی

62

ب جلد اول میں جن پر علماء فضال نے کام کیا ہے غالم رسول مہر لکھتے ہیں۔ خطوط غال

لکھتے ہیں۔

"مثال بائیبل کا وہ اردو ترجمہ جو سرام پور میں چھپا شاہ عبدالقادر محدث اور

شاہ رفیع الدین محدث کے تراجم قرآن، شاہ اماعیل شہید کی تقویت االیمان

( ۲۲ء کے درمیان لکھی گئی۔" )۱۸۲۰ء اور ۱۸۱۸جو میرے اندازے کے مطابق

انداز سے لکھی گئی جو ایک عام قاری بھی اس کو آسانی سے پڑھ سکتا یہ تمام کتابیں ایسے

تھا اور اس طرح اردو کی وجہ سے ایک عام شخص بھی دینی مسائل سے آگاہ ہوجاتا تھا اسی

طرح سادہ اور آسان اور عام فہم اسلوب تحریر کو تقویت ملی اس دوران انشاءہللا خانانشاء نے

اب کا انداز تحریر بھی بہت آسان اور سلیس تھا، لیکن اس کے دریائے لطافت بھی لکھی اس کت

ساتھ مشکل عبارت بھی تحریر ہوتاتھا۔ جو صاحب ذوق اور اہل علم حضرات تھے یہ انداز ان

کا تھا کیونکہ وہ معمولی بات کو بڑا چھڑا کر پیش کرنے کے ماہر ہوتے ہیں یہ انداز تحریر

تان میں رائج تھا اس میں سبھانے کے بعد نمائش پر فارسی کا تھا۔ جو کئی صدیوں سے ہندوس

زیادہ زور دیا جاتا۔

آسان اور رواں نثر لکھنے والوں میں ایک خوش قسمت مرزا غالب بھی تھے جنہوں نے اپنے

خطوں میں وہ انداز اختیار کیا جو آج تک نہ کسی سے ہوسکا اور کر پائے گا۔ غالب سے پہلے

فارسی زبان میں خطوط کمال پر پہنچ چکی تھی۔ فارسی خطوط میں نئی نئی تراکیب اور نئے

عبارت کو مشکل بنانا تھا یہ ان لوگوں کا شیوہ تھا صرف اپنے علم و فضل نئے اسقاروں سے

کی نامیش مقصود تھا اس طرح اس وقت کے لوگوں نے اپنے جملوں کو اور نمائیشی انداز

تحریر ان الفاظ سے بوجھل بنایا۔ ہللا تعالی نے ان لوگوں کو الفاظ استعمال کرنے کے خاص

معمولی سے معمولی الفاظ کو بھی بڑے دلچسپی اور دالویزی جوہر عطا کئے تھے کیونکہ وہ

سے پیش کرتے۔ کئی برس تک یہ لوگ اس مقام پر فائز تھے ان کا بعد اس سرزمین پر بڑے

بڑے ادیب پیدا ہوئے جن کا علمی سرمایہ ہمارے لئے قابل قدر سرمایہ ہیں ان شخصیات میں

ام مکاتیب میں ایک ایسا مجموعہ نہیں جو اکثر کے مکاتیب بھی چھپ چکے ہیں۔ لیکن ان تم

63

مکاتیب غالب کا مقابلہ کرسکے کیونکہ مکاتیب غالب میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو کسی

مجموعہ میں ہوسکتی ہے۔

نشان دہی –خطوط غالب کی جمع آوری

لیکن اردو کا پہال خط غالب نے کب اور کسے لکھا ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا

غالب کے خطوط میں موجود اشاروں اور کتابوں سے چند لوگوں نے غالب کی اردو خطوط

نگاری کے تاریخ کے بارے میں قیاس کیا ہے۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن تحقیق غالب میں

لکھتے ہیں۔

ء کا ہے۱۸۴۶"غالب کے دستیاب اردو خطوں میں قدیم ترین خط

واب تجمل حسین خاں کے نام ہےیہ غالب کے ممدوح والی فرخ آباد ن

ء میں غالب کی اکیس نئے فارسی، اردو خطوط کے ایک ۱۹۷۵اور اکتوبر

(۲۳مجموعے کے ساتھ آلہ آباد سے پہلی بار ہاتھ آیا ہے۔ )

خطوط غالب کے حوالے سے اہم کام جس شخصیت نے کیا وہ ہے موالنا الطاف حسین حالی

لومات اس کتاب سے لوگ حاصل کرتے ہیں۔اردو زبان کی یادگار غالب جو تقریبا تما اہم مع

میں خط لکھنے کے بارے میں جب سے مرزا غالب نے لکھنا شروع کیا اس کے بارے میں

موالنا الطاف حسین حالی یادگار غالب میں لکھتے ہیں۔

ء تک ہمیشہ فارسی میں خط و کتابت کیا کرتے تھے۱۸۵۰"معلوم ہوتا ہے کہ مرزا

میں جب کہ وہ تاریخ نویسی کی خدمت پر مامور کئے گئے اور ہمہ تن مگر سنہ مذکورہ

مہر نیمروز کے لکھنے میں معروف ہوگئے اس وقت بضرورت ان کو اردو میں کتابت

64

ء کے بعد سے۱۸۵۰کرنی پڑی ہوگی۔ اس لیے قیاس چاہتا ہے کہ انھوں نے غالبا

(۲۴اردو زبان میں خط لکھنے شروع کئے ہیں۔ )

کے بعد انھوں نے اردو ۵۰سے پہلے غالب فارسی زبان میں خط لکھتے تھے ء ۱۸۵۰

زبان میں خط لکھنے شروع کیے اگر دیکھا جائے تو موالنا حالی کا جو بیان ہے اب سے تقریبا

سال پہلے کا ہے ان اسی، نوے برسوں میں محض اتنا اضافہ ہوا کہ مرزا غالب نے ۹۰، ۸۰

سے کوئی چار سال پہلے اردو میں ۵۰کھنے کے بجائے ء کے بعد اردو میں خط ل۱۸۵۰

خطوط نویسی کی ابتداء کی۔

غالبیات پر تحقیق کرنے والے جتنے بھی حضرات موجود ہے یا جنہوں نے غالب پر کام کیا

ء سے پہلے بھی اردو میں خط لکھے ہونگے ۱۸۵۰ہے تمام کی رائے یہ ہیں کہ غالب نے

عام نہ تھا اس کے بارے میں ماہر غالبیات موالنا غالم رسول لیکن اس وقت اردو کا رواج اتنا

مہر لکھتے ہیں۔

"معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بیشتر بھی مرزا حسب ضرورت اردو میں خط لکھتے

رہے ہوں گے، اگر چہ وہ نہ رہ سکے بہر حال صحیح یہی ہے کہ جب تک اردو

کرتے رہے۔ پھر جیسے کا رواج کم تھا، مرزا زیادہ تر فارسی میں خطو کتابت

جیسے اردو رواج بڑھتا گیا اور فارسی کا تداول کم ہوتا گیا انھوں نے بھی اردو

(۲۵ذریعہ مخابرت بنا لیا۔)

ء کے بعد اردو ۱۸۵۰یہاں تک تو تھی یادگار غالب کی بات کہ موالنا حالی کے بقول غالب

غالب کے خطوط پر کام جاری میں خط لکھنے شروع کیے لیکن حالی کے بعد بھی لوگوں نے

سے لکھنا شروع کیا تھا۔ ۴۷رکھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ غالب نے سنہ

اب مرزا اسدہللا خان غالب پر جن شخصیات نے کام کیا ہے وہ مختصر ذکر کرتے ہیں۔ ان میں

قسمیہ، پہال نام موالنا امتیاز عرشی کی ہے۔ موالنا عرشی کی کتاب مکاتیب غالب جو مطبعہ

ء میں شائع ہوئی کتاب میں غالب کے حوالے سے انتہائے اہم معلومات ۱۹۳۷بمبئی سے

65

دی ہے اور پیدائش سے لے کر انشای غالب، متعلقات انشا اور طباعت خطوط پر تفصیال

گفتگو کی ہے۔ متعلقات انشاء یعنی غالب عادات و خصائل کی ایک کرطبی معلوم ہوتے ہیں

کیفیت اور کیمیت کے لحاظ سے افادہ سے خالی نہیں جواب دینے میں غالب کا مطالعہ

باقاعدگی سے کام لیتے تھے اور اگر کوئی وجہ یا اور کوئی بات ہوتی تو ان کا ذکر بھی کرتے

تھے جسے عرشی صاحب لکھتے ہیں۔

"خطوط کا جواب دینے میں مرزا صاحب بہت با ضابطہ تھے وہ یوں تو ہر خط کا جواب

لکھتےفورا

اور غیر اختیاری عذر کے عالوہ کسی اور عذر کے پیش کرنے کا کبھی موقع نہ آنے دیتے۔

لیکن ضروری و جواب طلب خط کے جواب میں بیحد جلد بازی سے کام لیتے تھے۔ بسا

اوقات ایسا ہوتا کہ یہ جانتے ہوئے کہ اب ڈاک کا وقت گزر چکا ہے جواب لکھ لیتے

(۲۶یتے کہ اس مجبوری کے سبب آج خط سپرد ڈاک نہ ہو۔ )اور مکتوب الیہ کو بتا د

طباعت خطوط کی ممانعت کے بارے میں مرزا کا جو خیال تھا کہ کہیں ایسا نہ ہوا کہ میرے

فارسی کالم کے بجائے اردو کالم کو پڑھنا شروع کرے اور دوسری بات یہ تھی کہ جو خطوط

یں وہ خود لکھتے ہیں موالنا امتیاز علی میں نے لکھے ہے وہ طباعت کے قابل ہے بھی کہ نہ

عرشی کے الفاظ ہیں۔

"عالوہ ازیں انہوں نے اردو مراسلت کاوش پژوھی سے بچنے کے لیے شروع

کی تھی اور اس وجہ سے کبھی قلم سنبھال کر اور دل لگا کر کوئی خط نہ لکھا تھا۔

ال انشای فارسیان یاران باصفا کی تجویز منظور کرلینے میں خطرہ ہوا کہ کہیں کم

کے مداح اردو نثر دیکھ کر شکوہ سخوری پر نکتہ چینی نہ کرنے لگیں اور اردو کا

(۲۷یہ پھیکا پکوان فارسی کی اونچی دوکان کی شہرت پر دھبا نہ لگادے۔" )

خطوط غالب پر پہال اہم کام موالنا امتیاز علی عرشی کا ہے اور ان کی توجہ ہی ان خطوط کو

ء میں مطبعہ قیمہ ۱۹۳۷ے میں کامیاب ہوئی۔ ان کے خطوط کا پہال ایڈیشن منظر عام پر الن

66

بمبی سے شائع ہوئی اس کے بعد مکاتیب غالب کے کوئی چھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

نادرات غالب یہ کتاب منشی بنی بخش حقیر اور ابن حقیر کےنام جو خطوط تھے انہوں نے

احب اور میر مہدی مجروح نے اشاعت کرنے غالب کے نئے خطوں کا یہ مجموعہ میرن ص

کی عرض سے فراہم کیا لیکن وہ یہ نادرات نامی کتاب یا مجموعہ شائع نہ کرسکے۔

ء میں ہندوستانی ۱۹۴۱خطوط غالب یہ کتاب مہیش پرشاد کی مرتبہ ہے اور یہ پہلی مرتبہ

نی کا ڈاکٹر عبدالستار اکیڈمی یو پی آلہ آباد سے یہ مجموعہ شائع کیا اور اس کتاب پر نظر ثا

صدیقی نے سرانجام دی۔

ء میں انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ نے شائع کی ۱۹۶۲خطوط غالب کا دوسرا ایڈیشن

ء لکھا ہوا ہے۔ اس کا بارے میں ڈاکٹر سید ۱۹۶۳ء کے بجائے ۱۹۶۲اور غلطی سے

ن غالب کا علمی سرمایہ مین کہتے ہیں۔ معینالرحم

ہیش پرشاد کا ایک نیا ایڈیشن انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ سے"خطوط غالب مرتبہ م

صفحات پر مشتمل، آل احمد سرور کے "تعارف" کے ساتھ ۴۴۸سائز کے ۲۲/۸×۱۸

ء درج ہے لیکن سرور صاحب کی تعارفی تحریر کے۱۹۶۲شائع ہوا جس پر سال اشاعت

(۲۸ء کی تاریخ ثبت ہے" )۱۹۶۳مارچ ۲۰آخر میں

ہیں جن کی تفصیل اس نے ۵۲۸کی تمام اشاعتوں میں جمع کردہ خطوط کی تعداد مہیش پرشاد

اپنی کتاب میں دی ہے۔ کہ ہر آدمی کو کتنے خطوط لکھے تھے اس کی پوری تفصیل دی ہے۔

خطوط غالب پر تیسرا بڑا کام غالم رسول مہر کا ہے جو "خطوط غالب" کے نام سے دو

شائع ہوچکی ہے خطوط غالب کا پہال حصہ حصوں پر مشتمل مجموعوں کی شکل میں

ء میں شائع ہوا ہے اور دوسرے حصے پر سن اشاعت نہیں لکھا لیکن کتاب کے ۱۹۵۱

ء کا حوالہ دیا ہے۔ جس سے ہم یہ احذ کرسکتے ہیں کہ ۱۹۵۲پر فروری ۴۳۵اندر صفحہ

کے تعارفی کتاب کا دوسرا حصہ مذکورہ تاریخ کے بعد کسی وقت شائع ہوا ہوگا۔ خطوط غالب

صفحات مین موالنا غالم رسول مہر لکھتے ہیں۔

" اس مجموعے میں مرزا غالب کے وہ تمام خطوط آگئے ہیں جن کا مرتب کو سراغ

67

مل سکا۔ صرف دو مجموعوں کو چھوڑا گیا۔ ایک مکاتیب رامپور کا مجموعہ دوسرا منشی بنی

نام سے چھپا۔ تمام خطوطبخش حقیر کا نام خطوط کا وہ مجموعہ "جو نادرات غالب" کے

تاریخ وار مرتب کر دیئے گئے ہیں جن خطوں پر تایخیں ثبت نہیں تھیں ان کے

فیصلہ کیا گیا کہ وہ کس زمانے کے ہوں گے۔ بارے میں داخلی شہادتوں کی بنا پر قیاسا

تمام مکتوب الیہم کے حاالت لکھ دیئے گئے ہیں تا کہ مرزا غالب کے ساتھ ان کے تعلق

یثیت واضح ہوجائے۔ خطوط میں جابجا مقامی اور تاریخی تلمیحات ہیں عام خواہندگانکی ح

کرام تشریح کے بغیر نہیں سمجھ نہیں سکتے۔ مرتب نے حتی االمکان تمام تلمیحات کی

تشریح کردی ہے ابتداء میں مقدمہ لکھا جس میں انشائے غالب کی خصوصیات بیان کی گئی

(۲۹کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہوا۔" )ہیں۔ اوقاف کے اہتمام میں

خطوط غالب: غالم رسول مہر نے خطوط غالب کے کئی ایڈیشن شائع کی ہر نئی ایڈیشن میں

ء میں ۱۹۶۸کوئی نہ کوئی اضافہ ضرور کیا گیا ہے۔ خطوط غالب کے جلد چہارم جوکہ

شائع ہوئی اس میں نئے اضافوں کے بارے میں غالم رسول مہر لکھتے ہیں۔

ط غالب کا یہ چوتھا ایڈیشن ہے۔ اس میں ان خطوط کی بھی خاصی بڑی تعداد شامل"خطو

کردی گئی ہے۔ جو پہلے ایڈیشنوں کے وقت دستیاب نہیں ہوسکے تھے۔ تصحیح اور ترتیب

و تحثیہ کے اہتمام میں بھی حتی االمکان کوئی دفیقہ سعی اٹھا نہیں رکھا گیا لہذا اگر

ابقہ ایڈیشنوں کے مقابلے میں زیادہ مکمل ومیں گزارش کروں کہ اب کتاب س

جامع ہے۔ تو شاید وہ ستائش پر محمول نہ ہو، بعض خطوط بروقت ہاتھ نہ آسکے اور

ضمیمے میں درج کیا۔" ) (۳۰تکمیل کتابت کے بعد ملے، انہیں مجبورا

ء میں بھی مجلس یادگار غالب دو جلدوں ۱۹۶۹مرزا غالب کی صد سالہ برسی پر فروری

ر شائع کی، اس کے عالوہ غالم رسول مہر نے "غالب" نامی کتاب بھی مرزا غالب کی پ

68

پیدائش سے لے کر آخری وقت کے تمام احوال پر مبنی ہے یہ کتاب غالب انسٹی ٹیوٹ نئ دہلی

سے شائع ہوئی ہے۔

غالب کی نادر تحریریں: یہ کتاب ڈاکٹر خلیق انجم کی لکھی ہوئی ہے۔ مرزا غالب کی مختلف

طوط و رسائل یا دوسرے میگزین میں ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ جو مختلف رسالوں خ

میں بکھرے پڑے تھے ان کو اچھے طریقے سے اکھٹا کرکے ایک جگہ جمع کردیا ہے۔

نادر تحریریں میں وہ خطوط شامل کردیئے گئے جو اس سے پہلے کسی بھی مجموعے میں

الرحمن لکھتے ہیں۔شامل نہیں تھے۔ ڈاکٹر سید معین

"البتہ مرتب نے "دوتین خطوط" بوجوہ ایسے ضرور اس مجموعے میں شامل کر لیے ہیں۔

جو "خطوط غالب" مرتبہ مہیش پرشاد اور "خطوط غالب" موالنا غالم رسول مہر میں آگئے

ہیں۔ ماخذ کا حوالہ ہر جگہ درج کیا ہے۔ اخیر میں مفید اور قیمتی حواشی لکھے گئے ہیں اور

(۳۱خطوط کو تاریخ وار ترتیب دیا گیا ہے۔ )

نادر خطوط غالب )جعلی(: خطوط غالب کا یہ نادر مجموعہ سید محمد اسماعیل رسا ہمدانی

گیاوی کی کوششوں کا نتیجہ ہے اس میں شامل ستائیس خطوط کا ذکر ملتا ہے۔ چونکہ یہ

ارے میں ماہر مجموعہ جعلی خطوط پر مشتمل ہیں سب سے پہلے ان جعلی خطوط کے ب

غالبیات مالک رام لکھتے ہیں۔

"مرتب نے مطبوعہ خطوں کے ٹکڑے ادھر ادھر سے جمع کرکے یہ خط تیار کر

لیے ہیں، ورنہ مرزا نے کبھی یہ، ان کے پردادا جناب کرامت ہمدانی مرحوم کے

(۳۲نام نہیں لکھے تھے۔ )

باقی تمام یعنی چھبیس خط یعنی ستائیس خطوط میں مرزا غالب کا صرف ایک خط اصلی ہے

جعلی ہیں۔ ان جعلی خطوط کے بارے خود رسا ہمدانی نے ان خطوط کے مقدمے میں ان

حاالت کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ وہ ان خطوط کو پہلے کیونکہ نہ شائع کرسکے اور اب

انہوں نے ان کو شائع کرنے کا ارادہ کیا ہے رسا ہمدانی لکھتے ہیں۔

69

میں میرے دادا سید شاہ علی حسین ہمدانی المتخلص بہ عالی کاء ۱۹۱۸"بات یہ تھی

انتقال ہوگیا اور یہ "نادر خطوط غالب" ان کے دیگر ملفوظات کے ساتھ ان

ء میں مجھے غالب کے غیر مطبوعہ خطوط شائع۱۹۳۱کے بکس میں بند رہے۔ جون

ار سے دوکرنے کا خیال پیدا ہوا"ندیم" اور "ساقی" کے ایڈیٹروں نے بڑے اصر

چار خطوط مجھ سے لے کر "ندیم" اور "ساقی" میں شائع کیے۔ اس کے بعد کثرت

مشاعل کی وجہ سے میں پھر دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوگیا اور یہ خطوط

ء سے میرے محترم دوست پیارے الل۱۹۳۸کتابی صورت شائع نہ ہوسکے۔ دسمبر

(۳۳شاکر میرٹھی میرے سر ہوگئے۔ )

غالب پر تمام ماہرین غالب نے کچھ نہ کچھ ضرور لکھا رسا ہمدانی نے عود ہندی نادر خطوط

اور اردوئے معلی سامنے رکھ خطوط میں سے کچھ عبارتیں نکال کر مرتب کیا ہے جو سرے

سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہ غالب کے خطوط ہیں یہ جعلی خطوط کے بارے میں امتیاز علی

ہیں۔عرشی فرہنگ غالب میں لکھتے

"یہ کتاب جعلی خطوط کا مجموعہ ہے، لیکن یہ جعلی عبارت میں نہیں، مکتوب

الیہ کے متعلق عمل میں آیا ہے، عبارت، غالب ہی کے مطبوعہ خطوط کا

(۳۴تاروپود سے بنی ہے۔" )

غالب کے خطوط : داکٹر خلیق انجم کے مرتبہ ہے

لب کے حوالے سے کوئی ہے تو موجودہ زمانے میں سب سے اعلی اور محتاط محقق اگر غا

وہ ڈاکتر خلیق انجم ہی ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے مرزا غالب کے تمام اردو خطوط کو پانچ

جلدوں میں سائنٹی فک طریقے سے ایک تنقیدی ایڈیشن شائع کیا ہے جسے غالب انسٹی ٹیوٹ

نے نئی دہلی سے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔

70

ءط چوتھا ۱۹۸۷ء تیسرا ۱۹۷۵ء دوسرا ۱۹۷۴د غالب کے خطوط کا پہال جل

ء چاروں جلدیں غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی نے شائع کی ہے جبکہ آخری جلد یعنی ۱۹۹۳

ء سے شائع کیا ہے۔۲۰۰۰جلد پنجم انجمن ترقی اردو پاکستان گلشن اقبال کراچی نے

شامل کر دیئے گئے ہیں شروع کے چاروں جلدوں میں میں کوشش کی گئی ہے۔ کہ تمام خطوط

، عرشی کی لکھی ہوئی کتاب مرزا غالب کے خطوط کے مجموعے عود ہندی، اردوئے معلی

مکاتیب غالب نادرات غالب آفاق حسین دہلوی او ڈاکٹر خلیق انجم کی نادر تحریریں شامل کر

طوط لیے گئے ہیں جس میں خطوط غالب کے زیر نظر تنقیدی ایڈیشن میں کم و بیش وہ تمام خ

آگئے ہیں جو مختلف رسالوں یا کسی اور مضمون میں چھپتے رہے اور غالب کے کسی

مجموعے میں شامل نہیں تھے۔ ڈاکٹر خلیق انجم پہلے جلد کے شروع میں لکھتے ہیں۔

"غالب کے خطوط میں جن لوگوں ، کتابوں، اخباروں اور مختلف مقاموں

حواشی لکھے گئے ہیں کا ذکر آیا ہے، ان پر "جہان غالب" کے عنوان سے

غآلب کے خطوط میں جتنے بھی فارسی اور اردو اشعار یا مصرعے نقل ہوئے ہیں

ان کا اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے۔ مکتوب الیہ کے حاالت جہان غالب، کتابیات

(۳۵اشعار کا اشاریہ اور متن کا اشاریہ آخری جلد میں شامل کیے گئے ہیں۔ )

71

غالب کے اردو خطوط کا

تنقیدی جائزہ

72

غالب کے خطوط میں اس زمانے کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی علوم کی وضاحت بھی

ی میں لوگ کس طرح رہتے تھے۔ ان کے طور ملتی ہے اس صدی یعنی انیسویں صدی میں دل

طریقے اور آداب کیا تھے۔ ان کی پریشانیاں اور الجھنیں کس طرح کی تھیں۔ اس زمانے کے

و رواج کے ساتھ ساتھ پرانی روایات کا اثر معاشرے پر کس طرح چھانے لگا اور لوگ مرس

زندگی کے بارے میں کیا سوچتے تھے۔ ارد گرد کے ماحول نے انھیں کس طرح اپنا اسیر

لقات آپس میں کیسے کرلیا تھا۔ اس زمانے کے لوگوں کے مختلف طبقوں اور فرقوں کے تع

یات کیا تھا۔ شرفاء اور امراء کی زندگی کیوں وبال جان بن گئییدہ یا نظریہ حتھے۔ ان کا عق

تھی۔ اس زمانے کے درباروں نے زندگی کو کس طرح خراب کیا تھا۔ مغلوں حکمرانوں کی

کمزوریاں اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار نے کیا صورت پیدا کی تھی اور ساتھ ساتھ

ہے تھے۔ اس وقت کے سیاسی، معاشی رکر لوگ سیاسی تبدیلیوں کے اثرات کس طرح قبول

اور معاشرتی تبدیلیوں نے زندگی کو کن راہوں پر ال کھڑا کردیا تھا۔ وہ کونسے حاالت اور

افکار تھے جن نے زندگی کو نئے سانچوں میں ڈھال رہے تھے۔ اور وہ کونسی علمی، ادبی

۔ وہ کونسے ادبی مباحث اور سیاسی تحریک تھیں جن کا اثر زندگی اور معاشرت پر ہورہا تھا

تھیں جن کا ان دنوں چرچا تھا۔ ان تمام باتوں کا اثر اس وقت کا ماحول قبول کررہا تھا۔ اسی

طرح کے بہت سے مسائل ہیں جن کی صحیح تصویر غالب کے خطوط میں ملتی ہیں۔ جیسے

ؤالدین احمد خاں کے نام خط میں لکھتے ہیں۔غالب دلی کے بارے میں نواب عال

مھارے خط میں دوبارہ یہ کلمہ مرقوم دیکھا کہ دلی بڑا شہر ہے۔"کل ت

ہر قسم کے آدمی وہاں بہت ہوں گے۔ اے میری جان یہ وہ دلی

نہیں ہے جس میں تم پیدا ہوئے ہو وہ دلی نہیں ہے جس میں تم نے

نے علم تحصیل کیاہے۔ وہ دلی نہیں ہے۔ جس میں تم شعبان بیگ کی

نے آتے تھے وہ دلی نہیں جس میں سات برسحویلی میں مجھ سے پڑھ

کی عمر سے آتا جاتا ہوں، وہ دلی نہیں ہے جس میں اکیاون

برس سے مقیم ہوں۔ایک کیمپ ہے۔ مسلمان اہل حرفہ یا

73

حکام کے شاگرد پیشہ، باقی سراسر ہنود و معزول بادشاہ کے ذکور

(۳۶جو بقیۃ السیف ہیں وہ پانچ پانچ روپیہ مہینہ پاتے ہیں۔)

باقی خطوط کو چھوڑ کر اس ایک خط سے دلی کا بڑا نقشہ کھینچا ہے۔ اور بار بار نہیں کا

ذکر آیا ہے۔ یعنی دلی کے جو پہلے حاالت تھے اور اب کے اس کا موازنہ کررہا ہے۔

)سوانحی خاکہ اور تغزیتی خطوط(

کی شخصیت مرزا غالب کے خطوط کے موضوعات مختلف اور متنوع ہیں ان خطوط میں ان

سے متعلق عام باتیں موجود ہیں، ابتداء سے لیکر یعنی پیدائش کے وقت سے لے کر وفات تک

کے واقعات کا ان خطوط سے اندازہ ہوتا ہے۔ بچپن کے حاالت ہو تعلیم و تربیتہو، شادی اور

یں اس کے اثرات ہو احباب اور متعلقین، یا مالی الجھنیں اور پریشانیاں اور پھر اس سلسلے م

، یا قید تدور دراز کے عالقوں کا سفر ہو، پنشن اور اس کی ساری تفصیل ہو، دلی کے حاال

قعہ، غدر اور اس کے مفصل حاالت، ان تمام موضوعات پر ان خطوط غالب سے روشنی اکا و

پڑتی ہے۔ لیکن ان موضوعات کے ساتھ ساتھ صرف تفصیل ہی ان خطوط میں درج نہیں ہے۔

پر روشنی ڈالتے ہوئے، اپنے ذہنی رجحان اور افتاد طبع کو بھی سامنے بلکہ غالب نے ان سب

ں وہ ایک صائب رائے رکھتے ہیں اور اسی کا ہے۔ بلکہ غالب ہر چیز کے بارے می رکھا

اظہار ان خطوط سے ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ غالب کی شخصیت اور ان کا نظریہ حیات

رگوپال تفتہ کے نام اس خط میں پوری زندگی کا ان خطوط میں پوری طرح موجود ہے۔ مرزا ہ

نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں۔

عالم دو ہیں۔ ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب و گل، حاکم ان دونوں"سنو!

عالموں کا وہ ہے جو خود فرماتا ہے۔لمن الملک الیوم، اور پھر آپ ہی جواب

الواحد القھار ۔ ہر چند قاعدہ عالم یہ ہے کہ عالم آب و گل کے مجرمدیتا ہے، لل

اروح میں سزا پاتے ہیں۔ لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہگار کو دنیا

ھ میں روبکاری کے ۱۲۱۲میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھویں رجب

74

ھ۱۲۲۵ساتویں رجب واسطے بھیجا گیا۔ یعنی پیدا ہوں تیرہ برس حواالت میں رہا۔

کو میرے واسطے حکم دوام حبس )یعنی نکاح( صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں

میں ڈال دی اور دلی شہر کو زندان مقرر کیا اور مجھے اس زندان میں ڈال دیا۔

فکر نظم و نثر کو مشقت ٹہرایا۔ برسوں کے بعد میں جیل خانے سے بھا گا، تین

رہا۔ پایان کار مجھے کلکتہ سے پکڑ الئے۔ اور پھر اسی مجلسسال بالد شرقیہ میں پھرتا

میں بیٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے دو ہتھکڑیاں اور بڑھا دیں پاؤں

بیڑی سے فگار، ہاتھ ہتھکڑیوں سے زخم دار، مشقت مقرری اور مشکل ہوگئی۔

زنداں میںطاقت یک قلم زائل ہوگئی بےحیاہوں، سال گذشتہ بیڑی کو زاویہ

چھوڑا معہ دونوں ہتھکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ، مراد آبادہوتاہوا رام پور پہنچا۔

کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑا گیااب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا۔

بھاگوں کیا بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔ حکم رہائی دیکھئے کہ ایک صادر ہو؟

حتمال ہے۔کہ اس ماہ ذی الحجہ میں چھوٹ جاؤں۔ ہر تقدیر بعد رہائیایک ضعیف سا ا

کے تو آدمی سوائے اپنے گھر کے اور کہیں نہیں جاتا۔ میں بھی بعد نجات سیدھا عالم

(۳۷ارواحکو چال جاؤں گا۔")

غالب کے خطوط میں جو شوخی اور شگفتگی ہےیہ غالب ہی کا حصہ ہے۔ غالب کے خطوط

ور شگفتگی ہے یہ مزاح کو پیدا کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ غالب کے میں یہ جو شوخی ا

خطوط میں جو لطافت ہے یہ مزاح کی سب سے بڑی اور اہم خصوصیت ہے خطوط غالب میں

غالب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نازک سے نازک موقعوں پر خط لکھتے ہوئے بھی اپنے ہی

وصیت ہے کہ غالب کے یہ خطوط دل میں مخصوص رنگ کو برقرار رکھا ہے۔ اور یہی خص

گھر کر لیتے ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ ہنسے ہنسانے اور روح پر انداز دلوں میں

جوش اور ولولہ پیدا کرتا ہے۔ مرزا تفتہ کو لکھتے ہیں۔

75

"مہاراج!

آپ کامہربانی نام پہنچا، دل میرا اگر چہ خوش نہ ہوا لیکن ناخوش بھی نہ رہا۔

حال مجھ کو، کہ ناالئق و ذلیل ترین خالئق ہوں، اپنا دعا گو سمجھتے رہو،بہر

اپنا شیوہ ترک نہیں کیا جاتا۔ وہ روش ہندوستانی فارسی لکھنے والوں کی مجھ کو

نہیں آتی کہ بالکل بھاٹوں کی طرح بکنا شروع کریں۔ میرے قصیدے دیکھو،

(۳۸ثر میں بھی یہی حال ہے۔" )تشبیب کے شعر بہت پاؤ گے اور مدح کے شعر کم تر ن

اسی طرح کے خط لکھنا یہ صرف غالب کا کمال ہے کہ خط تو لکھ رہا ہوں لیکن خوش بھی

نہیں ہوں اور ناخوش بھی نہیں ہوں یہ غالب کا انداز بیان ہے کہ اپنے دوستوں سے کس طرح

ے فکر اور مخاطب ہے اور کس طرح اپنے دل کا حال خط کے ذریعے بیان کررہا ہے۔ غالب ک

خیال کی پرواز بہت بلندی پر ہے۔تخیالتی دنیا کو مستانہ وار طے کرنا غالب کا محبوب مشغلہ

ہے۔ لیکن غالب کے خطوط کا کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کو بہت قریب سے دیکھتے بھی تھے۔

اس اصل حقیقت کو معلوم کرنا اور اس کی گہرائیوں تک پہنچنا یہ غالب کی شخصیت کا جزو

ا۔ مرزا حاتم علی بیگ مہر کو ایک تعزیتی خط اس انداز میں لکھتے ہیں۔تھ

"مرزا صاحب ہم کو یہ باتیں پسند نہیں۔ پینسٹھ برس کی عمر ہے۔

پچاس برس عالم رنگ و بوکی سیر کی ابتدائے شباب میں ایک مرشد

کامل نے نصیحت کی کہ ہم کو زہد و درع منظور نہیں، ہم مانع فسق

پیو، کھاؤ، مزے اڑاؤ، مگر یہ یاد رہے کہ مصری کی مکھی وفجور نہیں،

بنو شہد کی مکھی نہ بنو۔ سو میرا اس نصیحت پر عمل رہا ہے کسی کے

مرنے کا غم کرے جو آپ نہ مرے، کیسی اشک افشانی، کہاں کی مرثیہ

خوانی، آزادی کا شکر بجا الؤ، غم نہ کھاؤ، اگر ایسے ہی اپنی گرفتاری سے

چتا جان نہ سہی منا جان سہی۔ میں جب بہثت کا تصور کرتاخوش ہو تو

76

ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر مغفرت ہوگئی اور ایک قومال اور ایک حور

ملی اقامت جاودانی ہے اور اسی ایک نیک نجت کے ساتھ زند گانی

ہے، اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے

ی۔ وہی زمردیں کاخ اور وہی طولی کی ایک شاخوہ حور اجیرن ہو جائے گ

(۳۹چشم بددور وہی ایک حور۔ بھائی ہوش میں آؤ کہیں اور دل لگاؤ" )

یہ خصوصیات غالب کے خطوط میں ہر جگہ نمایاں ہے ان میں جگہ جگہ پر ہمیں تخیل کی

ہے کہ وہ بڑی بڑی بلند پروازی نظر آتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ مشاہدہ بالکل حق پر

یہ گفتگو بادہ و ساغر کے بغیر نہیں کرسکتے تھے اور یہ ان کے خطوط کا خاصا ہے کہ وہ

اپنے خطوط میں تخیل کی اس بلند پروازی کے ذریعے وہ ہمیں زندگی کے بنیادی حقائق تک

پہنچاتے ہیں۔ لیکن ان حقائق کو وہ بادہ و ساغر کے شکل میں ہمیں پیش کرتے ہیں۔ مرزا حاتم

ی بیگ مہر کو ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔عل

"جناب مرزا صاحب! آپ کا غم افزا نامہ پہنچا، میں نے پڑھا۔ یوسف علی خاں

عزیز کو پڑھوایا۔ انھوں نے جو میرے سامنے اس مرحومہ کا اور آپ کا معاملہ

بیان کیا یعنی اس کی اطاعت اور تمھاری اس سے محبت، سخت مالل ہوا اور رنج

اور ۳اور فقراء میں حسن بصری ۲ا۔ سنو صاحب شعراء میں فردوسی کمال ہو

، یہ تین آدمی تین فن میں سہ دفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا ۴عشاق میں مجنون

کمال یہ ہے کہ فردوسی ہوجاوے۔ فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسن بصری سے ٹکر

لیلی اس کے کھائے۔ عاشق کہ نمود یہ ہے کہ مجنون کی ہم طرحی نصیب ہو۔

سامنے مری، بلکہ تم اس سے بڑھ کر ہوئے کہ لیلی اپنے گھر میں اور تمھاری

معشوقہ تمھارے گھر میں مری۔ بھئی مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں۔ جس

77

پر مرتے ہیں، اس کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی مغل بچہ ہوں۔ عمر بھر میں ایک

کو بخشے اور ہم تم دونوں کو بھی زخمکو میں نے بھی مار رکھا ہے۔ خدا ان دونوں

(۴۰دوست کھائے ہوئے مغفرت کرے" )

غالب کے خطوط کی یہ حصوصیت ہے کہ وہ ایک خط میں کئی چیزوں کی طرف ہمیں متوجہ

کرواتاہے یعنی اس خط میں جو مرزا حاتم علی بیگ مہر کو لکھا ہے جو کہ ایک تعزیتی خط

کرتے ہیں جو بہت بڑے شاعر فارسی زبان کے ہے لکھتے لکھتے فردوسی کی طرف اشارہ

گزرے ہیں اور جس فقیر کا ذکر کیا ہے وہحسن بصری ہے جو بہت بڑے ہللا کے ولی اور

بزرگ گزرےہیں اور عشق میں مجنون کی طرف اشارہ کیا ہے جو لیلی کی عشق میں آخری

کام بھی کرنا حد تک جاتے ہیں اس کاذکر کیا ہے غالب کے اس خط کا مطلب یہ ہے کہ جو

ہے اس میں آخری حد تک جانا چاہئے۔ مولوی منشی حبیب ہللا خاں المتخلص بہ ذکا کے نام اس

خط میں اپنی پورے خاندان کا نقشہ کچھ اس طرح کھنچتا ہے۔ لکھتے ہیں۔

ء بھائی میں قوم کا ترک سلجوقی ۱۷۴۷فروری ۱۵ھ ۱۲۷۳"صبح جمعہ دہم شوال

ہوں۔

ر سے شاد عالم کے وقت میں ہندوستان میں آیا۔ سلطنت ضعیف ہوگئیدادا میر ماورا النہ

تھی۔ صرف پچاس گھوڑے نقارہ نشان سے شاہ عالم کو نوکر ہوا۔ ایک پرگنہ میر حاصل

ذات کی تنخوا اور رسالے کی تنخوا میں پایا۔ بعد انتقال اس کے جو طوائف الملوک کا

بدہللا بیگ خان بہادر لکھنؤ جاکر نواب نظامہنگامہ گرم تھا۔ وہ عالقہ نہ رہا۔ باپ میرا ع

علی خان کو نوکر ہوا۔ تین سو سوار کی جمعیت سے الزم رہا۔ کئی برس وہاں رہا۔ وہ نوکری

ایک خانہ جنگی کے بکھیڑے میں جاتیرہی۔ والد نے گھبرا کر الور کا قصدہ کیا۔ راؤ راجہ

بختاور

۔ نصرہللا بیگ خان میرا چچا حقیقی مرہٹوں کی سنگھ کا نوکر ہوا وہاں کسی لڑائی میں مارا گیا

78

ء میں جرنیل لیک صاحب ۱۸۰۶طرف سے اکبر آباد کا صوبہ دار تھااس نے مجھے پاال

کا عمل

ہوا۔ صوبہ داری کمشنری ہوگئی اور صاحب کمشنر ایک انگریز مقرر ہوا۔ میرے چچا کو

جرنیل

ر کا بریگڈیر ہوا۔ ایک ہزار روپیہلیک صاحب نے سواروں کی بھرتی کا حکم دیا چار سو سوا

ذات کا، الکھ ڈیڑھ الکھ روپیہ سال کی جاگیر حسین حیات عالوہ سال بھر زبانی نے تھے۔

بمرگ ناگاہ مرگیا۔ رسالہ برطرف ہوگیا۔ ملک کے عوض نقدی مقرر ہوگئی۔ وہ اب تک

درخواست کی۔پاتا ہوں۔ پانچ برس کا جو باپ مرگیا۔ نواب گورنر جنرل سے ملنے کی

دفتر دیکھا گیا۔ میری ریاست کا حال معلوم کیا گیا۔ مالزمت ہوئی۔ سات پارچے اور

جیغہ سر پیچ ماالئے مروارید۔ یہ تین رقم کا خلعت مال۔ زاں بعد جب دلی میں دربار

(۴۱ہوا مجھ کو یہی خلعت ملتا رہا۔" )

ح سامنے رکھتا ابھی یہ واقعات غالب کا انداز بیان دیکھے کہ اپنے خاندان کا نقشہ اس طر

گزرتے ہیں یہ غالب کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ غالب کے خط لکھنے کا سٹائیل بھی عجب

ہے۔ اس زمانے کی ایک ایک بات سے ہمیں آگاۃ رکھتا ہے میں قوم کا ترک سلجوق ہوا اور

ت کی بھی میرے والد ایک لڑائی میں مرے اور میری کتنی عمر تھی اور بعد میں آنے والے وق

وضاحت کرتے ہیں۔ تعزیتی خطوط کے حوالے سے یوسف مرزا کے والد کی وفات پر لکھتے

ہیں۔

" یوسف مرزا کیوں کر تجھ کو لکھون کہ تیرا باپ مرگیا اور لکھوں بھی تو آگے کیا

لکھوں کہ اب کیا کرو، مگر صبر؟ یہ ایک شیوہ فرسودہ ابناء روزگار ہے۔

اور یہی کہا کرتے ہیں کہ صبر کرو ہائے تعزیت یوں ہی کیا کرتے ہیں

ایک کا کلیجہ کٹ گیا اور لوگ اسے کہتے ہیں کہ تو نہ تڑپ بھال کیو نکر

79

نہ تڑپے گا؟ صالح اس میں نہیں بتائی جاتی دعا کو دخل نہیں،

دوا کو لگاؤ نہیں، پہلے بیٹا مرا، پھر باپ مرا، مجھ سے اگر

کوئی پوچھے کہ بے سرو پا کس کو کہتے ہیں؟ تو میں کہوں گا یوسف

میرزا کو، تمھاری دادی لکھتی کہ رہائی کا حکم ہوچکا تھا۔ )قید فرنگ

سے بعداز غدر( یہ بات سچ ہے؟ اگر سچ ہے تو جوانمرد ایک بار

(۴۲دونوں قیدوں سے چھوٹ گیا۔ نہ قید حیات رہی، نہ قید فرنگ۔" )

کے اخالق و عادات، دوست احباب اور شاگرد: میرزا غالب

میرزا غالب کے اخالق و عاداتکے بارے میں سب سے زیادہ مستند رائے جو آدمی دے سکتا

ہے اور جس میں کسی بات کی گنجائش بھی نہیں وہ ہے۔ موالنا الطاف حسین حالی، موالنا

بارے میں لکھتے ہیں۔ الطاف حسین حالی یادگار غالب میں غالب کے اخالق اور عادات کے

"مرزا کے اخالق نہایت وسیع تھے۔ وہ ہر ایک شخص سے جوان سے ملنے جاتا تھا،

بہت کشادہ پیشانی سے ملتے تھے جو شخص ایک دفعہ ان سے مل آتا تھا اس

کو ہمیشہ ان سے ملنے کا اشتیاق رہتا تھا۔ دوستوں کو دیکھ کر وہ باغ باغ

خوش اور ان کے غم سے غمگین ہوتے تھے۔ ہوجاتے تھے اور ان کی خوشی سے

اس لیے ان کے دوست ہر ملت اور ہر مذہب کے نہ صرف دہلی میں بلکہ

تمام ہندوستان میں بے شمار تھے۔ جو خطوط انھوں نے اپنے دوستوں کو لکھے

ہیں ان کے ایک ایک حرف سے مہر و محبت و غمخواری و یگانگت ٹپکتی ہے۔

وہ اپنے ذمے فرض عین سمجھتے تھے۔ ان کا ہر ایک خط کا جواب لکھنا،

بہت سا وقت دوستوں کے خطوں کے جواب لکھنے میں صرف ہوتا تھا۔

بیماری اور تکلیف کی حالت میں بھی وہ خطوں کے جواب لکھنے سے باز نہ

80

آتے تھے۔ وہ دوستوں کی فرمایشوں سے کبھی تنگ دل نہ ہوتے تھے۔ غزلوں

ح کی فرمایش ان کے بعض خالص و مخلص دوستکی اصالح کے سوا اور طرح طر

کرتے تھے۔ اور وہ غالب ان کی تعمیل کرتے تھے۔ مروت اور لحاظ مرزا کی طبیعت

میں بہ درجہ غالیت تھا۔ اگر چہ مرزا کی آمدنی قیتل تھی مگر حوصلہ فراخ تھا۔

سائل ان کے دروازےسے خالی ہاتھ بہت کم جاتا تھا۔ ان کے مکان کے آگے

لنگڑے لولے اور اپاہج مرد و عورت ہر وقت پڑے رہتے تھے۔ غدر کے بعدان

کی آمدنی کچھ اوپر ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار ہوگئی تھی اور کھانے پینے کا خرچ بھی کچھ لمبا

چوڑا نہ تھا۔ مگر وہ غریبوں اور محتاجوں کی مدد اپنی بساط سے زیادہ کرتے تھے۔ اس لئے

(۴۳اکثر تنگ رہتے تھے۔" )

غالب کے ان خطوط سے پتہ چلتا ہے۔ کہ غالب کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح

ہے۔ کیونکہ ان خطوط سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ غالب اپنے دوستوں، شاگردوں کو خط کا

جواب ضرور دیتے تھے۔ اور کبھی اپنے دوستوں کی فرمایشوں وغیرہ سے تنگ آنے والے

ویا اس کی دولت اور صلہ کی خواہش تھی تو اپنی ذات کے لئے، لوگوں میں سے نہیں تھے۔ گ

اپنی آسائش کے لئے اور راحت و آرام کے لئے نہ تھی بلکہ غالب کی تو یہ آرزو تھی کہ وہ

اپنی جان تک اپنے دوستوں پر نچاور کرتے تھے۔غالب اپنے دوستوں کی خدمت کے لیے ہمہ

فتہ نے نواب مصطفے خان شفیتہ اور ساتھ ساتھ تن تیار رہتے تھے۔ اسی طرح منشی ہرگوپال ت

ضیاءالدین احمد خاں نیر کی تعریف میں قصیدے لکھے تھے مرزا غالب نے اس کا صلہ دلوایا

اس کے بارے میں وہ تفتہ کو لکھتے ہیں۔

"تم کو معلوم رہے کہ ایک ممدوح تمھارے آتے ہیں ان کو میں نے تمھارے

ء میں کچھ تمھاری خدمت میں بھیجیں۱۸۶۲ی فکر اور تالش کا مداح پایا۔ جنور

گے تم کو قبول کرنا ہوگا۔ سمجھے یہ کون؟ یعنی نواب مصطفی خاں صاحب، دوسرے

81

ء یا اوائل جنوری میں ۱۸۶۲ممدوح یعنی نواب ضیاءالدین احمد خاں، وہ آخر دسمبر

(۴۴حاضر ہوں گے۔" )

کی اپنی احباب اور قرابت داروں غالب کی پوری زندگی ان کی عکاسی کرتی ہیں کیونکہ ان

سے خلوص ان کی زندگی کا اثاثہ ہے۔ ان کی خطوط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے

تعلقات کن لوگوں سے تھے اور کس نوعیت کے تھے۔ کیونکہ ان کی پوری زندگی کا اثاثہ یہی

کا خطوط ہے اور ان سے ان کے معاشی اور معاشرتی زندگی کے حاالت اور رسم و رواج

صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ غالب کے ساتھ بچوں کے باوجود بھی کوئی

اس میں زندہ نہ رہا کیونکہ انھوں نے اپنی بیگم )امراؤ بیگم( کے ساتھ ذہنی بعد اور اوالد کو

زندہ نہ رہنے کے غم کو انھوں دوستوں احباب اور شاگردوں کے جمگھٹے میں گم کردیا دہلی

میں اپنے گھر میں رہنے والے دوستوں اور جوابات دینے اور انھیں خط لکھنا ان کی زندگی کا

معمول ہوگیا تھا۔ کیونکہ غالب کے شاگردوں اور دوستوں کا حلقہ احباب بہت وسیع اور پھیال

ہوا تھا جس میں ہر طبقہ، ہر مذہب اور ہر تہذیب کے لوگ شامل تھے۔ ان کے شاگردوں میں

اور ہندو دونوں شامل تھے۔ غالب کے دوستوں میں سکھ، انگریز بھی تھے، ان میں مسلمان

ہرگوپال تفتہ شیو نرائن آرام، جوہر سکھ جوہر، امید سنگھ، منشی نولکشور، ولیم فریزر

الیگزیڈرے ان لوگوں کے ساتھ غالب کے گہرے تعلقات تھے۔ غالب کی دوستی کی بنیاد مذہب،

لکہ ان کے تعلقات کا تعلق مراسم پر تھی انھوں نے اپنے خطوط میں رنگ و نسل پر نہیں تھی ب

دوستوں اور شاگردوں کی محفل سجائی ہوئی تھی۔ اپنی خطوط میں وہ اپنے دوستوں کے کالم

کی اصالح بھی کرتے تھے۔ اور انھیں دلی کے حاالت سے بھی با خبر رکھتے تھے۔ غالب

پال تفتہ کو بیٹا )یعنی فرزند( سمجھتے تھے۔ اور اپنے دوستوں اور شاگردوں میں منشی ہرگو

ان کے ساتھ دوستانہ انداز بھی بہت زیادہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ منشی تفتہ کو سمجھاتے بھی

ہیں اور ساتھ ساتھ ڈانٹتے اور پیار سے پکارتے بھی تھے۔ نواب عالئی خاں کے نام لکھتے

ہیں۔

تاریخ نکالنے میں عاجز ہوں،" میاں اس کو سب جانتے ہیں کہ میں مادہ

لوگوں کے مادے دیئے ہوئے نظم کردیتا ہوں اور جو مادہ اپنی طبیعت سے

82

پیدا کرتا ہوں وہ بیشتر لچر ہوا کرتا ہے۔چنانچہ اپنے بھائی کی رحلت کا مادہ دریع

دیوانہ نکاال۔ پھر اس میں سے آئینے کی عدد گھٹالے۔ تمام دوپہر اسی فکر میں رہا

ھا کہ مادہ ڈھونڈھا۔ تمھارے نکالے ہوئے دو لفظوں کو تاکا کیا کہ کسی طرحیہ نہ سمج

(۴۵سات اس پر بڑھاؤں۔" )

غالب عموما دیباچے، تقریظیں اور ساتھ ساتھ قطعہ تاریخ لکھنے سے بیزار تھے اور ان

بیزاری کا اظہار وہ اپنے خطوط میں جابجا کرتے تھے۔ کئی دیوان کے دیباچے بھی لکھے

تفتہ کے دیوان کا دیباچہ غالب نے مرزا تفتہ کے کہنے پر لکھا لیکن اس دیباچے سے جیسے

مرزا تفتہ جیسے مطمئین نہ تھے کیونکہ غالب سمجھتے تھے کہ شاید مرزا تفتہ اس دیوان کے

دیباچے میں اپنی تعریف اور بڑھائی زیادہ چاہتے تھے۔ لیکن غالب کے خط میں انھیں

اور سمجھانے کا انداز کچھ یوں ہے۔ مرزا تفتہ کو لکھتے ہیں۔سمجھانے کی کوشش کی ہے

"مہا راج آپ کا مہربانی نامہ پہنچا، دل میرا اگر چہ خوش نہ ہوا لیکن ناخوش بھی

نہ رہا، بہ ہر حال مجھ کو، کہ ناالئق و ذلیل ترین خالئق ہوں اپنا دعا گو سمجھتے

روش ہندوستانی فارسی لکھنے والوںرہو۔ کیا کروں، اپنا شیوہ ترک نہیں کیا جاتا وہ

کی مجھ کو نہیں آتی کہ بالکل بھاٹوں کی طرح بھکنا شروع کریں۔ میرے قصیدے

دیکھو تشبیب کے شعر بہت پاؤ گے اور مدح کے شعر کم نثر میں بھی یہی حال ہے۔

ے خان کے تذکرے کی تقریظ کو مالحظہ کرو کہ ان کی مدح کتنی ہے۔ نواب مصطف

الدین بہادر حیا تخلص کے یو ان کے دیباچے کو دیکھو، وہ جو تقریظ دیوانمرزا رحیم

حافظ کی، بہ موجب فرمائش جان جا کوب بہادر کے لکھی ہے، اس کو دیکھو کہ فقط

ایک بیت میں ان کا نام اور ان کی مدح آئی ہے اور باقی ساری نثر میں کچھ اور ہی

یا امیرزادے کے دیوان کا دیباچہ لکھتا مطالب ہیں۔ وہللا باہلل، اگر کسی شہزادے

تو اس کی اتنی مدح نہ کرتا جتنی تمہاری مدح کی ہے، ہم اور ہماری روشن کو اگر

83

(۱۱پہچانتے تو اتنی مدح کو بہت جانتے۔" )

اسی انداز میں حقیر کے نام اس طرح بیان کرتے ہیں۔ کہ مرزا تفتہ ،جھ سے ناراض ہے وہ

دیباچہ لکھوانے پر بضد ہیں۔ اور وہ انکار کرینگے اور وجہ یہ بیان اس لیے کہ اپنے دیوان کا

کی کہ بھائی تم ہر سال ایک دیوان لکھو گے اور میں کہاں تک دیباچہ لکھا کروں اسی بات کو

غالب نے حقیر کے نام خط میں اس طرح لکھا ہے۔

کا صلہ"ایک بار ان کی خاطر کردی اور ایک دیباچہ لکھ دیا۔ سو اس بار بھی اس

مجھ کو یہ مال تھا کہ آپ ناخوش ہوگئے تھے۔اور مجھ کو لکھا تھا کہ تو نے میری

ہجو میلح کی ہے۔ جب میں نے لکھا کہ بھائی تم میرے مقابل نہیں، میرے

معارض نہیں، میرے یار ہو، شاگرد کہالتے ہو، لعنت اس یار پر کہ یار کی ہجو

ہ اپنے شاگرد پر چشمک کرے اور اس کیملیح لکھے اور ہزار لعنت اس استاد پر ک

(۱۲ہجو ملیح لکھے تب کچھ شرمندہ ہوکر چپ ہو رہے تھے۔" )

آگے اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہوئے دیباچہ کے حوالے سے بنی بخش حقیر کو

لکھتے ہیں۔

"لوصاحب' اور تماشہ سنو آپ مجھ کو سمجھاتے ہیں کہ تفتہ کو آزردہ نہ کرو

ط کے نہ آنے سے ڈرا تھا کہ کہیں مجھ سے آزردہ نہ ہوں۔میں تو ان کے خ

بارے جب تم کو لکھا اور تم نے بہ آئین مناسب ان کو اطالع دی تو انھوں

نے مجھ کو خط لکھا۔ چنانچہ برسوں میں نے اس خط کا جواب بھیج دیا' تمھاری

عنایت سے' وہ جو ایک اندیشہ تھا رفع ہو گیا۔ خاطر میری جمع ہوگئی۔

اب کون سا قصہ باقی رہا کہ جس کے واسطے آپ ان کی سفارش کرتے

ہیں۔ وہللا تفتہ کو میں اپنے فرزند کی جگہ سمجھتا ہوں اور مجھ کو ناز ہے کہ

84

خدا نے مجھے کو ایسا قابل فرزند عطا کیا ہے' رہا دیباچہ ' تم کو میری خبر ہی نہیں

میں اپنی جان سے مرتا ہوں۔

جیوڑا نکلگیا ہو جب اپنا ہی

کہاں کی رباعی،کہاں کی غزل

یقین ہے کہ وہ اور آپ میرا عذر قبول کریں اور مجھ کو معاف رکھیں

خدا نے مجھے پر روزہ نماز معاف کردیا ہے کیا تم اور تفتہ ایک دیباچہ

(۱۳معاف نہ کروگے۔" )

غالب سے زیادہ یہ تھا غالب کا انداز بیاں کسی بات کو مزاح میں کس طرح ٹالتے تھے یہ بات

کون جانتا تھا۔ اس کے عالوہ غالب کی یہ عادت تھی کہ جو بھی گفتگو کرتے تھے اور کسی

موضوع کے حوالے سے بات کرتے تھے وہ ان موضوعات پر اپنے دوستوں سے مشترکہ

گفتگو کے عادی تھے اور انہی کے ذریعے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے تھے اس لیے ان

ر امور پر بات کرتے ہیں غالب خود بھی مراسلت سے محفوظ ہوتے ہیں مشترکہ دلچسپیوں او

اور اس انداز تحریر کو پسند بھی کرتے ہیں غالب کی اس مراسلت و مکالیت کو شگفتہ انداز

میں منشی بنی بخش حقیر کے نام ایک خط میں یوں لکھتے ہیں۔

مرزا تفتہ میں "بھائی مجھ کو اس مصیبت میں کیا ہنسی آتی ہے کہ یہ ہم تم اور

مرسلت گویا مکالمت ہوگئی ہے۔ روز باتیں کرتے ہیں۔ہللا ہللا یہ دن بھی یاد

رہیں گے۔ خط سے خط لکھے گئے ہیں۔ مجھ کو اکثر اوقات لفافے بنانے میں

گزرتے ہیں۔ اگر خط نہ لکھوں گا تو لفافے بناؤں گا غنیمت ہے کہ محصول

(۱۴لوم ہوتا۔" )آدھ آنہ ہے ورنہ باتیں بنانے کا مزا مع

خط کو ویسے آدھی مالقات کہا جاتا ہے لیکن غالب کی بات اور تھی کیونکہ غالب کی زندگی

میں ان کے دوستوں کی اس قدر اہمیت اور قدر تھی کہ ان کے دوست کے خط آنے پر یہ گمان

85

ہوتا تھا کہ وہ شخص جسے خود آیا ہے۔ غالب کا سارا دن خطوں کے پڑھنے اور ان کے

ات میں صرف ہو جایا کرتاتھا۔ اور اس پر خوش بھی تھے۔ کیونکہ اس طرح بھی اچھی جواب

طرح گزر جاتا اور دوستوں سے بھی با خبر رہتے تھے اس کے ساتھ ساتھ ان خطوں کی ایک

بڑی حوبی یہ بھی ہےکہ وہ اپنے دوستوں کے اس قدر اور اہمیت کے باوجود غالب ان کی

محصوص انداز میں کرتے تھے۔ )مجموعی سنبلستان( یہ تفتہ خامیوں کی نشاندہی بھی اپنے

کے قصائد پر لکھی ہوئی کتاب ہے اس کی اشاعت کے حق میں غالب نہ تھے۔ تو غالب ان کو

اپنے انداز میں باز رہنے کا مشورہ اس طرح دیتے ہیں اس کے لیے اپنی اور عرفی کی مثال

نہیں یعنی محالفت نہیں کی لیکن باز رہنے بھی پیش کرتے ہیں منع کرنے کا انداز بھی واضح

کا مشورہ ضرور دیتے ہیں۔ مرزا تفتہ کو لکھتے ہیں۔

"میں تو یہ کہتا ہوں کہ عرفی کے قصائد کی شہرت سے عرفی کےکیا ہاتھ آیا۔

جو میرے قصائد کے اشتہار سے مجھ کو نفع ہو گا؟سعدی نے"بوستان" سے

گے؟ہللا کے سوا جو کچھ ہے موہومکیا پھل پایا؟جو تم "سسلبستان" سے پاو

و معدوم ہے۔نہ سخن ہے،نہ سخن ور ہے،نہ قصیدہ ہے،نہ قصد ہے۔ال مو

(۱۴جود اال ہللا")

آگے ایک اور خط میں ان قصائد کے بارے میں غالب نے لکھا ہے تفتہ نے غالب کی بات نہیں

د دل ہوئے اوراس مانی اور سسنبلستان شائع کیا تھا جس کے معیار اشاعت سے غالب خاصے ب

کا بر مال اظہار بھی کیا۔لکھتے ہیں۔

" تم نے روپیہ بھی کھویا اور اپنی فکر کو اور میری اصالح کو بھی ڈبویا۔ہائے کیا بری کاپی

ہے

اپنے اشعار کی اور اس کی کاپی کی مثال جب تم پر کھلتی کہ تم یہاں ہوتے اور بیگمات قلعہ

دو ہفتہ کی سی اور کپڑے میلے ،پائچے لیر لیر،جوتی کو چلتے پھرتے دیکھتے ! صورت ماہ

ٹوٹی۔

86

(۱۵یہ مبالغہ نہیں بلکہ بے تکلف"سسنبلستان"یک معشوق خوبرو ہے۔بد لباس ہے")

دلی کی حاالت ہو یا کوئی اور واقعہ ہو سب سے ذیادہ سہارا یہ خطوط ہی تھے ان خطوط کے

الت سے بخوبی با خبر رہتے ذریعے وہ اپنے دوستوں اور شاگردوں اور اردگرد کے حا

تھے۔غالب کی ایک خصوصیت یہ بھی تھا کہ خوشامد کرناان کا شیوہ نہیں ہے اور ساتھ

جھوٹ بولنے کے عادی بھی نہیں تھے لیکن اس کے باوجود بھی کچھ اصحاب ایسے ہوتے

ہیں جو حقیقتا تعریف کے قابل ہوتے ہیں ان میں سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں۔یہ اقتباس

انھوں نے مولوی نعمان احمد کو لکھا ہیں۔

فقیر میں جہاں اور عیب ہیں، ایک یہ کبھی کھبی عیب ہے کہ جھوٹ نہیں بولتا۔حکام

سے بہ سبب ریاست خاندانی کے عالقے کے اکثر مالقات رہتی ہے اور معامالت بھی

کیوں آ پڑتے ہیں۔کبھی خوشامد نہیں کی۔بھال حضرت کیوں بولتا اور آپ کی خوشامد

(۱۷کرتا")

اس کے عالوہ کئی ایک حوالوں سے انھوں نے اپنے دوستوں اور شاگردوں کو جو خطوط

ا اقتباس نقل کرتے ہیں۔ لکھے ہیں ان کی محتصر

تفتہ کو لکھتے ہیں۔

"یہ نہ سمجھا کرو کہ اگلے جو لکھ گئے ہیں، وہ حق ہے۔ کیا آگے آدمی احمق

مانہ" کو میں پاگل ہوں جو غلط کہوں گا؟پیدا نہیں ہوتے تھے؟ "زمان" و "ز

(۱۸ہزار جگہ میں نے نظم و نثر میں "زمان و زمانہ" لکھا ہے۔" )

ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

"دیکھ پھر تم دنگا کرتے ہو، وہی، بیش و بیشتر، کا قصہ نکال۔ غلطی میں جمہور کی پیروی

(۱۹کیا فرض ہے۔" )

87

نہ کرنے اور مانے اور مستند اساتذہ کی پیروی و آگے غلط اور فرسودہ روایتوں کی پیروی

تقلید کرنے کا مشورہ کچھ یوں دیتے ہیں یہ خط سید غالم حسین قدر بلگرامی کے نام لکھتے

ہیں۔

"صاحب بندہ! تحریر میں اساتذہ کا تبتع کر، نہ مغل کے لہجے کا لہجے کا تبتع بھانڈوں

(۲۰لید کو میرا سالم " )کا کام ہے، نہ دبیروں اور شاعروں کا، ایسی تق

سیاسی، سماجی و معاشرتی اور عدر کے حاالت:۔

جس زمانے میں غالب نے آنکھ کھولی وہ زمانہ ویسے بھی مسلمانوں کے انحطاط و زوال کا

زمانہ تھا۔ مغلوں کی حکومت کے آخری دن گنے جارہے تھے۔ کیونکہ اور نگ زیب عالمگیر

نگاموں سے دو چار ہوئی۔ اس نے اپنی حکومت کو ایک کی وفات کے بعد سلطنت میں سیاسی ہ

ساتھ جوڑنے کی بہت زیادہ کوشش ناکام ہوئی۔ اس کے بعد کئی لوگوں نے ہندوستان پر

حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگے لیکن سب کے سب ناکام ان حکومتوں میں مرہٹے،

تین چوتھائی سکھ اور انگریز خاص طور پر پیش پیش رہے ہندوستان کی تاریخ میں ت قریبا

صدی کا زمانہ ہنگاموں کی نظر ہے لیکن ان سب کے باوجود غالب نے جس زمانے میں پیدا

ہوئے تو اپنے ارد گرد کے صورت حال کو لڑائی جھگڑوں سے دو چار دیکھا۔ یہ شاہ عالم کا

گرہ زمانہ تھا۔ اس کے بعد کئی ایک لڑائی ہوئی غالب کی پیدائش جس زمانے میں اس وقت آ

اور دلی پر انگریز کی حکمرانی تھی۔ بعد میں آہستہ آہستہ مسلمانوں کی حکومتوں کمزور ہوتی

ہوئی آخر میں میں محمد سراج الدین ظفر بہادر شاہ آخری سائنس لے رہے تھے۔ مغلوں کے

آخری دور کے یہ سیاسی حاالت اس ماحول کو پوری طرح پیش کر دیتے ہیں جو غالب کے

جود تھا اور جس میں غالب نے اپنی زندگی بسر کی تھی۔ سیاسی انتشار کے زمانے میں مو

حوالے سے ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں۔

"یہ سیاسی ماحول تھا جس کے سائے میں غالب نے آنکھ کھولی۔ ان میں سے بغض

واقعات تو ان سے قبل ہوچکے تھے۔ لیکن ان واقعات نے ان کے ماحول پر جو اثر

(۲۱کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے ضرور دیکھا۔" ) کیا تھا۔ اس

88

دلی کی تباہی ہو یا کوئی اور وقعہ ہو اس پر غالب نے بال تامل لکھا اور خوب لکھا جو اس

وقت کے لوگوں پر جو ظلم و ستم ہورہے تھے ان کا اظہار غالب نے دشنبو میں کیا ہے ان

ان کے جو اردو مکاتیب ہے ان کا ہر گوشہ سختیوں اور شدتوں کا ذکر کیا ہے۔ اور حصوصا

ماتم کے آنسوؤں سے نظر آتا ہے خواہ ذاتی حاالت ہو یا مالی پریشانیاں ہوں غالب کے درد مند

دل نے ان موضوع کو الفاظ و حروف کا ماتمی لباس پہنانے پر زیادہ توجہ دی ہے خواہ وہ دلی

ستقل موضوع ہی غدر ہے۔ شروع میں کی تباہی ہو دہلی کا مرثیہ بھی لکھا غالب کا رسالہ م

ضروری ہے کہ غالب اپنے گھر میں زیادہ تر رہتے تھے۔ وہ تمام حوادث اپنے آنکھوں سے

نہیں دیکھے بلکہ جو کچھ سن لیتے تھے اسے لکھ لیتے تھے کیونکہ غالب کو خط

ی وہ لکھنےوالے بھی معتبر لوگ ہوسکتے ہیں۔ دلی میں جو اس وقت ناقابل بیاں مصیبتیں تھ

بے حد درد انگیز ہوگی اس کا ذکر حکیم غالم نجف خاں کو اس طرح لکھتے ہیں اور غالبا

غدر کے حوالے سے اردو میں یہ پہلی تحریر ہے۔

"میاں حقیقت حال اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اب تک جیتا ہوں۔ بھاگ نہیں گیا۔

گیا۔ معرض باز پرس میں نکاال نہیں گیا۔ لٹا نہیں۔ کسی محکمہ میں اب تک بالیا نہیں

(۲۲نہیں آیا۔ آیندہ دیکھے کیا ہوتا ہے" )

حکیم غالم نجف خاں کو ایک اور جگہ اپپنے انداز میں لکھتے ہیں۔

"انصاف کرو لکھوتو کیا لکھو۔ کچھ لکھ سکتا ہوں یا لکھنے کے قابل ہے؟ تم نے جو مجھ کو

لکھا تو

کیا لکھا۔اور اب میں جو لکھتا ہوں تو کیا لکھتا ہوں پس اتنا ہی ہے کہ اب تک تم ہم جیتے ہیں

(۲۳زیادہ اس سے نہ تم لکھو گے نہ میں لکھوں گا" )

شاعرحضرات ویسے بھی بڑے حساس ہوتے ہیں اور پھر غالب جیسے آدمی کی بات ہی تو

س سے تو عام لوگ بھی بہت ء کے حاالت سے صرف غالب نہیں بلکہا۱۸۵۷اور ہے۔

زیادہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے کیونکہ دلی اس سے پہلے اس زمانے میں تہذیب و ثقافت

کا بڑا مرکز تھا اور اس میں بڑے قابل اور الئق لوگ جمع تھے۔ اور اس وقت دلی کے

89

ل قلعے کے بادشاہوں کو خود تہذیبی اور ثقافتی معامالت میں دلچسپی تھی اور یہی وجہ ہے ال

باہر بڑے بڑے مفکر، عالم شاعر اور ادیب تھے۔ اسی وجہ سے دلی کی بربادی پر ہر کوئی

ماتم نوحہ کی پرستان اور دل برداشتہ تھا۔ دلی کے حوالے سے غالب پہلے شحص ہے جنہوں

نے اپنی خطوں کے ذریعے دلی کے حاالت کا پورا مرقع پیش کیا کیونکہ اس انقالب کا جو اثر

لب کے دل پر تھا۔ غدر کے اس انقالب کے بارے میں ہرگوپا تفتہ کو لکھتے ہیں۔غا

"صاحب تم جانتے ہو کہ یہ معاملہ ہے۔ اور کیا واقعہ ہوا؟ وہ ایک جنم تھا جس میں

ہم تم باہم دوست تھے اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معامالت مہر و محبت درپیش

نے میں ایک بزرگ تھے۔ اور آئے۔ شعر کے دیوان جمع کئے۔ اس زما

ہمارے تمھارے ولی دوست تھے منشی بنی بخش ان کا نام اور حقیر ان کا تخلص نہ

وہ زمانہ رہا نہ وہ اشخاص نہ وہ معامالت نہ وہ اختالط نہ وہ انسباط بعد چند مدت کے پھر

ی دوسراجنم ہم کو مال۔ اگر چہ صورت اس جنم کی بعینہ مثل پہلے جنم کے ہے۔ یعن

ایک خط میں نے منشی صاحب کو بھیجا اس کا جواب آیا۔ ایک خط تمھارا کہ تم بھی

موسوم بہ منشی ہرگوپال و متخلص بہ تفتہ ہو اور میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کا

نام دلی اورا س محلے کا نام بلی ماراں کا محلہ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں

(۲۴سے نہیں پایا جاتا۔" )

الب کے خطوط میں ذاتی حاالت کے عالوہ اپنے ماحول، معاشرتی حاالت، اور دہلی کے شب غ

و روز اور غدر کے سبب اہل دہلی کی تباہی و بربادی اور مسلمانوں کی بے بسی اور بے

چارگی سرکار انگریز کا انتظام و وانصرام اور جبر و زیادتی عرض یہ کہ وہ تمام حاالت و

رد گرد پھیلے ہوئے تھے۔ انہیں پوری تفصیل کے ساتھ اپنے خطوط میں واقعات جو ان کے ا

سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ ان کے خطوط کے مطالعہ سے اس زمانے کی تاریخ و معاشرت پر

روشنی پڑتی ہے اور غالب جس ماحول میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس کی تصویر آنکھوں

یسا سانحہ تھا کہ کوئی دلی واال اس کی کے سامنے پھر جاتی ہے اور غدر کا سانحہ ایک ا

90

دستبردار اثرات سے محفوظ نہ رہا ان حاالت کے بارے میں حکیم غالم نجف خاں کو اپنے

بارے میں لکھتے ہیں۔

"تمھارا رقعہ پہنچا! جو دم ہے غنیمت ہے۔ اس وقت تک مع عیال و اطفال جیتا ہوں۔

ھ میں لیے پر چی بہت لکھنے کو چاہتابعد گھڑی بھر کےکیا ہو کچھ معلوم نہیں، قلم ہات

(۲۵ہے مگر کچھ نہیں لکھ سکتا۔ اگر مل بیٹھا قسمت میں ہے تو کہ لیں گے۔")

دلی کا انقالب ایسا تھا۔ جس نے دلی اور اہل دلی کی دنیا کو زیر و زبر کر ڈاال، دلی میں کوئی

اجتماعی زندگی کا کوئی شبہ ہو شبہ ایسا نہیں تھا جو متاثر نہ ہوا ہوں خواہ وہ انفرادی ہو یا

اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا جب آپ کے آنکھوں کے سامنے سب لٹ رہا ہوں یعنی

جان و مال اور عزت و آبرو کا نیالم عام ہورہا ہو تو ایسے میں کون ہوسکتا ہے جس کا دل قابو

ے پڑھ کر دل میں ہو۔ اس طرح کے نوحہ خوانی غالب کے خطوط میں ہمیں ،ملتی ہیں جیس

خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔

ایک خط میں شہر کی ویرانی کا نوحہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں یہ خط منشی ہر گوپال تفتہ

کے نام لکھا ہوا ہیں۔

"جہاں بڑے بڑے جاگیردار بالئے یا ہوئے یا پکڑے ہوئے آئے ہیں، میری

دروازے سے باہر نکلکیا حقیقت تھی۔ غرض کہ اپنے مکان میں بیٹھا ہوں،

نہیں سکتا، سوار ہونا اور کہیں جانا تو بہت بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس

آؤے ، شہر میں ہے کون جو آوے ، گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست

پاتے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست یا )مارشل الء( یا زدہم مئی سے آج تک، یعنی شنبہ پنجم

ء تک بہ دستور ہے۔ کچھ نیک و بد کا حال مجھ کو نہیں معلوم بلکہ ہنوز ۱۸۵۷ر دسمب

ایسے امور

(۲۶کی طرف حکام کو توجہ بھی نہیں، دیکھے انجام کار کیا ہوتا ہے" )

91

ء کے انقالب اور اس کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا خواہ اس کا تعلق ۱۸۵۷

ے والے اور حساس لوگ تھے ان باتوں اور کاموں کا کسی بھی طبقے سے ہوں لیکن جو لکھن

ان کے دل پر بہت زیادہ اثرات ثبت ہوئےویسے بھی ہندوستانی قوم کا خاتمہ بہ حیثیت قوم

ء کے ہنگامے سے پہلے ہوچکا تھا لیکن شعراء اور اہل سیاست دونوں نے اسے ۱۸۵۷

یکن اس کے ساتھ ساتھ محسوس کیا شعراء نے اسے مختلف طریقوں پر اس کا نوحہ لکھا ل

مرزا غالب کا احساس زیادہ گہرا تھا اور انھوں نے سب سے زیادہ ان چیزوں کو محسوس کیا

اور اپنے پر درد پیرا یہ میں ان ہنگاموں کا بر مال اظہار کیا۔تحقیق غالب میں ڈاکٹر سید معین

ن ان ہنگاموں کے حوالے سے رقمطراز ہیں۔ الرحم

دلی اور نواح دلی پر جو آفتیں ٹوٹیں، انھوں نے ہزار ہا بندگانء کے بعد ۱۸۵۷"ہنگامہ

خدا کو بے خانماں اور تباہ کردیا۔ شہزادے اور شہزادیاں جنگلوں میں مارے مارے پھرتے

تھے دلی اجڑ گئی اور شرفاء کے مکان ویران و برباد کر دئے گئے ان واقعات کو مرزا غالب

(۲۷بچشم خود لکھا تھا۔" )

یرانی کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں یہ خط بھی تفتہ کے نام لکھا ہے۔ شہر کی و

لکھتے ہیں۔

"مبالغہ نہ جاننا، امیر غریب سب نکل گئے جو رہ گئے تھے وہ نکالے گئے۔ جاگیر دار،

پنشن دار اور دولت مند اہل حرفہ کوئی بھی نہیں ہے۔ مفصل حال لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں۔

ر شدت ہے اور بار پرس اور دارو گیر میں مبتال ہیں۔ مگر وہ نوکر جو اس مالزمان قلعہ پ

ہنگام

میں نوکر ہوئے اور ہنگامے میں شریک ہورہے ہیں میں غریب شاعر دس برس تاریخ

لکھنے اور شعر کے اصالح دینے پر متعلق ہوا ہوں خؤا ہی اس کو نوکری سمجھو، خواہی

(۲۸مزدوری جانو۔" )

92

سے آگے ایک اور جگہ چودھری عبدالغفور خان سرور مارہروی کو لکھتے غدر کے حوالے

ہیں۔

"میں مع زن و فرزند ہر وقت اسی شہر میں ملزم خون کا شناور رہا ہوں

دروازے سے باہر قدم نہیں رکھا۔ نہ پکڑا گیا، نہ قید ہوا، نہ مارا گیا کیا

عرض کروں میرے خدا نے مجھے پر کیسی عنایت کی اور کیا نفس مطمئینہ

(۲۹بخشا، مال و آبرو میں کوئی فرق نہیں آیا" )

ء کے ہنگاموں کے حوالے سے پروفیسر نذیر احمد غالب کے ۱۸۵۷قتل و غارتگری اور

متعلق لکھتے ہیں۔

اب اور قدرء تک مرزا غالب نے اپنے احب۱۹۶۲ء سے کم و بیش ۱۸۵۷" مئی

ء کے ہنگامے کی۱۸۵۷شناسوں کو جو بے شمار خطوط لکھے ان کاموضوع اور مرکز

ہمہ جہت تباہ کاریاں، قتل و غارتگری اور جان و مال کا اتالف تھا۔ وہ خطوط

اس ملزم خوں کے شناور رہے تھے۔ اس لیے ان کے اکثر خطوں میں اس المیہ

ا ہے اگر چہ بعد کے خطوں میں کہیں کہیں پر نوحہ خوانی کا انداز غالب نظر آت

یہ احساس بھی جھلکتا ہے کہ اس مادی، تہذیبی اور انسانی تباہ کاری کے پہلو سے ایک

(۳۰نیا نظام حیات جنم لے رہا ہے جو زیادہ جمہوی اور منصفانہ ہے" )

خاالت غدر اور کتاب دشنبو کے بارے میں موالنا الطاف حسین حالی لکھتے ہیں۔

کے زمانے میں مرزا دلی سے بلکہ گھر سے باہر نہیں نکلے۔ جو ہی بغاوت "غدر

کا فتنہ اٹھا، انھوں نے دروازہ بند کرلیا اور گوشہ تنہائی میں غدر کے حاالت لکھنے

(۳۱شروع کیے۔" )

93

ڈاکٹر عبادت بریلوی غالب کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی ماحول کے بارے میں لکھتے

ہیں۔

طوط سے اس زمانے کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی ماحول کی بھی "غالب کے ان خ

وضاحت

ہوتی ہے۔ انیسویں صدی کی دلی میں لوگ کس طرح رہتے تھے؟ ان کے آداب

اور طور طریقے کیا تھے؟ ان کی الجھنیں اور پریشانیاں کس قسم کی تھیں؟ پرانی

(۳۲روایات کا اثر معاشرت پر کس طرح چھانے لگا تھا۔ )

غالب کے خطوط میں ادبی اور شعر و فن کی

علمبرداری:۔

اردو نثر میں دکن اور فورٹ ولیم کالج کے نمونوں نے اگر چہ ادبی سفر کا آغاز کیا تھا۔ لیکن

منزل کا صحیح نشان اور راہ منزل کا تعین مرزا غالب نے اپنے خطوط کے ذریعے کیا اگر

ردو نثر نگاری میں سب سے دلکش اور الزاوال دیکھا جائے تو یہ بالکل صحیح ہوگا۔ کہ ا

نمونہ اور نقش غالب کے خطوط ہیں۔ غالب نے اپنے خطوط سے اردو نثر کے لیے پہلے پہل

اس فضا کا انکشاف کیا جس میں بعد کے آنے والوں نے زبان اور ادب کے ایسے حیرت انگیز

ھا۔ غالب ہی وہ نقش گہرا کرشمے دکھائے جن کا اس سے پہلے بہ مشکل تصور کیا جا سکتا ت

دل تھا۔ جس کے خطوط کی متعین کردہ شاہراہ پر سرسید اور ان کے رفقاء کار نے عزم سفر

کیا۔ اور ان کی علمی، ادبی اور مقصدی سرگرمیوں کے طفیل اردو نثر کو ایسی وقعت، وسعت

نثر کے اور شہرت حاصل ہوئی جو دنیا کی دوسری ترقی یافتہ زبانوں کو حاصل ہے۔ اردو

ارتقاء میں غالب کا جو حصہ اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے اگر مرزا نے آج سے سوا سو

سال پہلے سادہ اور بے تکلف انداز تحریر اختیار نہ کیا ہوتا تو شاید اس وقت ہماری زبان میں

اسی طرح کی عبارت آرائی کی جاتی اور ہم اسی طرح قوافی کی تالش میں سرگرداں نظر

طرح فارسی نثر کے تبتع میں ہم ابتدائی دور میں کررہے تھے، غالب نے اپنے ملکہ آتے جس

انشاء پردازی سے سادہ زبان میں بے تکلفی، جدت، شیرینی، لطافت اور ظرافت کا رس بھر

94

کر اپنے انداز تحریر کو بے حد دلکش اور سہل ممتنع بنادیا اور اپنی شخصیت اور طبیعت کی

و کام میں الکر اپنے انداز بیان کو وہ تابندگی اور زبان کو تازگی شگفتگی اور زور قلم ک

بخشیجس کے سامنے بڑے بڑے انشاء پردازوں کی نگارشات ماند اور پھیکی پڑ گئیں کسی کی

ذہن میں بات کو بیٹھانا یہ فن غالب کے عالوہ کون جانتا خود بھی غالب جو بات کرتے صاف

تھے اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے۔ اسی اور سادہ الفاظ میں کہنے کے عادی

طرح کی ایک مرزا حاتم علی بیگ مہر کو لکھتے ہیں۔

"بھائی میرے سر کی قسم، اس خط کا جواب ضرور لکھنا اور ایسا واضح

(۳۳لکھنا کہ مجھ ساکن ذہن اچھی طرح اس کو سمجھ لے" )

بڑے بڑے نثار پیدا ہوئے اور اب مرزا غالب کے بعد ان کی دکھائی ہوئی راستوں پر چل کر

اردو زبان کہیں کی کہیں پہنچ گئی۔ لیکن غالب کے مقام و مرتبہ کو کوئی نہ پہنچ سکا اور اس

کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے بڑے ادیبوں کو بھی غالب کی عظمت فن،

مائی سے کسی کو بھی بلندیفکر، ندرت اسلوب، اور دلکشی ادا کا اعتراف ہے اور غالب کی رہن

انکار نہیں غالب کی اس ادبی نثر نگاری کے حوالے سے ، ڈاکٹر غالم حسین ذوالفقار محاسن

خطوط غالب میں لکھتے ہیں۔

"غالب نے اردو نثر نگاری اس وقت شروع کی تھی جب ان کی ادبی شخصیت اوج کمال

نھی ہوئی ادبی شخصیتتک پہنچ چکی تھی۔ اس لیے اس سادا مطلب نویسی میں بھی ان کی م

آخر پرکاری کا ایک انداز نکال لیتی ہے۔ اور پھروہ اس سادا پرکار انداز میں بڑی دلچسپی

لینے لگتے

(۳۴ہیں" )

غالب کو قدرت نے صرف شعر و ادب کے لیے پیدا کیا تھا۔ اور وہ جوہر عطا کئے تھےجو

ونے سے پہلے تیس پینتیس سال شاذ ہی کسی ایک فرد میں جمع ہوتے ہیں اور نثر پر متوجہ ہ

تک وہ فارسی ادب اور شعر وفن میں مشغول رہ چکے تھے۔ اسی مشعولیت کے دوران میں ان

کے قوائے فکرو نظر نے نشو و بلوغ کی منزلیں طے کئیں اور اسالیب بیان کے دقائع و

95

ردو معارف پرانہیں عبور حاصل ہوا فارسی شعر و ادب کو پوری طرح سمیٹ لینے کے بعد ا

کی فضا میں ابر گوہر بار بنا کر نمودار ہوئے، زبان کی لطافت، الفاظ کی موزونی، بیان کے

حسن اور تراکیب کی دالویزی کے اسرار ان پر روشن ہوچکے تھے وہ معانی کے دریا کو

عبارت کے کوزے میں بند کرنے کی ہنر مندی میں کمال حاصل کرچکے تھے سخن دانی و

مرزا غالب کے ہاں ہے اور کسی کے ہاں کہاں ہوسکتے ہیں اسی سخن فہمی کے جو گر

حوالے سے مولوی عبدالغفور خاں نساخ کے نام خط میں لکھتے ہیں۔

"دیوان فیض عنوان اسم با مسمی ہے دفتر بے مثال اس کا نام بجا ہے۔ الفاظ متین، معانی بلند

باق و گستاخ ہیں۔ شیخ امام بخش عمدہ بندش دل پسند ہم فقیر لوگ اعالن کلمہ الحق میں بے

طرز

جدید کے موجد، اور پرانی ناہموار روشوں کے ناسخ تھے۔ آپ ان سے بڑھ کر بصیغہ

مبالغہ بے مبالغہ نساخ ہیں۔ تم دانائے رموز اردو زبان ہو، سرمایہ نازش قلمرو ہندوستان

پھر اوسط عمر میںہو۔ خاکسار نے ابتدائے سن تمیز میں اردو زبان میں محن سرائی کی ہے،

بادشاہ دہلی کا نوکر ہوکر چند روز اس روش پر خامہ فرسائی کی ہے، نظم و نثر فارسی کا

عاشق

اور مائل ہوں ہندوستان میں رہتا ہوں۔ مگر تیغ اصفہانی کا گھائل ہوں۔ جہاں تک زور چکا

میں توقع نہ سکا، فارسی زبان میں بہت کچھ بکا۔ اب نہ فارسی کی نہ اردو کا ذکر نہ دینا

عقبی

کی امید میں ہوں اور اندوہ ناکامی جاوید جیسا کہ خود ایک قصیدہ نعت کی نشیب میں کہتا

ہوں شعر۔

چشم کشودہ اند بکردار ہائے من،

زا یندہ نا امیدم واز رفتہ شرمسار

96

ایک کم ستر سال دنیا میں رہا اب اور کہاں تک رہوں گا ایک اردو کا دیوان ہزار بارہ سو

بیت کا ایک فارسی دیوان کئی دس ہزار کئی سو بیت کا تین رسالے نثر کے یہ پانچ نسخے

مرتب

ہوگئے اب اور کیا کہوں گا مدح کا صلہ نہ مال غزل کی داد نہ پائی، ہرزہ گوئی میں ساری

(۳۵عمر گنوائی۔" )

پر آجاتا مرزا غالب کی یہ حصوصیت ہے کہ اس کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کی زبان

ہے اور دل کی بات زبان پر اور پھر اس طرح خطوط میں اس کا ذکر کرنا یہ غالب ہی کرسکتا

ہے ایک خط میں کئی موضوعات پر بات کرنا اور ہر قسم کے موضوع کو ٹچ کرنا یہ غالب کا

کمال ہے۔ ڈاکٹر شیخ محمد اکرام حکیم فرزانہ میں غالب کی شاعری کے حوالے سے لکھتے

ہیں۔

"مرزا نے اپنے کالم کی ظاہری ٹیپ ٹاپ پر بھی پوری نظر رکھی اور ان کے اشعار

میں الفاظ فقط اظہار مطلب ہی کا وسیلہ نہیں بلکہ شاعرانہ حسن پیدا کرنے کا ذریعہ

بھی ہیں کئی جگہ ان کا استعمال اور ترتیب ایسی ہے کہ معنی اور مضمون سے قطع نظر ان

(۳۶بہت پر لطف ہے" ) کا ترنم اور ہم آہنگی ہی

شروع شروع میں مرزا غالب نے فارسی کو مشق سخن کے لیے منتخب کیا اور اپنی فارسی

شاعری پر نازاں رہا۔ اس میں مشکل پسندی اور تکلف و تصنع کو اپنا طرہ امتیاز بنایا لیکن بعد

ائی اور کے حاالت نے غالب کو سادگی و بے تکلفی اور بے ساختگی و برحستگی کی راہ دکھ

انہوں نے سادگی میں وہ پرکاری دکھائی کہ اس پر تکلف و تصنع بہ ہزار شیوہ قربان ہوتا نظر

آیا۔ یہی حال خطوط میں ہوا، پہلے پہل غالب نے فارسی نثر نگاری کو شایان شان جانا اور

اسی میں تسکین مذاق کے سامان بہم پہنچائے، لیکن حاالت و حوادث نے اسے اردو مکاتیب

گاری کی راہ دکھائی اور پھر اس کا ادبی مزاج و مزاق یہاں اسی قدر کام آیا کہ یہ مکاتیب ن

شاعری کی طرح اس کی آبرو بن گئے۔ غالب وہ خوش نصیب شخص تھا، جس کو قدرت نے

وہ فنی عظمت عطا کی تھی جو ہر جگہ اور ہر روپ میں اپنا جادو یکساں جگاتی ہے۔ غالب کا

97

بلند تھا۔ اس کے رقعات کی وقعت بھی اتنی ہی بلند ہے۔ وہ جتنا عظیم شاعر شاعرانہ مذاق جتنا

ہے۔ اتنا ہی عظیم نثر نگار ہے، غالب کی دونوں اصناف ادب میں اس کی فنی برتری یکساں

طور پر سر بلند ہے۔ مولوی عبدالرزاق شاکر کے نام لکھتے ہیں۔

عمر تک مضامین خیالیبرس کی ۲۵برس کی عمر سے ۱۵"اسدہللا خان قیامت ہے

لکھا کیا دس برس میں بڑا دیوان جمع ہوگیا آکر جب تمیز آئی تو اس دیوان کو دور

کیا اوراق یک قلم چاک کیے پندرہ شعر واسطے نمونہ کے دیوان حال میں رہنے

دے، بندہ پرور اصالح نثری کی ضرورت نہیں آپکی انشا کی یہ روش خاص دلچسپ

کو نہ چھوڑئے اور جو میر تبتع اور مجھ پر توجہ منظور ہو" اور بے غیب ہے اس وضع

(۳۶)

بنام انور الدولہ شفیق: ۔

"افسوس کہ میرا حال اور یہ لیل و نہار آپ کی نظر میں نہیں ورنہ آپ جانیں کہ اس

بجھے ہوئے دل اور اس ٹوٹے ہوئے دل اور اس مرے ہوئے دل پر کیا کر رہا ہوں۔

ں وہ طاقت، نہ قلم میں زور، سخن گستری کا ایک ملکہ باقی نواب صاحب، اب نہ دل می

ہے بے تامل اور بے فکر جو خیال میں آجاتے وہ لکھ لوں، ورنہ فکر کی صعوبت کا متحمل

(۳۷نہیں ہوسکتا" )

ایک اور خط نظم و نثر کے حوالے سے اور اپنے قلم کے حوالے سےمیر غالم حسین قدر

بلگرامی۔

نظم و نثر میں کاغذ مانند اپنے نامہ اعمال کے سیاہ کررہا ہوں۔"بارہ برس کی عمر سے

باسٹھ برس کی عمر ہوئی۔ پچاس برس اس شیوے کی ورزش میں گزرے۔ اب جسم

و جاں میں تاب و تواں نہیں نثر فارسی لکھنی یک قلم موقوف۔ اردو ، سو اس میں

98

کا ب میں ہے اور ہاتھ عبارت آرائی متروک، جو زبان پر آوے، وہ قلم سے نکلے، پانور

(۳۸باگ پر، کیا لکھوں اور کیا کہوں" )

ادبی محاسن کے حوالے سے ڈاکٹر غالم حسین ذوالفقار لکھتے ہیں۔

ء( سے پہلے غالب کے خطوط میں کاروباری معامالت کے ۱۸۵۷"واقعہ انقالب )

پیدا کرنی عالوہ علمی مسائل اور ادبی خیاالت کے اظہار نے اسلوب میں گوناگوں کیفیات

شروع

کردی تھیں۔ لیکن واقعہ انقالب کے بعد ان کے اردو خطوط میں ادبی لحاظ سے ایک عظیم

تغیر

(۳۹پیدا ہوا" )

پروفیسر نذیر احمد مرزا غالب کی نثر، شاعری اور خطوں کی زبان کی روانی جملوں کو

درست جگہ پر استعمال کے حوالے سے لکھتے ہیں۔

Emotionalyمیں جو زور ، روانی اور فطری پن ہے اور "غالب کے خطوں کی زبان

ان کی عبارت میں الفاظ کا استعمال جتنا بر عمل، چست اور درست ہے اگر غور سے دیکھا

جائے تو اس کے پیچھے ان کی پر خلوص شخصیت کام کرتی نظر آئے گی بے شک ان کا

نثری

ہر خط میں روبن کر دوڑتا اسلوب اپنی سادگی میں تو باغ و بہار اور وہ جذبہ ہ ے جو تقریبا

ہے۔

(۴۰مرزا غالب کی شاعری کی طرح ان کے خطوں کی نثر بھی ان کو پہچان دیتی ہے۔")

مرزا غالب کی سخن دانی و سخن فہمی کے حوالے سےیہ ایک پڑھا اور سمجھا جائے تو کافی

میں درسی کتب سے ہے وہ اس خط میں کن کن لوگوں کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ اس ایک خط

99

لیکر اہل ایران اور ان کے عقیدہ اور فارسی شعراء تک کا ذکر کرتے ہوئے اپنے زبان دانی کا

ی بھی کرتے ہیں۔ دعو

مرزا رحیم بیگ مصنف ساطع برہان کے نام لکھتے ہیں۔

"اگر مجھ سے کوئی کہے کہ غالب تیرا بھی مولد ہندوستان ہے میری طرف سے

ہندی مولد و فارسی زبان ہے زبان دانی فارسی میری جواب یہ ہے کہ بندہ

ازلی دستگاہ اور یہ عطیہ خاص منجانب ہللا ہے فارسی زبان کا ملکہ مجھ کو خدا نے

دیا ہے مشق کا کمال میں استاد سے حاصل کیا ہے۔ ہند کے شاعروں میں اچھے

(۴۱اچھے خوشگوار اور معنی مآب ہیں۔" )

:۔ پنشن اور مختلف اسفار

مرزا غالب کی پنشن کا مقدمہ ان کا خاندانی مسئلہ تھا۔ اس خاندانی پنشن کے سلسلے میں غالب

کلکتہ کا سفر بھی کیا خاندانی پنشن کا مسئلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب مرزا کے چچا کا

انتقال ہوا اس وقت ان کی پنشن ہزاروں میں تھی لیکن ان کی انتقال کے بعد وہ جاگیر واپس

گئی پنشن کے بارے میں موالنا الطاف حسین حالی یادگار غالب میں سفر کلکتہ کے لے لی

بارے میں لکھتے ہیں۔

"ظاہر مرزا نے کوئی لمبا سفر کلکتے کے سوا نہیں کیا۔ اس سفر کی آمدو رفت چند ماہ لکھنؤ

اور بنارس میں بھی ٹھرے تھے۔ کلکتے جانے کا سبب یہ تھا کہ جب مرزا کے چچا نصرہللا

بیگ خان نے وفات پائی تھی اور اس وقت مرزا کی عمر نو برس تھی اور ان کے بھائی کی

عمر سات برس کی تھی۔ نصرہللا بیگ خان کی وفات کے بعد ان کے متعلقوں اور وارثوں

کے لیے جن میں مرزا اور ان کے بھائی بھی شریک تھے جو پنشن گورنمنٹ کے ریاست

(۴۲کردی تھی")فیروز پور جھرکہ پر محوسل

100

مرزا کی خاندان کے لیے جو پنشن حکومت وقت کی طرف سے مقرر ہوئی تھی وہ ہمیں نہیں

مل رہی ہیں چونکہ وقت کے ساتھ ضرورتیں بھی بڑھ جاتی ہے اور انسان ان ضرورتوں سے

تنگ آجاتا ہے اسی لیے فارسی زبان میں کہتے ہیں "تنگ آمد بجنگ آمد" دوسری مرزا کو

نے بھی تنگ کیا تھا اور چھوٹا بھائی جتوئی تھا تو اس کشمکش میں ان کے سوا قرض داروں

کوئی نہیں تھا۔

پنشن کے حوالے منشی بنی بخش حقیر کے حقیر کے نام خط لکھتے ہیں۔

"بھائی صاحب ایک نئی بات سنو! شہر میں ایک وبا آئی ہےیعنی کیل کمپنی

شخص پر لینی تھیں۔ اس کا سنین ماضیہ کے کاغذ دیکھ کر رسوم سرکاری جس

مطالبہ کیا ہےاور مطالبہ کیا مواخذہ یعنی بہت شدت ازانحملہ مجھ بابت رسوم

سرکاری پانچ سو روپے آٹھ آنے نکلے اور اس کی طلب بقید حکم قید ہوئی۔ میں

آٹھ آنے کو مختاج پانچ سو کہاں سے الؤں۔ بارے حضرت انگریزی تنخواہ میں

بطریق قسط مقرر کردیا۔ باسٹھ روپے آٹھ آنے مہینہ پاتا تھاسے پانچ روپے مہینہ

ستاون روپے آٹھ روپے رہ گئے۔ پانچ روپے مہینہ کا ساٹھ روپے ساالنہ ہوا

اور اب توقع کہاں کہ پوری تنخواہ پاؤں گا۔ یوں سمجھے کہ ستاونروپے کا پنشن دار

نہ گیا۔ہوں۔ بارے کل فیصلہ ہوا۔ تین دن تک سوار نہ ہوا، اور قلعہ

(۴۳کل گیا تھا اور آج گیا تھا۔ اب خیر و عافیت ہے")

اسی پنشن کے خوالے کو آگے بڑھاتے ہوئے موالنا الطاف حسین حالی لکھتے ہیں۔

"مرزا نے گورنمنٹ ہند سے پانچ درخواستیں کی تھیں ایک تو یہی کہ

ان کے خیال کے مقافق جو مقدار پنشن کی سکار نے مقرر کی ہے وہ

پوری مال کرے دوسری یہ کہ اب تک جس قدر کم پنشن ملتی رہیآئیند

101

ہے اس کی واصالت ابتداء سے آج تک ریاست فیروز پور سے دلوائی

جائے چونکہ پہلی درخواست نامنظور ہوئی تھی اس لیے دوسری درخواست

کینکر منظور ہوتی تیسری درخواست یہ تھی کہ کل پنشن میں جو حصہ میرا قرار

اور شرکاء سے علیحدہ کردیا جائے۔ چوتھی یہ کہ پنشن فیروز پور سے پائے، وہ

(۴۴خزانہ سرکار میں منتقل ہوجائے تاکہ رئیس فیروز پور سے مانگنی نہ پڑے" )

پنشن کے حوالے سے مرزا صاحب نے اس وقت کے گورنروں کو خطوط بھی لکھیں اور ان

کے تمام کاغذات سرکاری دفاتر خطوط میں اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ میرے مقدمے

میں موجود ہیں اگر میرے مطالبات کے حوالے سے اعلی حکام کو کوئی شبہات پیدا ہورہے

ہیں تو میں ان شبہات کو دور کرنے کے لیے تیار ہوں اس کے لیے غآلب نے درخواستیں

لب کی اپنے قلم سے حکومت کو لکھے تھےجو ایک ایک لفظ نقل کیا ہے کہا جاتا ہے کہ غا

درخواست منظور بھی ہوئی تھی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں صداقت بالکل نہیں تھی

آخر میں پنشن کی عرضداشت انگریزی حکومت ملکہ وکٹوریہ کے نام لکھ کر بھیج دی گئی

پنشن کی عرضداشت جو غالب نے والیت بھیجی تھھی اسی حوالے سے میر سید علی خاں

ی مکتوب میں لکھتے ہیں۔عرف حضرت جی کو فارس

ء کا لکھا ہوا حکم وزیر اعظم کا والیت کی ڈاک میں مجھ۱۸۵۷دسمبر ۱۷"

کو آیا ہے کہ اس قصدے کے حیلے اور جامرنے کے واسطے کہ جو بہ توسط

الڑڈایلن براءسائل نے بھجوایا ہے۔ خطاب اور خلعت اور پنشن کی تجویز ضرور ہے

بہ توسط گورنمنٹ اس کی اطالع دینی ضرور ہے۔جو حک صادر ہوگا سائل سائل کو

ء میں میں نے پایا فروری، ۱۸۵۷ء آخر جوری ۱۸۵۶دسمبر ۱۷یہ حکم مورخہ

مارچ، اپریل

ء میں فلک نہ یہ فتنہ اٹھایا۔ اب اس کتاب اور۱۸۵۷خوشی اور توقع میں گزرے مئی

محکمہ والیت کو یاددوسرے قصیدے کے جابہ جا نذر کرنے کا یہ سبب ہے کہ سائل

102

(۴۵دہی کرتا ہے اور گورنمنٹ سے تحسین طلب ہے" )

کچھ لوگ گومنے پھرنے کے بہت زیادہ شوقین ہوتے ہیں غالب بھی انہیں لوگوں میں سے تھے

کہ سیر و سیاحت کے لیے دور چال جائے لیکن کچھ لوگ بہت زیادہ حساس اور نازک مزاج

نہیں کرپاتے انہی میں ایک غالب بھی تھے۔ حاالنکہ ہوتے ہیں اور سفر کی تکالیف برداشت

غالب نے کوئی زیادہ سفر نہیں کئے تھے۔ کیونکہ سفر میں قدم قدم پر مختلف تکلیفیں پیش آتی

رہتی ہیں اور حساس دل یہ تکلیفیں برداشت نہیں کرسکتے۔ غالب نے ایک دفعہ کلکتہ کا سفر

ر کی تاریخ بھی غالب نے خود ایک خط میں کیا تھا اور وہ بھی پنشن کے حوالے سے اس سف

لکھی ہے غالب نے کلکتہ میں پہنچ کر اپنا مقدمہ پیش کیا تھا غالب کا یہ سفر خاندانی پنشن

کے مقدمہ میں قانونی چارہ جوئی کے لیے اختیار کیا گیا تھا دلی سے لکھنؤ کے سفر کے

الطاف حسین حالی لکھتے ہیں۔بارے کچھ معلوم نہیں ہوسکا، البتہ اس کے بارے میں خواجہ

"جب مرزا نے کلکتہ سے دلی جانے کا ارادہ کیا تھا۔اس وقت راہ میں ٹھہرنے

کا قصد نہ تھا۔ مگر چونکہ لکھنؤ کے بعض ذی اقتدار لوگ مدت سے چاہاتے تھے

کہ مرزا ایک بار لکھنؤ آئیں اس لیے کانپور پہنچ کر ان کو خیال آیا کہ لکھنؤ بھی

(۴۶۔" )دیکھتے چلے

لکھنؤ میں کچھ ٹھرنے کے بعد وہ کانپور پہنچ گئے لکھنؤ سے بانڈہ ایک عالقہ ہے وہاں پر

آٹھ ماہ لگے چند روز قیام کے بعد بنارس جاتے ہیں دلی سے کلکتہ تک پہنچنے میں تقریبا

تھے۔ کلکتہ کی آب و ہوا غالب کو بہت زیادہ پسند آئی تھی۔ یہاں پر آموں کا ذکر بھی ہوا

کیونکہ غالب کو آم بہت پسند تھے کیونکہ کلکتہ بنگال کے قریب ہے اور بنگال کے آم بہت

زیادہ مرغوب تھے غالب اور آم ، یہاں پر غالب کے ساتھ ان کے ہمدرد دوست ملتے رہے اور

یہاں پر ان کے پنشن میں زیادہ پیش ردت ہوئی تھی۔

یں سے تھے۔مولوی صاحب کو مولوی سراج الدین احمد خان غالب کے گہرے دوستوں م

لکھتے ہیں۔

( برس کی عمر ہے۔ مبالغہ کہتا ہوں ستر ہزار آدمی نظر سے گزرے ہوں گے۷۰"ستر )

103

زمرہ خاص میں سے عوام کا چمار نہیں۔ دو مخلص صادق الوال دیکھے، ایک مولوی سراج

، لیکن وہ مرحوم حسن صو رت نہیں رکھتا الدین رحمۃ ہللا، دوسرا غالم غوث سلمہ ہللا تعالی

(۴۷تھا اور خلوص اخالص اس کا خاص میرے ساتھ تھا")

ء سے پیشتر غالب دہلی آچکے تھے، اس کے بعد غالب نے کلکتہ سفر کے بعد کا ۱۸۳۰

دو دفعہ رام پور اور ایک دفعہ نواب مصطف ے خاں شفیتہ سے ملنے میرٹھ گئے تھے میرٹھ

و لکھتے ہیں۔پہنچنے کا واقعہ غالب مرزا ہرگوپال تفتہ ک

۲۰ء کو مراد نگر اور جمعہ ۱۸۶۰جنوری ۱۹"بھائی میں دلی کو چھوڑا پنچشنبہ

کو بھائی مصطفے خاں کے کہنے سے مقام کیا یہاں ۲۱کو میرٹھ پہنچا آج شنبہ

سے یہ خط تم کو لکھ کر روانہ کیا، کل شاہ جہان آباد اور پرسوں گڑھ مکتیر

(۴۸رام پور جاؤں گا" ) رہوں گا پھر مراد آباد ہوتا ہوا

104

حوالہ جات تحقیقی جائزہ

غالم رسول مہر "علم و ادب میں خطوط کا درجہ" مشحولہ نقوش، مکاتیب نمبر محمد ( ۱

۱۲ء ص ۱۹۵۷نومبر طفیل، مرتب، الہور ادارہ فروع اردو

۱۵۴ص مطبع منشی نو لکشو لکھنؤ میں طبع ہوئی -مرزا اسدہللا غالب: عود ہندی ( ۲

سن ندارد

۷۸۱ص مالک رام "غالب کی فارسی تصانیف" مشحولہ سورج پبلشنگ بیورو ( ۳

مالک رام "غالب کی فارسی تصانیف" مشحولہ سورج الہور سورج پبلشنگ بیورو (۴

۷۸۱ص

موالنا حاور حسن قادری "غالب کی اردو نثر اور دوسرے مضامین" کراچی ادارہ (۵

۲۷ص یادگار غالب

مالک رام "غالب کی فارسی تصانیف" مشحولہ سوررج پبلشنگ بیورو (۶

۷۸۴ص

ن "غالب اور انقالب ستاون" کراچی ادارہ یادگار غالب ( ۷ ۵۴ص ڈاکٹر سید معین الرحم

ء ۱۹۶۲غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم (۸

۱۶ص

ی "دیوان غالب" مکتبہ تعمیر انسانیت غزنی سٹریٹ پروفیسر یوسف سلیم چشت ( ۹

۷۳اردو بازار الہور ص

پروفیسر سیف ہللا خالد "غالب کے اردو فارسی مراسالت، اجمالی جائزہ" مشمولہ ( ۱۰

۱۴۴سورج الہور سورج پبلشنگ بیورو ص

ء ص ۱۹۶۲غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ( ۱۱

۱۷

105

پروفیسر سیف ہللا خالد، "غالب کے اردو اور فارسی مراسالت، اجمالی جائزہ" مشمولہ ( ۱۲

۱۴۴ص سورج الہور سورج پبلشنگ بیورو

ء ص ۱۸۴۹غالب مرزا اسدہللا اردوئے معلی طبع اول اکمل المطابع دہلی مارچ ( ۱۳

۱۰۵

۱۰۵ء ۱۸۴۹اول اکمل المطابع دہلی اردوئے معلی طبع غالب مرزا اسدہللا ( ۱۴

حامد حسن قادری موالنا۔ غالب کی اردو نثر اور دوسرے مضامین کراچی ادارہ یادگار ( ۱۵

۳۴، ۳۳، ص ۲۰۰۱غالب

۳۳ء ص ۱۹۴۹ادبی دنیا الہور ، دسمبر ( ۱۶

۷ء ص ۱۹۴۹فاضل لکھنوی "مقدمہ اردوئے معلی حصہ اول جلد اول الہور ( ۱۷

ء ۱۸۹۹دہلی مطبع مجتبائی، ( ۱۸

۱۸۰بحوالہ مکاتیب غالب )دیباچہ موالنا امتیاز علی عرشی( ص ( ۱۹

شکیل پتافی ڈاکٹر پاکستان میں غالب شناسی' بیکن بکس غزنی سٹریٹ اردو بازار الہور ( ۲۰

۱۷۹ء ص ۲۰۱۴، گلکشت کالونی ملتان

۲۱ ) ایضا

ء ۱۹۶۲غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ( ۲۲

۲۳ص

ن روزنامہ نوئے وقت الہور ( ۲۳ ۱۴مکتوب عرشی زادہ )الہور( بنام ڈاکٹر سید معین الڑحم

ء ۱۹۷۵نومبر

ر الطاف حسین حالی "یادگار غالب" مکتبہ عالیہ اردو بازار ایبک روڈ )انار کلی( الہو ( ۲۴

۱۵۴ء ص ۱۹۸۷

106

ء ۱۹۶۲غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سول ( ۲۵

۲۲ص

۵۷ء ص أ۱۹۳۷امتیاز علی عرشی مکاتیب غالب مطبعہ قیمہ بمبی ( ۲۶

۱۶۵ص مبعہ قیمہ // // (۲۷

ن ڈاکٹر "غالب کا علمی سرمایہ" ابو وقار پبلی کیشنز ال ( ۲۸ ہور سید معین الرحم

۱۹۷ء ص ۲۰۱۳

تعارفی ء ۱۹۵۱غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور ( ۲۹

)حصہ اول( ص ج/د

ء ص ۱۹۶۷غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم اینڈ سنز الہور طبع چہارم ( ۳۰

۳۷

ن ڈاکٹر "غالب کا علمی سرمایہ" ابو وقار پبلی کیشنز ( ۳۱ الہور سید معین الرحم

۲۰۵ء ص ۲۰۱۳

۲۱۴طبع چہارم ص ذکر غالب مالک رام ( ۳۲

۷۵ء ص ۱۹۳۹ناشر کاقشانہ ادب لکھنؤ نادر خطوط غالب سید محمد اسماعیل ( ۳۳

۲۳ء ص ۱۹۴۷ "فرہنگ غالب" امتیاز علی عرشی ( ۳۴

غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی غالب کے خطوط خلیق انجم ڈاکٹر ( ۳۵

۱۲ ء ص۱۹۷۴

حوالہ جات )تنقیدی جائزہ(

ء ۲۰۰۰خلیق انم غالب کے خطوط جلد اول ، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دلی سنہ اشاعت ( ۱

۳۷۲ص

107

( عبادت بریلوی ڈاکٹر انتخاب خطوط غالب، اردو اکیڈمی سندھ کراچی سنہ اشاعت اکتوبر ۲

۳۲ء ص ۱۹۹۷

ء ص ۲۰۰۰نئی دلی سنہ اشاعت ( خلیق انجم : غالب کے خطوط جلد اول ، غالب انسٹی۳

۲۳۶

۱۶۶( مرزا اسدہللا خان غالب "عود ہندی" مطبع منشی نو لکشور لکھنؤ سنہ ندارد ص ۴

۵) ۱۶۵ص ایضا

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر ، "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۶

۲۷۲

۷) ۴۶ص ایضا

"یادگار غالب" مکتبہ عالیہ اردو بازار ایبک روڈ انار کلی الہور سنہ ( الطاف حسین حالی ۸

۵۶، ۵۵ء ص ۱۹۸۷اشاعت

ء ۲۰۰۰( خلیق انجم : غالب کے خطوط جلد اول غالب انسٹی ٹیوت نئی دلی سنہ اشاعت ۹

۳۳۴ص

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۱۰

۶۲

ء ۱۹۷۸ق انجم : غالب کے خطوط جلد سوم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دلی سنہ اشاعت ( خلی۱۱

۱۱۶۱ص

۱۱۶۱ص ایضا ( ۱۲

۱۱۷۷ص ایضا ( ۱۳

ء ص ۱۹۶۳( غالم رسول مہر خطوط غالب شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سول ۱۴

۱۹۳

108

۱۹۳ص ایضا ( ۱۵

ارم ، غالب انسٹی ٹیوٹ ایوان غالب مارگ نئی دلی ( خلیق انجم غالب کے خطوط جلد چہ۱۶

۱۴۵۴ء ص ۹۹۳سنہ اشاعت أ

( خلیق انجم غالب کے خطوط جلد اول غالب انسٹی ٹیوٹ ایوان غالب مارگ نیئ دلی سنہ ۱۷

۳۳۷، ۳۳۶ء ۲۰۰۰اشاعت

( خلیق انجم غالب کے خطوط جلد اول غالب انسٹی ٹیوٹ ایوان غالب مارگ نئی دلی سنہ ۱۸

۲۴۷ء ص ۲۰۰۰اشاعت

( خلیق انجم غالب کے خطوط جلد چہارم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دلی سنہ اشاعت ۱۹

۸۹ء ص ۱۹۹۳

ء ۱۹۹۴( عباست بریلوی غالب اور مطالعہ غالب، ادارۃ ادب و تنقید، الہور سنہ اشاعت ۲۰

۸۹ص

ء ص ۱۹۶۳( غالم رسول مہر خطوط غالب شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۲۱

۳۷۸

۲۲ ) ۳۷۸ص ایضا

۱۸۹ء ص ۲۰۰۵( غالم رسول مہر "غالب" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سنہ اشاعت ۲۳

( خلیق انجم غالب کے خطوط جلد دوم ، غالب انسٹی تیوٹ نئی دہلی سنہ اشاعت ۲۴

۶۲۴ء ص ۲۰۰۲

ء ۲۰۰۰( خلیق انجمغالب کے خطوط جلد اول غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سنہ اشاعت ۲۵

۲۶۸ص

ن تحقیق غالب ابو وقار پبلی کیشنز الہور سنہ اشاعت ۲۶ ۳۷ ص ۲۰۰۹( سید معین الرحم

( عبادت بریلوی انتخاب "خطوط غالب" اردو اکیڈمی سندھ کراچی تاریخ اشاعت ۲۷

۷۵ء ص ۱۹۹۷

109

۴۹( غالب، عود ہندی مطبع منشی نو لکشور لکھنؤ سال ندارد ص ۲۸

ء ۲۰۰۳ی مکتوب نگاری غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سنہ اشاعت ( نذیر احمد ، غالب ک۲۹

۷۸ص

۳۷ء ص ۱۹۸۷( الطاف حسین حالی یادگار غالب مکتبہ عالیہ الہور سنہ اشاعت۳۰

( عبادت بریلوی " غالب اور مطالغہ غالب" ادارہ ادب و تنقید ، الہور سنہ اشاعت ۳۱

۳۸۸ء ص ۱۹۹۴

شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم سنہ اشاعت ( غالم رسول مہر "خطوط غالب" ۳۲

227ء ص ۱۹۴۲

چیمبر لین روڈ الہور ۳۹( غالم حسین ذوالفقار "محاسن خطوط غالب" مکتبہ حیابان ادب ۳۳

۲۴ء ص ۱۹۶۹سنہ اشاعت

ء ۱۹۹۷( عبادت بریلوی "انتخاب خطوط غالب" اردو اکیڈمی سندھ کراچی سنہ اشاعت ۳۴

۱۳۶، ۱۳۵ص

د اکرام شیخ ڈاکٹر "حکیم فرزانہ" ادارہ ثقافت اسالمیہ مکب روڈ، الہور سنہ اشاعت ( محم۳۵

۳۶ء ص ۱۹۵۷

۲۲۴( غالب "عود ہندی" مطبع منشی نو لکشور لکھنؤ سن ندارد ص ۳۶

( خلیق انجم "غالب کے خطوط" جلد سوم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سنہ اشاعت ۳۷

۱۰۰۲ء ص ۱۹۷۸

ے خطوط جلد چہارم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سنہ اشاعت ( خلیق انجم غالب ک۳۸

۱۴۱۵ء ص ۱۹۹۳

( غالم حسین ذوالفقار محاسن خطوط غالب، مکتبہ خیابان ادب الہور سنہ اشاعت ۳۹

۴۲ء ص ۱۹۶۹

110

ء ۲۰۰۳( نذیر احمد "غالب کی مکتوب نگاری" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سنہ اشاعت ۴۰

۲۸۱ص

ے خطوط" جلد چہارم، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سنہ اشاعت ( خلیق انجم "غالب ک۴۱

۱۴۷۷ء ص ۱۹۹۳

۲۲ص ۱۹۸۷( الطاف حسین حالی "یادگار غالب" مکتبہ عالیہ الہور سنہ اشاعت ۴۲

۱۹۸۷( خلیق انجم "غالب کے خطوط جلد سوم" غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی سنہ اشاعت ۴۳

۱۱۳۰، ۱۱۲۹ص

۲۴ء ص ۱۹۸۷ار غالب" مکتبہ عالیہ الہور ، سنہ اشاعت ( الطاف حسین حالی "یادگ۴۴

( خلیق انجم "غالب کے خطوط" جلد دوم غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی سنہ اشاعت ۴۵

۶۴۵ء ص ۲۰۰۶

۲۸ء ص ۱۹۸۷( الطاف حسین حالی "یادگار غالب" مکتبہ" عالیہ الہور سنہ اشاعت ۴۶

111

تیسرا باب

تنقیدی جائزہغالب کے فارسی خطوط کا تحقیقی و

زبان تقریبا سات خطوط کی روایت بہت ہی پرانی ہے۔ فارسی زبان میں میں فارسی ہندوستا ن

آٹھ سو سال تک شمالی ہندوستان کی ادبی زبان کی حیثیت سے رہی ہے اور فارسی کو کئی سو

سال تک سرکاری زبان کی حیثیت بھی رہی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی تاریخ ادب اردو جلد اول

میں لکھتے ہیں۔

گولکنڈا کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ اور فارسی کے شاعر و عالم نہ صرف

(۱قدرو منزلت سے دیکھے جات تھے اعلی منصبونپر بھی فائز کیے جاتے تھے۔)

اس دور میں فارسی زبان و ادب کا چرچہ تھا فارسی زبان چونکہ مسلمانان برصغیر ہند کی

رہی اور یہاں کے تمام علوم و فنون بھی فارسی اور عربی زبان سرکاری ، علمی، ادبی زبان

میں ہوتی تھی اسی وجہ سے برصغیر پاک و ہند میں فارسی زبان کا غلبہ رہا اور تقریبا تمام

وجہ سے برصغیر پاک و ہند میں فارسی زبان و ادب کا لوہا منواتے تھے اور فارسی کی وجہ

ادہ متاثر ہوا۔ اردو نثر نے چونکہ فارسی نثر کی نسبت سے یہاں کے مقامی ماحول بھی بہت زی

کم ترقی کی تھی شروع میں اردو زبان میں نثر کے بجائے زیادہ تر لوگوں نے شاعری پت

توجہ دی تھی۔ پندرھویں صدی سے لیکر انیسویں صدی کے ابتداء تک نثری فن پاروں کی

روں کی تعداد کوئی بیس، پچیس سے تعداد زیادہ تر مخطوطات کی شکل میں ملتی ہے۔ ان فن پا

زیادہ نہ ہوگی۔ اس کے عاوہ جو نثری سرمایہ ہم تک پہنچا وہ بھی زیادہ تر تصوف، مذہب اور

اخالقیات کے موضوع پر ملتا ہے۔ ان موضوعات کے ساتھ ساتھ کچھ داستانوی نثری سرمایہ

جمہ شدہ چیزیں ہمیں ہمیں زیادہ تر اور زبانوی میں جیسا کہ فارسی زبان اسی زبان سے تر

ملتی ہے۔ بقول ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں۔

"تقریبا سولھویں صدی سے اردو نظم و نثر کی صورت میں کتابیں لکھی جارہی ہیں

لیکن ابتدائی تین صدی تک اردو امالء کے ارتقاء کی رفتارر بہت سست رہی، انیسویں

112

صدی کے شروع کے ساتھ ستر برسوں میں یعنی غالب نے اردو امالء کے مسائل پر

(۲سنجیدگی سے غور کیا جانے لگا" )

اردو کو بھی تحریری شکل فارسی خط ہی کی وجہ سے مال۔ کیونکہ اس سے پہلے فارسی

یم نثرو نظم میں چیزیں لکھی جارہی تھی۔ نثر اردو کی طرف صحیح معنوں میں توجہ فورٹ ول

کالج کی وجہ سے حاصل ہوئی جس کو انگریزی مقاصد کے لیے قیام کیا گیا تھا۔ اس مختصر

تذکرے کے بعد ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ جدید نثر کاس آغاز غآلب سے پہلے ہو چکا تھا۔ جو کہ

فارسی زبان میں تھی۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام سے پہلے جتنے بھی تصانیف یا تالیفات تھی وہ

ے تمام فارسی فارسی میں تھی ۔ ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں۔تمام ک

"فورٹ ولیم کالج کی تصنیفات و تالیفات کے وجود میں آنے سے قبل اردو

نثر فارسی کے زیر اثر اس حد تک تھا کہ اردو کے نثر نگار کثرت سے فارسی

الفاظ و ترکیبیں استعمال کرتے تھے بیشتر اوقات فقروں کی قواعدی ساخت

ھی فارسی کے انداز پر ہوئی ۔ فارسی انشاء پردازی کے انداز پر غیرمعمولیب

(۳تکلف و تصنع سے کام لیا جاتا")

تصانیف غالب بزبان نظم فارسی:

فارسی کی نثر نگاری کا آغاز غالب کی تصنیف "پنچ آہنگ"سے ہوا اسی طرح غالب کی

نثری سرمایا فارسی زبان میں دوسری تصنیف مہر نیمروز ہے ان دو کتب کے عالوہ غالب کا

کافی تعداد میں دستیاب ان کے خطوط ہی ہیں اور اردو خطوط سے پہلے جو نثری سرمایہ ہیں

وہ ان کا فارسی نثر ہے فارسی نثر کے حوالے سے موالنا الطاف حسین حالی یادگار غالب میں

غآلب کی فارسی نثر کے بارے میں لکھتے ہیں۔

یں خط و کتابت کرتے تھے۔ مگر سنہ مذکورہ میںء تک فارسی م۱۸۵۰"مرزا

جبکہ وہ تاریخ نویسی کی خدمت پر مامور کیے گئے اور ہمہ تن مہر نیم روز کے

لکھنے میں مصروف ہوگئے اس وقت بضرورت ان کو اردو میں خط و کتابت

113

کرنی پڑی ہوگی وہ فارسی نثریں اور اکثر فارسی خطوط جن میں قوت متخیلہ

اعری کا عنصر نظم سے بھی کسی قدر غالب معلوم ہوتا ہے۔کا عمل اور ش

(۴نہایت کاوش سے لکھتے تھے۔)

غالب سے قبل فارسی نثر کا رواج عام تھا ااور جو کچھ لکھا جاتا تھا وہ زیادہ تر فارسی زبان

ہی میں تھا اردو کو عام رواج حاصل نہیں ہوا تھا ۔ ایک تو غالب سے پہلے مشکل الفاظ یعنی

مقفی اور اس کے ساتھ ساتھ پرتکلف عبارت کا عام زندگی میں عام رواج تھا اسی مسجع

فارسی نثر کے بارے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی انتخاب خطوط میں لکھتے ہیں:

" غالب کے زمانے میں اردو نثر کا رواج عام نہیں تھا۔عام طور پر لکھنے

طرف چھائےکی زبان فارسی تھی۔اس لیے فارسی نثر کے اثرات ہر

ہوئے تھے اور جب کبھی کوئی اردو نثر لکنا بھی تھا تو وہ فارسی کی نقل ہوتی

تھی۔مسجع،مقفی اور پرتکلف عبارت کا رواج عام تھا۔اگرچہ فورٹ ولیم

کالج نے اردو میں آسان نثر کے اچھے نمونے پیش کیے تھے،لیکن

ابھی تک فارسی کا اثر اتنا گہرا تھا کہ آسان اور سادہ نثر اپنے

(۵اثرات کو عام نہیں کرسکتی تھی۔)

فارسی زبان اور فارسی خطوط نویسی کے بارے میں آگے ایک اور جگہ پر ڈاکٹر عبادت

بریلوی لکھتے ہیں۔

ے اثرات "غالب فارسی زبان کا رچھا ہوا مذاق رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ فارسی ک

غالب کی اردو نثر کو بوجھک نہیں بناتے بلکہ ایک رنگین فضا پیدا کرتے ہیں۔

اس فضا میں غالب ایک بانکپن اور طرحداری ملتی ہے۔ غالب فارسی کی نئی

نئی ترکیبیں تراشتے ہیں۔ لیکن یہ ترکیبیں نامانوس نہیں ہوتیں۔ ان ترکیبوں

114

(۶میں ایک شان و شکوہ ہوتا ہے۔)

نگ اور مہر نیمروز کےعالوہ غالب کا نثری سرمایہ فارسی زبان میں کافی تعداد میں پنج آہ

دستیاب ان کے خطوط ہی ہیں۔ مرزا غالب کو فارسی اور اردو دونوں زبانوں پر استادانہ

مہارت حاصل تھی خواہ وہ نثر ہو یا نظم اور ان دونوں زبانوں میں غالب کا سرمایہ موجود

بتداء میں فارسی شاعری کی اور پھر اردو زبان میں شاعری کی طرف ہے۔ غالب نے چونکہ ا

رجوع کیا اسی طرح خطوط نگاری میں بھی وہی طریقہ اپنایا یعنی شروع میں غالب نے

فارسی خطوط لکھے اور بعد میں اردو خطوط لکھیں اور آخری دم تک اردو زبان میں خطوط

رصہ فارسی زبان میں خطوط پر مشتمل لکھیں مرزا غالب کی خطوط نگاری کا ایک طویل ع

ہے۔ فارسی خطوط نگاری کے بارے میں ڈاکٹر تحسین فراقی لکھتے ہیں۔

"جہاں تک غالب کی اردو مکتوب نگاری کا تعلق ہے۔ اس کا عرصہ بیس

ء ۱۸۲۶بائیس سال پر پھیال ہے جب کہ ان کے فارسی مکاتیب کا عرصہ

فارسی مکتوب نگاری ان کی اردو مکتوبء تک کو محیط ہے۔ گویا ان کی ۱۸۲۸سے

نگاری پر مقدم ہے اور اس لخاظ سے اس عہد کے واقعات اور سوانح غالب

(۷کا موزوں ترین ماخذ ہے۔)

پچاس سال کے بعد غالب نے اردو میں خط تحریر کرنا شروع کیا تھا اس سے قبل غالب نے

سی زبان میں تھا۔ ایک تو عمر کا جو خط لکھا خواہ وہ شاعری ہو یا نثر تمام کے تمام فار

تقاضا تھا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ فارسی زبان میں خطوط لکھنے کیلئے زیادہ محنت

اور کاوش کرنا پڑتی تھی اور اس عمر میں غالب محنت اور جگر کاوی سے کترانے لگے

ی تھے۔ اس سے پہلے صرف فارسی زبان میں خط لکھتے تھے۔ چونکہ آہستہ آستہ فارس

خطوط نگاری میں کمی آتی گئی اور اردو مکتوب نویسی میں اضافہ ہوتا گیا اور اس کے ساتھ

ساتھ فارسی مکتوب نگاری کا رواج بھی کم ہوتا گیا اور فارسی کی نسبت اردو کی مقبولیت

میں اضافہ ہورہا تھا تو اسی کے ساتھ غالب کی مکتوب نگاری پر بھی آہستہ آہستہ اردو حاوی

ر آنی لگی۔ ہوتی نظ

115

مرزا اسدہللا خان غالب کی اپنی اورتخلیقی زبان فارسی تھی اور خود اس فارسی دانی پر ناز

بھی تھا اردو کی جگہ ان کو فارسی شاعری پر ناز تھا اس حوالے سے انہوں نے ایک جگہ پر

کہا بھی تھا کہ۔

فارسی بیں تاببینی نقشہائے رنگ رنگ

من است بگزراز مجموعہ اردو کہ بے رنگ

مرزا غالب کو چونکہ فارسی زبان میں بچپن ہی سے گہری دلچسپی تھی اور بقول موالنا

الطاف حسین حالی کے کہ غالب کو طالب علمی کے زمانے میں فارسی زبان میں شعر لکھنا

شروع کردیے تھے۔ اور اس وقت تقریبا تمام لوگ فارسی زبان میں علوم حاصل کرتے تھے

عام رواج بھی تھا غالب نے بچپن میں زیادہ تر شاعری کے حوالے سے مرزا اور فارسی کا

بیدل کا کالم دیکھا تھا اور اسی کی روش میں غالب نے پہلے فارسی اور بعد میں اردو زبان

میں چلنا شروع کیا تھا شاعری میں غالب بیدل سے تومتاثر تھے لیکن اس کے عالوہ کئی

۔ غالب کو ناز اپنی فارسی زبان پر تھا اور جا بجا فارسی فارسی شعراء سے بھی متاثر تھے

زبان دانی پر فخر کرتی دکھائی دیتے نظر آتے ہیں ۔ کہی کہی تو غالب خالص ایرانی زبان پر

بھی ناز کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ویسے کبھی وہ اپنے آپ کو ہندوستان کے شعراء سے جدا

دو شاعری کی طرح ان کی فارسی شاعری میں غالب کی اور منفرد مانتے دکھائی دیتے ہیں۔ ار

شوخ نگاری نظر آتی ہے اور انہیں دوسروں سے نمایاں کردیتی ہے کیونکہ ان کے فارسی

دانی کے بہت سے اوصاف اردو شاعری میں میں نمایاں نظر آتے ہیں فارسی اشعار کا جو

رے میں شیخ محمد اکرام اسلوب تھا وہی اردو شاعری میں بھی موجود ہے اس خیال کے با

کہتے ہیں۔

"اگر چہ ان کے ابتدائی اشعار اردو میں ہیں لیکن مضمون اور زبان کی تمام

خصوصیات فارسی شاعری کی ہیں۔ مرزا اپنے اردو اور فارسی کالم میں وہ حد

فاصل نہیں رکھتے تھے۔ جو اس زمانے میں فارسی سے عوام کی ناواقفیت

وہ "گل رعنا" کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔کہ میںکی وجہ سے ہوگئی تھی۔

116

نے اردو شعر گوئی میں بھی وہی طریقہ اختیار کیا جو فارسی شاعری میں روا

(۸رکھا تھا۔")

مرزا اسدہللا خان غالب کے شاعری کے حوالے سے فارسی زبان میں کئی کتابیں چھپ چکے

میں ہیں اور اس کے عالوہ قصائد ہیں ان میں دیوان فارسی غالب ، کلیات غالب فارسی زبان

مثنویات فارسی، قطعات، رباعیات، ترکیب بند، ترجیع بند، مخمس شامل ہے۔ اسی طرح مرزا

غالب کی ایک مثنوی ابر گہر بار بھی ہے جو مرزا غالب کی زندگی میں ایک بار شائع ہوچکی

ہے۔

گی میں"یہ مثنوی اگر چہ کلیات فارسی میں شامل ہے۔ لیکن غالب کی زند

(۹علیحدہ کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکی ہے" )

اس کے عالوہ یہ مثنوی ابر گوہر بار تین مرتبہ پاکستان میں شائع ہوچکی ہے۔ جو مختلف

میگزینوں اور کتابی صورت میں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ اس کی بھی صرف ایک ایڈیشن

شاعت اور ترتیب کے بارے میں مالک غالب کی زندگی میں شائع ہوئی۔ سد چیں کی از سر نو ا

رام کہتے ہیں اور مالک رام نے شائع بھی کیا تھا۔

"سبدچیں کی پہلی اشاعت کے ستر برس بعد تک اسے نہ تو الگ شائع کیا گیا

اوار نہ ہی "کلیات فارسی" کے کسی ایڈیشن میں شامل کیا گیا۔ چنانچہ مالک

(۱۰ائع کیا"۔ )ء میں اسے از سر نو ترتیب دے کر ش۱۹۳۸رام

یہ مثنوی پاکستان میں صرف ایک بار شائع ہوئی ہے۔ جسے سید وزیر الحسن عابدی نے ترتیب

دے کر پنجاب یونیورسٹی الہور سے شائع کیا ہے۔ یہاں تک تو مرزا غالب کی شاعری کے

بارے میں ذکر کیا گیا جسے جس چیز پر غالب کو خود بھی بڑا ناز تھا یعنی فارسی زبان دانی

پر لیکن شہرت ان کو اردو زبان و ادب میں ملی اور آج اگر غالب زندگی بھی ہے تو اردو

شاعری اور اردو کے حوالے سے یہاں تک تو ہم نے ،مختصر سا ذکر کیا شاعری کے بارے

میں اب نثر کے بارے میں تحقیق کے حوالے سے بات کریں گے جو فارسی زبان و ادب میں

117

ستوں ، رشتہ داروں اور دوسرے احباب کو لکھیں ہیں ان کا ذکر انہوں جو خطوط اپنے دو

کریں گے۔

مرزا اسدہللا خان غالب اردو میں جتنے بڑے نثر نگار اور انشاء پرداز تھے اور فارسی نثر میں

اس سے کچھ کم کمال نہ تھا ۔ بلکہ غالب کے فارسی خطوط اپنی انفرادیت اور ان کی ادبی

میں بھی بھر پور کردار ادا کرتے ہیں۔ غآلب کے فارسی خطوط شخصیت کو بنانے سنوارنے

میں زبان و بیان کی جو خوبیاں اور موضوع کی خوب صورتی نظر آتی ہے۔ وہ ایک ماہر

فنکار کی مہارت سے کچھ ہے۔ نثر میں انہوں نے جو اسلوب اختیار کیا ہے انتہائی آسان نثر

اس کی نثر میں ڈرامائیت ، مکالمہ نگاری اور لکھی ہے۔ پوری دلیل والی نثر تحریر کی ہے ۔

داستان گوئی کا رنگ بھرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ فارسی خطوط میں موضوعاتی بحث

و تکرار کے باوجود اعلی نثری خصوصیات نظر آتے ہیں۔ یعنی ان کے خطوط میں ان کی

ل ، سوانح عمری، شخصیت کا مکمل خاکہ دکھائی دیتی ہیں غالب کے خطوط میں ان کا مکم

پسند و ناپسند ، سوز و ساز ، تصورات و تعصبات اور اس زمانے کے تہذیبی اور تاریخی

صورت حال کے کئی پہلو واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ غالب کی فارسی خطوط نگاری کے

بارے میں سید وزیر الحسن عابدی ان الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں۔

اول میں فارسی نامہ نگاری میں"غالب ۔۔۔ انیسویں صدی کے ربع

صاحب طرز تھے، ان کا اسلوب "القاب و آداب متعارفہ، رسمیہ"

والے روایتی اور رائج الوقت اسلوب کے خالف تھا اور اس کی بنیاد

اس ادبی عقیدے پر تھی کہ القاب و آداب خیریت گوئی اور عافیت

ی اثر جوئی، حشو زائدہے وہ اپنے اس روایت شکن اسلوب میں پور

(۱۱آفرینی پر قادر تھے جسے انہوں نے "ساحری" کہا ہے"۔ )

چونکہ غالب کا اسلوب نگارش عام روایت سے بالکل مختلف تھا اور اس انداز بیاں جانا پہچانا

جاتا تھا اور لکھنے والے ان کے اسلوب بیاں کی خصوصیت سے واقف تھے۔ فارسی خطوط

نثری فتوحات بھی غالب کی فارسی دانی کا منہ بولتا کے ساتھ ساتھ مرزا غالب کی دیگر اور

118

ثبوت ہے۔ کیونکہ غالب نے ایک جگہ نہیں ساری جگہوں پر فارسی کو ترجیح دی ہے اور اس

کے لیے ثبوت ایک جگہ پر نہیں شاعری میں بھی اور نثر میں کئی بار کہی ہے۔ خیابان غالب

نمبر میں فارسی کے حوالے سے لکھتے ہیں۔

ب کو اردو کے مقابلے میں اپنی فارسی نظم و نثر زیادہ عزیز تھی۔"مرزا غال

ان کے مختصر مگر سراپا انتخاب اردو دیوان کو تقدس میں دید اور حسن و

عظمت میں تاج محل کے برابر ٹھرایا گیا ہے۔ لیکن وہ خود اپنے فارسی کالم

رارکو نقش ہائے رنگ رنگ سے معمور اور اردو دیوان کو محض بے رنگ ق

دیتے ہیں۔ غآلب کے خطوط اردو نثر کا ایک عظیم شاہکار ہیں۔

لیکن وہ اپنے فارسی رقعات پر فدا ہیں۔ فارسی کے ساتھ ساتھ

غالب کے اسی شدید تعلق اور اس کے دوسرے مظاہر کو ان کی فارسیت

سے تعبیر کیا جاسکتا ہ وہ فارسی کے صرف دلدادہ ہی نہ تھے۔ بلکہ ان کے

ہاں فارسیت ایک غالب رجحان کی حیثیت سے موجود ہے۔ اس کے اثرات

(۱۲ان کے ادبی کارناموں اور زندگی دونوں میں صاف نظر آتے ہیں۔")

جیسے کہ شروع میں بتایا جاچکا ہے۔ کہ فارسی ہندستان میں مسلمانوں کے ساتھ آئی اور

اور ادبی زبان کی حیثیت سے برصغیر پاک و ہند میں تقریبا سات آٹھ سو سال تک سرکاری

رہی ۔ مغلوں کی حکومت کے زوال کے ساتھ اس کا رتبہ بھی ڈھکتا ہوا نظر آرہا تھا اور اس

وقت تک اردو زبان نے مغلوں کے دربار میں جگہ نہیں بناسکی بہرحال غالب کے دور میں

دربار میں مرزا غالب فارسی اور اردو کی ایک کامیاب حریف ثابت ہوئے اور اپنےلیے مغل

جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ بر صغیر پاک و ہند میں فارسی زبان کے دور زوال میں

غالب کا شدومد اور سجنیدگی سے فارسی نظم و نثر کی طرف توجہ دینا فارسی زبان و ادب

کے ساتھ غالب کی شدید ذہنی وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حکیم فرزانہ میں ڈاکٹر شیخ

د اکرام غالب کی فارسی دانی کے بارے میں لکھتے ہیںمحم

119

"قیام کلکتہ کے زمانے میں اور اس کے بعد ایک عرصے تک مرزا نے

فارسی اشعار زیادہ لکھے اور اردو اشعار کم اور غالبا یہ کہنا بے جا نہیں کہ

ءتک مرزا کی۱۸۴۷ء یا اس سے کچھ عرصہ بعد سے لے کر ۱۸۲۷

(۱۳اصل ادبی زبان فارسی تھی۔" )

اسی طرح آگے ایک اور جگہ پر غالب کی فارسی دانی کے بارے میں شیخ محمد اکرام لکھتے

ہیں۔

"تیس سے پچاس برس کی عمر تک ان کی ادبی زبان فارسی ہی

ء ۱۸۴۷رہی اس عرصہ میں انہوں اردو میں بہت کم کہا۔

غالب نے انسباط خاطرکے بعد دربار سے تعلق قائم ہوگیا۔ تو

(۱۴حضرت کیلئے پھر سے اردو میں کہنا شروع کیا۔ ")

ہمارا کام چونکہ خطوط غالب کے حوالے سے غالب کی زبان پر فارسی کے اثرات کا جائزہ

لینا ہے۔ اور یہاں موضوع کی مناسبت سے غالب کے خطوط کی روشنی میں اس موضوع پر

ط میں غالب نے فارسی زبان کے الفاظ کا جو ذخیرہ بحث کرنا ہے اور وہ بھی جو اردو خطو

چھوڑا ہے، یا ان پر بحث کیا ہے فارسی کے حوالے سے اور خاص کر زبان کے حوالے سے

جو کارنامے مرزا غالب نے سرانجام دیے ہیں۔ غالب صرف اردو یا فارسی کے شاعر یا انشا

کی زبان پر فارسی کے اثرات پرداز نہ تھے بلکہ دونوں زبانوں کے ماہر بھی تھے لیکن ان

بہت زیادہ تھے اور ہے بھی غالب کی مخصوص فارست کا اظہار جو انہوں نے فارسی نثر

میں کیا ہے اسی حوالے سے خیابان کے غالب نمبر میں کچھ یوں کرتے ہیں۔

"غالب فارسی کے ایک بلند پایہ شاعر اور انشا پرداز ہی نہ تھے، بلکہ

ں اور محقق بھی تھے۔ عبدالصمدکی شاگردیوہ اس زبان کے نکتہ دا

مرزا کو نصیب ہوئی یا نہ ہوئی اس کی صحت و عدم صحت سے قطع نظر

120

(۱۵مرزا فارسی زبان کے حقائق و دقائق سے ضرور آگاہ تھے۔" )

غالب کی فارسی زبان دانی یا غالب کی زبان پر فارسی کے اثرات بہت زیادہ گہرے ہیں۔ یہ

ہیں بلکہ اردو زبان ہی فارسی زبان کے زیر سایہ ہی پروان چڑھی اثرات صرف گہرے نہیں

ہے اور مرزا غالب کو فاسی زبان سے جو بے حد محبت تھا اس کے بارے میں کئی رائے

نہیں ہوسکتیں اردو خطوط میں غالب نے سہل، سادہ اور آسان زبان کا استعمال کیا ہےاس کے

ی نمایاں طور پر اپنا نمایاں اظہار کرتے نظر عالوہ غالب کے فارسی زبان کے اثرات پھر بھ

آتے ہیں اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں۔

کہ فارسی الفاظ ، تراکیب اور محاوروں نے فارسی زبان کو نا آشنا بنا دیا ہے اس کے بجائے

مرزا غالب نے فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال ایسی خوبصورتی سے کیا ہے کہ ان کے

تراکیب سے نثر زیادہ موثر اور معنی خیز ہوگئی ہے۔ ان آسان الفاظ و تراکیب فارسی الفاظ و

کے باوجود بعض خطوط میں مشکل فارسی الفاظ بھی نظر آتے ہیں غالب کے خطوط سے

پہلے جو مشکل اور ثقیل فارسی الفاظ کے استعمال کے بارے میں ڈاکٹر شیخ محمد اکرام کہتے

ہیں۔

ں یہ تکلف اور آورد فارسی الفاظ"ایسے خطوط کی تعداد جن می

و تراکیب کی فراوان ہو بہت ہیں جوں جوں مرزا کا طرز تحریر

پختہ ہوا انہوں نے دیکھا کی سلیس اردو میں کیسی کیسی گلکاریاں

(۱۶ہوسکتی ہیں تو فارسی تراکیب کی کثرت جاتی رہی۔" )

فارسی زبان کے ثقیل تراکیب جس میں غالب نے بڑا بے تکلف زبان کا استعمال کیا ہے یا

موضوع کی موزونیت کا خیال رکھا ہے جن میں علمی مسائل پر بحث کی ہے یا ایسے ناواقف

لوگوں کے خط کے جوابات لکھے ہیں ان میں زیادہ تر فارسیت کا غلبہ ہے اس کے عالوہ ذی

ہ والے حضرات کے نام جو خطوط لکھے ہیں ان میں زیادہ تکلف روا رکھا فہم اور اعلی مرتب

گیا ہے۔ ایسے خطوط میں شامل ہےنواب سورت ، مفتی سید محمد عباس اور مولوی عبدالرزاق

121

شاکر کے نام شامل ہیں۔ یہاں پر نواب سورت کو جو پہال خط لکھا گیا ہے وہ مشکل اور دقیق

ا پڑا ہے نواب سورت کو غالب لکھتے ہیں۔فارسی الفاظ و تراکیب سے بھر

"سبحان ہللا تعالی شانہ اعظم بربانہ۔ جناب مستطاب نواب میر

غالم بابا خاں بہادر سے بتوسط میاں داد خاں صاحب شناسائی بہم پہنچی

لیکن داہ اول ساغر دودری کیا جگر خون کن اتفاق ہے۔ پہال عنایت

ں خبر مرگ اب جو میں اس کا نامہ جو حضرت کا مجھ کو آیا۔ اس می

جواب لکھوں اور یہ میرا پہال خط ہوگا ال محالہ مضامین اندوہ انگیز

ہوں گے۔ نہ نامہ شوق، نہ محبت نامہ صرف تعزیت نامہ۔ صریر

(۱۷قلم ماتمیوں کے شیون کا خروش ہے جو لفظ نکال وہ سیاہ پوش ہے۔")

دعا پر جو فارسی زبان میں لکھے ایسے خطوط کے بارے میں غالب نے ایک دوست کی است

تھے۔ اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ شروع میں غالب نے وہی وطیرہ اپنایا تھا جو عام گفت و

شنید کے لیے استعمال ہوتی ہے یعنی شروع میں مشکل الفاظ اور ثقیل الفاظ کا استعمال کیا

ر کی پیروی نہیں کی لیکن ان سب باتوں کے باوجود غالب نے فارسی خطوط میں اس نقط نظ

اور فارسی مکتوب نگاری میں بھی اپنا ایجاد کردہ طریقہ تحریر اختیار کیا جو اس عہد میں اس

کا عام رواج بھی تھا۔ اور اس سے پہلے اس طریقہ پر مشہور انشا پردازوں نے بھی کام کیا

پر نکتہ چینی ہے مرزا غالب قتیل کی فارسی نثر جو انہوں نے سلیس انداز میں لکھی ہے اس

کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

"تقریر اورہے تحریر اور ہے۔ اگر تقریر بعنیہ تحریر میں آیا کرے

تو خواجہ بقراط سے شرف الدین علی یزدی اور مال حسین واعظ کا شفی

اور طاہر وحید یہ سب نثر میں کیوں خون جگ کھایا کرتے اور

قتیل متوفی نے بتقلید وہ سب کی طرح کی نثریں جو اللہ دیوانی سنگھ

122

(۱۸اہل ایران لکھی نہ رقم فرمایا کرتے۔ )

اسی طرح حکم فرزانہ کے مصنف آگے غالب کے بارے میں فارسی مکاتیب کے بارے میں

رقم طراز ہیں جو اصل قتیل نے اپنایا تھا۔ مرزا غالب نے ویسے قبول تو نہیں کیا حالنکہ

ان کا طریقہ صحیح تھا۔ حکیم فرزانہ میں ڈاکٹر شیخ محمد مکاتیب کے مارے میں اصوال

اکرام لکھتے ہیں۔

"حاالنکہ مرزا نے نثر نویسی کے متعلق قتیل کا نقطہ نظر جو اصوال صحیح

ء میں تاریخ نویسی کی خدمت پرمامور۱۸۵۰تھاقبول نہ کیا لیکن جب وہ

ہوئے اور ان کے پاس اس قدر وقت نہ رہا جو فارسی مکاتیب جنھیں

بڑی محنت اور جگر کاری سے لکھا کرتے تھے۔کہ لکھنے کے لیے کافیوہ

ہو اور ساتھ ہی بڑھاپے کی وجہ سے وہاس کاوش اور دماغ سوزی کے

قابل نہ رہے تو انہوں نے اردو میں مراسلت نگاری شروع کی اور اس

زبان میں وہ بے تکلف طرز تحیریر استعمال کیا جو عام گفتگو میں کام آتا

(۱۹اورجس کے لیے قدر محنت کی ضرورت نہ تھی۔")تھا

ء میں ایک شمارہ ۱۹۶۱اسی طرح فارسی نگاری کے حوالے سے نگار رسالہ جو فروری

شائع ہوا اس میں بھی غالب کے فارسی نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں ویسے بھی غالب

فارسی میں کہتے ابتدائی عمر میں صرف اور صرف فارسی زبان میں شعر و ادب یا نثر ہو

ہیں کیونکہ ہندوستان کی ادبی ، زبان فارسی تھی اور اس سے غالب جیسا شخص کچھ کہئے

بغیر نہیں رہ سکتا اور جا بجا فارسی پر فخر کرتے دکھائی دیتے ہیں رسالہ نگار میں غالب کی

فارسی نثر کے بارے میں لکھتے ہیں۔

کی نظم و نثر کی طرفسال کی عمر کے بعد میرزا صاحب فارسی زبان ۲۵"

زیادہ متوجہ ہوگئے اس زمانہ میں ریختہ کہنے کا بھی اتفاق ہوا۔ لیکن فارسی

123

کے مقابلے میں اس کی مقدر نہ ہونے کے برابر ہے اسی لئے انھوں نے

اس پوری مدت میں اپنے آپ کو "فارسی نگار" کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔"

(۲۰)

نگاری کے بارے میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔نگار رسالہ میں غالب کی فارسی

اگر چہ میرزا صاحب نے ابتدائی سن تمیز میں اردو زبان میں سخن”

سرائی کی لیکن وہ آغاز ہی سے نظم و نثر فارسی کے عاشق تھے۔ اس

لئے ان کا ابتدائی اردو کالم تخیل اور الفاظ دونوں میں فارسی کہالنے (۲۱کا زیادہ مستحق ہے۔")

برس کی عمر میں فارسی کو چھوڑ کر اردو کی طرف رجوع کیا اور ۵۰نے تقریبا پچاس غالب

اس کے بعد بہت کم فارسی میں لکھا لیکن شروع میں صرف فارسی زبان میں لکھا خواہ

شاعری ہو یا نثر چونکہ فارسی میں الفاظ و تراکیب اور محاوروں کا استعمال غالب نے کیا وہ

تھی۔ غالب کی فارسی نثر کا اسلوب روانی، سالست اور صرف غالب کی خوب صورتی

خطوط میں ان کس کابے ساختہ پن اور غیر معمولی ظرافت یہ غالب کا خاسا تھا اور اسی

وجہ سے فارسی زبان پر ان کا حاکمانہ خیال تصور کیا جاتا ہے۔ غالب نے اردو کو بطور

ا تھا اور اسی کے بارے میں منشی تحریر خوشی سے نہیں بلکہ مجبوریوں کی تخت شروع کی

نو لکشور کو ایک فارسی خط میں لکھتے ہیں جو پنج آہنگ کا ترجمہ شدہ ہے۔ لکھتے ہیں۔

"میں نے فارسی زبان میں بہت کچھ کہا ہے اور بڑے مکاتیب لکھے ہیں

لیکن اب طبیعت ضعف کی وجہ سے زیادہ فکر کے قابل نہیں رہی میں نے ہے جو کچھ لکھنا ہو اردو میں لکھ لیتا ہوں گویا گفتارسہل راستہ اختیار کیا

کو خط میں بند بند کرکے دوست کو بھیج دیتا ہوں حاشا کہ اردو میں بھی

سخن آرائی اور خود نمائی سے کام لوں جوبات نزدیک والوں سے زبانی ہوتی ہی دور والوں کو خط میں جاتی ہے۔ مقصد فقط بیان مدعا اور

(۲۲بس" )

شکوہ، شادی و غم کے موقع پر دوسروں احباب کو خطوط میں استعمال کیے جاتے شکر و

تھے۔ غالب نے ان پر پہال آہنگ مرتب کیا پہلے یعنی اول اآہنگ میں زیادہ تر القاب و آ داب،

تعزیت، شکر و شکوہ ،دعا وغیرہ کےلئے جملے درج کیے ہیں۔ ان الفاظ اور القابات کے بارے

ہیں۔ میں مالک رام لکھتے

124

"غالب کا نثری سرمایہ فارسی اور ا ردودونوں زبانوں میں موجود ہے۔ اس

سرمائےمیں تاریخ ، مضامین ، دیباچے،

تقریظیں روزنامچہ اور خطوط وغیرہ ہیں غالب کی پہلی فارسی نثری تصنیف کا نام

( میں ۱۲۴۱)۱۸۲۵"پنج آہنگ"ہے۔ یہ کتاب

ء میں ۱۸۴۹شروع کی گئی اور اگست ہلی کے مطبع سلطانی میں ، عضد قلعہ د

الدولہ حکیم غالم نجف خان بہادر کے اہتمام

(۲۳میں اس کا پہال ایڈیشن چھپا" )ان القابات اور تقر یظیں اور روزنامچہ جو کہ مختلف یا متفرق فارسی تحریروں پر مشتمل

ا علی عبارت ہے مرزا غالب کے بردار نسبتی مرزا علی بخش خان نے تر تیب دیا ہے مرز

بخش خان پنج اہنگ کے دیباچے میں ان فارسی تحریروں کے حوالے سے کچھ اس طرح رقم

طراز ہیں۔

ء میں نواب شمس الدین احمد ۱۸۳۵" میں

خان کی بعاوت کے بعد جے پور سے دلی

پہنچا، انہی ایام میں مرزا غالب کا دیوان فارسی موسوم بہ"میخانہ آرزو سر انجام"

ثر کو میں نے مرزا سے مرتب ہوا تھا۔اس ن

پڑھا تومیرے جی میں آئی کہ یہ نثر اور انکی دوسری متفرق ، فارسی تحریریں جمع کر

دینا چاہیں ، مگر مکروہات سے فرصت نہ

ملی ۔ حتی کہ حکیم رضی الدین حسن خان بہادرنے تحریک کی کہ ان اوراق کو ضرور

یکجا کر دیا جائے۔ میرے ہم سبق میر محمد

ن صاحب بھی میرا ہاتھ بٹانے کو حسین خاتیار ہو گئے۔ میں نےخیال کیا کہ اگر یہ جمع

ہو جائیں تو میرا لڑکا غالم فخر الدین خان

بھی ان سے مستفید ہو گا۔ لہذا میں نے اس کام (۲۴) پر کمر ہمت کس کے باندھ لی۔

-آہنگ دوم:

مرزا علی بخش خان کی آہنگ کا حصہ چاروں زمزموں پرمشتمل ہے۔ آہنگ کا یہ حصہ بھی

فرمائش پر لکھا اور اسے چاروں زمزموں پر تقسیم کیا گیا۔

حصہ اول زمزمہ میں مصادر کی مختصر حقیقت اور صرف کے چھ اصول کا ذکر کیا گیا

ہیں۔ زمزمہ دوم میں پہلے زمزمہ کی وضاحت و تشریح پیش کی گئی ہے۔ اور اس کے لئے

125

وں کی تعریف پیش کی ہے۔ اور سرف نحو اور ماضی فارسی مصادر کی مثال ۱۵۰تقریبا

مفعول ،مضارع، فاعل اور امر کی معنی اور تشریح کی گئی ہے۔زمزمہ سوم میں کچھ

مصادر و معطلحات کو جگہ دے کر ان مصادر کی تشریح کی گئی ہے۔ اور ان کے محل

گئے ہیں۔ استعمال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جوتھا زمزمہ میں الفاظ کے معانی دیے

-آہنگ سوم:

آہنگ کے اس حصے میں غالب نے دیوان فارسی سے ایسے اشعار کا انتخاب کیا ہے۔ جو

خطوط ، یا دوسری نثری تحریروں میں آرائش کالم کےلئے مفید اور فائدہ دےسکتے ہیں۔

دیوان کے ہر شعر کے عنوان میں لکھ دیا گیا ہے۔ اس میں موقع اور محل کا استعمال بتا یا

گیا ہے۔

-آہنگ چہارم:

آہنگ کے اس حصے میں وہ تحریریں نثر پارے شامل ہیں جو غالب نے خود اپنی تصا نیف

کے شروع اور خاتمے میں یا دوسرے رشتہ داروں یا احباب کی کتابوں کے دیباچے یا تقریظ

کے طور پر اس کو لکھ کر قلم بند کی ہیں۔

-آہنگ پنجم:

مشتمل ہے۔ آہنگ کا یہ حصہ غالب کے دوست ، احباب آہنگ کا یہ حصہ فارسی خطوط پر

کی ان تحریروں پر مشتمل ہے۔ جن کا خیال مرزا علی بخش خان کے دل میں آیا تھا کہ اسے

یکجا کیا جائے اور جس سے میرا بیٹا غالم فخر الدین خان بھی مستفید ہو گا ان تحریروں کو

دیے دیا چونکہ یہ سلسلہ مرزا کے مرنے جمع کر کے یا بڑھا کر ان کو پنج آہنگ کا شکل

کے بعد بھی جاری رہا تو اسی سلسلے کو آگے بڑھا کر ان میں اضافہ کر دیا اور ان کا نام

ء کے نگار شمارے میں مالک رام لکھتے ہیں۔ ۱۹۶۰یوں " پنج آہنگ" رکھ دیا جوالئی

پنج اہنگ کے بارے میں کچھ یو ں رقم طراز ہیں۔

ں پنج آہنگ کے مستقل "مرزا کی زندگی میدو ہی ایڈیشن شائع ہوئے۔ دونوں اشاعتوں میں

پہلے تین آہنگ یکساں ہیں اور ان میں کوئی

فرق نہیں۔ آہنگ چہارم طبع اول میں" تقریظ آثار الضادید" پر ختم ہو جاتا ہے، لیکن طبع

دوم میں اس کے بعد اور بھی دو نثریں ملتی

اب حسا م ہیں۔ اول دیباچہ دیوان ریختہ نو

126

الدین حیدر خان بہادر و دوم " دیباچہ تذکرہ الموسوم بہ طلسم راز فراہم آوردہ میر

مہدی"اسی طرح طبع اول میں آہنگ پنجم کا

آخری خط شیخ بخش الدین ما رہروی )کذا( ، ۳۰۸کے نام ہے طبع دوم میں یہ خط صفحہ

خطوط کا ۲۵پر ہے اور اس کے بعد ۳۰۹

ات پر محیط ہیں۔ صفح ۳۵اضافہ کیا ہے جو اس میں آخری خط مرزا یوسف کے نام ہے"

(۲۵)

اس کے عالوہ پنج آہنگ کی پاکستان میں ایک اشاعت ہو ئی ہے اور وہ بھی سید وزیر

الحسن عابدی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اس کتاب کو نہایت عرق ریزی اور تحقیق کے ساتھ

وہاں مکمل اہتمام کیا گیا ہے۔ حواشی شائع کیا گیا ہے ۔ جہاں ضرورت پیش آئی حواشی کا

کے ساتھ ساتھ جہاں کہی مشکل الفاظ کے معنی کی ضرورت پیش آئی وہاں وہ بھی لکھ لیا۔

غالب کی فارسی نثر او ر غالب کی انشاء پردازی کی وہ تمام خوبیاں بیان کی ہیں۔اس کے

ں مکمل بحث کیا ساتھ ہی عابدی صاحب نے پنج آہنگ کی اہمیت اور افادیت کے بارے می

ہے۔ تمام بحث کے بعد مرزا علی بخش خان رنجور کا دیباچہ بھی شامل کیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر سید وزیر الحسن عابدی کی تدوین اور تصحیح و تحقیق سے اس کتاب

کی قد و قیمت یا قدر منزلت میں بہت زیادہ اضافہ ہو ا ہے۔ سید وزیر الحسن عابدی کی یہ

صد سالہ بر سی میں اس کتاب کو شائع کیا۔ کتاب غالب کی

(ii )مہر نیم روز

مہر نیم روز نامی کتاب خاندان تیمور لول کی تاریخ پر مبنی ہے خاندان تیموریوں غالب نے

بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے کہنے پر لکھی تھی۔ اس تاریخ کو غالب نے دو حصوں میں شائع

س کا ایک حصہ شائع کرچکے کتاب کا دوسرا کرنے کا ارادہ کیاتھا۔ لیکن غالب صرف ا

حصہ اس وقت کے حاالت کی وجہ سے شائع نہ کرسکے اس کا ایک حصہ شائع کر نے

کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن غالب صرف وجہ سے شائع نی کر سکے حاالت سے مایوس ہو کر

غالب یہ حصہ نہ لکھ سکے اور نہ ہی یہ حصہ منظر عام پر آسکا۔ غالب کی دوسری

تصنیف کے بارے میں موالنا حامد حسین قادری لکھتے ہیں۔

دوسری تصنیف " مہر نیم روز ہے۔ یہ بھی ھ میں ۱۲۶۶ء ، ۱۸۵۰فارسی زبان میں ہے

کتاب بہادر شاہ ظفر کے کہنے پر لکھنا

127

شروع کی۔ کتاب کا موضوع " تاریخ تیموریہ" ہے۔ کتاب کے پہلے حصے کا نام

نام " ماہ مہر نیم روز اور دوسرے حصے کا

نیم ماہ" جب کہ کتاب کا نام " پرتو ستان" (۲۷تجویز کر دہ تھا" )

مرزا غالب کا اپنا ارادہ یہ تھا کہ پہلے حصے میں امیر تیمور سے لے کر ہمایوں بادشاہ

تک کی تاریخ قلم بند کر دو نگا اور دوسرے حصے مین جالل الدین اکبر سے لیکر بہادر

دو نگا لیکن ایسا نہ کر سکا۔ مجوزہ کتاب پر توستان کا صرف شاہ ظفر تک کی تاریخ لکھ

پہال حصہ مر تب ہو کر شائع ہو سکا۔ کتاب کے دوسرے حصے میں اکبر سے بہادر شاہ

ظفر تک کے حاالت لکھنے تھے لیکن بہادر شاہ ظفر ہی نہ رہے جو اس منصوبے کے سر

ک خط میں مرزا غالب ء کے ای۱۸۶۳پرست تھے اس حوالے سے حکیم محب علی کے نام

لکھتے ہیں۔

" ماہ نیم ماہ" مانگتے ہو۔ یہ نہیں جانتے ہو

کہ وہ آسمان ہی ٹوٹ پڑا جس پر ماہ نیم طلوع کرتا۔ بات یہ ہےکہ جس طرح مسافر سفر میں

آدھی منزل طے کر کے دم لیتا ہے۔ میں نے

آدم سے ہمایون تک کا حال لکھ کر دم لیا تھا۔ لدین اکبر کی سلطنت مقصد تھا کہ اب حالل ا

کا حال لکھوں گا کہ ناگاہ یہ فتنہ عظیم حادث

پیدا ہوا اور اکبر و ہمایون کے خاندان کا نام (۲۸و نشان جا تا رہا" )

اسی کتاب کے بارے میں ایک اور اقتباس بے جا نہ ہوگا۔ جو مرزا غالب نے چودھری عبد

لغفور سرور کے نام ایک خط میں لکھا ہے لکھتے ہیں۔

" اکثر صاحب، اطراف و جوانب سے "ماہ نیم

ماہ" بھیجنے کا حکم بھیجتے ہیں اور میں جی میں کہتا ہوں کہ جب " مہر نیم روز" کی

عبارت کو نہیں سمجھے تو " ماہ نیم ماہ" کو

لے کر کیا کریں گا۔ صاحب! "مہر نیم روز" کے دیباچے میں میں نے لکھ دیا ہے کہ اس

تان" ہے اور اس کی دو کتاب کا نام " پر تو س

جلد ہیں۔ پہلی میں ابتدائے خلعت عالم سے ہمایون کی سلطنت تک کا ذکر ہے دوسرے

حصے میں اکبر سے بہادر شاہ ظفر تک کی

سلطنت کا بیان پہلے حصے کا نام" مہر نیم

128

روز" دوسرے کا اسم " ماہ نیم ماہ" بارے پہال حصہ تمام ہوا، چھاپا گیا۔ جا بجا پہنچا۔

تھا جالل الدین اکبر کے حاالت لکھنے قصد

کا کہ امیر تیمور تک کا نام و نشان مٹ گیا " آن دفتر را گا ؤ خورد" گاہ را قصاب برد، و

قصاب وراہ مرد" جو کتاب میں نے لکھی ہی

(۲۹نہ ہو، وہ بھیجوں کہاں سے" )ہ ان کے مرنے مہر نیم روز کی اولین اشاعت غالب کی زندگی میں ہو گئی تھی اور یہ سلسل

کے بعد بھی جاری و ساری ہے اور پاکستان بننے سے پہلے اس کے تین ایڈیشن شائع ہو

چکے تھے پاکستان میں اس کتاب کی صرف ایک ایڈیشن شائع ہو ئی ہے اس کے عالوہ

مہر نیم روز کے کچھ اردو تراجم بھی شائع ہو ئے اسی طرح مطبع نو کشور ، لکھنو میں

تے ہیں۔اسی بارے میں لکھ

" اسی طرح "کلیا نثر غالب" غا لب میں بھی

مہر نیم روز کو شامل کر کے شائع کیا گیا"

(۳۰) مہر نیم روز کو غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر پنجاب یونیو رسٹی الہور نے یاد

ء میں بھی شائع کیا اس کتاب کو عبدالشکور احسن نے ۱۹۲۹گار غالب الہور سے

ے سے اس کی تصحیح و تدوین کا کام کیا۔اور بجا طور پر غالبیات کے نہایت اچھے طریق

ذخیرہ میں اہم اضافہ ہوا۔

عبد الشکور احسن نے نہایت احسن طریقے

سے اسے مر تب کر کے غالب کی صد سالہ

بر سی کے موقع پر مجلس یادگار غالب یونیورسٹی ، الہور سے کتاب کو حواشی کے

میں فاضل مر تب ساتھ شائع کیا گیاہے۔ آغاز

کی طرف سے ایک مقدمہ ہے جس میں انہوں نے غالب کی تاریخ نویسی کا تذکرہ کر تے

ہوئے ان کے اسلوب بیان کی خصوصیات

واضح کی ہے۔ نیز کتاب کے محاسن اور چیدہ چیدہ نکات پر بھی سیر حاصل تبصرہ

(۳۱کیا گیا ہے۔)

(iii :دستنبو )واقعات پر مشتمل روزنامچہ میں کے ہنگاموں کے متعلق حالت و ۱۸۵۷

لکھی گئی کتاب ہے یہ بھی غالب کی فارسی نثر پر مشتمل ہے ابھی غالب حیات تھے کہ

اس کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے تھے۔ اس کتاب کے لکھنے کا اصل مقصد انگریروں

129

تھا سے اپنی وفاداری کو ظاہر کرنا تھا اور ساتھ ہی قلعے سے اپنے تعلق کے داغ کو مٹانا

اور انگریزوں کی نظر میں سر خرو ہو نا تھا۔ اور اپنے مطالب کو حاسل کر نا تھا۔ ڈاکٹر

ن لکھتے ہیں۔ سید معین الرحم

کتاب میں غالب نے واضح کیا ہے کہ اس ء سے یکم جوالئی ۱۸۵۷مئی 11میں

ء تک کی روداد بیان کی گئی ہے۔ یہ ۱۸۵۸

کتاب مطبع حاللق آگرہ سے مرزا ہر گو پال تفتہ، منشی نبی بخش حضر، مرزا حاتم علی

مہر اور منشی شیو نرائن آرام کی زیر

(۳۲ء کو شا ئع ہو ئی۔ )۱۸۵۸نگرانی نومبر اس کتاب کے ایک طرف غالب کی سوانح پر سر حاصل بحث ہوئی ہے اور دوسری طرف

ان کے حاال ت سمجھنے میں بڑی مدد حاصل ہو ئی ہے مرزا غالب کی وفات کے بعد "

کلیات نثر غالب" میں شامل کرکے شائع کیا اسے علیحدہ شائع کرنے کے بجائے اسے اس

میں ضمن کر کے اس کی اشاعت کی۔ پاکستان میں اس کی دوبارہ اشاعت منظر عام پر

ء ال ہور سے شا ئع ۱۹۶۹آچکی ہیں یہ عبد الشکوراحسن نےغالب کی صد سالہ بر سی پر

ء میں سنگ میل پبلی ۱۹۷۴ڈاکٹر سید معین الرحمن نے کی اور دوسری بار اس کتاب کو

کیشنز الہور سے شائع کی ہے۔ دستنبو کے بارے میں خود مرزا غالب کی ایک خط نہیں

بلکہ کئی خطوط میں ان کا ذکر ملتا ہے جو ان حاال ت و واقعات کے بارے میں خود غالب

نے لکھا۔ خطوط غالب سے چند مثالیں پیش کر تے ہیں۔

-انورالدولہ شفیق کے نام:بنام

ء سے اکتسیویں ۱۸۵۷میں نے گیارہو یں مئی

ء تک اس کی روداد نثر میں ۱۸۵۸جوالئی لکھی ہے۔ "دستنبو" اس کا نام رکھا ہے اور

اس میں صرف اپنی سر گز شت اور مشاہدے

(۳۳کے بیان سے کام رکھا ہے۔ )

-چودھری عبدالغفور کے نام:

وع ہوا میں نے ء کو یہاں فساد شر۱۸۵۷مئی

اسی دن گھر کا دروازہ بند اور آنا جانا مو قوف کر دیا نے شغل، زندگی بسر نہیں ہوئی،

اپنی سر گزشت لکھنا شروع کی جو سنا گیا ،

(۳۴وہ بھی ضمیمہ سر گزشت کرتا گیا۔ )

-:منشی ہر گو پال تفتہ کے نام

130

ء سے یکم ۱۸۵۰میں نے آغاز یا زدہم مئی رویداد شہر یعنی پندرہ ء تک ۱۸۵۸جوالئی

(۳۵مہینے کا حال نثر میں لکھا ہے۔ )

یوسف علی خاں عزیز کے نام

ء سے جوالئی ۱۸۵۷"مئی کی گیارہویں

ء تک پندرہ مہینے ۱۸۵۸کی اکتسویں

(۳۶کا حال میں نے لکھا۔" )

میر مہدی مجروح کے نام

"صاحب ہم نے گھبرا کر اس تحریر کو تمام

یہ لکھ دیا کہ یکم اگست کیا دفتر بند کیا اور

ء تک میں نے پندرہ مہینے کا ۱۸۵۸

(۳۷حال لکھا اور آئیندہ لکھنا موقوف کیا")

منشی شیو نرائن آرام کے نام

"میں نے سرکار کی فتح کا حال نہیں لکھا۔

صرف اپنی پندرہ مہینے کی سر گزشت

شہروسپاہ کا بھی ذکر آگیا لکھی ہے۔ تقریبا

رگزشت جو میں نے لکھی ہے اور وہ اپنی س

۳۱ء سے ۱۸۵۷مئی ۱۱ہے سو ابتداء

ء تک لکھی ہے۔ شہر ۱۸۵۸جوالئی

ستمبر میں فتح ہوا۔ اس کا بیان بھی

آگیا" ) (۳۸ضمنا

اسی طرح کے کئی خطوط میں دستنبو کے بارے میں ذکر آیا ہوا ہے اس کتاب کے بارے

لکھی ہوئی بہترین تصنیفات میں شمار میں، لیکن مختصرا دستنبو غالب کی فارسی زبان میں

کیا جاسکتا ہے۔اور اس کتاب کو لکھنے کا جو بنیادی مقصد تھا اس میں غالب کافی حد تک

کامیاب نظر آئے اور غالب کی کامیابی انگریزوں سے صلح کرنا تھا اور اس کا صلہ غالب

شن کی بحالی کی کو مل گیا کیونکہ اس کتاب کی وجہ سے انگریزوں کی دادوتخسین اور پن

131

سفارش تھی جو منظور ہوتی نظر آئی اور قلعہ معلی میں ان کی صفائی بھی ہوئی اور پرانے

ن لکھتے ہیں۔ تعلقات بھی بحال ہوئے اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر سید معین الرحم

"غالب کو اپنے مقصد میں بڑی حد تک

کامیابی ہوئی ایک طرف انگریز حکام نے ان

ی داد دی، پنشن کی بحالی کی کے کمال فن ک

سفارش ہوئی، عالی مقام حکام سے رہ و رسم

مراسلت بدستور جاری ہوگئی ان کی

خوشنودی اور سر پرستی حاصل ہوگئی۔ قلعہ

معلی سے تعلق کی صفائی ہوگئی۔ عذر بے

گناہی مسموع ہوا اک گو نہ گو سکون ہوا۔

پنشن کا زر مجمعتہ سہ سالہ پائی پائی مل

ئیندہ کے لئے خر خشہ نہ رہا۔ پچھال گیا، آ

(۳۹خلعت بحال ہوگیا۔ )

اس کتاب کی خوبی کہیئے کہ اس کتاب کو سمجھنے والے لوگ ہندوستان نہ ہونے کے برابر

تھے اس کے بارے میں خود غالب نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ "دستنبو"

سمجھنا تو دور کی بات ہے ایک تو اس کی عبارت کو صرف درست پڑھنا بھی بڑی بات ہے

کی عبارت بھی نئی ہے اور طرز ادا بھی تو عام لوگ اس روش سے نااشنا ضرور تھے۔ اس

کتاب کی عبارت سے اہل علم بھی صرف سرسری گزر جا سکتے ہیں

ہیں۔اس عبارت کے بارے میں غالب مرزا خاتم علی بیگ مہر کو لکھتے

میں اس "مبالغہ اس کتاب کی تصحیح

واسطے کرتا ہوں کہ عبارت کا ڈھنگ نیا ہے۔

صحیح کا درست پڑھنا بڑی بات ہے، اگر

غلط ہوجائے تو پھر وہ عبارت نری خرافات

(۴۰ہے۔)

( قاطع برہان:۔۴)

132

ءکے ہنگاموں کے دور میں مرزا غالب زیادہ تر اپنے گھر میں رہے قلعہ معلی کی ۱۸۵۸

اچھا مشغلہ تھا۔ وہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا بیکار بیٹھنے حاضری ان کے لیے وقت گزرنا ان کا

سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اپنی سوانح لکھنی شروع کی تھی اپنے اس سرگزشت کے

بارے میں غالب چودھری عبدالغفور سرور کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔

ء کو یہاں فساد شروع ۱۸۵۷مئی ۱۱"

ہ بند اور ہوا۔ میں نے اسی دن گھر کا درواز

آنا جانا موقوف کردیا۔ بے شغل زندگی بسر

نہیں ہوتی اپنی سرگزشت لکھنی شروع کی

جو سنا گیا۔ وہ بھی ضمیمہ سرگزشت کرتا

گیا۔ مگر بطریق لزوم ماال یلزم اس کا التزام

کیا ہے کہ بزبان فارسی قدیم جو دستاویز کی

زبان ہے، اس میں یہ نسخہ لکھا جاوے اور

کے کہ وہ نہیں بدلے جاتے، سوائے اسماء

(۴۱کوئی لغت عربی اس میں نہ آوے۔")

مرزا غالب کی یہ سرگزشت دستنبو کے نام سے شائع ہوئی بقول شیخ محمد اکرام "قاطع

برہان" "دستنبو" کا ثمر مغوی سمجھنا چاہیئے مرزا غالب نے دستنبو کی تحریر میں عربی

زبان کے الفاظ استعمال نہ کرنے کا تحیہ کیا تھا ان الفاظ کے اصل اور معانی پراب زیادہ غور

ورت پڑی جس کے بارے میں مرزا غالب نے اس زمانے کے مشہور فارسی فکر کی اشد ضر

لغت برہان قاطع کا انتہائی غائر سے مطالعہ کیا۔ یہ کتاب محمد حسین بن خلف تبریزی برہان

کی لکھی ہوئی فارسی لغت ہیں۔اس کتاب میں غالب نے محمد حسین بن خلف تبریزی برہان

ب میں غالب کا لب و لہجہ نہایت سخت اور تنقیدی کی غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ اس کتا

رہا جس کے باعث غالب کے مخالفین کا ایک طوفان کھڑا ہوا لیکن غالب نے مخالفین کے

جواب میں کئی ایک رسالے لکھیں ان میں تیغ تیز" لطائف غیبی، نامہ غالب، دافع تزیان اور

شامل ہیں۔ برہان قاطع میں معانی اپنے دوست کے نام سے "سواالت عبدالکریم" وغیرہ رسائل

دئے گئے ہیں وہ فارسی کتاب "دساتیر" کی عبارت کے ساتھ نہیں پھبتے۔ غالب نے برہان

قاطع کے حاشیے پر اعتراضات لکھنے شروع کر دئیے، پہلے اس کتاب کو بغور پڑھ لیا اور

133

و ایک ساتھ اس کی کئی ایک غلطیاں نکال کر رکھ دیں بعد میں ان اعتراجات اور اغالط ک

کرکے "قاطع برہان" کے نام سے ایک الگ کتاب شائع کردیا۔ غالب چونکہ ارادہ کرچکے

تھے کہ ان نکات کو جمع کرکے اس قلمی نسخے کا نام "قاطع برہان" "قاطع برہان" کے

حوالے سے چودھری عبدالغفور سرور کو خط میں لکھتے ہیں۔

"جن لوگوں کے محقق ہونے پر اتفاق ہے

کو ان کا حال کیا گزارش کروں۔ ایک جمہور

ان میں صاحب "برہان قاطع" ہے اب ان دنوں

میں برہان قاطع کو دیکھ رہا ہوں اور اس کے

فہم کی غلطیاں نکال رہا ہوں۔ اگر زیست باقی

ہے۔ تو ان نکات کو جمع کرکے اس نسخے

(۴۲کا نام "قاطع برہان" رکھوں گا۔" )

تاب کی اشاعت کے ساتھ ایک ہنگامہ برپا ہوا اور اس جیسے کہ پہلے ذکر ہوچکا کہ اس ک

کتاب کی جواب میں خود غالب کے قلم سے کئی کتابیں تصنیف ہوئیں قاطع برہان کی پہلی

اشاعت میں کئی ایک غلطیاں رہ گئی تھی ان غلطیوں کی تصحیح کے بعد غالب نے اسے

میں میر مہدی مجروح ء کے خط ۱۸۵۸دوبارہ چھاپنے کا فیصلہ کیا خود غالب جوالئی

کو اس مسودے کے بارے میں لکھتے ہیں۔

"قاطع برہان" کے مسودے سب میں نے پھاڑ

ڈالے۔ اس واسطے کے ہر نظر میں اس کی

صورت بدلتی گئی، وہ تحریر بالکل مغشوس

ہوگئی۔ ہاں، اس کی نقلیں صاف، کہ جس میں

کسی طرح کی غلطی نہیں نواب صاحب)؟(

ے واسطے ایک نے کرلی ہیں، ایک میر

بھائی ضیاءالدین خان کے واسطے۔ میری

ملک کی جو کتاب ہے، اس کی جلد بندھ

جائے تو بطریق مستعار بھیج دوں گا تم اس

134

کی نقل لے کر میری کتاب مجھ کو پھیر دینا۔"

(۴۳)

آگے چل کر اس کتاب کے بارے میں خود غالب کے خطوط سے اس بات کا اندازہ بخوبی

کہ اس کتاب کی تیاری میں یا اس مسودے کو تیار کرنے میں کتنا وقت لگایا جاسکتا ہے۔

صرف ہوا اور کتنی محنت اور کاوش کے بعد مسودہ تیار ہوا۔ چودھری عبدالغفور کے نام خط

ء میں لکھا ہوا ہے۔۱۸۵۹میں لکھتے ہیں یہ خط اگست، ستمبر

"اس داماندگی کے دنوں میں چھاپے کی

تھی، اس کو میں "برہان قاطع" میرے پاس

دیکھا کرتا تھا۔ ہزار ہا لغت غلط، ہزارہا بیان

لغو، عبارت پوچ، اشارات پادر ہوا۔ میں نے

سو دوسو لغت کے اغالط لکھ کر، ایک

مجموعہ بنایا ہے اور قاطع برہان" اس کا نام

رکھا ہے چھپوانے کا مقدور نہ تھا۔ مسودہ کا

تب سے صاف کروالیا ہے۔ اگر کہوں تو بہ

یل مستعار بھیج دوں؟ تم اور چودھری سب

صاحب اور جو اور سخن شناس اور مصنف

ہوں، وہ اس کو دیکھیں اور پھر میری کتاب

(۴۴میرے پاس بھیج جائے۔")

ء تک وہ ۱۸۶۱چونکہ اس مسودے کی کوئی اچھی صورت سامنے نہیں آئی تھی اکتوبر

یہ مسودہ اشاعت پذیر اس مسودے کی اشاعت کے بارے میں فکر مند تھے کہ کسی طرح

ہوجائے اور آخر کار تقریبا تکمیل کے قریب کوئی تین سال بعد یہ مسودہ مطبع نو لکشور،

ء کے آخر میں شائع ہوا اس مسودے کے بارے میں مرزا غالب ۱۹۶۲لکھنؤ سے مارچ

ہرگوپال تفتہ کے نام خط میں لکھتے ہیں۔

""میں "برہان قاطع" کا خاکہ اڑا رہا ہوں۔

ر شربت اور عیاث اللغات" کو حیض کا لتہ چا

سمجھتا ہوں۔ ایسے گمنام چھوکروں سے کیا

135

مقابلہ کروں گا؟ برہان قاطع" کے اغالط بہت

نکالے ہیں۔ دس جزوکا ایک رسالہ لکھا ہے

اس کا نام "قاطع برہان" رکھا ہے۔ اب ، اس

کے چھاپے کی فکر ہے۔ اگر یہ مدعا حاصل

کی تم کو بھیج دوں ہوگیا تو ایک جلد چھاپے

گا، ورنہ کاتب سے نقل کرواکر قلمی، ایک

جلد بھیج دوں گا بہت سود مند نسخہ ہے۔"

(۴۵)

اس مسودے کو دوبارہ چھپوانے کی تجویز سامنے آئی چونکہ پہال مسودہ بڑی محنت و مشقت

کے بعد چھپوایا تو دوسرا چھپوانا اتنا آسان کہاں اس کے بارے میں خود غالب کے کئی

خطوط میں کچھ اشارے ملتے ہیں اور اس سے کچھ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا ماہر غالیبیات موالنا

غالم رسول مہر اور قاضی عبدالودود کہتے ہیں کہ بسلسلہ طباعت قاطع نواب یوسف علی

خان نے دو سو روپے بھیجے تھے وہ دوسری ضروریات میں حرچ ہوگئے اور بقول قاضی

روپے محض ایک افسانہ ہے۔ اس کے بارے میں خود مرزا غالب عبدالودود کے وہ دو سو

میاں داد خان سیاح کے نام ایک خط میں کچھ یوں لکھتے ہیں۔

"میرے پاس روپیہ کہاں جو "قاطع برہان" کو

دوبارہ چھپواؤں؟ پہلے بھی نواب مغفور

)ناظم والی رامپور( نے دو سو روپے بھیج

دیئے تھے۔ تب پہال مسودہ صاف ہو کر

(۴۶چھپوایا گیا تھا۔" )

لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہیں کہ غالب کے خطوط میں جن دو سو روپے کا ذکر آیا ہے کہی

پر بھی اسی کوئی شہادت نہیں ملتی جو نواب یوسف علی خاں کے نام خطوں میں سے کسی

" کی میں "قاطع برہان" کا ذکر تک آیا ہوں۔ ماہر غالیبیات امتیاز علی عرشی "قاطع برہان

طباعت کے بارے میں دو سو روپے کا ذکر جو نواب یوسف علی خاں کے نام آیا ہوا ہے نواب

رامپور کے خزانے میں کہی اس کا حوالہ نہیں ملتا۔ "قاطع برہان" کو مکمل ہونے کے بعد

136

جب کتاب منظر عام پر آگئی جو قلمی نسخہ تھا اور اس میں جو انکشافات اس کتاب میں تھی

میں مرزا غالب نواب عالؤالدین احمد خاں عالئی کے نام خط میں لکھتے ہیں۔ اس کے بارے

" "قاطع برہان" کا چھاپا تمام ہوگیا حق

التصنیف کی ایک جلد میرے پاس آگئی۔ وہ

تمہارے غم نامدار )نواب ضیاءالدین احمد خاں

نیر رخشاں( کی نذر ہوئی باقی جلدیں جن کا

یرمطبع میں میں خریدار ہوں اور درخواست م

داخل ہے، جب تک قیمت نہ بھیج دوں، کیوں

کر آئیں؟ روپے کی تدبیر میں ہوں اگر ہم پہنچ

جائے تو بھیج دوں۔ تمھارے پاس جو "قاطع

برہان" پہنچی ہے اگر چھاپے کی ہے تو

صحیح ہے جہاں تردد ہو غلط نامہ ملحقہ

دیکھ لو زیادہ انکشاف منظور ہو، مجھ سے

ہے تو درجہ اعتبار سے پوچھ لو اگر قلمی

ساقط ہے۔ اس کو میری تالیف نہ سمجھو،

بلکہ مجھ سے مول لے لو اور اس کو پھاڑ

(۴۷ڈالو")

یہاں تک برہان قاطع کے مسودے پر بات ہوئی برہان قاطع کے حوالے سے اس کے لیے اور

ار غالب کئی خطوط میں ذکر آیا ہوا لیکن اس کتاب کے بارے میں مختصرا ذکر کیا گیا۔ یادگ

میں موالنا الطاف حسین حالی لکھتے ہیں کہ اس وقت یعنی لکھتے وقت غالب کے پیش نظر

برہان قاطع کا قلمی نسخہ تھا۔ یہ کتاب چونکہ مرزا غالب نے نواب عالؤالدین احمد خاں عالئی

ء کے ایک خط میں غالب عالئی کو لکھتے ہیں۔۱۹۶۰کو تخفتا دیا تھا جوالئی

"مجھ سے کتاب مستعار مانگتے ہو، یاد کرو

کہ تم کو لکھ چکا ہوں کہ "دساتیر" اور

"برہان قاطع" کے سوا کوئی کتاب میرے پاس

نہیں۔ ازاں جملہ "برہان قاطع" تم کو دے چکا

137

ہوں۔ "دساتیر" میرا ایمان و حزرجان ہے۔"

(۴۸)

لیکن یہ اس کتاب میں اضافی ( درفش کاویانی: یہ غالب کی باقاعدہ کوئی کتاب نہیں ہے ۵)

جو تذکرہ ہوا ہے اس لیے اس کی شمار بندی الگ کی گئی ہے تو اس لیے یہاں پر اس کا

تذکرہ جدا گانہ کیا جارہا ہے چنانچہ پہلے مسودے میں کچھ اغالط اور تصحیح کی گئی ہے

کے اور اس کے ساتھ اس میں دیباچے کے اضافے کے ساتھ غالب نے اسے "درفش کاویانی"

نام سے شائع کیا۔ یہ مسودہ غالب کی زندگی مینشائع نہ ہوسکا اور نہ اس کو شائع کرنی کی

نوبت آئی تاہم اس کے باوجود حکومت پاکستان میں اس کی ایک اشاعت منظر عام پر اچکی

ہے۔

ء میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر شائع ۱۹۶۹درفش کاویانی کو پاکستان میں

اعزاز پروفیسر محمد باقر کو حاصل ہوئی یہ مسودہ پنجاب یونیورسٹی الہور سے کیا اور یہ

مجلس یادگار غالب نے شائع کیا۔ مصنف نے اس کتاب میں غالب کی فارسی نثر کی

خصوصیات بیان کی ہے۔ کتاب میں ان خصوصیات کے بعد دیباچہ "قاطع برہان" اور اس کے

نام اور پھر ان دیباچوں کے بعد متن قاطع برہان و بعد دیباچہ ثانی جدید درفش کاویانی کا

درفش کاویانی دیا گیا ہے۔ آخر میں کتاب کے فوائد دی گئی ہے۔ مجموعی طور پر کتاب

ترتیب و تدوین و متن کے حوالے سے عمدہ شاہکار ہے۔ اور پاکستان میں غالب شناسی کی اہم

کے کئی خطوط میں ان کی کڑی سمجھی جاتی ہے۔ اس مسودے کے بارے میں خود غالب

وضاحت ملتی ہے چند مثالیں خطوط غالب سے دی جاتی ہیں غالب مولوی نعمان احمد خان

کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔

"جو "قاطع" میں کہیں کہیں سہو طبعی واقع

تھا، ناچار اس کی ترمیم و تکمیل کے

واسطے اسی نسخے میں کچھ بڑھایا اور ایک

ر اس رسالے کا درفش دیباچہ اور لکھا او

(۴۹کاویانی نام رکھا")

اس کتاب کا یعنی "درفش کاویانی' کا ایک نسخہ مولوی عبدالرزاق شاکر کے نام جو ہدیتہ

بھیجتے ہوئے لکھتے ہیں۔

138

"ہاں صاحب! "قاطع برہان" میں اور مطالب

بڑھائے اور ایک دیباچہ دوسرا لکھا اور

کو "درفش کاویانی" اس کا نام رکھا اور اس

چھپوایا ایک مجلد اس کا آج اس خط کے ساتھ

ڈاک میں بھیجتا ہوں۔۔۔ یہ نسخہ میری طرف

(۵۰سے آپ کی نظر۔ )

اس کتاب کے بارے میں یہ ایک خط نہیں بلکہ کئی خطوط ہیں جو مرزا غالب نے اپنے

دوستوں کے نام لکھیں ہندوستان میں غالب چونکہ ہر شخص کو مانتے بھی نہیں تھے فارسی

ے حوالے سے بہت لوگوں یعنی شعراء یا نثر نگاروں کے بارے میں ان کی رائے کیا تھی ک

اور کن اصحاب کو سند مانتے اور کن اصحاب کو وہ مسلم الثبوت مانتے تک نہیں اور کچھ

معروف اور اپنے وطن کے فارسی داں حضرات کے بارے میں ان کی کیا رائے تھی خود

رسی زبان دانی کے حوالے سے ہیں چودھری عبدالغفور غالب کے زبان سے سنیئے جو فا

سرور کو لکھتے ہیں۔

ے اور چیز ہے اور کمال اور ہے علم "دعو

عربی اور شے ہے اور فارسی کی حقیقت

حال اور ہے۔ جال الئے طب طبائی رحمت ہللا

علیہ نے سیدائے ہندی کو ایک رقعہ لکھا۔

عبارت اس وقت یاد نہیں آتی مگر یہ مضمون

س کا کہ ایک دن موالنا عرفی سے کہا کہ ہم ا

نے تحقیق کو بسر خدا افراط پہنچا دیا اور

فارسی میں خوب کمال پیدا کیا عرفی نے کہا

کہ اس کو کیا کروگے کہ ہم نے جب سے

ہوش سنبھاال ہے، گھر کے بڈھوں سے اور

بڈھیوں سے جو بات سنی۔

139

"شیخ گفت، فارسی از انوری و خاقانی فرا

ایم و شما از پیرزناں آموختہاید" انوری گرفتہ

و حاقانی نیز از پیر زناں آموختہ باشند ختم۔

غالب کہتا ہے کہ ہندوستان کے سخنوروں

میں حضرت امیر خسرو دہلوی علیہ الرحمتہ

کے سوا کوئی استاد مسلم الثبوت نہیں ہوا۔

خرو کخیسر و قلم و سخن طرازی ہے یا ہم

سعدی شیرازی چشم نظامی گنجوی وہم طرح

ہے خیر فیضی بھی نغز گوئی میں مشہور

ہے، کالم اس کا پسندیدہ جمہور ہے دیکھو

عبدالقادر بدایونی کیا لکھتا ہے زہے۔۔۔! آرزو،

فقیر اور شیدا اور بہار وغیرہم انھیں میں

آگئے۔ ناصر علی اور بیدل اور غنیمت ان کی

فارسی کیا؟ ہر ایک کا کالم بنظر انصاف

تھ گنگن کو آرسی کیا؟دیکھے، ہا

منت اور مکیں اور واقف اور قتیل یہ تو اس

قابل بھی نہیں کہ ان کا نام لیجئے۔ ان

حضرات میں عام علوم عربیہ کے شخص

ہیں۔ خیر ہوں، فاضل کہالئیں، کالم میں ان

کے مزا کہاں؟ ایرانیوں کی سی ادا کہاں؟

فارسی کی قاعدہ دانی میں اگر کالم ہے اس

قیاس ایک بالیئے عام ہے۔ وارستہ میں پیروی

سیالکوٹی نے خان آرزو کی تحقیق پر سو

جگہ اعتراض کیا ہے اور ہر اعتراض بجا

ہے باانیمہ وہ بھی جہاں اپنے قیاس پر جاتا

ہے منہ کی کھاتا ہے۔ مولوی احسان ہللا ممتاز

140

کو صنائع لفظی میں دستگاہ اچھی تھی۔ اس

سی وہ شیوہ و روش کو خوب برت گئے۔ فار

کیا جانیں؟ قاضی محمد صادق اختر عالم ہوں

گے۔ شاعری سے ان کو کیا عالقہ؟ ایک بات

حضرت کو اور معلوم رہے کہ ہندی فارسی

دونوں نے کمال کو وہم میں منحصر رکھا

(۵۱ہے۔" )

چونکہ غالب امیر خسرو دہلوی کے عالوہ کسی کو مانتے تک نہیں اور اس وقت جو فرہنگ

لکھیں اور جو ہندیوں کی لغت تھی اس کے بارے میں غالب کی جو رائے ہیں اور لوگوں نے

ء کو ہرگوپال تفتہ کے نام ایک خط میں ۱۸۶۵مئی ۱۴وہ بھی ان کی زبانی سنیئے

لکھتے ہیں۔

"اہل ہند میں سوائے خسرو دہلوی کے کوئی

مسلم الثبوت نہیں۔ میاں فیضی کی بھی کہیں

نگ لکھنے کہیں ٹھیک نکل جاتی ہے۔ فرہ

والوں کا مدار قیاس پر ہے۔ جو اپنے نزدیک

صحیح سمجھا، وہ لکھ دیا۔ نظامی و سعدی

وغیرہ کی لکھی ہوئی فرہنگ ہو تو ہم اس کو

مانیں ہندیوں کو کیوں مسلم الثبوت

(۵۲(جانیں۔"

خطوط میں فارسی الفاظ کا استعمال:

یہاں پر ہم ایسی فارسی الفاظ ، تراکیب اور محاوروں کی نشاندہی کریں گے جسے مرزا غالب

نے اپنے خطوط میں استعمال کیے ہیں۔ لیکن ہمارے زمانے کی ادبی نثر میں ان کا استعمال

بالکل نہیں اس کے عالوہ مذہبی تحریروں میں اس طرح کے الفاظ کا استعمال اب بھی ہیں تاہم

ائے میں اب ایسے الفاظ متروک ہوچکے ہیں۔ مرزا غالب نے بعض ایسے فارسی ادبی سرم

اور عربی الفاظ کے ساتھ خود ہی فارسی افعال کا اردو میں ترجمہ کردیا ہے اسی طرح اس

کے ساتھ ساتھ بعض ایسے فارسی محاورے اور ترکیبیں بھی استعمال کی ہیں جو دور جدید

141

اسی حوالے سے غالب کے خطوط سے چند مثالیں مالحظہ میں اردو میں استعمال نہیں ہوتے

ہوں۔

غم کھانا: تمہارے تنہا اور بے مربی رہ جانے کا میں نے بہت غم کھایا، غم خوردن ، کا

(۵۳ء ۔)۱۸۶۸فروری ۲۶ترجمہ ۔ )بنام بہاری الل مشتاق، محررہ

مشقت کھینچا" مثقت میں مشقت کھینچ کر: جو کچھ اب لکھا ہے وہ لکھ کر تم کو بھیج دیتا"

(۵۴کشیدن" کا ترجمہ )

ء ۱۸۵۱مارچ ۲۸بنام منشی بنی بخش حقیر، محررہ

"مجھ کو تو مفید پڑا": یہ فقرہ " بہ من مفید افتاد" کا ترجمہ ہے۔

(۵۵ء )۱۸۵۱بنام منشی بنی بخش حقیر، محررہ اپریل تا جوالئی

ا "الزم آمدن" کا ترجمہ ہے بنام مرزا ہر اب تم کو بھی الزم آپڑا ہے۔ الزم آپڑن الزم آپڑا ہے:

(۵۶ء ۔ )۱۸۵۳فروری ۲۸گوپال تفتہ

غالب کے خطوط میں ایسے محاوروں اور تراکیب کی کمی نہیں ہے کثرت سے ایسے الفاظ کا

استعمال ہے۔ موالنا حامد حسن قادری نے "داستان تاریخ اردو" میں ایسے محاوروں اور

ں۔تراکیب کے بارے میں لکھتے ہی

"بعض جگہ الفاظ کی ترتیب میں قدامت ہے یہ فارسی کی عادت کا

اثر جو پہلے سے تھا اور اب تک رہا ہے بعض فارسی محاوروں کو ترجمہ

کردیا ہے۔ مثال لکھتے ہیں کوئی بے وفا ئی بھی سرزد نہیں ہوئی جو دستور

(۵۷قدیم کو برہم مارے"برہم مارنا' برہم زدن، کا ترجمہ ہے۔ )

ط غالب سے کچھ ایسی مثالیں پیش کریں گے جہاں مرزا غالب نے فارسی الفاظ کو اب خطو

فارسی مفہوم میں ہی استعمال کیا ہے۔

142

فارسی میں یہ لفظ سبب اور مقصد دونوں "منشا"

معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اردو میں صرف

"مقصد" کے مفہوم میں مستعمل ہے غالب نے یہ لفظ

ھی استعمال ہے مثال "منشا سبب کے مفہوم میں ب

(۵۸تشویش اضطرب کا یہ ہے" )

: فارسی میں یہ لفظ "درست، تصدیق، چھان بین اور دریافت" وغیرہ کے مفہوم میں تحقیق

استعمال ہوتا ہے۔ غالب نے اسے فارسی معنوں میں بھی استعمال کیا ہے۔ مثال

(۵۹"یقین ہے کہ تم کو تحقیق حال معلوم ہوگا" )

میں رمیدگی، خوف سے بھاگنا، کنارہ کشی اختیار کرنا، سودا اور دیوانگی" فارسی وحشت:

کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ غالب نے یہ لفظ "کنارہ کشی" کے مفہوم میں بھی

استعمال کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔

"پھر اس وحشت کی کیا وجہ اگر کہا جائے کہ وحشت نہیں ہیں تو اس کتاب اور مثنوی کی

(۶۰نہ لکھنے کی وجہ کیا" ) رسید

یہ لفظ اردو میں دلی لگاؤ، زمینی اور جغرافیائی حوالے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ عالقہ:

فارسی میں یہ لفظ نوکری اور مالزمت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ غالب نے اس مفہوم میں

استعمال کیا ہے۔ مثال

(۶۱بھی شامل ہو" )"مجھ کو فکر جانی کی ہے کہ اسی عالقے میں تم

اردو میں دوبارہ زندہ کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ فارسی میں حیی کی جمع "احیا"

احیاء زندہ لوگوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ غالب نے دوسرے مفہوم میں بھی استعمال کیا

ہے۔ مثال

(۶۲" )"دعا مانگتا ہوں کہ اب ان احیاء میں سے کوئی میرے سامنے نہ مرے

143

"رنجور" فارسی میں یہ لفظ بیمار اور غمزدہ دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے غالب نے

بیمار کے معنی میں یہ لفظ استعمال کیا ہے۔

(۶۳"ایسا نہ ہو کہ گرمی کی تاب نہ الئیں اور روزہ رکھ کر رنجور ہوجائیں" )

عنی اردو میں لکھتے ہیں وہ اسی مثالوں کی طرح مرزا غالب نے مندرجہ ذیل الفاظ کے جو م

فارسی میں تو مستعمل ہیں مگر اردو میں نہیں۔ مثال توقف بمعنی صبر و تحمل، سیاست، بمعنی

سزا، مسترد بمعنی واپس کرنام ہمدرد بمعنی جو غم تجھ کو ہے وہی غم مجھ کو بھی ہے۔

ستعمال کیا اسی طرح غالب نے "مگر" کو شعر اور نثر دونوں میں "شاید" کے معنوں میں ا *

ہے۔

مرزا غالب نے اردو میں فارسی اور عربی کے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ جو اردو میں *

مستعمل نہیں۔ مثال: ادغانی بمعنی یقین، گزاف، بمعنی یا وہ گوئی، ریب بمعنی شک، درنگ

بمعنی تا خیر، ایمن بمعنی محفوظ، بحل بمعنی معاف کرنا، کون بمعنی تعمیر، وجودی آنا،

انفراد بمعنی تنہا، اکیال، استعالج بمعنی عالج، مجموع بمعنی تمام، ذلت بمعنی غلطی، مبطل

بمعنی غلط ثابت کرنے واال، عظنون بمعنی شبہ ہونا۔

مرزا کبھی آدھے اور کبھی پورے فقرے فارسی میں لکھ جاتے ہیں۔ *

نت اور شادمانی ہے" "سر آغاز فعل میں ایسے ثمر پائے پیش رس کا پنچا نوید ہزار گونہ میم

(۶۴)

(۶۵"اتحاد اسمی دلیل مودت روحانی ہے" )

(۶۶"اور وہ امر بعد تعجب مفرط کے موجب نشاط مفرط ہوگا" )

(۶۷"صریر قلم ماتمیوں کے شیون کا خروش ہے" )

(۶۸"بہ سبب استعمال ادویہ حاوہ کہ اس مرض میں اس سے گریز نہیں")

(۶۹وعد انشا ہوگیا" )"جس کی جی میں آئی وہ متعدی تحریر ق

(۷۰"ایک مژہ برہم زدن نہیں تھی" )

144

(۷۱"آفتاب سر کوہ ہیں" )

(۷۲"میں خود اس مثنوی کے واسطے خون درجگر ہوں" )

(۷۳"کیا جگر خون کن اتفاق ہے" )

(۷۴"نشتر کیوں کھایا ، مگر یہ کہ بطریق خوشامد طبیب سے رجوع کی" )

(۷۵اس لفافے میں بھیجتا ہوں" )"فرط خلجت سے سر درپیش ہوکر قصیدے کو

(۷۶"اپنے اپنے عزیزان بہ سفر رفتہ کو لکھا" )

ان مثالوں میں ہماری زیادہ تر بحث چونکہ فارسی الفاظ، تراکیب اور فقروں وغیرہ سے رہی

ہے۔ لہذا تھوڑی بہت بحث غالب کی فارسی زبان سے متعلق ضروری معلوم ہوتی ہے۔ یہ حقیقت

طع برہان" میں اپنی زباندانی کے ثبوت فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ غالب نے "قا

ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا غالب کے اعتراضات کو تسلیم کرنے کی بجائے اس دور میں

غالب کی محالفت ہوئی۔ اس کا سبب کیا تھا؟ کیا غالب کے لگائے گئے اعتراضات سارے کے

ایسی کمی تھی جس کے باعث صاحب کمال لوگ غالب سے سارے غلط تھے؟ یا ان میں کوئی

متفق نہیں ہورہے تھے۔ غالب نے اپنے خطوط میں بھی چونکہ "قاطع برہان" کا ذکر متعدد بار کیا

ہے۔ لہذا بہتر ہی محسوس ہوتا ہے کہ "قاطع برہان" کے حوالے سے غالب کی فارسی دانی کا

بڑی چابکدستی سے پیش کرتے ہیں۔ جائزہ لیں۔ پرفیسر نذیر احمد اس صورت حال کو

"قاطع برہان میں غالب نے مولف "برہان قاطع" پر سخت جملے کیے ہیں

اور برہان کی غلطیوں کی نشاندہی کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان کی نظر میں

تضحیفات تک جاسکی ہے۔ ہزار روش اور دساتر دونوں کی اصل حقیقت ان

میں ان کی کوشش کا نتیجہ صرف پر واضح نہیں ہوسکی تضحیفات کے سلسلے

یہ نکال کہ ایک لفظ کی متعدد صورتوں کا ذکر تو ہوگیا لیکن یہ فیصلہ نہ ہو سکا

کہ ان میں کون اصل ہے اور کون طرف۔ دراصل الفاظ کی متعدد شکلوں

145

میں اصل اور صحیح لفظ کا یقین بڑے علم کا متقاضی ہے۔ قدیم ایران کی زبانوں

ساتھ سنسکرت اور متعلقہ زبانوں کی شناسائی فارسی لغاتسے واقفیت کے ساتھ

کا دقیق مطالعہ اور فارسی منشور و منظوم متون سے کما حقہ آگہی الزمی امر ہے مگر

غالب کو ان میں سے کسی سے درک نہ تھا۔۔۔۔

قدیم مخطوطات تو انن کی دسترس ہی میں نہ تھے اور جیسا کہ معلوم ہے نویں صدی

ی میں دال، ذال کا فرق برابر رکھا جاتا تھا۔ اگر غالب کی نظر سےعیسوی تک فارس

ایسے مخطوطے گزرے ہوتے تو وہ ذال فارسی کے وجود سے انکار نہ کرتے۔ اس لیے

کہ ہر مخطوطے میں سینکڑوں الفاظ میں ایسی جگہ ذال ہے جو بعد میں دال سے لکھے

ن صالحیتوں کا تقاضا کرتی تھی، گئے مختصر یہ کہ برہان قاطع کے نقائص ی نشاندہی ج

(۷۷غالب میں صالحیتیں موجود نہ تھیں اس بنا پر ان کے اکثر اعتراضات بے بنیاد ہیں" )

یہاں اس بحث سے ہماری مراد مرزا غالب کی کم علمی ثابت کرنا نہیں بلکہ صحیح صورت حال

یکھئے کہ وہ اس کا اظہار کا ادراک ہے۔ مرزا غالب کو اپنی فارسی دانی پر بڑا ناز تھا۔ ذرا د

اپنے ایک خط میں کس طرح کرتے ہیں۔

"ہللا ہللا غالب نام آور نام دار کوئی شہر امیانہ دیکھا جس میں ان کے دو چار

شاگرد، دس بیس معتقد نہ دیکھے ہوں۔ ایک عالم ان کی فارسی دانی اور شیوہ

بیانی کا معترف، نظم میں مال ظہوری و نظیری وعرفی کے برابر نثر میں نثار ان

سابق و حال سے بہتر کلیات نظم نسخہ سحر سامری ، نثر میں پنچ آہنگ، سلک در

خوش آب دشنبو گوہر نایاب ، مہر نیمروز غیرت آفتاب، نکتہ نکتہ ایک کتاب

جانتے ہیں اور معنی کا حسن ہر کتاب ممتنع الجواب، جو بالغت اور فصاحتکو

پہنچانتے ہیں، متفق علیہ ان کا ہی عقیدہ ہے، اگر ایک آدمی کو عوام میں سے

146

(۷۸یہ عقیدہ نہ ہو تو وہ آڈمی بے شک ایک گروہ کا مردود ہوگا۔" )

اس عبارت سے نہ صرف مرزا غالب کی اپنی نثر پر بجا ناز کو ظاہر کرتی ہے بلکہ غالب کی

منہ بولتا ثبوت بھی فراہم ہے۔ جس کا ذخر وہ بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ اس زبان دانی کا

انگریزی الفاظ کا تلفظ اور ان کا ترجمہ:

مرزا غالب نے چونکہ فارسی اور اردو نظم و نثر دونوں میں خاصی بڑی تعداد میں انگریزی

ہے۔ اس کے بے تکلفی سے استعمال کیا الفاظ اور بعض انگریزی الفاظ کے اردو ترجموں کا

بارے میں ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں۔ بقول خلیق انجم

"غالب اگر چہ انگریزی نہیں جانتے تھے، لیکن انگریزی مکتوب نگاری کے

اصول و ضوابط سے پوری طرح واقف تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنشن

کے سلسلے میں برطانوی حکومت سے ان کی خط و کتابت تھی۔ غالب کو

خط انگریزی میں ملتے تھے اور غالب انگریزی حکمرانوں کو حکومت کے

انگریزی اور فارسی دونوں زبانوں میں خط لکھتے تھے غالب خط کا مسودہ

فارسی یا اردو میں تیار کرتے تھے اور ایسے لوگوں سے ترجمہ کرواتے

تھے جو انگریزی اور انگریزی مکتوب نگاری سے بخوبی واقف تھے۔ نیشنل

نئی دہلی میں غآلب کے وہ خطوط مخفوظ ہیں جو انھوں نے آرکائیوز

(۷۹برطانیہ کے اعلی افسران کو پنشن کے سلسلے میں لکھے تھے۔" )

یہ بتانا تو ممکن نہیں کہ غالب انگریزی الفاظ کا تلفظ کس طرح کرتے تھے، ہاں ان الفاظ کی امال

دازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے۔ اس جس طرح غالب کیا کرتے تھے، اس سے تلفظ کا تھوڑا بہت ان

ضمن میں پہلے غالب کے انفریزی الفاظ کے وہ ترجمے جو غالب نے استعمال کیے ہیں ان کا

ذکر کریں گے حاالنکہ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ترجمے خود مرزا غالب کی اکتراج ہیں یا اس

زمانے میں اس کا رواج تھا یا رائج تھے۔

147

: Telegram تار برقی، تار بجلی

Machانگریزی دیا سالئی :

Governer General حاکم اکبر:

Photographآئینہ کی تصویر، عکس کی تصویر :

Divisionکمشنری :

Steamer ذخانی جہاز :

Martial Lawجرنیلی بندوبست :

Reply Post Cardڈبل خط پوسٹ پیڈ :

Post Master General بڑا پوسٹ ماسٹر :

Regestered Letter رجسٹری دار خط :

مرزا غالب نے بعض انگریزی الفاظ کی امال اس طرح کی ہے جس سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا

ہے کہ مرزا غالب ان الفاظ کا تلفظ مروجہ تلفظ سے بہت مختلف کرتے تھے۔

سکرتر یا Town Duty پان ٹوٹی Lord الرڈ

Secertary سکرتری

برگڈیر Liquor لیکور Government گورنمنٹ

Brigadier

Camp کمپ Pension پنشن Barrack پارک

Council باہمی مشورہ Report رپوٹ Tiffen پٹن

لیکن کچھ انگریزی الفاظ کی امال جو مرزا غالب نے کی ہے۔ وہ اردو میں آج بھی قابل قبول نہیں رہی۔ مثال

Stamp اسٹامپ Number لمبر Agent اجنٹ Cheque چک

148

رسیڈنٹ Station اسٹیشن Certificate سارتی فکٹResident

اب وہ انگریزی الفاظ دیکھیں جن کی امال آج بھی تقریبا وہی ہے جو غالب کی تحریروں میں ملتی ہے۔

)غالب نے Agrementاگریمنٹ Doctor ڈاکٹر Ticket ٹکٹ گریمنٹ بھی لکھا ہے(

Post paid پوسٹ پیڈ Deputy ڈپٹی Parcel سلپار

149

مرزا غالب کے فارسی خطوط کا تنقیدی جائزہ

مرزا اسدہللا خان غالب کو قدرت نے صرف شعر و ادب کیلئے پیدا کیا تھا۔ اور یہ جوہر عطاء

کیے تھے جو شاذ ہی کسی ایک فرد میں جمع ہوتے ہیں۔ مرزا غالب نثر پر متوجہ ہونے سے

تیس پینتیس سال تک وہ حریم ادب فارسی کے طواف میں مشعول رہ چکے تھے۔اسی پہلے

مشغولیت کے دوران میں ان کے قوائے فکر و نظر نے نشو و بلوغ کی منزلیں طے کیں اور

اسالیب بیان کے دقائع و معارف پر انہیں عبور حاصل ہوا، فارسی زبان کے خزینہ ادب میں

ادا کے جو شہوار گوہر جمع ہوتے رہے تھے۔ مرزا غالب صدیوں سے حسن کالم اور لطافت

نے نہ مخض انہیں درج حافظ میں جمع کیا بلکہ ایک بالغ نظر جوہری کی طرح ان گوہروں

سے دو قرنوں تک طرز و آرائش کےنئے شیوے اور نئے نئے انداز پیدا کرتے رہے، میرزا

کی فضا میں ابر گوہر بار بنا کر غالب فارسی ادب کی پوری دولت سمیٹ لینے کے بعد اردو

نمودار ہوئے زبان کی لطافت الفاظ کی موزونی ، بیان کے حسن اور تراکیب کی دآلویزی کے

اسرار ان پر روشن ہوچکے تھے وہ معانی کے دریا کو عبارت کے کوزے میں بند کرنے کی

تحریر اور اہل کو ہنر مندی میں کمال بہم پہنچا چکے تھے۔ ادب میں یہ مقام بلند ہر صاحب

میسر نہیں آتا۔ اال یہ کہ مبدائے فطرت نے نہایت فیاضی سے کسی شخص کو ادبی سر بلندی

کاوش و جستجو، کوشش اور محنت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی لیکن یہ سب تو بعد کی

باتیں ہیں ، سب سے پہلے ضروری اور بنیادی بات یہ ہے کہ فطرت نے کسی ادبی شخصیت

تک ادبی مذاق سے نوازا ہے، دراصل داد ذہانت و لیاقت اور فطری رجحان و میالن کو کہاں

ہی وہ جوہر اصلی ہوتا ہے۔ جس سے ادبی مذاق و مزاج کا خمیر اٹھتا ہے۔ لفظوں کو جوڑ

کر فقرے تیار کر لینا یا پیش نظر مطالب کو الفاظ کا لباس پہنا دینا آسان ہے، لیکن لفظوں کی

ے حقائق کا صحیح اندازہ کرتے ہوئے ان سے موقع و محل کا کام لینا سہل معنویت کے ک

نہیں ۔

بقول مولوی عبدالحق خطوں سے انسان کی سیرت کا جیسا اندازہ ہوتا ہے وہ کسی دوسرے

ذریعے سے نہیں ہوسکتا غالب کے خطوط سے غالب کی شخصیت اور مزاج و مذاق کی

۔ شاعری میں مرزا غالب کی شخصیت اور مزاج پوری تصویر ہمیں بنتی ہوئی مل جاتی ہے

کے کچھ رخ متعین ضرور کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ غالب کی پوری شخصیت اور ان کے

ادبی مزاج و مذاق کا کما حقہ اظہار ان کے خطوط میں ہوتا ہے۔ خطوط غالب ہی وہ شفاف

ر نظر آتے ہیں۔ یہی وہ آئینہ ہے جس میں مرزا اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جلوہ گ

ادبی میدان ہے جس میں مرزا غالب اپنی فطری صالحیتوں کے ساتھ پورے کے پورے

موجود ہیں۔ موالنا الطاف حسین حالی "یادگار غالب" میں غالب کے بارے میں لکھتے ہیں۔

"یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ لڑیری قابلیت کے لحاظ سے مرزا

ر خسرو اور فیضی کے بعد آج تکجیسا جامع حیثیات آدمی امی

150

(۸۰ہندوستان کی خاک سے نہیں اٹھا۔ )

خطوط غالب کے مطالعہ سے جہاں غالب کی زندگی ، شخصیت اور ماحول کی تفصیالت

ملتی ہیں۔ وہاں اس زمانے کے سیاسی ، معاشرتی اور تمدنی احوال و کوائف اور موثرات کی

تمدن کا آخری ترجمان تھا جس نے اپنے خطوط میں تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔غالب مغل تہذیب و

روبہ انحطاط مغلیہ تہذیب کے آثار و مظاہر کو محفوظ کیا۔ اس لخاظ سے خطوط غالب کی

ایک تاریخی نقطہ نظر سے مکاتیب غالب ایک پیش بہا سرمایہ ہیں۔ جو اپنی قدرو منزلت کے

کی نثر پر فارسی زبان و ادب اعتبار سے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔ غالب

کے اثرات بہت زیادہ ہینلیکن اس سے ان کی نثر بوجھل ہونے کے بجائے رنگین اور خوش

آہنگ ہوتی نظر آتی ہے۔ مرزا غالب نے اپنی نثر میں فارسی زبان کی نئی نئی ترکیبیں

امانوس تراشنے کا سلیقہ بہم پہنچایا ہے۔ مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے، کہ یہ ترکیبیں ن

نہیں ہوتیں مرزا غالب نے اپنے شخصیت کا سکہ اپنی فارسی اور اردو خطوط جو کہ نثر میں

ہے بہت خوب صورت انداز میں جمایا ہے۔ ان کے اسلوب و انداز پر ان کی شخصیت کی

واضح چھاپ ملتی ہے۔ غالب کی نثر ان معنوں میں ایک زندہ نثر ہے کہ وہ زندگی کی

ختلف طرح کے مطالب کے لئے تاثراتی اسلوب اختیار کیا اور کہیں ترجمان ہے۔غالب نے م

اپنے ماحول کی جزئیات نگاری کے لئے ایک جداگانہ طرز ادا اپنایا۔ جو ایسی نثر کے

تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کہیں تفریخی عنصر پیدا کرنے کیلئے الگ اسلوب بیان استعمال

ہوتے ہیں۔ تو اسلوب بیان اس کے مطابق کیا ہے۔ کہیں بعض واقعات بیان کرنے مقصود

صورت اختیار کرتا ہے۔ غرض یہ کہ جدید نثر نگاری کے تمام تر تقاضے پورے کرنے کے

لئے نثر غالب اپنے اندر بہترین نمونے رکھتی ہے۔ مرزا کے اس قسم کے مضامین کے بارے

میں موالنا الطاف حسین حالی"یاگار غالب" میں لکھتے ہیں۔

فارسی زبان میں )خواہ نظم ہو خواہ نثر( ہر قسم کے مضامین"مرزا کو

بیان کرنے پر ایسی ہی قدرت حاصل تھی جیسی کہ ایران کے ایک

بڑے سے بڑے مشاق و ماہر و مسلم الثبوت استاد کو ہونی چاہئے ۔

لیکن جس طرح تمام ممتاز اور نامور شعراء میں خاص خاص مضامین

دیکھی گئی ہے۔ اسی طرح مرزا غالب بھی اسکے ساتھ زیادہ مناسبت

کلیہ سے مستثنی نہ تھے۔ تصوف، حب اہل بیت، فخر، شوخی و ظرافت

و رندی و بے باکی، بیان رنج و مصیبت و شکایت و زار نالی، اظہار محبت و

ہمدردی حسن طلب یہ چند میدان ایسے تھے جن کا بیان مرزا کے

طیف و ملیح و مرقص واقع ہوا ہے۔"تمام اضاف سخن میں اکثر نہایت ل

151

(۸۱)

مرزا غالب اپنے عہدکا فنکا کار ہی نہیں تھا غالب کی شخصیت میں آفاقیت کے اصول موجود

تھے ۔ مرزا غالب کا ادب اپنے زمانے کے لیے ہی نہیں تھا۔ بلکہ اس میں مستقبل کی رہنمائی

موجود نہیں جس کے لئے کی نوید بھی پائی جاتی ہے۔ آج بھی نثر کی کوئی ایسی صنف

مکاتیب غالب میں طرز ادا کی رہنما نہ ملتی ہو۔

میرزا غالب کی فارسی نظم کے مقابلے میں فارسی نثر بہت کم ہے۔ ہمارے ناقدین کی زیادہ

تر توجہ شاعری پر رہی ہے حاالنکہ ان کی نثر پر بھی توجہ کی اشد ضرورت ہے غالب کی

تخلیقی خوبیاں پوشیدہ ہے۔ غالب کے پنچ آہنگ ، مہر نثر میں بھی شاعری کی طرح اعلی

نیمروز اور دستنبو، ان کی فارسی نثر کے بہترین نمونے ہیں۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا

ہے کہ غالب کی نثر ابوالفضل، ظہوری اور بیدل کے اسالیب کا آمیزہ ہے۔ بقول الطاف حسین

حالی "یادگار غالب" میں لکھتے ہیں۔

ساٹھ برس گزرے کے لکھنؤ کے ایک الئق آدمی نے مرزا کی نثر"تقریبا

کی بہ نسبت یہ بات کہی تھی کہ شیخ ابوالفضل اور میرزا بیدل دونوں کے

مختلف اسٹائلوں سے کچھ کچھ مختلف باتیں اخذ کرکے ایک جدا اسٹائل پیدا

تا ہےکیا گیا ہے لیکن میرزا کی نثر کا ان دونوں کی نثروں سے مقابلہ کیا جا

(۸۲تو میرزا کی کوئی ادا ان کی طرز ادا سے میل نہیں کھاتی۔" )

میرزا غالب ان نثر نگاروں میں سے ہیں جنہوں نے صرف فارسی نثر لکھنے کی کوشش کی

ہے اور خالص فارسی کی طرف توجہ کی ان کی فارسی نثر کے بارے میں غالب اور عہد

غالب میں لکھتے ہیں۔

غالب ان فارسی نثر نگاروں میں سے ہیں

جنہوں نے خالص فارسی لکھنے کی کوشش

کی تھی اور اس کوشش میں وہ بھٹک کر

دساطیر کے جال میں پھنسے ہیں آرش،

فرتاب، وحشور، تنائی جاور گردش وغیرہ

دساتیری الفاظ ان کی فارسی تحریر میں جابجا

ملتے ہیں خالص فارسی الفاظ کے استعمال

وشش میں غالب نے متعدد ایسی ترکیبیں کی ک

وضع کی ہیں جو اس سے قبل بہت کم

دیکھنے کو ملتی ہیں اور جن سے فارسی

152

زبان کا دامن یقینا وسیع ہوا۔ سخن پیوند، سخن

گزار، تن بہ زبونی دردادن ، ناخن شوخی

نفس، اندیشہ، آسمان پیوند داغ، منت خس عنقا

ایجاد شکار جیسی ہزار ہا تراکیب غالب کی

طبع ہیں۔ غالب نے اپنی فارسی نثر میں ہزار

ہا ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو خالص

فارسی الفاظ ہیں یا جنہیں استعمال کیے ہیں۔

سیرہ کہا جاسکتا ہے اور جو ہندوستانی

فارسی میں شاز و نادر ہی استعمال ہوتے

(۸۳تھے۔ )

نیمروز کی یا تقریضوں کی اس میں ان غالب کی فارسی خطوط چاہیئے خطوط کی ہو یا مہر

کا مزاج شاعرانہ ہے ان کی عبارت میں بھی تخصیل نثری مزاج کے بجائے شعری مزاج

لکھتی ہے انہوں نے ان میں نثر میں ان تشبیہات، استعارات اور امور کا استعمال بہت زیادہ کیا

یرا یہ شاعرانہ ہوگیا ہے۔ جن کا تعلق شاعری سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر کا پ

ہے۔

مرزا غالب چونکہ بنیادی طور پر ایک شاعر تھے اور قدرت نے ان کا ذہن ان کی طرف مائل

کیا ہوا تھا اور یہی وہ وجہ ہے کہ وہ نثر کے بیانیہ کو شاعری ایجاز میں تبدیل کردیتے ہیں

ند تھی چاہیئے اور اس کے ساتھ طرز ادا کی جو جدت غالب کے ہاں ہے وہ غالب کو بہت پس

وہ نثر میں ہو یا شاعری میں اسی طرح نثر میں طرز ادا کی جدت کے بہترین نمونے غالب

کے خطوط میں ہمیں ملتے نظر آتے ہیں طرز ادا کی جدت کے لیے غالب نے جو علم بیان

کیے جن وسائل کا سہارا لیا ہے، جیسے تشبیہ، استعارہ، کنایہ، مجاز مرسل اور اسی طرح ان

ل کو استعمال کرنے کے لیے جس قسم کی تخیل کو بروئے کار الئے ہیں۔ اس سے ان وسائ

کی نثر شعر کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس کے بارے میں موالنا الطاف حسین حالی

لکھتے ہیں۔

"مرزا کی فارسی نثر کو اس بنا پر کہ وہ وزن

سے معری ہے صرف ایثائی اصطالح کے

ہ وزن اگر وزن سے قطع موافق نثر کہا جاسکتا

نظر کی جائے تو میرزا کی نثر میں شاعری کا

عنصر نظم سے بھی غالب تر معلوم ہوتا ہے

خصوصا کلیات نظم کا دیباچہ اور خاتم، مہر

نیمروز کے ابتدائی عنوان، تمام تقریظیں اور

دیباچے جو لوگوں کی کتابوں پر میرزا نے

153

صہ لکھے ہیں اور مکاتبات کا ایک معتدیہ ح

سراسر شاعرانہ خیات اور پوٹیکل نظم و نسق

(۸۴پر مبنی ہے۔" )

مرزا غالب کی فارسی نثر پر موالنا حالی پر بڑی گہری بات کہی ہے حالی کی اس رائے

سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غالب نے فارسی نثر نگاروں میں جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ نثر

ہے غالب کی ان نثر کو نہ تو ہم سادہ کہ سکتے ہیں اور کی استعمال کردہ اقسام سے مختلف

نہ مشکل اور نہ مرصع، اگر اس کے لیے ہمکوئی لفظ استعمال ہوسکتا ہے تو وہ شاغرانہ

ہوسکتا ہے۔غالب کی طریقہ نثر پر ابوالفضل ظہوری، بیدل دوسرے حضرات کا اثر ضرور

الب نے فائدہ لیا ہے۔ لیکن پھر بھی ہے اور ان تمام میں خاص کر ابوالفضل کے لغات سے غ

ان میں سے کسی کا مطلق پیرو نہیں قرار دیا جاسکتا غالب نے اپنی روش خود ایجاد کی تھی

"غالب اور عہد غالب" میں فارسی کے بارے میں لکھتے ہیں۔

فارسی میں وہ صاحب طرز نثر نگار تو بن گئے

لیکن نثر کے نئے تقاضوں کا کام پورا نہ کرسکے

لبا اس کی وجہ یہ تھی کہ غالب کا دور ہندوستان غا

میں فارسی کے زوال کا جائزے سے سامنے آئے

گا غالب کو فارسی نثر کے حوالے سے ان کے عہد

کا نثر نگار نہ سمجھ کر ماضی کا نثر نگار ہی

(۸۵سمجھنا چاہیئے ۔ )

ے والے کی ذات جہاں تک غالب کی مکتوب نگاری کا تعلق ہے اگر دیکھا جائے تو ہر لکھن

اور اس کے زمانے کی تفہیم کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔اور ان تمام میں ایک اہم ذریعہ

ادب بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خؤد اصناف ادب میں مکتوبات وہ اہم ترین ذریعہ ادب

بھی ہے جن سے کسی شخصیت کے تصورات میالنات، توھمات، تعصبات، تجربات اور اس

نے کی فکری ،مجلسی اور معاشرتی زندگی وغیرہ کا اچھی طرح اندازہ ہوسکتا ہے۔ کے زما

اسی سلسلے میں مشاہیر کے خطوط کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے۔ جن کا مطالعہ انتہائی

ضروری ہے اور بعض صورتوں میں ان خطوط کا مطالعہ عبرت انگیز اور حیرت حیز بھی

ہے۔

ان تمام خطوط میں مکاتیب غالب نے ایک سچی شہرت حاصل کی اس کی مثال نہیں ملتی

اسی طرح اس کے ساتھ غالب کے جو فارسی خطوط ہے تقریبا طالب علم ان کی فائدہ سے

کافی حد تک محروم رہے ہیں۔ حاالنکہ یہ خطوط بہت سے حوالوں سے غالبیات کا نہایت

غالب کی زندگی کا اہم ترین ماخذ بھی جہاں تک غالب کی قیمتی اور اہم سرمایہ ہیں اور

ء تک کا احاطہ کیا ہوا ۱۸۶۸ء سے ۱۸۲۶فارسی خطوط کا تعلق ہے اس کا عرصہ

ہے یعنی گویا ان کی فارسی مکتوب نگاری ان کی اردو مکتوب نگاری پر مقدم ہے اور اگر

154

غالب کا موزوں ترین ماخذ دیکھا جائے تو اس لحاظ سے اس زمانے کے واقعات اور سوانح

ہے اس لحاظ سے مکتوب نگاری پر اسے نہ صرف زمانی اولیت حاصل ہے بلکہ زمانی

پھیالؤ بھی، کیونکہ فارسی خطوط نگاری کا زمانہ کم بیش بیالیس سال کا احاطہ کرتا ہے اس

اعتبار سے اگر دیکھا جائے توفارسی مکاتیب کے ایک قابل لحاظ حصے کو ان کے

اردو اسلوب کا پیش رو اور بنا کار بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مراسلے کو مکالمہ مخصوص

بنانے کا منشور مرزا غالب نے اردو میں خطوط نگاری کے آغاز سے تقریبا بیس سال پہلے

یہی طے کرلیا تھا۔ غالب نے فارسی زبان مال عبدالصمد سے سیکھی اور اس کے بارے میں

اس شخص کے بارے میں خؤد غالب کے بیانات میں عجیب و کئی حوالے ملتے ہیں اور

" کے کئی خطوط کے عالوہ ایک خط ۱۷دلچسپ اختالف یا ظرافت موجود ہے۔ "اردو معلی

ء میں نواب کلب علی خاں رئیس رام پور کو لکھتے ہیں ۔ ۱۸۶۶اکتوبر

"بدو فطرت سے میری طبیعت کو زبان فارسی سے

فرہنگوں سے بڑھ کر ایک لگاؤ تھا۔ چاہتا تھا کہی

کوئی ماخذ مجھ کو ملے، بارے مراد برآئی اور

اکابر پارس میں سے ایک بزرگ یہاں وارد ہوا اور

اکبر آباد میں فقیر کے مکان پر دو برس رہا اور

میں نے اس حقائق و دقائق زبان فارسی کے معلوم

کیے اب مجھے اس امر خاصمیں نفس مطمئینہ

(۸۶حاصل ہے۔" )

لب کے فارسی خطوط میں ان کے زندگی کا تصور، تصور عشق، تصور شعر اور ان مرزا غا

کی صاف گوئی، وسعت علم، شعور انفرادیت، ال ابالی پن اور ان کے جذبے کی فراوانی کے

شان نشان ہیں ایک انگریز رائٹر کاکولن ولسن نے لکھا تھا کہ تم بحران اور حوادث سے

ے یہ بات غالب پر بالکل فٹ آتی ہے کہ غالب نے صرف نظر کرکے ان سے بچ نہیں سکت

اپنی زندگی کے بحرانوں اور حادثوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں دیکھا اور انہیں

خطوط کے ذریعے ہمیں دکھا یا ہے۔

مرزا غالب نے "پنچ آہنگ" میں ایک سے زیادہ موقعوں پر اپنی عالی نسبی کا ذکر کیا ہے

پہلے غالب کی آپ بیتی، خاندانی تاریخ اور ذاتی احوال کا مختصر اس حوالے سے سب سے

جائزہ فارسی خطوط کے حوالے سے لیتے ہیں۔

آپ بیتی ، خاندانی تاریخ اور ذاتی احوال! (۱

مرزا غالب کو اپنے اعلی نسب پر ناز تھا اور اس کا ذکر اس نے ایک بار نہیں

ں نہیں بلکہ شاعری میں بھی کیا ہے، فارسی بلکہ کئی بار کیا اور یہ ذکر صرف خطوط می

اشعار میں اپنے سلجوقی النسل اور تورانی الوطن ہونے پر جابجا فخر کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

155

ہمیں چونکہ شاعری کے حوالے سے بات کرنی کی وضاحت نہیں کرنی چاہیئے تھی ہم نے

ایک خط میں نہیں بار تو غالب کے خطوط سے ان باتوں کو ثابت کرنا ہے اور بات غالب کی

بار اس کا ذکر آیا ہے مثال کے طور پر "گل رعنا" کی ترتیب کے محرک اور کلکتے کے

باسی مولوی سراج الدین احمد کے نام غالب ایک خط میں اپنے اعلی نسبی و سوانحی احوال

سی کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہوئے دیکھائی دیتا ہے اور ساتھ یہ اندازہ کرنا چاہئے کہ ک

صاف گوئی کے ساتھ کرتے ہیں لکھتے ہیں۔

ترک نژاد م واسب من بہ افراسیاب و پشتگ می

پیوندد' و بزرگان من از آنجا کہ با سلجوقیاں پیوند

ہم گوہری داشتند، بعہد و دولت اینان رایت سروری

و سپہبدی افرشتند۔ بعد سپری شدن روز گار

روی جاہمندی آن گروہ چون بہ ناروائی و بینوائی

آورد جمعے را ذوق رہزنی و غارتگری از جائے

برد و طائفہ راکشاورزی پیشہ گشت۔ نیا گان مرابہ

توران زمین شہر سمر قند آرامشگاہ شد۔ از آن میانہ

نیای من از پدر خود رنجیدہ آہنگ ہند کردوبہ الہور

ہمر ہی معین الملک گزید۔ چون بساط دولت معین

مد و با ذوالفقار الدولہ الملک در نوشتند بہ دہلی آ

میرزا نجف خان بہادر پیوست۔ زان پس پدرم عبدہللا

بیگ خان بہ شاہجہان آباد بہ وجود آمد و من بہ اکبر

آباد۔ چون پنج سال از عمر من گذشت، پدر از سرم

سایہ بر گرفت۔ عم من، نصرہللا بیگ خان چون

خواست کہ مرابہ ناز پرورد، گاہ مر گش فراز آمد۔

بیش پنج سال پس از گذشتن برادر پئے مہین کما

برادر برداشت و ہمرا درین خرابہ جا تنہا گذاشت۔

"ترک نژاد ہو اور میرا سلسلہ نسب افراسیاب و

پشنگ سے جاملتا ہے۔ اور میرے اجداد چونکہ

سلجوقیوں کے ساتھ خون کا رشتہ رکھتے تھے، ان

کے عہد حکومت میں سرداری اور سپہ ساالری

ھنڈے اٹھاتے تھے۔ جاہ و مرتبت کے احتتام کے ج

پر جب وہ گروہ ناکامی اور بے نوائی سے دو چار

ہوا تو کچھ کو رہزنی اور لوٹ مارنے گمراہ کردیا

اور کچھ نے کاشت کاری کو اپنا پیشہ بنایا۔ میرے

اجداد نے توران کے شہر سمر قند میں بودوباش

156

دا نے اختیار کی۔ اسی زمانے میں میرے )پر( دا

اپنے باپ سے ناراض ہوکر ہندوستان کا عزم کیا

اور الہور میں معین الملک کی رفاقت اختیار کی۔

جب معین الملک کی بساط )اقبال( بھی لپیٹ دی گئی

وہ دہلی آگئے اور ذولفقار الدولہ میرزا نجف خان

کے متوسلین میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد میرے

ں پیدا ہوئے اور میں والد عبدہللا بیگ خان دہلی می

آگرے میں ۔میں ابھی پانچ سال ہی کا تھا کہ میرے

والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔میرے چچا نصرہللا

بیگ خان چونکہ چاہتے تھے کہ ناز و نعمت سے

میری پرورش کریں لیکن موت نے مہلت نہ دی اور

اپنے بڑے بھائی کی موت کے کم و بیش پانچ سال

ور مجھے اس ویرانے میں تنہا چھوڑ بعد انتقال کیا ا

(۸۷دیا" )

غالب کے اس خط کا یہ اقتباس خاصا طویل ہے میں نے اس کا مخض ایک حصہ نقل کرنے

پر اکتفا کیا ہے۔ اسی طرح غالب نے اپنے فارسی اشعار میں بھی اپنے سلجوقی النسل ہونے

ک نژاد سے جوڑتا ہے اور اور تورانی الوطن ہونے پر فخر کیا ہے۔ اور کبھی اپنا سلسلہ تر

کبھی ایرانی ہونے پر فخر کرتے ہوئے دیکھا گیا اور آخر میں ہندوستانی ہونے یعنی آگرہ پر

اس کے ساتھ ساتھ اپنی خاندان پر کہ میرے بزرگ سلجوقی خاندان سے تعلق رکھتے تھے

خان کے اور فوج میں اعلی عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں اسی حوالے سے مولوی رجب علی

نام اپنی آپ بیتی، خاندانی تاریخ اور ذاتی اخوال کے بارے میں لکھتے ہیں۔

فارسی:

سخن بیسیار است، بیسیارے ازان فرو گذاشتہ آید تا

در صورت دردے کہ زندگی در گرو درمان پذیر

فتن آنست عرضہ داشتہ آید۔ عم مرا درسر کار

انگریزی جاہے و دستاگہے و ملکے و سپاہے بود۔

بامن چنا نکہ پس از گذشتن سیل زمین نمانکماند

ازان ہمہ آثار ثروت آبروئے ماندو بس۔ در انجمن

گورنری بصف اصحاب یمین نشتگہے شایستہ

یافتمے و قصیدہ نذر کردمے وہم بدان نذر نہ بصلہ

مدح گستری بلکہ بہ رعایت رئیس زادگی و سروری

خلعت ہفت پارچہ با جیغہ و سرپیچ و ماالئے

157

روارید یا فتمے و بفرمان گورنمنٹ نذر خلعت م

برمن معاف بودے۔

ترجمہ:

"باتیں بہت سی ہیں اور ان میں سے بہت سی ایسی

ہیں جن کو بھال دیا جاتا ہے تاکہ اس درد کی

صورت مینکہ زندگی جس درد کی دوا کی تالش

میں مبتالہے، اظہار کیا جاسکے۔ میرا چچا

دستگاہ و ملک و انگریزی سرکار میں صاحب جا و

سپاہ تھا اور سیالب گزر جانے پر جس طرح زمین

گیلی رہ جاتی ہے میرے پاس بھی دولت مندی کے

ان آثار کے بعد صرف عزت ہی باقی رہ گئی۔

گورنر کے دربار میں داہنے ہاتھ کے عزت مندوں

میں مجھے ہمیشہ نشست ملتی تھی اور میں ایک

ر اس نذر کے قصیدہ بطور نذر کے پیش کرتا تھا او

عوض کہ جو مدح سرائیکے بدلے میں نہیں بلکہ

رئیس زادگی اور سرداری کی شناخت کے طور پر

بھی مجھے جیغہ سرپیچ اور ماالئے مروارید کے

ساتھ خلعت ہفت پارچہ مال کرتی تھی۔ اور گورنمنٹ

کے فرمان کے موجب مجھ پر خلعت کی نظر

(۸۸معاف تھی۔ )

غالب کا تعلق ترکوں کے ایک قبیلہ سے تھا جو اپنے متحرک اور نسلی اعتبار سے مرزا

تازہ جوئی کے لیے معروف ہے اور شاید غالب کا یہی احساس تحرک و تفاخر ایک طرف تو

انھیں شہد کی مکھی نہیں بننے دیتا اور دوسری طرف انھیں وبائے تمام میں مرنے سے باز

ازہ کاری سے عبارت ہے۔ صرف فارسی خطوط رکھتا ہے ان کی زندگی اور تصور زندگی ت

میں ان باتوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ اردو خطوط میں بھی اس بارے میں تفصیل سے کئے

خطوط لکھیں ہے۔ جو موجود ہے اور اس میں بھی اپنے ترکی النسل ہونے اور سلجوقی

کر کیا گیا ہے النسل ہونے پر فخر کرتے ہیں اور ساتھ اپنے خاندان کے بارے میں مفصل ذ

ایک طرح سے اگر دیکھا جائے تو اچھی عادت بھی ہے کیونکہ اپنے بارے میں بتانا بڑی بات

ہے عموما لوگ اپنے بارے میں بتانے سے کتراتے ہیں اور غالب واحد وہ شخص ہے جو

اپنے خاندان پر فخر اور ناز کرتے ہیں یہ بات ایک خط میں نہیں کئی خطوط میں ان کا ذکر

وا ہے۔آیا ہ

158

( غالب کے ہاں فارسی خطوط میں قرآنی آیات اور مسئلہ ۲)

جبروقدر کا ذکر:۔

کو ملسو هيلع هللا ىلص مرزا غالب ہللا تعالی پر مکمل ایمان رکھنے والے تھے اور آخری نبی حضور

آخری نبی مانتے تھے اور اہل بیت کی طرف ذرا زیادہ مائل تھے۔ باقی رہی دوسرے افعال تو

ہوتے ہیں اس پر آپ کسی انسان کو مسلمان یا کافر قرار نہیں دے وہ ہر انسان کے ذاتی فعل

سکتے مرزا غالب کو ہللا تعالی کی وحدانیت پر مکمل یقین تھا اور ہر کام کو ہللا تعالی کی

طرف سے من جانب ہللا سمجھتے تھے اور اپنے کئی خطوط میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ

انہ کعبہ میں کیونکہ وہاں پر ہر انسان کو رہنے کی اجازت اب دنیا میں نہ اور اگر رہوں تو خ

ہے اور وہ عشق کی نشانیوں میں سے بھی ہے مرزا غالب اس حوالے سے تفضل حسین خان

صاحب کے نام ایک میں یوں لکھتے ہیں۔

"لوگ کہتے ہیں کہ سر آوردگان قوم اس سر پھرے

یعنی ناانصاف مجسٹریٹ کو مالمت کیا اور میری

روی اور حاکساری اس پر واضح کی )اور یہ آزادہ

سب( اس طور پر کہ )باالخر( اس نے میری رہائی

کی درخواست خود ہی کی معذرت )بھی( کی اور

اس کے عالوہ بھی معافی، تالفی اور دل جوئیاں

کرتا رہا اور میں چونکہ ہر صفت، ہر فعل اور امر

کو منجانب ہللا سمجھتا ہوں اور خدا سے جھگڑا

ئز نہیں اس لئے جو کچھ بھی ہوا اس سے بے غم جا

ہوا اور جو کچھ گزرا اس پر خوش لیکن چونکہ

(۸۹آرزو کیش بندگی کے خالف نہیں۔)

عشق است وصد ہزار تمنا مراچہ جرم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گر خواہشے کند دل شیدا مراچہ جرم

یا قصور ہے )اور ترجمہ: عشق ہے )اور اس کے( ساتھ ہی الکھوں ارزوئیں )اسمیں( میرا ک

اگر( دل شیدا کوئی خواہش کرتا ہے تو میرا کیا قصورہے۔"

اسی طرح ایک خط میں خانہ کعبہ سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں۔

فارسی:

خواھم سپس در جہان نباشم و اگر باشم در ہندوستان

نہ باشم، روم است و مصر است و ایران است و

ر نہ خؤد کعبہ پناہ آزاد گان و سنگ بغداد است، وگ

آستانہ رحمتہ اللعالمین تکیہ گاہ دلداد گان بس است۔

159

کی بود آیا کہ از بند فرو ماندگی کہ خود ازان بند کہ

رفت روان فرسا تر است بروب جہم و منزلی در

نظر نیاور دہ سر بصحرا نہم! آنست آنچہ برما رفت

و اینست آنچہ میخواھم۔

ترجمہ:

کے بعد یہ خواہش ہے کہ دنیا میں نہ رہو ۔ اور "اس

اگر رہوں تو ہندوستان میں نہ رہوں روم ہے، مصر

ہے ایران ہے، بغدادہے، اور سب سے بڑھ کر تو

کعبہ کہ خود آزاد منشوں کی پناہ )ہے( اور رحمت

اللعالمینکا سنگ آشانہ )ان کے( عاشقوں کے تکیہ

گی کہ اس گاہ ہی کافی ہے۔ وہ کون سی گھڑی ہو

ذلت و خواری کی قید سے کہ جو حقیقی قید سے

)جو گزری( زیادہ روح فرسا ہے رہائی پاؤں گا اور

بغیر کسی منزل کو ذہن میں الئے صحرا میں نکل

کھڑا ہوں گا وہ سب تو مجھ پر بیت چکا اور یہ سب

(۹۰کچھ وہ ہے جس کی آرزو ہے۔" )

ھتے تھے اور ہللا تعالی کو ایک مانتے تھے اور مرزا غالب اسالم کی حقیقت پر پختہ یقین رک

اسالم کے تمام ارکان سے باخبر تھے یہ اور بات ہے کہ ارکان اسالم کی پابندی نہیں

کرسکتے تھے اور ظاہری طور پر ان احکام کے بہت کم پابند بھی تھے لیکن اگر مسلمانوں

سوس ہوتا تھا اور یہی ایک کی بارے میں کوئی ایسے بات سن پاتے تھے تو دلی رنج اور اف

سچے مسلمان کی نشانی ہے مرزا غالب کی مسلمانی کے بارے میں موالنا الطاف حسین حالی

رقم طراز ہیں۔

"انہوں نے تمام عبادات اور فرائض و واجبات میں

سے صرف دو چیزیں لے لی تھیں ایک توحیدو

جودی اور دوسرے نبی اور اہل بیت نبی کی محبت

(۹۱ہ وسیلہ نجات سمجھتے تھے۔" )اور اسی کو و

مرزا سنی المذہب مسلمان تھے اسالم کے تمام احکام کو مانتے ہوئے وہ اہل بیت کی طرف

ذرا زیادہ مائل تھے اور رسول خدا کے بعد تمام امت میں سے حضرت علی کرم ہللا وجہہ کو

آچکا ہے مثال کے افضل جانتے تھے۔ حضرت علی کرم ہللا کا ذکر ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ

طور پر مولوی رجب علی خان کے نام اس میں یوں لکھتے ہیں۔

فارسی:

160

سخن سپا سی کزاں نامہ نامی شود

درگزارش گرامی شود

ہم از آفرید گار و ھم از خواجہ مرتضوی تبار بجا

می آرم۔

اردو ترجمہ:

"سپا سی کزاں نامہ نامی شود سخن درگزارش

لشکر کہ جس سے خط کی گرامی شود )ترجمہ: وہ

قدر بڑھ جاتی ہے )اور( جس سے بات اپنے اظہار

میں وقیع ہوجاتی ہے خالق کل کے حضور میں اور

اس آقا کی خدمت میں بھی کہ جو حضرت علی

(۹۲المرتضی کے خاندان سے ہے۔ بجا التا ہوں۔" )

ے ہے اور اس اسی طرح اس خط میں خانہ کعبہ سے اپنی بے انتہا محبت کا اظہار بھی کرت

چادر کی جو خانہ کعبہ کی ارد گرد لپٹی ہوئی ہے اور اس کی تقدس اور پاکیزگی کا بیان ان

الفاظ میں کرتے ہے۔ لکھتے ہیں۔

فارسی:

عنوان نامہ سعادت نشان منشی جواھر سنگھ جوھر،

سپس رسیدن آن طیلسان بہار توامان کہ از رنگ

ہ پیر سبز و سرخ و کنارہ زرین سبزہ زار یست ک

امن آن رو برقی ارغوان کا شتہ اند۔ پرتوی و

کشکہای مہر جہانتاب براطراف آن سرتا سر دیدہ۔

کیش تازی را پذیر فتارو کعبہ را پرستار نباشم اگر

بہ تشریف بارگاہ گورنری کہ بارھا یافتہ ام و بہ پیر

احن ملبوس خاصہ سلطان دھلی کہ یکنوبت از مہر

اد مانیم رودادہ باشد کہ رسیدن بمن فرستادہ اینما یہ ش

این زمردین ردا۔ این نہ خلعت شاھانست کہ آزادگان

بدان دل ننہند و فرزانگان ننازند۔ این شرف افزا

تشریفی از خلعتخانہ آل عبا کہ ھم سرفرازی

صورت است وھم روسپیدی معنی، ھم سرسبزی

عیانی است و ھم تازہ روئی نہانی امروز۔

اردو ترجمہ:

161

شفقت نامہ کہ بمنزلہ آفتاب اقبال کے تھا "آپ کا

مشرق سے طلوع ہوکر نظر آفروز ہوا اور اس کے

بعد اس بہار دار چادر کا پہنچا کہ جس پر سبز،

سرخ رنگوں اور سنہرے کنارے کا ایک سبزہ زادہ

ہے جس کے سامنے چاروں طرف ارغوانی بیل

بوٹے بنے ہیناور اس کے گردا گرد آفتاب جہاں تاب

کرنیں اور جو نما )بوٹے( سر تا سر کڑھے ہیں کی

میں مذہب عربی کا ماننے واال اور کعبہ کی پرستش

کرنے واال نہیں، جو مجھے گورنر کے دربار کی

بازیابی میں )جو کہ اکثر ملی ہے( وہ احساس شرف

اور سلطان دہلی کی جانب سے خلغت کے ملنے پر

یجی کہ انہوں نے ایک بار ازراہ محبت مجھے بھ

تھی، اس قدر مسرت ہوئی ہو جتنی اس سبز چادر

کے ملنے پر۔ یہ بادشاہوں کی وہ خلعت نہیں ہے کہ

آزاد منش لوگ جس کی پروا نہ کریں اور صاحب

عقل جس کو باعث افتخار نہ جانیں )بلکہ( یہ تو

خانہ اہل عبا کی خلعت کے سبب وہ عزت افزائی

ہے ہے کہ جس سے ظاہری قدر افزائی بھی ہوتی

اور باطنی سر خروئی بھی۔ )اس کے سبب( بیرونی

( ۹۳خوشحالی بھی ہے اور اندرونی تازگی بھی۔" )

اسی طرح جواہر سنگھ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ کون کہتا کہ میں لوگوں کی

خوشامد کرتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا دار آدمی بھی ہے تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ میں

س فقیری میں بھی غنی ہو اور تنگ دستی میں بھی دولتمند ہو مجھی ایسا آدمی نہ سمجھنا ا

اسی کے ساتھ خط میں حضرت علی کرم ہللا وجہہ سے اپنی نسبت غالم کا کرتے ہے اور

زندگی اور جسم کے حوالے کردیتے ہے۔ غالب منشی جواہر سنگھ جوہر کے نام خط میں

لکھتے ہیں۔

فارسی:

بندہ علی ان ابیطالبم علیہ الصلوۃ والسالم و ھر من

کہ رامی شنوم کہ بندہ اوست خداوند خودش میدانم و

نن بہ بند گیش می دھم۔ شعر

بہ مہ بنگرم کنم از نبی روی در بوتراب

جلوہ آفتاب

162

زقلزم بہ جو آب زیزدان نشاطم بحیدر بود

خوشتر بود

ہ خدارا پرستم ب نبی را پذیرم بہ پیمان او

ایمان او

اردو ترجمہ:

"تو جانتا ہے کہ میں علی ابن ابی طالب علیہ

ۃ والسالم کا غالم ہوں اور جس کسی کے الصلو

متعلق سنتا ہوں کہ ان کا غالم ہے تو اس کو اپنا آقا

تصور کرتا ہوں اور اپنے جسم کو اس کی بندگی

کے حوالے کردیتا ہوں"۔

نگرم بہ مہ ب کنم ازنبی روئی در بو تراب

جلوہ آفتاب ۔

)ترجمہ(:۔ نبی صلحم کی طرف سے جب )میں( یو

تراب کی طرف رخ کرتا ہوں )تو( چاند میں

)مجھے( جلوہ آفتاب نظر آتا ہے۔

زقلزم بہ جو آب زیزداں نشاطم بہ حیدر بود

خوشتربود

ترجمہ: خدا کے مقابلے میں مجھے حیدرکے

ساتھ )زیادہ( خوشی ہوتی ہے )چونکہ( سمندر

ے مقابلے میں ندی کا پانی زیادہ اچھا ہوتا ک

ہے۔

خدارا پرستم بہ بنی راپزیرم بہ پیمان او

ایمان او

ترجمہ: میں نبی کو اس )حیدر( کے پیمان کی

بناء پر قبول کرتا ہوں اور خدا کی پرستش اس

(۹۴)نبی( کے ایمان کے سبب کرتا ہوں")

وہ ہللا تعالی سے ہر حال میں حوش اور مرزا کے فارسی خطوط سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ

شکر گزار نظر آتے ہیں غالب عرفان ذات اور خود شناس اور ذاتی طور پر بالکل مطمئین

نظر آتے ہیں۔ اور یہ بات ان کی خطوط سے ہمیں پتہ چلتا ہے کیونکہ اس بات کی وضاحت

163

وگ اس پر لکھ رہے خود غالب نے ایک خط میں نہیں بلکہ کئی خطوط میں موجود ہے اور ل

ہے اور لکھتے جائیں گے۔ غالب بنام تفضل حسین خان خیر آبادی کے نام لکھتے ہیں۔

فارسی:

ھمدرین گوشہ نشینی کہ آئین منست خسرو

کیخسرو فر کہ جاودان ماناد بپایہ سریر عرش

نظیرم خواندو خلعت و خطاب ارزانی داشت و

بہ نگاشتن آثار جہانبانی نیاگان خویش گماشت

بدل گفتم کہ ھان غالب آشفتہ سر ناموس سخن

گستری نگاھدار و ھر چند افسانہ سرائی نہ

شیوہ آزادگان است زبان پیغارہ بر خود دراز

مگر دان۔ مبدا فیاض بہرہ از خواہش افزونتر

بخشید۔

اردو ترجمہ:

"اس گوشہ نشینی کے باوجود کہ میرا مسلک

)حیات( ہے کخیرو کی شان و شوکت والے

دشاہ/ بہادر شاہ ظفر( نے کہ ہللا اس کو با

ہمیشہ قائم رکھے ، مجھے عرش نظیر تخت

کے پائے کے نزدیک )دربار میں( بالیا اور

خلغت و خطاب عطا فرمایا اور اپنے اجداد

کی تاریخ فرماں روائی لکھنے پر مامور

فرمایا۔ میں نے دل میں کہا ہاں غالب آشفتہ

ہر چند کہ سر سخنوری کی آبرو رکھنا اور

داستان سرائی آزاد منشوں کا طور طریق نہیں

ہے، طعنہ زنوں کو زبان درازی کا موقع نہ

دیتا۔ چونکہ مبداء نے میری خواہش سے بڑھ

کر مجھے )تخلیقی استعداد میں( حصہ دیا

(۹۵ہے" )

اسی طرح مرزا غالب کی محبت کا اندازہ ان کے خطوط سے لگایا جاسکتا ہے کیونکہ عموما

بڑے لوگوں کے پاس تحفے تحائف آتے رہتے ہیں۔اور اس کا ذکر لوگوں کے سامنے کرتے

رہتے ہے مرزا غالب کی محبت کا انتہا یہ ہے کہ وہ اہل بیت کے ساتھ عقیدت رکتھے ہیں اور

164

کئی خطوط میں حضرت علی کرم ہللا وجہہ سے برمال محبت کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں

نگھ جوہر کے نام ایک خط میں یوں لکھتے ہیں۔غالب نے منشی جواہر س

فارسی:

پدید آمد کہ موالنا ہدیہ فرستادہ اند۔ آن ہدیہ

راعطیہ ایزدی و توقیع سرفرازی خویش

پنداشتہ ام۔ مردم پیش شاہان و شاہزاد گان

ناصیہ بر زمین می نہند و بہ خلعتے کہ ازاں

فرقہ یا بند کالہ گوشہ را بسپہر میسایند۔ منکہ

دہ مرتضی علی باشم علیہ التحیتہ والثناء بن

چون از زبدہ اوالد آنحضرت ارمغانی بمن

رسد چون بر خویشتن نہ بالم۔

اردو ترجمہ:

"معلوم ہوا کہ موالنا نے کوئی تخفہ ارسال کیا

ہی اور اپنے ہے اس تحفے کو میں بخشش ال

لئے سند افتخار سمجھتا ہوں۔۔ لوگ شاہوں اور

نے اپنی پیشانی زمین پر شاہزادوں کے سام

رکھتے ہیں اور ان لوگوں سے جو خلعت

ملتی ہے اس کے گوشہ کالہ کو آسمان سے

رگڑتے ہیں تو مجھے کہ کہ بندہ مرتضی

ۃ والسالم ہوں، جب ان کی علی علیہ الصلو

اوالد ایک منتخب ہستی سے کوئی سوغات

(۹۶ملے تو اپنے اوپر کیوں ناز نہ کروں")

داب کا خاتمہ:( القاب و آ۳)

مرزا غالب سے پہلے خطوط میں دو دو تین تین صفحات پر مشتمل القابات لکھے

جاتے تھے ایک تو کاغذ کی ضیاع اور دوسری وقت کی ضیاع اور نتیجہ صفر اور یہ

القابات تو ہر خط اور مضمون پر فرض سمجھی جاتی تھی۔ مرزا غالب نے ان تمام چیزوں کا

رسی خطوط میں بھی یہ القابات لکھے جاتے تھے مرزا خاتمہ کردیا۔ مرزا غالب اسے پہلے فا

غالب نے القاب و آداب مزاج پرستی و خیریت نگاری کا قدیم دستور )محمد شاہی روشیں( جس

سے سر موتجاوز کرنا روزانہ رکھا جاتا تھا، غالب نے ان تمام کو بالکل ترک کردیا۔ اس کا ہر

تھے ہاں البتہ ان قاعدوں کے اور ان کی ترتیب گز یہ مطلب نہیں کہ وہ یہ باتیں لکھتے ہی نہ

165

کے پابند نہ تھے۔ وہ کبھی القاب و آداب کو بالکل چھوڑ دیتے اور اولین سطر سے مضمون

شروع کردیتے تھے۔ کبھی لکھتے تھے تو نئے، مختصر، موزوں القاب لکھتے تھے مثال کے

ب وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ہاں طور پر میاں، برخوردار، بندہ پرور، پیر و مرشد، بھائی صاح

اگر اس سے زیادہ لکھا تو میری جان، یا کبھی یہ سب کچھ ترک کردیا اور خط کو سیدھا ااس

طرح شروع کیا، جیسے بیٹھے بیٹھے کوئی آگیا ہو اور براہ راست اس سے مخاطب ہوگئے

اور نام ہوں ہاں صاحب تم کیا چاہتے ہوں" اے صاحب سعادت و اقبال اسی طرح دعا و سالم

اور تاریخ لکھنے میں بھی کوئی پابندی نہ تھی۔ مثال: جوہر سنگھ جوہر کے نام بغیر القاب کے

کچھ یوں لکھتے ہیں۔

فارسی:

سعادت و اقبال نشان منشی جواہر سنگھ از

عمر و دولت بر خودار باشند۔

اردو ترجمہ:

")خدا کرے( غالب کی آنکھوں کا نور دل کا

گھ عمر و دولت سے سرور منشی جواہر سن

(۹۷بہرہ مند ہوں" )

اسی طرح آگے اور خطوط میں بھی کچھ یوں لکھتے ہیں۔

فارسی:

جان من در آن ہنگام سر نگرانی از اندازہ

گذشت و دل آگہی جوے بود۔

اردو ترجمہ:

"میری جان اس وقت پریشانی حد سے زیادہ

تھی اور دل )تمہاری( خیر کا طالب تھا۔"

(۹۸)

فارسی:

اسدہللا دعا خوانند و با آنکہ فراموش کردہ از

اند دریاد خود دانند۔

اردو ترجمہ:

166

"اسدہللا کی جانب دعا وصول کریں اور

باوجود اس کے کہ )انہوں نے( مجھ کو

فراموش کردیا ہے مجھے اپنی یاد میں شمار

(۹۹کریں۔")

و کچھ یوں یاد کراتے ہیں۔القابات لکھنے کے نئے انداز بھی لکھیں امین الدولہ آغا علی خان ک

فارسی:

نواب عالی جناب معلی القاب رابہ تازگئی

تماشہ نوید کہ جگر پارہ ہائے از رگ کلک

فرو ریختہ فراہم آور دہ ام و بدان دلکش انجمن

بہ گلدستگی میفر ستم۔

اردو ترجمہ:

"نوب عالی جناب، اعلی القاب کو یہ نئی دل

نوک چسپ خوش خبری )پہنچے( کہ میں نے

قلم سے نکلے ہوئے اپنے جگر کے ٹکڑے

جمع کرلئے ہیں اور )ان کو( اس بزم دل کش

میں گل دستے کی شکل میں بھیج رہا ہوں"

(۱۰۰)

فارسی:

حضرت قبلہ گاہی ، ولی نعمی، مد ظلہ العالی!

چون مرا، سودائے آن در سراست کہ در

غیبت از حاضران بہ شمار آیم۔

اردو ترجمہ:

! "حضرت قبلہ گ اہی، ولی نعمی، مدظلہ العالی

چونکہ میرے سر میں یہ سودا سمایا ہوا ہے

کہ عالم غیبت میں بھی حاضرین میں شمار

(۱۰۱کیا جاؤں" )

چند مثالیں تو خط کے شروع کے بارے میں ہوئی جو بغیر القاب و آداب کے بارے میں تھی

تے ہیں۔ اس کو بھی مالحظہ اب چند ایسے مثالیں مالخظہ ہوں جو خط کے اختتام پر رقم کر

167

کیجئے اور یاد رکھیے کہ یہ خوبی مرزا غالب کے ایک خط میں نہیں بلکہ کئی خطوط میں

شامل ہے۔

فارسی:

نامہ نگار اسدہللا، نگاشتتہ پنجشنبہ، بست و

سوم مارچ، ہنگام نماز عصر کہ ابر قظرہ

فشان بود و ہوا تگرگ بار۔

اردو ترجمہ:

تحریر کردہ بروز "نامہ نگار: اسدہللا،

جمعرات تئیسویں مارچ ۔ نماز عصر کے وقت

کہ جب ابر برسنے لگا تھا اور ہوا ژالہ بار

(۱۰۲تھی۔" )

فارسی:

والسالم نامہ نگار اسدہللا رو سیاہ نگاشتہ دوم

روز پنجشنبہ کہ منسوب ۱۸۴۳مارچ سنہ

بسعد اکبر است۔

اردو ترجمہ:

تحریر "والسالم محرر خط اسدہللا روسیاہ

ء بروز ۱۸۴۳کردہ بتاریخ دوسری مارچ

جمعرات کہ سعد اکبر سے منسوب ہے"

(۱۰۳)

فارسی:

نگاشتہ صبح چار شنبہ بست و چارم مارچ

از اسدہللا نامہ سیاہ۔ ۱۸۵۲

اردو ترجمہ:

"محررہ بدھ کی صبح چوبیس مارچ

ء منجانب اسدہللا جس کا نامہ ۱۸۵۲

(۱۰۴اعمال سیاہ ہے" )

فارسی:

168

ادہللا نوشتہ پنجشنبہ پنجم جوالئی مطابق از

سیزدھم شعبان جواب طلب۔

اردو ترجمہ:

"منجانب اسدہللا محررہ جمعرات پانچ جوالئی

(۱۰۵مطابق تیرہ شعبان جواب طلب" )

مرزا غالب نے خط کو مکالمہ بنا دیا ہے، اسی طرح لکھتے ہیں ، گویا سامنے بیٹھے باتیں

بعض لوگوں کو لکھتے ہیں۔ کہ "پیر و مرشد" خط لکھنا نہیں، کررہے ہیں۔ چنانچہ خود غالب

"باتیں کرنی ہیں" بھائی مجھ میں تم میں نامہ نگاری کا ہے کو ہے، مکالمہ ہے"

"میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ

مراسلے کو مکالمہ بنا دیا"

یہ خط لکھ رہا ہوں۔ تم سے باتیں کرنے کو

(۱۰۶یں" )جی چاہا۔ یہ باتیں کرل

اسی طرح اس طرز مکالمہ میں کبھی ایک نیا انداز پیدا کرتے ہیں کہ مکتوب الیہ کو خطاب

کرتے کرتے غائب فرض کرلیتے ہیں۔ مثال میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں۔

"میر مہدی جیتے رہو، آفریں، صد آفریں۔۔۔۔

یہ طرز عبارت خاص میری دولت تھی، سو

کے محلے کا ایک ظالم پانی پت انصاریوں

(۱۰۷رہنے واال لوٹ لے گیا" )

مکاتیب غالب میں شوخی تحریر غالب کی حصوصیت میں سے ہے۔ مرزا نے اپنے خطوں

میں شوخی، ظرافت سے کام لے کر انہیں فرحت وانسباط اور کیف و نشاط کی چیزیں بنا دیا

اول اور ڈرامہ اس شوخی تحریر نے بقول موالنا الطاف حسین حالی غالب کے مکاتبات کو ن

سے زیادہ دلچسپ ہے۔ غالب نے خط نویسی میں نئے اسالیب بیان اور انوکھے پیرائیہ اظہار

اختیار کرکے فارسی نثر کی مختلف اصناف کے لیے راہ ہموار کردی ہے۔ اور اس کے بعد

اردو میں لکھنے والوں کے لیے بھی راہے کھول دی گئی اور راستے صاف ہوتے گئے۔

ے خط نگاری اور ادب کی سرحدوں کو مال دیا۔ خط عموما ایک معمولی نجی مرزا غالب ن

اور کاروباری مراسلت کا نام ہے لیکن غالب نے خط میں ادبی فن پارہ بن جانے کے امکانات

روشن کئے۔ اس طرح غالب کی پیروی میں پہلے فارسی اور بعد میں اردو خطوط نگاری

غالب کے خطوط میں وہ سادگی و بے ساختگی ایک قابل ذکر صنف نثر بن گئی۔ مختصرا

شوخی، رنگینی اور ایجاد و بو قلمونی نے خطوط نویسی کو فن معراج پر پہنچا دیا۔

169

( جزئیات و محاکات اور منظر کشی:۔۴)

غالب جزئیات کا خاص خیال رکھتے ہیں عموما یہ دیکھا گیا ہے۔ کہ مفصل بیانات

برعکس ایسا نہیں مرزا کے ہاں جزئیات کو اس عموما بے لطف ہوجاتے ہیں لیکن اس کے

ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ تحریر بے مزہ ہونے کے بجائے پر لطف ہوجاتی ہے۔ اپنے

روز بیاں سے مرزا کو حاالت و واقعات کی لفظی تصویریں کھینچنے پر وہ قدرت حاصل ہے

لفظی پیکروں میں کہ رنگ و روغن کی تصویروں میں شاید ہی وہ دلکشی و تاثیر جوان کے

موجود ہے اسی طرح ایک خط میں تحریر کرتے ہیں غالب بنام رائے چھمبل کھتری کے نام

یوں لکھتے ہیں۔

فارسی:

دیروز آخر روز چنانکہ خوی منست بحانہ

نواب امین الدین خان میرفتم در عرض راہ

خواجہ رحمت صاحب را یافتم، چون مدت

اجہ ھاست کہ میر خیراتی صاحب مرابہ خو

صاحب مالقات دادہ اند، سالم علیک۔

اردو ترجمہ:

"اچھا سنو کل دن ڈھلے اپنی عادت کے

مطابق )جب( نواب امین الدین خان کے گھر

جارہا تھا تو راستے میں خواجہ رحمت علی

صاحب مل گئے۔ چونکہ مدتوں پہلے میر

خیراتی، )میر محمد حسین عرف میر خیراتی(

مالقات کراچکے خواجہ صاحب سے میری

(۱۰۸ہیں۔ سالم علیک ہوئی" )

جزئیات نگاری اور منظر کشی کی ایک مثال نہیں بلکہ غالب کے ہاں کئی ایسے مثالیں

موجود ہیں اور آسانی سے مل جاتی ہے۔ منشی بنی بخش مرحوم کے نام ایک خط میں یوں

رقم طراز ہیں۔

فارسی:

صبح است، پردہ ھای ایوان فروھشتہ و در

آتشی افروختہ و من برکنار منقل نشتہ و منقل

دست بر آتش داشتہ، خاور سوی پردہ باال زدہ

اند، و پرتو مہر جہانتاب زاویہ را فرو گرفتہ۔

170

اردو ترجمہ:

"صبح کا وقت ایوان کے پردے گرے ہوئے

ہیں انگھیٹی میں آگ روشن ہے اور میں

انگھیٹی کے پاس ہاتھ تاپ رہا ہوں۔ مشرق کی

ہ اٹھا/ ہوا ہے اور کمرے میں جانب سے پرد

(۱۰۹دھوپ پھیلی ہوئی ہے" )

فارسی:

سخن درینست کہ آن واال مناقب بدین درویش

دلریش نپر داختہ و قصیدہ و عرضداشت را

روشناس نگاہ التفات حضرت خدیو آفاق

نساختہ اند۔ وقت میگذرد، قافلہ میرود، ھمر

ھان بندہ بسفر آمادہ، و برفتن مستعجل و من

نان از تہیدستی و بی نوائی پابہ گل۔ خدا ھمچ

را برین گوشہ نشین اندو ھگین ببخشایند و

قصیدہ و عرضداشت را بحضور فیضگنجور

گذر انند۔

اردو ترجمہ:

"بات دراصل یہ ہے کہ انجناب واال صفات

نے اس زخمی دل درویش کی طرف توجہ

نہیں دی اور قصیدہ و عرضداشت کو سلطان

فات سے روشناس نہیں کرایا۔ عالم کی نگاہ الت

وقت گزر رہا ہے قافلہ روانہ ہورہا ہے۔ فقیر

کے ساتھ سفر کیلئے کمر بستہ اور روانگی

کے لیے عجلت میں ہیں اور میں اسی تہی

دستی اور بے نوائی کی بنا پر پابہ گل )ہوں(

خدارا اس گوشہ نشین غمزدہ پر رحم فرمائیں

ض اور قصیدہ اور عرضداشت کو جناب فی

(۱۱۰گنجور کی خدمت میں پیش کردیں" )

منظر کشی میں مرزا کا کمال یہ ہے کہ وہ جو کچھ بیان کرتے ہیں مرزا غالب کے ہاں اس

کی تصویر لفظوں میں اس طرح کھینچ دیتے ہیں۔کہ شاید رنگ و روغن کی تصویر میں نہ وہ

171

اس کی بے شمار مثالیں جزئیات جگہ پاسکیں اور نہ اس میں وہ تاثیر پیدا ہو غالب کے ہاں

موجود ہیں۔ متفرقات غالب میں غالب لکھتے ہیں۔

فارسی:

سالمت باشید و دیر بہ مانید،

محسن من اگر بہ ازاے ہر عنایت محمدتی بہ

تقدیم رسد و فراخور ہر مہربانی سپاسیسر

انجام دادہ آید، سخن ہیچ گاہ منقطع! نشود و

مآرب دیگر را گنجایش اظہار نماند۔

ترجمہ: اردو

"خدا آپ کو سالمت رکھے اور طویل عمر

دے"

میرے محسن اگر عنایت کے بدلے میں، میں

آپ کو تعریف کردوں اور مہربانی کے الئق

اس کا شکریہ بھی ادا کردیا جائے تو سلسلہ

سخن کہیں منقطع نہیں ہوتا اور دوسرے

مطالب کے اظہار کی گنجائش نہیں

(۱۱۱رہتی")

خط میں لکھتے ہیں۔ اسی طرح آگےایک اور

فارسی:

قبلہ گاہ بہ خاطر اقدس نہ گزرد کہ غالب از

خیرہ سری، وپریشان نظری، در بنارس،

ہمچو مگس بہ عسل و خردر و حل، فروماندہ

باشد۔ حاشا ثم حاشا، چون من فلک زدہ را،

سرو برگ اقامت کجا، و دل و دماغ تماشا کو۔

اردو ترجمہ:

اطر اقدس میں یہ "قبلہ گاہ! کہیں جناب کی خ

گمان نہ گزرے کہ غالب اپنی شعر ریدہ

سری اور پریشان نظری کے باعث بنارس

172

میں شہد کی مکھی اور دلدل کے گدھے کی

طرح پھنس گیا ہوگا۔ ہر گز نہیں، ہرگز نہیں۔

مجھ جیسے فلک زدہ کے پاس کسی جگہ قیام

کیلیے سازو سامان کی اور تفریح کے لیے دل

(۱۱۲و دماغ کہاں" )

اسی طرح فارسی خطوط کے عالوہ اردو خطوط میں بھی اس کے لیے بے شمار مثالیں پیش

کی جاسکتی ہے یہاں پر صرف ایک مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

"تمھارا خلیہ دیکھ کر تمھارے کشیدہ قامت

ہونے پر مجھے رشک نہ آیا۔ کس واسطے کہ

میرا قد بھی درازی میں انگشت نما ہے۔

گندمی رنگ پر رشک نہ آیا۔کس تمھارے

واسطے کہ جب میں جیتا تھا تو میرا رنگ

چمپی تھا اور دیدہ ور لوگ اس کی ستایش کیا

کرتے تھے۔ اب جو کبھی مجھ کو وہ اپنا

رنگ یاد آتا ہے تو چھاتی پر سانپ سا پھر

جاتا ہے۔ ہاں مجھ کو رشک آیا اور میں نے

خون جگر کھا یا تو اس بات پر کہ ڈاڑھی

گھٹی ہوئی ہے۔ وہ مزے یاد آگئے۔ کیا کہوں،

جی پر کیا گزری بقول شیخ علی حزیں!

تاد ترسم بود زدم چاک گیریباں شرمندگی

زخرقہ پشمینہ نہ دارم۔

جب ڈاڑھی مونچھ میں بال سفید آگئے،

تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر

آنے لگے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے

ٹوٹ گئے۔ ناچار مسی بھی کے دو دانت

چھوڑ دی اور ڈاڑھی بھی۔ مگر یاد رکھئے،

اس بھونڈے شہر میں ایک دردی ہے عام۔

مال، حافظ، بساطی، نیچہ بند، دھوبی، سقا،

بھٹیارہ، جوالہا، کنچڑا، منہ پر ڈاڑھی سر پر

بال، فقیر نے جس دن ڈاڑھی رکھی، اسی دن

(۱۱۳سر منڈایا")

173

شی کی ایک قابل ذکر حصوصیت ماحول اور جزئیات نگاری بھی مکاتیب غالب میں منظر ک

ہے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ غالب کسی واقعے کے بیان میں اگر ضمن میں آیا ہے تو اس

کو مکاتیب غالب میں جو منظر کشی کی خوبصورت تصور کو مکمل اور ناشر کو گہرا

دلی کو چھوڑ کر دوسرے کردیتی ہے۔ مرزا غالب اگر اپنے دوستوں کو جو بوجہ غدر

جگہوں پر جاچکے تھے۔ غالب چونکہ ذہنی طور پر انہیں دلی میں موجود دیکھتے تھے۔ اسی

لیے غالب نے ان کو خود اس ماحول میں شریک کرنے اور شامل سمجھنے کے لئے پورے

منظر کی ایسی مفصل تصویر کشی کرتے کہ شاید ہی کسی مصور کے قلم سے تیار شدہ ایسی

میں وہ منظر کشی یا جزئیات سما سکیں اور یہ خوبی صرف غالب کے ہاں ہمیں نظر تصویر

آتی ہے اور اس کا استعمال غالب نے بہت خوب اور اچھی طرح اس کا استعمال کیاہے۔

ح:ں شاعرانہ انداز اور اشعار کی تصحی( خطوط غالب می۵)

نا بہت مشکل انسانی فطرت بھی بڑی عجیب و غریب شے ہے اس پر کوئی مہر لگا

ہے۔ مشہور افسانہ نگار منشی پریم چند نے ایک جگہ لکھا ہے کہ انسانی فطرت نہ سفید ہوتی

ہے نہ سیاہ بلکہ یہ دونوں رنگوں کا ایک مجموعہ ہے اگر حاالت موافق ہوئے تو انسان

فرشتہ بن جاتا ہے ورنہ شیطان۔ دراصل انسانی شخصیت کے دونوں شکل ایک ساتھ ظاہر

ے۔ آدمی اپنے چہرے پر سنہری نقاب ڈالنے رہنے کا عادی ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے نہیں ہوت

کہ وہ اپنی خوبیوں کو نمایاں کرنے اور خامیوں کو چھپانے میں بڑا حریص واقع ہوا ہے۔ اور

کون ایسا شخص ہوگا جو اپنی اصلیت اور حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتا، کم از کم ایک ہوشیار

سے تو اس سے کم کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اپنی اصلیت کو اور صاحب دانش شخص

دوسروں پر من و عن ظاہر کرنے میں کون کتنا بے باک اور صادق لہیں سے ایک سچے فن

کار اور فریب نفس کی پہچان ہوتی ہے۔ ایک سچا فن کار اپنے فن میں اظہار کے معاملے میں

متہمل ہوسکتاہے۔اور یہ مقولہ غالب کی دوئی اور دورنگی کا نہ شکار ہوتا ہے اور نہ ہی

شاعری اور خطوط دونوں پر پوری طرح صادق آتاہے۔ غالب کے ہاں شاعری میں بھی ان کی

شخصیت کے نمایاں حصے ظاہر ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ خطوط میں شاعری سے

اجاگر ہوتی کہیں زیادہ غالب کی شخصیت، عادات و اطوار، اخالق، خوبیاں اور خامیاں دونوں

نظر آتی ہیں اور سب سےبڑی مزے کی بات یہ ہے کہ مرزا غالب نے اپنی شخصیت کو

بالکل واضح کرنے میں نہ تو بخل سے کام لیا ہے اور نہ ہی منافقت کررواکھی ہے خواہ

جیسے بھی حاالت ہو وہ اپنی بارے میں یا دوستوں کے بارے میں برمال اظہار کے قائل تھے

تھے جیسے منشی ہر گوپال تفتہ کو شاعری اور شراب کو زندگی کا حاصل اور کہتے بھی

قرار دینے کے حوالے سے فارسی کے ایک خط میں مرزا غالب یوں لکھتے ہیں۔

فارسی:

174

بحیرتم کہ ملول چرائید کدام حلقہ دام است کہ

آھنگ گستن آن دارند خدمتی نیست، زحمتی،

صحبتی ھست، عشرتی ھست۔ چنانکہ خواھند

شند از صبح تا شام واز شام تا بام سخن با

سگالند و غزل گویند و می خورندو و آزیند۔

اردو ترجمہ:

"حیران ہو کہ تم افسردہ کیوں ہو! وہ کون سا

حلقہ دام ہے جسے توڑنے کا ارادہ ہے۔ کسی

کی نوکری نہیں، )دل میں( کوئی زخم نہیں ،

صحبت )احبات( ہے اور عیش و آرام ہے۔

یں رہئیں۔ صبح سے شام تک جس طرح چاہئ

اور شام سے صبح تک فکر سخن کیا کریں۔

غزل کہیں شراب پئیں اور آزادی کی زندگی

(۱۱۴گزاریں۔" )

خطوط خواہ فارسی زبان میں ہوں یا اردو میں یا غالب کی شاعری ہو ان تمام میں غالب کی

ہے کیوں کہ انہوں شخصیت ہر حوالے سے نمایاں دکائی دیتا ہے اور یہ خوبی خود غالب کی

نے اپنی زندگی کے کسی بھی حصے کو چھپایا نہیں جیسے تھے ویسے ہی خطوط میں بھی

لکھ دیا ہے۔ خواہ ان کی شراب نوشی ہو، قرض داری اور قمااز بازی یہ ایسے حقائق ہیں کہ

ان باتوں سے بدبو سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ مگر غالب نے کبھی اپنے عیوب کی ستر پوشی

ں کی اور ہمیشہ ان کا اظہار برمال کیا۔ اگر کسی نسخے میں درکار اشعار کی وضاحت ہو نہی

یا اس نسخہ میں امال کی درستگی اور تعریف ہو تو اس کی وضاحت بغیر کسی حوف کے وہ

کرتے تھے۔ منشی ہر گوپال تفتہ کو ایک اور خط میں اسی بارے میں لکھتے ہیں۔

فارسی:

تفتہ از جانب اسدہللا مشفق من الال ھر گوپال

از خود رفتہ بعد سالم این زحمت در پذیر ند

کہ خاطر از چند روز جو یای دیوان محمد

حسین نظیری و جمال الدین عرفی است و

چنان مسموع شدہ کہ این ھر دو نسخہ آن کرم

فرما دارند، الجرم خواھش آنستکہ ھر دو

نسخہ یعنی دیوان نظیری و عرفی ھمین دم بہ

سپار بسپارندو اگر احیانا ایفوقت ارسال نامہ

175

آن مجموعہ ھا اتفاق نیفتد فردا بامدادان کہ نزد

من آئیند با خود آورند بندہ را درین خواہش

مبرم شنا سند۔ زیادہ زیادہ۔

اردو ترجمہ:

"میرے مشفق ہرگوپال تفتہ اسدہللا از خود

رفتہ کا سالم قبول کریں اور یہ زخمت گوارا

ہ کئی دن سے مجھے محمد کریں کہ چونک

حسین نظیری اور جمال الدین عرفی کے

دیوان کی تالش ہے اور یہ سننے میں آیا ہے

کہ یہ دونوں نسخے ان کے مفرما )یعنی آپ(

کے پاس ہیں، الزمی یہ چاہتا ہوں کہ یہ

دونوں نسخے یعنی دیوان نظیری و عرفی

اسی وقت حامل خط کے حوالے کردیں اور

مجموعے اس وقت بھیجے نہ اگر اتفاقا یہ

جاسکیں )تو( کل صبح جب )آپ( میرے پاس

آئیں اپنے ساتھ لیتے آئیں اور یہ جان لیں کہ

یہ درخواست بعید اصرار ہے اس سے زیادہ

(۱۱۵اور کیا کہوں۔" )

غالب کے خطوط میں مرزا غالب کی شخصیت پوری رعنائی اور دلکشی کے ساتھ چلتی

وتی بسورتی اور ساتھ مسکراتی ہوئی بلکہ قہقہے لگاتی ہوئی نظر پھرتی اور بوتی چالتی، ر

آتی ہے پہلے ذکر آیا ہے کہ وہ القاب آداب کا سہارا لئے بغیر بڑی اچھی طریقہ سے اور

بڑی بے تکلفی سے میاں، حضرت یا کوئی ایسا ہی ہلکا پلکا لفظ سرنامہ پر لکھ کر اظہار

ریر میں آمد ہی آمد ہوتی ہے۔ حواہ غالب نے مطلب شروع کر دیتے ہے غالب کے ہاں تح

کسی دوست یا شاگرد کی اشعار کی تصحیح کرنی ہو یا اشعار کے بارے میں بتانا ہوں بہت ہی

اچھے طریقے سے ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ منشی ہرگوپال تفتہ کو اشعار کی

تصحیح کے بارے میں لکھتے ہیں۔ غالب کچھ یوں رقم طراز ہیں۔

ارسی:ف

اکتوبر بود نامہ شما با ۲۳دیروز کہ پنشنبہ

نامہ بابو صاحب رسید۔ یک شبانروز اشعار

شمار انگرستم و امروز کہ آدینہ بست و چارم

176

ماہ است یا ۲۵است پاسخ نبشتم فرداکہ شنبہ

خواھد بود بہ ڈاک۔ ۲۶پس فرداکہ

اردو ترجمہ:

تاریخ ۲۳"کل کہ جمعرات کا دن اکتوبر کی

تمہارا خط بابوصاحب کے خط کے ساتھ تھی

مال ایک دن اور رات تمہارے اشعار کی

۲۴تصحیح کی اور آج کہ جمعہ کا دن اور

تاریخ ہے یا پرسوں ۲۵تاریخ لکھا۔ کل کہ

(۱۱۶ہوگی ڈاگ کے سپرد کردوں گا۔" ) ۲۶

اسی طرح آگے ایک اور خط میں مرزا غالب ہرگوپال کو اشعار کی اصالح کے بارے میں

لکھتے ہیں۔

فارسی:

جان من اوراق اشعار بانامہ کہ مہر سر دفتر

میرزایان بپایان داشت رسید۔ من از بیداد تموز

در آزارو خامہ بتقریب تہنیت عیددر مدح شاہ

گرم رفتار اگر در اصالح درنگ رود خشم

نگیر ند۔ نامہ راپس از نگر ستن بسوے شما بر

میگر دانم۔

اردو ترجمہ:

راق اشعار اس خط کے ساتھ کہ " جان من او

جس کے آخر میں سر دفتر مرزا یا ان کی

مہر تھی پہنچے۔ میں گرمی کے ظلم کے

سبب مصیبت میں گرفتار ہوں اور )مسرا( قلم

عید کی تہنیت کی تقریب میں مدح شاہ میں تیز

گام ہے۔ اگر اصالح میں دیر ہوجائے تو

ناراض نہ ہوں۔ خط پڑھنے کے بعد تمہیں

(۱۱۷بھیج رہا ہوں۔" )واپس

مررزا غالب کی حصوصیت یہ تھی کہ ان کے پاس جن کے بھی اشعار یا کوئی رقعہ آتا تھا

اس کو پوری طرح دیکھتے تھے اور جواب ضرور دیتے تھے۔ اشعار کی اصالح ہو یا نثر

میں جواب دینا ہوں پوری غور و فکر کے ساتھ اور ایمانداری کے ساتھ اشعار کی اصالح

177

تھے۔ کسی کی اشعار پر پوری طرح ایمانداری کے ساتھ اگر کوئی اصالح دیتے تھے کرتے

تو وہ صرف غالب ہی تھے اور یہ غالب کی حصوصیت تھی کیونکہ دوسروں کے اشعار پر

ایمانداری کے ساتھ اصالح دینا بہت مشکل کام ہے عموما شعرا تعلی سے کام لیتے ہے اور

ہوتا ہے اسی طرح جواب بھی دیتے ہے۔ ہرگوپال تفتہ مرزا غالب کے ہاں آدمی جس طرح

کے نام۔

فارسی:

اشعار شام نہ نہ سرسری بلکہ بہ دیدہ وری

نگر ستہ باز میفرستم۔ پریروز نامہ دوست

جانی کہ جاودان در کامرانی باداز سر منزل

سر وہی رسید۔ بر بار گی ڈاک سوار است و

من بہ بھر تپور ہمیرود۔ بمن مینویسد کہ سود

ازین رہروی دیدار تفتہ و ہم نشینی اوست۔ این

روشنگہر شمار ابدان اندازہ دوست دارد کہ

اگر من از اہل دنیا بودمے، آتش رشک

سراپائے مرا سوختے۔ یا رب جاودان مانا دوو

بر شمار از ہر چہ گویم مہربان ترباد۔

اردو ترجمہ:

"تمہارے اشعار سرسری نہیں بلکہ دیدہ وری

کر واپس بھیج رہا ہوں۔ پرسوں سے دیکھ

مجی جانی ربانکے الل رند( کا " خدا ان کو

ہمیشہ کامیاب رکھے سروہی سے خط آیا ہے۔

تیز رفتار سواری سے بھرت پور جارہے ہیں۔

مجھے یہ لکھا کہ اس سفر کا مقصد تفتہ کی

مالقات اور اس کی ہم نشینی ہے۔ یہ تابان

ہ اگر صفت )شخص( نہیں اس قدر چاہتا ہے ک

میں دنیا داروں میں سے ہوتا تو حسد کی آگ

سرتا پا جل گیا ہوتا۔ خدا اس کی ہمیشہ ہمیشہ

)زندہ( رکھے اور جتنا کہ میں بتا رہا ہوں اس

(۱۱۸سے بھی زیادہ تم پر مہربان رکھے۔" )

مرزا غالب نے کثرت کے ساتھ فارسی زبان میں اشعار کہے ہے اور زیادہ تعداد میں خطوط

ھے ہے اور غالب کی خطوط سے خواہ وہ فارسی زبان کی ہو یا اردو زبان کی ہوں بھی لک

178

اس سے اس کی پوری زندگی کا پتہ چلتا ہے اور ان کے خطوط میں ادبی سیاسی،معاشی اور

معاشرتی اور اس وقت کے حاالت کا مکمل ڈھانچہ ملتا ہے۔ دہلی کے حاالت ہے یا غدر کے

گفتگو کرتے ہے لیکن آخری عمر میں غالب کمزور ہوگئے حاالت و واقعات ہو تفصیل سے

تھے۔ اور فارسی زبان میں شاعری اور نثر لکھنے کے لیے بہت زیادہ محنت اور کاوش کی

ضرورت ہوتی تھی اور آخری عمر میں غالب ان کا متمل نہیں ہوسکتا تھا تو آخری عمر میں

ر کے بارے میں نول کشور صاحب اردو لکھنا پڑا غالب ایک خط میں اپنی شاعری اور نث

مالک مطبع اودھ اخبار میں لکھتے ہیں۔

فارسی:

درفارسی زبان بساخن گفتہ ام و ہم نامہ ہا

نگاشتہ۔ اکنون کہ دل از ناتوانی سگالش برنمی

تابد، کار بر خود آسان کردہ ام و ہر چہ می

باید نبشت در اردو مینویسم۔ گوئی گفتار در

ہر دوست می فرستم۔ نامہ فرومی پیچم و ب

حاشا کہ در اردو زبان نیز سخن آرائی و خود

نمائی آئین باشد۔ آنچہ با نزدیگان توان گفت، بہ

دوران نوشتہ میشود۔ مدعا ہمان گزارش مدعا

ست و دیگر ہیچ۔ اینک فرمان شما پذیرم فتم، و

درنامہ بہ پارسی آمیختہ بہ تازی سخن گفتم۔

اردو ترجمہ:

رسی میں بہت شعر کہے ہیں "میں نے زبان فا

اور خطوط بھی لکھے ہیں۔ اب کہ ضعیف

کے سبب دل اس کاوش کا متحمل نہیں ہوسکتا

تو میں نے ایک آسان راستہ ڈھونڈ لیا ہے اور

مجھے جو کچھ بھی لکھنا ہوتا ہے اردو میں

لکھتا ہوں۔ گویا کہ بات چیت کو تہ کرکے خط

ہللا، کے طور پر دوستوں کو بھیجتا ہوں ۔ معاذ

اگر کوئی اردو میں سخت آرائی اور خود

نمائی میرا شیوہ ہو۔ جو بات نزدیکو ں سے

کی جاسکتی ہے وہی دور والوں کو لکھ دی

جاتی ہے۔ مقصد محض اظہار مدعا ہے اور

کچھ نہیں یہ لیجئے میں نے جنا کے حکم کی

179

تعمیل کردی اور یہ خط عربی آمیز فارسی

(۱۱۹میں لکھ دیا" )

ی اور ذوق شعر گوئی کے بارے میں نواب عالؤالدین احمد کو لکھتے ہیں۔سخن گوئ

فارسی:

چہ مایہ بیدرد و بد گمانست کہ سخن نمی پذیر

دو میداند کہ سخن میتوانم گفت۔ خرنیست،

خرس نیست، آدم است۔ جاہل نیست، عالم است۔

کودک نیست، جوانست کہ یارب بہ پیری

زند۔ آنکہ رساد۔ آنکہ پائے ندارد، گام چون

دست ندارد کار چسان کند۔ آنکہ دل و دماغش

نماندہ باشد سخن چگونہ سنجد۔ خواہد گفت کہ

دل چرانیست، دماغ چرانیست۔ اے ستمگر نا

پارسا دل ہست اما نژند، دماغ ہست، اما دژم

آنکہ درپیکر من دل و دماغ آفریدہ است،

نیروئے اندیشہ و درخشانی فکر و ذوق چامہ

نجار قافیہ پیمائی از من باز گرفت۔سرائی و ہ

اردو ترجمہ:

"کس قدر بے درد اور بد ظن )شخص ( ہے

کہ )میری( بات نہیں مانتا اور سمجھتا ہے کہ

میں اب شعر کہہ سکتا ہوں گدھا نہیں، ریچھ

نہیں ، آدم زاد ہے، جاہل نہیں، عالم ہے، بچہ

نہیں بڑا ہے، جوان ہے اور خدا اس کو بڑھاپا

بھال( وہ شخص کہ پاؤں نہیں رکھتا دکھائے )

کہ طرح چلے )اور( جس کے ہاتھ نہیں کام

کس طرح کرے )اور( جس کا دل و دماغ

)باقی( نہ رہا ہو، سخن گوئی کس طرح

کرے۔ وہ کہے گا کہ دل کیوں نہیں ہے اور

دماغ کیوں نہیں ہے )دونوں موجود ہیں( اے

ظالم نا ترس ، دل ہے، لیکن غمگین، دماغ

یکن افسردہ۔ وہ جس نے میرے جسم میں ہے ل

دل اور دماغ پیدا کیا ہے اس نے مجھ سے

180

توانائی فکر، تابانی اندیشہ، ذوق شعر گوئی

(۱۲۰اور اسلوب قافیہ واپس لے لیے ہیں۔" )

جان جاکوب صاحب کو لکھتے ہیں۔

فارسی:

این نامہ کہ مہ نگارم ویژہ از بہر دو کار

ن بار پیش است، یکی این کہ قصیدہ کہ دری

کش نواب گورنر جنرل بہادر کردہ ام و مطلع

آن آنیست۔

ای برت از سپہر بلند آستان تو تو پابان

ملک و ملک پاسبان تو

مشتملبر سہ مطلع و چہل بیت است و نیک

یادم نماندہ کہ درین کلیات کہ بخدمت فرستادہ

ام در شمار قصاید مرقوم است یا نہ۔ اگر باشد

فرستند۔ نوید آگہی

اردو ترجمہ:

"اس خط کے کہ جو آپ کو لکھ رہا ہوں

خاص طور پر دو مقاصد ہیں۔ ایک تو یہ کہ

ء ۱۸۴۲وہ قصیدہ کہ جو اس بار آغاز سال

LORD)میں نے نواب گورنر جنرل بہادر

EDWARD LAW ELLEN

BOROUGH) کو پیش کیا ہے اور جس کا

مطلع

سبان تو پا ای برتراز سپر بلند آسماں تو

ملک وملک پاسباں تو

ہے، تین مطلعوں اور چالیس اشعار پر مشتمل

ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ اس کلیات

میں کہ جو میں نے آپ کو بھیجی ہے قصائد

میں مندرج ہے یا نہیں اگر ہے تو مژدہ اطالع

(۱۲۱ارسال کریں۔" )

181

( غالب سے دوستوں کی محبت و یگانگت:۔۶)

کثیر االحباب شخصیت تھے اور ہر طرح کے لوگوں سے مرزا غالب کی مرزا غالب ایک

دوستی اور تعلق تھا خواہ مسلمان ہو خواہ ہندو، خواہ عالم ہو، یا کوئی اور غالب کی ہم نشینی

کے حلقے میں دوستوں کے عالوہ شاگردوں کی ایک بہت بڑی کثیر تعداد بھی تھی۔ غالب

ے حلقے میں بیٹھ کر لوگ نشاط و سرور حاصل چونکہ ایک خوش مذاق آدمی تھے۔ ان ک

کرتے تھے۔ اس لئے غالب کی شخصیت کو ایک مقناطیسی حیثیت حاصل تھی۔ اس لیے غالب

کی محفل میں ہر طرح کے لوگ آکر بیٹھ جاتے تھے اور سرور حاصل کرتے تھے۔ غالب نے

ں۔ایک خط میں جو کہ جانی بانکے الل وکیل راج بھرت پور کے نام لکھتے ہی

فارسی:

آئین تسلیم نہ آنست کہ اگر سیلی از دست

دوست خورند گرہ برابرو فگنند یا اگر بمثل

سنگ بارد سر دز دند۔ یزدان را سپاس کہ اگر

چہ غم بسیار دادہ است لیکن دوستان غمخوار

دادہ است۔ یا رب این این گر انما یگان کہ با

چون منی کہ بہ ھیچ نیر زم مہر می وررند

اینان را از کدام گوھر آفریدہ۔ کیانند

اردو ترجمہ:

"تسلیم و رضا کا یہ شیوہ نہیں کہ اگر دوست

کے ہاتھ سے طمانچہ کھائیں تو ماتھے پر بل

ڈال لیں اور اگر پتھر برسیں تو سر چھپائیں۔

ہللا کا شکر ہے کہ اگر چہ اس نے بہت غم

دئیے ہیں لیکن )ان کے ساتھ( غمخوار دوست

۔ یا خدا یہ گراں مایہ لوگ کون )بھی( دیے ہیں

ہیں کہ مجھے جیسے بے قدر قیمت شخص

سے محبت کرتے ہیں اور تو نے ان لوگوں

(۱۲۲کو کس جوہر سے پیدا کیا ہے")

مرزا غالب اردو زبان کے جتنے بڑے شاعر اور نثر نگار تھے اس سے بڑھ کر فارسی زبان

دب نے غالب جیسا عظیم اور خوش و ادب کے شاعر اور نثر نگار تھے اردو اور فارسی ا

بخت شاعر اور صاحب طرز نثر نگار ہی پیدا نہیں کیا بلکہ وہ تو بادشاہ وقت کے ساتھی اور

شاہ کے استاد بھی تھے۔ اس کے عالوہ غالب اپنے وقت کا بہت بڑا خطاب دبیر الملک اور

182

قہ نہایت پھیال ہوا نجم الدولہ بھی حاصل کیا مرزا غالب کے دوست احباب اور شاگردوں کا حل

تھا اور ہر مذہب اور طبقے کے لوگ شامل ہوتے تھے اسی کے بارے میں غالب اور عہد

غالب میں غالب کے شاگردوں اور دوست احباب کے بارے میں لکھتے ہیں۔

"ان کے شاگردوں اور دوستوں کا خلقہ نہایت

وسیع ہے جس میں ہر طبقے اور مذہب کے

نول کشور، بال لوگ شامل ہیں، مثال منشی

مکند بے صبر، شیو نرائن آرام، منشی جواہر

سنگھ، امید سنگھ، منشی ہرگوپال تفتہ، میر

مہدی مجروح، مفتی صدرالدین آزردہ،

مصطفے خاں شفیتہ، موالنا فضل الحق خیر

آبادی، خواجہ الطاف حسین حالی، سرسید

احمد خان وغیرہ وغیرہ ہے ۔ غالب سے

صرف دنیا دار ہی محبت کرنے والوں میں

نہیں صاحب حال و قال لوگ نظر آتے ہیں۔"

(۱۲۳)

ایک وقت تک تو غالب کے دوستوں کا آنا جانا اور مل مالپ ہوتا رہا لیکن جب غدر کا واقعہ

پیش آیا تو غالب جیس عظیم آدمی بھی اپنے گھر میں خاموش گئے کیونکہ جان کو بچانا بہت

دوستوں ، شاگردوں اور عزیزوں کو یوں منتشر کر دیا عزیز اور ضروری ہوتا ہے۔ غدر نے

کہ غالب دہلی میں تنہا رہ گئے ان واقعات کے بعد غالب کو اپنے دوستوں کا بہت زیادہ فکر

رہتا ہے اور ہر موقعہ پر ان واقعات کے بعد غالب دریافت کرتے تھے خواہ دوست بیمار کیوں

کا ایک خط میر احمد حسین المتخلص نہ ہو خط کے ذریعے پوچھتے ضرور تھے اسی طرح

بہ میکش کو غالب لکھتے ہیں۔

فارسی:

ثانیا بشما نوشتہ بودم کہ حال حامد علیخان باید

نبشت اینجا دربارہ آن بیچارہ سخنھا میرود۔

یزدان از بندوز ندانش نگہ دارد۔ اینہا بمہ یک

طرف، آوازہ رنجوری شاہ اود نہ آنچنان بلند

اضطراب نگہ توانم داشت۔ است کہ خود را از

خاصہ وقتی کہ شما نیز نوشتہ باشید کہ شاہ

بیمار است۔ درین صورت چون از ھر سو

شنوم کہ بیمار است چرا مضطرب نشوم۔ با

این ھمہ منشا فراوانی قلق و اضطراب نہ

183

رسین نامہ شما است کہ در پیچ و تابم افگندہ

است۔

اردو ترجمہ:

ھا کہ حامد "دوسرے میں نے تمہیں لکھا ت

علی خان کا احوال لکھو۔ یہاں پر ان کے

بارے میں افواہیں پھیل رہی ہیں۔ خدا ان کو

قید وقید خانے سے محفوظ رکھے۔ اچھا یہ

ساری باتیں ایک طرف، شاہ اودھ )واجد علی

شاہ( کی بیماری کی خبر اس قدر گرم ہے کہ

مضطرب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا خاص

ھی جب ہر طرف سے طور پر جبکہ تم نے ب

یہ سنوں کہ بیمار ہے یہ اضطراب کیوں نہ

ہو۔ ان سب باتوں کے باوجود اس سارے دکھ

اور اضطراب کی وجہ تمہارے خط کے نہ

آنے کے سبب ہے کہ جس نے مجھ کو پیچ و

(۱۲۴تاب میں ڈال رکھا ہے۔" )

ایک اور خط اسی طرح کے واقعات کا ذکر کرتے دکھائی دیتا ہے۔

فارسی:

امہ شما رسید و رنجوری شاہ دل گدا را بدرد ن

آورد۔ یا رب بہ عطیہ صحتش بنواز و کار من

از وی بہ سامان ساز۔ آنچہ در بارہ میر امام

الدین نوشتہ بودند، مسلم کہ چنین باشد اما برب

کعبہ کہ درین دوبار کہ نزد من آمدہ ھر گز

شما را ناسزا نگفتہ، ھمانا دانستہ باشد کہ من

ما نمیتوانم شنود۔بد ش

اردو ترجمہ:

"تمہارا خط پہنچا اور بادشاہ کی بیماری نے

)اس( فقیر کا دل دکھا دیا۔ اے ہللا اس کو

صحت کے عطیہ سے نواز اور اس کے

ذریعے میری کار سازی کر۔ تم نے میرامام

184

الدین کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا تسلیم

قسم کرتا ہوں ویسا ہی ہوگا لیکن رب کعبہ کی

کہ ان دو دفعہ میں کہ وہ میرے پاس آئے ہیں،

انہوں نے ہر گز تمہارے متعلق کوئی ناروا

بات نہیں کہی اور یقینا یہ بات بھی تمہیں

جاننی چاہیئے کہ میں تمہاری برائی نہیں سن

(۱۲۵سکتا۔" )

صلے اور انعام کا ذکر، شراب اور –( مکاتیب غالب، تنگدستی۷)

صلہ کی امید

لب ان لوگوں میں سے ہیں جن کو قدرت نے صرف اور صرف شعر و ادب مرزا غا

کے لیے پیدا کیا تھا۔ ان کی شخصیت میں وہ تمام خوبیاں موجود تھی جو بہت کم لوگوں میں

جمع ہوتے ہیں۔ مرزا غالب فارسی زبان کے ماہر بھی تھے اور فارسی زبان کے تمام گر بھی

ہے کہ اردو کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے وہ جانتے تھے اور ساتھ یہ بات بڑی واضح

ایک خاص عرصہ تک فارسی زبان و ادب کی شرینی کا لطف لے چکے تھے۔ فارسی زبان

دنیا کی ان زبانوں میں سے ہے جن میں صدیوں کی محنت سے لطافت اور حسن جمال کے

نمونہ بن خزینے جمع ہوجاتے ہیں جو دوسری زبانوں کے لئے ادب و انشاء کا ایک الزوال

جاتی ہے مرزا غالب نے ایک قدر شناس کی خوبیاں کی طرح فارسی زبان و ادب کی پرکھ

کی اور اپنی بے پناہ تخلیقی صالخیتوں کی مدد سے ان موتیوں کو پانی سے نکال کر مزید

سنوارنے اور بنانے کا کام بھی جاری رکھا۔

منہ بولتے ثبوت ہیں اور یہ خطوط غالب کی جدت طبع اور ان کی اجتہاد ادبی شان کے

خطوط ایک طرف سے غالب کی شخصیت کا آئینہ بھی ہیں اور اس کے ساتھ دوسری طرف

اس زمانے کی تاریخی و تہذیبی دستاویزات بھی مکمل طور پر موجود ہیں مکاتیب غالب کے

مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ ان کے خطوط کے عام انداز ان

کے تمام مذاق سے ہم بھی آہنگ ہے غالب چونکہ ایک سچے اور بڑے فن کار تھے۔ یہ

انسانی تقاضا ہے کہ ہمیں دوسروں کی آنکھوں کا تنکا تک نظر آجاتا ہے مرزا غالب کی

بڑھائی اس میں ہے کہ وہ اظہار شخصیت میں دورنگی کا شکار نہیں ہوئے اور اپنے فن کی

ے غالب اپنے خطوط میں اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے سچائی کا اچھا معیار رکھا ہ

ساتھ نظر آتے ہیں وہ اکثر شراب پیتا تھا تو اس کا اظہار بھی کرتا ہے مگر یاد رکھنا چاہیئے

کہ اس اعتراف جرم میں ان کا نداز متکبرانہ نہیں بلکہ اس میں بھی ایک انکسار موجود ہے

کہ عرفی اور شرعی اعتبار سے یہ ناجائز ہے۔ مگر اپنی غالب کو اس بات کا احساس بھی تھا

طبیعت کا اقتضاء سے وہ مجبور ہیں شراب پیتے ہیں اور اکثر قرض پر پیتے اور قرض کا

185

ذکر بھی ان کے فارسی خطوط میں آیا ہیں میر احمد حسین المتخلص بہ مکیش کو غالب

لکھتے ہیں۔

فارسی:

ت اما وسوسہ دیگر از ھمہ جان سوز تر اس

یعنی من در شہر قرضدارم و ڈگری داران

ھستند اگر خبر خواھند یافت ڈگری ھاپیش

کردہ بہ حکم عدالت زر از من خواھند بردو

سعی من و شما رایگان خواھد رفت۔

اردو ترجمہ:

"لیکن دوسرا وسوسہ سب سے زیادہ جان

سوز ہے یعنی میں شہر میں قرضدار ہوں اور

ار )بھی( ہیں۔ )اسی شہر میں میرے( ڈگری د

اگر انہیں خبر ہوگئی تو ڈگریاں پیش کرکے

مجھ سے عدالت کے زور پر یہ رقم چھین کر

لے جائیں گے اور میری اور تمہاری کوشش

(۱۲۶ضائع ہوجائے گی۔" )

اسکا ذکر صرف فارسی خطوط میں نہیں بلکہ اردو میں بھی شراب کا ذکر کئی بار آیا ہوا ہے

کمزوریوں کو کس قدر معذرت خواہانہ انداز پیش کیا ہے کیونکہ اس اور اپنی خطوط میں اپنی

نے ساری عمر فسق و مجبور اور نماز نہ پڑھنے اور روزہ نہ رکھنے کا ذکر کیا کرتے ہیں

اور زندگی کے گناہوں کی تالفی بھی چاہتے ہیں اسی طرح کا خط منشی ہرگوپال تفتہ کو

غالب لکھتے ہیں۔

فارسی:

ابر قطرہ فشان است و بادال درین ھنگام کہ

ابالی پوی و مرادر شب و روز جز آشامین

بادہ کار دیگر نیست۔

اردو ترجمہ:

"اس وقت جب بارش ہورہی ہے اور بے باک

ہوا چل رہی ہے اور مجھے دن رات سوائے

186

شراب پینے کے اور کوئی کام نہیں ہے۔"

(۱۲۷)

بھی گزارنا چاہتا ہے خواہ وہ اچھی ہو یا جو بھی انسان اس دنیا میں آیا ہے وہ یہاں زندگی

بری یعنی کسی کے پاس روپیہ پیسہ زیادہ ہوتا اور کسی کے پاس کم بس گزارا ہوتا ہو تو

زندگی کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔

اسی طرح غالب نے اپنے خطوط اپنی حاالت کا ذکر کیا ہے کیونکہ غالب نے ایک عامرانہ

الت بالکل بدل گئے تھے یعنی پنشن پر گزارا اور بعد میں ماحول میں آنکھ کھولی اور پھر حا

وہ بھی بند ہوگیا تھا۔ تو وقت تو گزرتا رہتا ہے اسی طرح غالب نے اپنے خطوط میں اپنی

تنگدستی کا ذکر بھی کیا ہے اور ساتھ اس وقت کے امراء یا دوسرے لوگوں سے بھی صلہ

ہو تو ایسے حاالت میں انسان صلہ اور انعام اور انعام کی امید بھی رکھتے تھے۔ اگر تنگدستی

کی امید بہت زیادہ رہتی ہے۔ غالب نے کچھ اس طرح کے حاالت کا ذکر کیا یعنی قصیدہ لکھا

اور اس کا صلہ مل گیا تو اس کا ذکر اس خط میں یوں کرتے ہیں یہ خط بھی غالب نے میر

احمد حسین المتخلص بہ مکیش کو لکھا ہے لکھتے ہیں۔

فارسی:

جان من قصیدہ میر سد، خود بخوانند و بہ

نواب صاحب رسانند و در آن کو شند کہ بنظر

شاہ گذرد و صلہ حاصل شود۔ یقین دارم کہ از

حسن سعی شما و عنایت نواب صاحب تا شاہ

خواہد رسید۔ باز چہ خواہد شد؟ مردم میگویند

کہ ال محاال حکم عطائے صلہ، اگر صادر

ادر خواھد شد و بے خواھد شد، بنام وزیر ص

وزیر کار از بیش نخواھد رفت۔ درینصورت

می اندیشم کہ کار برھم خواھد شد۔ چائہ این

کا ہمین قدر میباید کرد کہ این وسوسہ را بر

نواب صاحب ظاہر باید کردو از طرف من باید

گفت کہ فالنے میگوید کہ من گدائے یک درم

م و جز قطب الدولہ دیگرے را نمیشناسم۔ الجر

قطب الدولہ را باید کہ مرا محتاج دیگرے نگذ

ارند و قصیدہ را خود پیش کنند و صلہ خود

بستانند و خود بمن رسانند۔ چون این نقش

درست نشیند و حاجت بوزیر نیقتدو محض

بمہربانی نواب قطب الدولہ چنانکہ گفتہ ام

187

مقصود حاصل شود، چون آن مقصود زراست

ؤ بمن چگونہ خود بیندیشد کہ زر از لکھن

خواھند فرستاد۔

اردو ترجمہ:

"جان من قصیدہ پہنچ رہا ہے خود پڑھ لیں

اور نواب صاحب کو پہنچا دیں اور اس امر

کی کوشش کریں کہ بادشاہ )واجد علی شاہ(

کی نظر سے گزرے اور صلہ حاصل ہو۔

مجھے یقین ہے کہ تمہاری حسن تدبیر اور

نچ نواب صاحب کی عنایت سے بادشاہ تک پہ

جائے گا پھر کیا ہوگا؟ لوگ کہتے ہیں۔ کہ اگر

عطائے صلہ کا حکم صادر ہوگا تو وہ الزمی

وزیر )امین الدولہ( کے نام صادر ہوگا اور

بغیر وزیر )کی مدد( کے کام آگے نہیں بڑھے

گا۔ اس صورت میں مجھے فکر ہے کہ کام

گڑ بڑ ہو جائے گا۔ )چنانچہ( اس امر کی

ے کہ اس اندیشے کو تالفی اس طرح کی جائ

نواب صاحب پر ظاہر کر دیا جائے اور میری

جانب سے یہ کہا جائے کہ فالں شخص )یعنی

غالب( یہ کہتا ہے کہ میں تو ایک دروازے

کا گدا ہوں اور سوائے قطف الدولہ کے کسی

دوسرے کو نہیں جانتا۔ الزمی قطب الدولہ کو

یہ چاہیئے کہ وہ مجھے کسی دوسرے کا

ہ بنائیں اور قصیدے کو خود پیش دست نگر ن

کریں اور صلہ بھی خود ہی وصول کریں اور

خود ہی مجھے پہنچا )بھی( دیں۔ جب یہ کام

بن جائے اور وزیر کی ضرورت نہ پڑے اور

مخض نواب قطب الدولہ کی مہربانی سے

جس طرح میں نے کہا مدعا برآئے۔ اب

چونکہ مدعا تو رقم کا حصول ہے )اس بابت(

چیں کہ یہ رقم لکھنؤ سے مجھے کس خود سو

(۱۲۸طرح بھیجیں گے۔" )

188

جس طرح غالب نے اپنے خطوط میں صلہ اور انعام کی توقع کی ہے اسی طرح اپنے خطوط

میں دوسرے امور کا بھی ذکر کیا ہے اور بادشاہوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی

ھتے ہیں۔ اسی حوالے سے اس اس طرح اپنی ناکامیوں کو دور بھی ختم کرنے کی خواہش رک

کے بارے میں میر احمد حسین کو اپنی تنگدستی کا رونا اور قسمت کا جبر کے بارے میں

لکھتے ہیں۔

فارسی:

ازروزے کہ لکھنؤ آرامشگاہ شما است و خود

از روئے نگارش ہائے شما یدید آمدہ کہ شمارا

با قطب الدولہ کہ از ندیمان خاص سلطان است

ت بھم دادہ است در دل قربے وانسے دس

میسنجیدم و میگفتم کہ۔۔۔

باشد کہ ہمین بیضہ بر آرد پرو بال ع:

سخن کوتاہ ہو سہائے رنگ رنگ داشتم و یقین

من بود کہ میر احمد حسین کہ بمنزلہ فرزند

منست و سیمائے سعادت دارد عجب نیست کہ

قطب الدولہ رابران اورد کہ ذکر من بادشاہ

لب از پیشگاہ خسروی بمن اود کند و منشور ط

فستند تامن بہ لکھنؤ رسم و شاہ رادریابم، روز

گار ناکامی سر آید اما نازم بہب بخت و قسمت

خویشتن کہ آن ہنگامہ خیال برھم خوردو آنہ

ہمہ امیدواری بہ یاس مبدل شد۔

اردو ترجمہ:

"جس دن سے کہ تم نے لکھنؤ میں قیام اختیار

سے یہ ظاہر کیا ہے اور تمہاری تحریروں

ہوا ہے کہ تمہیں قطب الدولہ کے ساتھ جو شاہ

)واجد علی شاہ( کے حاص مصاحبوں میں

سے ہے قربت وانسبت حاصل ہوگئی، دل میں

سوچتا تھا اور کہتا تھا باشد کہ ہمیں بیضہ بر

آرد پر و بال ترجمہ ممکن ہے یہی انڈا پر

وبال نکالے۔ قصہ کاتاہ طرح طرح کی

( رکھتا تھا اور مجھے یقین خواہشات )دل میں

189

تھا کہ میر احمد حسین کہ جو میرے لئے

میرے بیٹے کی حیثیت رکھتا ہے اور خوش

بختی کی پیشانی رکھتا ہے۔ عجب نہیں کہ

قطب الدولہ کو اس پر آمادہ کر لے کہ وہ شاہ

اودھ )واجد علی شاہ( سے میرا ذکر کرلے

اور دربار شاہی سے میرے نام فرمان طلب

ا جائے تاکہ میں لکھنؤ پہنچوں اور بادشاہ بھیج

سے ملوں )اور( میری ناکامیوں کا دور ختم

ہو۔ مگر واہ ری میری تقدیر کہ وہ ہنگامہ

خیال درہم برہم ہوگیا اور وہ ساری امیدواری

(۱۲۹مایوسی میں تبدیل ہوگئی۔" )

ے میں بادشاہ کی صحت کے بارے میں جو جشن غسل صحت منایا جارہا ہے اس کے بار

بادشاہ کی صحت کے حوالے سے جو اس کی تعریف میں جو قصیدہ لکھا گیا ہے اسی موقع

پر اس کو پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں اور ساتھ ہی صلہ کی بھی امید رکھتے ہیں

لکھتے ہیں۔

فارسی:

خبر ہائے نا خوش از شاہ اودھ سامعہ گزابود۔

جاودان مانید کہ دلم رابہ جای آور دید۔ بر

خاستن فرجام رنجوری و تہیہ غسل صحت

بتعین روز پنجشنبہ کہ یا رب ہمچنین باد

نوشتید، لیکن آن ننوشتید کہ دل نیرو پذیر دو

خاطر بامید گراید۔ جشن غسل صحت از بہر

گذشتن قصیدہ مدح پاکیزہ تقریبی است۔ چہ

خوش باشد کہ این نامہ کہ من امروز مینویسم

انر سیدہ باشد کہ وفردا روان خواہد شد بشم

قصیدہ من بہ شاہ بلکہ عطیہ شاہ بمن رسیدہ

باشد۔

اردو ترجمہ:

"شاہ اودھ)واجد علی شاہ( کے بارے میں نا

خوشگوار خبریں سننے میں آرہی تھیں۔ خدا

تمہیں ہمیشہ ہمیشہ رکھے کہ میرے دل کو

190

قرار دیا۔ تم نے انتہائے بیماری کے رفع

بروز ہونے اور غسل صحت کے ارادے کے

جمعرات لکھا ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو لیکن

وہ )بات( نہیں لکھی جس سے دل کو تقویت

ملے اور امید بندھے۔ جشن غسل صحت

قصیدہ نذر گزارنے کے لئے پاکیزہ تقریب

ہے۔ کیا اچھا ہوکہ یہ خط جو تمہیں آج لکھ

رہا ہوں اور کل سپرد ڈاگ ہوگا ابھی تمہیں آج

ہ بادشاہ تک اور بادشاہ نہ مال ہو کہ میرا قصید

(۱۳۰کا عطیہ مجھ تک پہنچ جائے۔" )

اسی طرح ایک اور حط جو کہ قطب الدولہ بہادر کے نام لکھا ہے۔

لکھتے ہیں۔

فارسی:

سخن درینست کہ آن واال مناقب بدین درویش

دلریش نپر داختہ و قصیدہ و رضداشت را

روشناس نگاہ التفات حضرت خدیو آفاق

میگذرد، قافلہ میرود، ھمر نساختہ اند۔ وقت

ھان بندہ بسفر آمادہ، وبرفتن مستعجل و من

ھمچنان از تہیدستی و بی نوائی پابہ گل۔ خدا

رابرین گوشہ نشین اندھگین ببخشایند و قصیدہ

و عرضداشت را بحضور فیضگنجور گذرا

نندو ھر عطیہ کہ بدان فرمان رود بی آنکہ

رسال درنگ بمیان رود بدین گدای امیدوار ا

دارند۔ زیاہ ازین جز دعای دوام دولت حضرت

ظل سبحانی کہ دمادم ورد زبانست چہ عرضہ

دارد۔

اردو ترجمہ:

"بات دراصل یہ ہےکہانجناب واال صفات نے

اس زخمی دل درویش کی طرف توجہ نہیں

دی اور قصیدہ و عرضداشت کو سلطان عالم

کی نگاہ التفات سے روشناس نہیں کرایا۔ وقت

191

رہا ہے قافلہ روانہ ہورہا ہے فقیر کے گزر

ساتھ سفر کے لئے کمر بستہ اور روانگی

کیلئے عجلت میں ہیں اور میں اسی طرح تہی

دستی اور بے نوائی کی بنا پر پابہ گل )ہوں(

خدارا اس گوشہ نشین غمزدہ پر رحم فرمائیں

اور قصیدہ اور عرضداشت کو جناب فیض

ور جس گنجور کی خدمت میں پیش کردیں ا

عطیے کا بھی حکم ہو بغیر اسکے کہ اس

میں تاخیر ہو مجھ فقیر امیدوار کو ارسال

فرمائیں۔ اس سے زیادہ بجز حضرت ظل

سجانی کے دوا دولت کے کہ ہر ہر سانس میں

(۱۳۱ورد زبان ہے۔" )

اسی طرح بادشاہ کے پاس قصیدہ بھیجنا اور اس کی صلہ کی تمنا میں بیٹھے رہنے یعنی

کرتے رہے کہ بادشاہ کی طرف سے اس کو پسندیدہ قرار دینے کی بھی منتظر ہے انتظار

کیونکہ آخری ایام مرزا غالب کے حاالت کچھ اچھے نہ تھے اس لئے صلہ اور انعام کی امید

بھی رکھتے تھے حاالنکہ غالب نے ساری عمر نوکری نہیں کی اور اس کو اپنے عزت کے

مطابق مالزمت سے انسان کی عزت بڑھ جاتی ہے خالف سمجھتے تھے غالب کی خیال کے

لیکن معاملہ اس کے برخالف تھا اسی طرح کا ایک خط نامی شاہ صاحب کے نام لکھا ہوا

جس میں وہ صلہ کی تمنا کر رہے ہیں لکھتے ہیں۔

فارسی:

واقعہ این است کہ از عہد اورنگ نشینی

فردوس منزل نصیرالدین خیدر بادشاہ اعد بہ

دح زلہ خوار خوان عطای آن صیغہ صلہ م

سلطنتم قصیدہ من بوساطت روشن الدولہ بہادر

پیشگاہ سلطان گذشتہ و پنجہزار رہپیہ

مرحمت گشتہ در روزگار سریر آرائی محمد

علیشاہ ذریعہ نیافتم و در وقت فرنروائی

حضرت امجد علیشاہ آنچہ از نسازگاری

روزگار بر من میر احمد حسین کہ ازان اگہند

ض خواھند رسئید۔ حالیا ان میخواھم کہ بعر

اگر نوبصاحب واال مناقب رفیع الشان قطب

الدولہ نواب قطب علیخان بہادر دام اقبالہ مربہ

192

گری من فرمایند قصیدہ رانزد برخودار میر

احمد حسین فرستم تا آن سعادت نشان اول بہ

نظر کیمیا اثر حضرت گذر اند و پس ازان

رساند و نوبصاحب بخدمت واالی نوابصاحب

بہ آئینی شائیستہبنظر گاہ خاقان دارا دریان

گذر انند و حال ثنا گستری و سخنوری من و

نوازش و بخشش فردوس منزل بعرض خسرو

سپہر بارگاہ رسانند۔ اگر بخت نارسائی کندو و

عطیہ بقدر جاہ و دستگاہ شاہ نباسد، باری ہم

بدان مایہ بخشش کہ از عہد فردوسب منزل

ول است قناعت میتوانم کرد۔ حلیا در معم

فرستادن قصیدہ مدح شاہ و قطعہ ستایش

حضرت واال ھمت نواب صاحب قطب الدولہ

بہادر از جانب من درنگ نیست۔ ھمین کہ

حضرت جواب این عرضداشت مشتمل بر

قبول التماس فقیر بہ سید صاحب خواھند دادو

آن رافت نامہ بمن خواھد رسید فورا قصیدہ و

ہ بواسطہ میر احمد حسین ستودہ خوی قطع

بعالی بخدمت خواھد رسید۔

اردو ترجمہ:

"واقعہ یہ ہے کہ فردوس منزل نصیرالدین

حیدر بادشاہ اودھ کی تحت نشینی کے دور

سے میں صلہ مدح کے ضمن میں اس خوان

عطا کا ریزہ چین رہا ہوں ۔ میرا )ایک(

قصیدہ روشن الدولہ بہادر کی وساطت سے

کی حضور میں پیش ہوا اور پانچ ہزار بادشاہ

روپے مرحمت ہوئے۔ لیکن محمد علی شاہ

کے دور فرماں روائی میں مجھے کوئی

وسیلہ میسر نہیں آیا اور حضرت امجد علی

شاہ کے عہد حکومت میں ناسازگاری وقت

کے سبب جو کچھ مجھ پر گزرا میر احمد

حسین اس سے واقف ہیں۔ آپ کی خدمت میں

گے۔ فی الوقت میں چاہتاہوں کہ عرض کردیں

193

اگر نواب صاحب واال صفات رفیع الشان قطب

الدولہ نواب قطب علی خان بہادر دام اقبالہ

میری سر پرستی فرمائیں )تو( میں قصیدہ بر

خوردار میر احمد حسین کو بھیج دوں تا کہ وہ

سعادت مند اس کو پہلے تو آپ کی نظر کیمیا

بعد خدمت اثر سے گزارنے اور اس کے

عالیہ جناب نواب صاحب میں پہنچا دیں۔ اور

پھر نواب صاحب پسندیدہ طریقے سے اس

بادشاہ کے سامنے کہ دارا جیسے اس کے

دربان ہیں، پیش کردیں اور میری مدح گوئی

اور سخن وری کا احوال اور فردوس منزل

)نصیرالدین حیدر( کی نوازش و بخشش )کی

کے حضور میں کیفیت( سپہر بارگاہ بادشاہ

پہنچا دیں۔ اگر قسمت یاوری نہ کرے اور

صلہ بادشاہ کے مرتبے اور استعداد )عالی(

کے مطابق نہ بھی ہو تو اسی قدر بخشش پر

کہ فردوس منزل کے عہد سے معمول ہے

قناعت کرلوں گا۔ فی الوقت شاہ کی مدح کا

قصیدہ اور نواب صاحب قطب الدولہ بہادر

کا قطعی بھیجنے کی بلند حوصلہ توصیف

میں میری طرف سے کوئی کامل نہیں ہے۔

جیسے ہی کہ جناب عالی اس عرضداشت کا

جواب )دیں گے( اور اس فقیر کی درخواست

کی قبولیت سے سید صاحب کو آگاہ کریں گے

وہ الفت نامہ مجھے پہنچ جائے اور فورا

قصیدہ اور قطعہ میر احمد حسین پسندیدہ

( خدمت عالی خصلت کی وساطت سے )آپکی

(۱۳۲میں پہجچ جائے گا" )

ہر آدمی کی تمنا ہوتی ہے کہ اسے اچھے اور موزوں کام کا صلہ مل جائے تو غالب بھی

ستائش کی تمنا رکھتے تھے انہوں نے بادشاہوں کے شان میں جو قصیدے لکھیں اس کی صلہ

کی امید رکھتے تھے۔ لکھتے ہیں۔

فارسی:

194

ہر سفتہ ام اگر در مدح اورنگ آرای دھلی گ

منشور رافتی بمن دادہ است واگر گورنر

جنرل را ستودہ ام خوشنودی نامہ ھا بمن

فرستادہ، چنانکہ یک توقیع ابوظفر سراج الدین

بہادر بادشاہ و یک مکتوب انگریزی جمس

طامس گورنر اکبر آباد پیش خودم ھست۔

اردو ترجمہ:

"اگر میں نے تحت نشین دہلی کی مدح میں

ے ہیں تو اس نے )بھ میری سخن موتی پروئ

وری کو سراہتے ہوئے( اپنی شفقت کا منشور

مجھے دیا ہے اور اگر گورنر جنرل کا قصیدہ

کہا ہے، تو اس نے اپنی خوشنودی کے خط

مجھے بھیجے ہیں۔ چنانچہ ایک سند توصیفی

ابو ظفر سراج الدین بہادر بہادر بادشاہ کی

آباد اور ایک خط جسمیں طامسن گورنر اکبر

(۱۳۳کا )اس وقت( میرے سامنے ہے۔" )

( زبان و بیان، جگ بیتی، نثر پارے اور کچھ دوسرے امور ۸)

فارسی زبان و ادب میں جو اسلوب مرزا غالب نے اپنایا اس میں بال شبہ سادگی و

سالست بے ساختگی اور قدرتی پن نمایاں ہے، مگر ان پر فارسی اثرات ضرور نمایاں ہیں اس

کے مروجہ فارسی اسالیب کے خالف یہاں بھی غالب کے ہاں انقالب پسند طبع نے وقت

رنگینی کے وہ خوبیاں دکھائے ہیں جو دوسرے کے ہاں ناپید ہے۔ اس میں شک نہیں کہ غالب

کی نثر پر فارسی زبان و ادب کے اثرات بھی زیادہ ہیں لیکن یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیئے

بوجھل ہونے کے بجائے اور زیادہ زنگین اور خوش آہنگ ہوجاتی کہ اس سے غالب کی نثر

ہے، مرزا غالب نے اپنی فارسی نثر میں زبان و بیان اور امال کے حوالے سے جو باتیں

تراشنے کا طریقہ بتایا گیا ہیں وہ دوسروں کے ہاں بہت کم ملتا ہیں منشی ہر گوپال تفتہ کو

کھتے ہیں۔زبان و بیان کے بارے میں ایک خط میں ل

فارسی:

بیش از بیش "وکم از کم" نہ انچنانست کہ تادر

کالم جامی و اسیر ننگرم مسلم نداریم۔ گفتار

یست پسندیدہ سخنے است والویز بلکہ اگر

195

بیشتر از بیش کمتر از کم نبشتہ باشیم برخود

خندیدہ باشیم۔ مارا سخن در آنست کہ در محل

تر" میتوان جواز تسویہ یا بمقام منع تسویہ "کم

نبشت نہ "کم"۔ جامی تسویہ منظور ندارد بلکہ

میفر ماید "کم از صد غم" یعنی نودونہ نبود۔

آرے درینجا کہ این عبارت ہندی راخواہیم کہ

فارسی کنیم مثال چاند کی روشنی آفتاب

روشنی سے کم ہے، باید کہ بدین سان نویسیم

روشنی ماہ از فروغ مہر کم تراست، چشم ما

نہ دیوار کمتر نیست، قس علی ھذا۔از رخ

اردو ترجمہ:

"بیش از بیش اور کم از کم ایسی چیز نہیں کہ

جب تک کالم جامی اور اسیر سے کوئی نظیر

نہ ملے ہم نہ مانیں یہ ایک پسندیدہ طرز

اظہار ہے اور دلکش بیان۔بلکہ اگر بیشتر از

بیش از کم لکھیں گے تو مضحکہ خیز بات

کالم اس میں ہے کہ ہوگی۔ مجھے دراصل

تسوید کے جواز کے موقع پر یا منع تسویہ

کی جگہ کمتر لکھا جاسکتا ہے یا نہیں یا

)صرف( کم )لکھ جائے گا(۔ جامی کا مقصد

تسویہ نہیں بلکہ جب وہ کہتا ہے "کم از صد

کم" تو اس سے اس کی مراد ننانوے نہیں

ہوتی۔ ہاں اس طرح اگر ہندی کی عبارت کی

"چاند کی روشنی آفتاب کی فارسی کریں

روشنی سے کم ہے" تو اس کو اس طرح

لکھیں "روشنی ماہ از فروغ مہر کم تراست"

"چشم ماازرخنہ دیوار کم تر نسیت"" علی

(۱۳۴ہذاالقیاس" )

فارسی زبان و ادب میں غالب نے اپنی شخصیت کا سکہ اپنی نثر پر بہت خوب صورت انداز

اسلوب و انداز پر ان کی شخصیت کی نمایاں چھاپ ملتی ہے میں جمایا ہوا ہے۔ غالب کی ان

اور یہ نمایاں چھاپ بھی غالب کی خوبی ہے۔ اگر دیکھا جائے مرزا غالب کی نثر ان معنوں

میں ایک زندہ و تابندہ نثر ہے وہ اس لیے کہ غالب کی نثر زندگی کی ترجمان ہے، مرزا

196

یقہ اظہار کو اختیار کیا اور سب سے غالب نے مختلف طرح کے مطالب کے لئے فطرتی سل

بڑھ کر جس آدمی کو جو خط رقم کر رہے ہیں پوری طرح سے حاالت و واقعات سے با خبر

ہو کر لکھ رہے ہیں یعنی اپنی چاروں اطراف سے باخبر رہتے تھے۔ جگ بیتی ہوں یا قلعے

نی مصروفیت کا حال ہو غالب پوری توجہ کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیں اور قلعے میں اپ

اور قلعے میں آنے جانے کا ذکر ہوں پوری ایمانداری کے ساتھ کرتے ہیں۔ مرزا اپنی خط میں

قلعے کا حال یوں بیان کرتے ہیں لکھتے ہیں۔

فارسی:

آہ ازین عید کہ برمن از محرم نا خوشتر

گذیشت۔ دو روز پیش از آنکہ بشام ماہ نوبینند

و تپے و بامداد عید کنند، شاہ رامنش برگشت

سوزندہ و اسہالے ہولناک عارض شد۔ تاکجا

گویم کہ درمیانہ چہا رفت۔ تا امروز کہ دھم

شوال و ہجدمہم جوالئی است بیم و امید راہمان

آویزہ و ہواخواہان راہمچنان روان فرسائی

است۔ گرمی از رگ بیرون نمی رودو شکم

ننمی بندد۔ ہر روزصبح بہ قلعہ ہمی روم۔

ہ شاہزادگان بہ درویزہ گاہے نان از خان

میخورم و شمگاہ بہ غمکدہ می آیم و روزے

کہ ہنگامہ نیمروز نان بہ کاشانہ میخورم پایان

روز باز میروم۔ تا امروز کاروبار این است۔

فداندانم چہ پیش آید۔

اردو ترجمہ:

"ہائے یہ عید کہ مجھ پر محرم سے زیادہ

سوگوار گزری۔اس سے دو دن پیشتر کہ لوگ

کو ماہ نو دیکھیں اور صبح عید منائیں شام

)بہادر شاہ( کی طبیعت خراب ہو گئی اور

شدید بخار اور خطرناک اسہال میں مبتال

ہوگئے۔ کہاں تک بتاؤں کہ اس عرصے میں

کیا کیا بیتی۔ آج کے دن تک کہ دہم شوال اور

اٹھارہ جوالئی ہے امید ہے کہ وہی اسہال و

خواہوں کی بیم کی وہی کشمکش ہے اور بہی

جان پر اسی طرح بنی ہوئی ہے۔ خون کی

197

حدت رفع نہیں ہوتی اور دست بند ہونے میں

نہیں آتے۔

روزانہ صبح قلعے جاتا ہوں۔ کھانا کبھی

شاہزادوں کے گھر سے مانگ کر کھاتا ہوں

اور شام کے وقت اپنے غم کدے میں آجاتا

ہوں اور کبھی دوپہر اپنے گھر کھانا کھاتا

ڈھلے )واپس قلعے( چال جاتا ہوں۔ ہوں تو دن

آج تک تو یہی مصروفیت ہے کل کی خبر

(۱۳۵نہیں کیا پیش آئے" )

مرزا غالب اس حوالے سے خوش قسمت لوگوں میں شمار ہوتے ہیں کہ اس عہد میں

بھی اور بعد کے زمانے میں بھی اس تعریف توصیف کی گئی غالب کی زندگی میں ان کے

تھے دیوان چھپ چکا تھا لیکن ایک شاعر یا نثر نگار کے خطوط کے مجموعے چھپ چکے

کچھ اور بھی ضرورتیں ہوتی ہے اور غالب وہ واحد آدمی ہے جنہوں نے اپنے خطوط میں ہر

قسم کے خیاالت کا اظہار نہیں بلکہ کھلے عام اس کا ذکر کیا ہے۔ خواہ وہ پنشن کا مسئلہ ہو یا

میں ہو یا زمانے کی بے قدری کی باتیں ہو ویسے غدر کے حاالت ہو یا نظم و نثر کے بارے

بھی ایک شاعر یا نثر نگار کے پاس اس کے عالوہ اور کیا ہوتا یہی شاعری اور نثر اس کی

زندگی کا کل اثاثہ ہوتا ہے مرزا غالب نوروز علی خان بہادر کے نام ایک خط میں لکھتے

ہیں۔

فارسی:

ھیچ صاحبدولتے در ھند نیست کہ ازین گروہ

بیشکوہ بگلسم و خود رابدامن دولت وے بندم۔

دستمایہ منسخن است و اینر ادرین قلمرو کسی

بجوئے نمیخرد۔ گوئی ہمہ عمر باد میپیمودم۔

دریغ از روزگارے کہ در مشق سخن گذشت۔

کاش از نخست بہ زمزمہ و سرود دل بستمی و

چنگ و چغانہ زدن آموختمی۔ ہیہات چہ

بمزد نوانان میگویم مگر درینطائفہ کہ

میخورند بے نوایان نیستند اگر بمثل سرود

سرائی نیز پیشہ داشتمے ہم از نکبتیان آن فرقہ

بودمے چنانکہ اکنون سخن راکس خواستار

نیست نوای مرانیز کسی خریدار نبو دے و

198

عمرم ھمچنین بہ ناکامی و تیرہ سر سنجامی

گذشتے۔

اردو ترجمہ:

جا نہیں کہ "ہندوستان میں کوئی ایسا صاحب

اس بے حیثیت گروہ سے رشتہ توڑ کر اپنے

آپ کو اس کے دامن دولت سے وابستہ

کرلوں۔ کیا کروں میرا )تو سارا( سرمایہ ہی

شاعری ہے۔ اور اس )جنس( کو اس قلمرو

میں کوئی ایک جو کے بدلے بھی نہیں

خریدتا۔ گویا ساری زندگی جھک مارتا رہا۔

شق سخن افسوس اس وقت پر کہ میں نے م

میں ضائع کردیا۔ کاش ابتداء ہی میں گانے

بجانے کی طرف توجہ دیتا اور چنگ و چغانہ

بجانا سیکھتا۔ افسوس کیا کہوں کہ یہ لوگ گا

بجا کر کھانا کھاتے ہیں )میری طرح( مفلس

نہیں۔ لیکن یہ بھی خیال آتا ہے کہ اگر میں

مثال کے طور پر پیشہ ورگانے بجانے والوں

ب بھی اس جماعت کے بدقسمتوں میں ہوتا ت

میں ہوتا اور جس طرح آج کوئی میری )نقد(

سخن کا طلبگار نہیں )اسوقت( میری آواز کا

خریدار نہ ہوتا اور میری عمر اس طرح

(۱۳۶ناکامی اور تیرہ بختی میں گزرتی۔ )

مرزا غالب کے انداز نگارش کی ممتاز ترین حصوصیت یہ ہے کہ وہ جو کچھ لکھتے تھے

تکلف لکھتے تھے۔ ان کے خطوط کے مطالعہ کرتے وقت شاید ہی کہیں یہ احساس ہو کر بے

الفاظ کے انتخاب یا مطالب کی تالش و جستجو میں انہیں کاوش کرنی پڑی۔ بلکہ یہ محسوس

ہوتا ہے کہ مطالب دلکش الفاظ کا جامہ پہن کر اسی طرح بہے چلے آرہے ہیں جس طرح

خود بخود اچھال چال آتا ہے ان خطوط میں سراسر "آمد" تھی فوارے کا منہ کھل جانے پانی

آورد نہیں بے تکلفی اور سادگی کی اس خوبی کے عالوہ مکاتیب غالب میں جزئیات نگاری،

منظر کشی، مرقع نگاری، مزاح و ظرافت اور واقعہ نگار کے اسالیب ملتے ہیں اور یہی وہ

ں کے لیے مدد گار ثابت ہوئے۔ اور اپنی اسالیب ہیں جو آیندہ مختصر کہانی لکھنے والو

خطوط سے ہمیں وہ مدد ملتی ہے جہاں انہوں نے اپنے دوستوں کو اپنی رائے کا اظہار کیا

ہے جس بارے میں بھی ہوں خواہ وہ خط لکھنے کے بارے میں کیوں نہ ہوں یا دوسرے سے

199

میں لکھتے ہیں خط ہم کالمی کا ہوں کیونکہ جواب کا انتظار بھی کرتے تھے۔ خط کے بارے

کے حوالے سے تفضل حسین خان صاحب مرحوم کو لکھتے ہیں۔

فارسی:

بسکہ لب تشنہ ذوق ھمز بانیم پیداست کہ چون

دو تن از ھم دور باشند جز بزبان خامہ باھم

حرف نتوانند زد۔ تا نامہ نامی کواندم، بہ نامہ

نگاری نشستم۔ نامہ مینویسم و دانم کہ تا این

ن نپذیر دنیا سایم۔نگارش کرا

اردو ترجمہ:

"میں تو ہمکالمی کا پیاسا ہوں اور ظاہر ہے

کہ دو اشخاص جب ایک دوسرے سے دور

ہوں تو زبان قلم ہی سے گفتگو کرسکتے ہیں۔

)چنانچہ( آپ کا نامہ نامی پڑھتے ہی خط

لکھنے بیٹھ گیا۔ اب میں خط لکھ رہا ہوں اور

نہیں سمجھتا ہوں کہ جب تک یہ تحریر ختم

(۱۳۷ہوتی مجھے چین نہیں آئے گا۔" )

دراصل خطوط غالب جو فارسی زبان میں غالب نے لکھے تھے ان خطوط میں غالب نے ہر

طرح کے موضوع پر گفتگو کی ہے اور لکھا ہے اور یہی خطوط وہ ہے جس میں ساری

موضوع زندگی کی بھر پور عکاسی کرتے ہوئی دیکھائی دیتے ہیں اور یہی مختصر کہانی کا

ہی انسانی زندگی کا کوئی پہلو ہوتا ہے۔ مرزا غالب نے شخصی اور اجتماعی زندگی کے

مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے میں جس رواں دواں اور شگفتہ انداز بیان کو اختیار کیا غالب

نے اس مختصر کہانی کے لیے راہیں ہموار کیں۔ خواہ وہ خط کے ذریعے دوسروں سے بات

ا کوئی اور بات ، خواہ وہ نظم و نثر کے بارے میں کیوں نہ ہو دنیا کا کوئی چیت کرنی ہو ی

پہلو ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں غالب نے خطوط میں ذکر نہ کیا ہو نظم و نثر کے

بارے میں منشی جواہر سنگھ جوہر کو ایک خط میں اس بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں۔

فارسی:

نثر میتوان فرستاد۔ نوشتیدہ کہ پارہ از نظم و

این سخن دو محل دارد۔ یا خود آنست کہ

مجموعہ نظم منطبعہ مطبع منشی نورالدین

200

احمد آنجارسیدہ آصت و آنچہ جز آن گفتہ باشم

می خواہد۔ ہمانا اگر چنین است باور دارید کہ

پس از انطباع آن اوراق جز قصیدہ تہنیت فتح

یوان پنجاب ہیچ نگفتہ ام و اگر آنست کہ آن د

راکس دران دیار نبردہ است می بایست کہ آن

مجموعہ میخواستند نہ اشعار پرگندہ۔ بہر حال

اگر بنو یسندیک جلد دیوان بشمار فرستم تا

آنرا از جانب من بہ ہمایوں خدمت حضرت

موالنا پیش کشند و نقش ارادت مرا بکرسی

نشانند۔

اردو ترجمہ:

رنے "تم نے نظم و نثر میں سے کچھ ارسال ک

کو لکھا تھا۔ اس بات کے دو پہلو ہیں۔ یا تو یہ

کہ مجموعہ نظم منشی نورالدین کے مطبع

دہلی( میں چھپ کروہاں پہنچ ہی –)دارلسالم

چکا ہے۔ اگر آپ چاہتے کہ اس کے عالوہ

اگر کچھ کہا ہے اور وہ بھیجوں تو یقین کریں

کہ اس مجموعے کی طباعت کے بعد فتح

صیدے کے عالوہ کچھ پنجاب کی تہنیت کے ق

بھی نہیں کہا ہے اور اگر اس عالقے )پنجاب(

میں کوئی میرا دیوان لے کر ہی نہیں پہنچا تو

آپ کو چاہئے تھا کہ وہ دیوان مانگتے نہ نہ

کہ متفرق اشعار۔ بہر حال اگر لکھیں گے تو

ایک نسخہ دیوان کا آپ کو ارسال کردوں گا

کہ آپ میری طرف سے موالنا )سید رجب

علی( کی خدمت عالیہ میں پیش کرکے میری

ارادت کا نقش )چوکھٹے( میں بٹھا دیں"۔

(۱۳۸)

اسی طرح غاب اپنے ایک خط میں کئی طرح کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں اسی خط میں

سیاسی حاالت یا جگ بیتی ہو اس کا ذکر بھی تفصیل سے کرتے ہیں لکھتے ہیں سیاسی حاالت

بارے میں ہیں۔کے بارے میں جو لکھنو کے

فارسی:

201

حالیا در لکھنؤ روز و شبے دیگر است۔ شاہے

کہ من اورا ستایشگر بودم و دوست من باوے

روئے سخن داشت ناگہان مرد۔ پسرش کہ

بجای وے اورنگ نشین است آشفتہ سروتباہ

رائے کسے است بہ بر کندن بنائے پرستش

جاہائے ہنود فرمان داد۔ الجرم فتنہ ہازاد۔

ہر وزیرش راببازار گرفتند و دوسہ اوباش ش

تیغ زدند و خستند و ہمچنان خستہ گذاشتند۔

جزبا مطربان نمیگر آید و خردے استوار و

رائے روشنندارد۔ روزگارے دراز باید تا

آشوب فرونشیند وایمنی پدید آید واراجہ جواال

پرشادو اعتقاد الدولہ نوروز علی خان کار از

د و فرمان طلب بنام سر گیرند و سلسلہ بجنبانن

من فرستند۔

اردو ترجمہ:

"آج کل لکھنؤ کا حال دگر گوں ہے۔ وہ بادشاہ

)امجد علی شاہ( کے جس کی ثنا گری میں

کرتا تھا اور جس تک میرے دوست )اعتقاد

الدولہ نوروز علی خان( کی رسائی تھی

اچانک فوت ہوگیا اس کا بیٹا جو اس کی جگہ

و بد رائے ہے۔ اہل تحت نشین ہوا ہے بد دماغ

ہنود کے معبدوں کو ڈھانے کا حکم دے دیا۔

الزمی فتنہ و فساد برپا ہونا تھا۔ شہر کے

بدمعاشوں نے اس کے وزیر کو بازار میں

پکڑ لیا۔ تلوار کے دو تین وار کئے ادھ موا

کردیا اور اسی طرح نڈھال چھوڑ کر چلے

گئے۔ گانے بجانے والوں کے عالوہ کسی

، ہوشمندی وتدبر نام کو نہیں سےرعبت نہیں

طویل مدت چاہیئے کہ یہ ہنگامہ فرو اور امن

امان صورت پذیر ہو اور )اس کے بعد( راجہ

جواال پرشاد اور اعتقاد الدولہ نوروز علی خان

بہادر ابتداء سے کام شروع کریں اور سلسلہ

202

جنبانی کریں اور فرمان طلب )دربار اودھ

(۱۳۹سے( میرے نام بھجوائیں"۔ )

جواہر سنگھ کے نام یہ ایک خط نہیں بلکہ اس میں کئی موضوعات کو زیر بحث الیا گیا ہے۔

کبھی نظم و نثر کی بات کرتے ہیں تو کبھی لکھنوؤ کے حاالت پر شروع ہوجاتے ہیں اور

اسی خط میں شہزادے کی موت کا خبر الگ لکھ لیتے ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھانے کی

کہ میں فقیر ضرور ہوں لیکن فقیری میں بھی غنی اور دولت مند ہوں اور کوشش کرتے ہیں

ساتھ اپنی کا الج خود رکھ کر لکھتے ہیں کہ اس شہر میں میرا نام لو تو سارے لوگ مجھے

جانتے اور میری نام سے بھی واقف ہے اسی خط میں غالب جواہر سنگھ کو لکھتے ہیں۔

فارسی:

نبشتیدو نبشتید عجب دارم از شما کہ بمن نامہ

کہ چون من بشمانامہفرستم برسر نامہ چہ

نشان نویسم۔ این بار این ورق را بہ پدر

شمارائے طھمبل میدھم تادر نورد نامہ خود

بشما فرستند۔ زین پس آ ن خواہم کہ نشان

فرود آمدن جائے خود بنویسند تا نامہ من

بواسطہ دیگرے بشمار سیدہ باشد۔ دیگر درین

کہ عنوان نامہ راچون نامہ اعمال تب و تابم

من سیہ چرا کر دند و عرف و تخلص و چاہ

گذر از بہر چہ نوشتند۔ آیا نمید انند کہ نگاشتہ

ہائے فارسی و انگریزی دہر ماہ دو چہار بار

بار بمن از ہر سوے میر سدو آنر اجز این کہ

در دہلی بہ اسد ہللا برسد رقمی دیگر نمی باشد۔

شما فرو مایہ و گمنام باشم و اگر چہ بز عم

جز عرف بنامے کہ دارم نیرزم، اما دیگران

بہ رغم شمانامورم شمارند، خاصہ بریدان ڈاک

کہ جادہ شناس زاویہ من اند۔ نامہ اگر تنہا بہ

نام من باشد می تونند اورد۔ پس از انجامیدن

این گفتگو کہ تعلق بپاسخ نگارششماداشت۔

اردو ترجمہ:

کرتے ہو مجھے خط لکھا یہ نہ "تم بھی کمال

لکھا کہ جب میں تمہیں خط لکھوں تو پتہ کیا

203

لکھوں۔ اس بار یہ تحریر والد رائے چھمبل

کو دے رہا ہوں کہ اسے خط کے ساتھ بھیج

دیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ آئیندہ آپ اپنی قیام

گاہ کا پتہ لکھیں تاکہ میرا خط بغیر کسی

دوسرے واسطے کے تمہارے پاس پہنچے۔

مجھے یہ بے چینی بھی ہے کہ بھال پتہ

لکھنے کی جگہ کو آپ نے میرے نامہ اعمال

کی طرح سیاہ کیوں کر ڈاال اور عرفیت و

تخلص و چاہ و گذر کیوں لکھا؟ کیا آپ کو علم

نہیں کہ فارسی اور انگریزی کے خطوط ہر

مہینے دو چار میرے پاس ہر طرف سے آتے

دہلی میں ہیں اور ان پر سوائے اس کے

اسدہللا کو ملے اور کچھ نہیں لکھا ہوتا۔ اگر

چہ تمہارے خیال میں میں بے حیثیت اور

گمنام ہوں اور عرفیت کے سوا اپنے نام کے

الئق بھی نہیں لیکن دوسرے لوگ تمہارے

حالف مجھے نامور گر دانتے ہیں۔ خاص

طور پر ڈاکیے کہ جو میری کٹیا کے راستے

گر صرف میرا نام ہو سے واقف ہیں۔ خط پر ا

پھر بھی پہنچا سکتے ہیں۔ یہ بات تو تمہارے

(۱۴۰خط کے جو اس میں ہوئی"۔ )

غالب نے اپنے خطوط میں انسانی زندگی کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں اور انسانی زندگی

کا کوئی موضوع یا پہلو نہیں ہے جس پر غالب نے نہ لکھا ہو مرزا غالب نے شخصی اور

ندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے میں جس رواں دواں اور سگفتہ انداز بیان اجتماعی ز

کو اختیار کیا انھوں نے مختصر کہانی کے لیے راہیں ہموار کیں اور اس طرح غالب کے

کطوط فارسی، اردو نثر کی بیشتر احناف ادب کے لیے پیشتر و اور رہنما ثابت ہوئے اور

پنے خطوط میں یہ راہیں نہ دکھائی ہوتیں تو فارسی اور اردو حقیقت یہ ہے کہ اگر غالب نے ا

کے نثری احناف ادب کو اپنے نشو و ارتقاء میں شاید اتنی سہولتیں نہ ملتیں ویسے بھی غالب

سے پہلے خطوط نویسی فارسی روایات و اسالیب کی حامل تھی غالب سے پہلے خطوط

ہوتا تھا۔ مرزا غالب اس انداز نگارش کے نویسی انتہائی مشکل اور دقیق الفاظ کا استعمال

اولین شخصیت تھے کیونکہ غالب جو کچھ لکھتے تھے بے تکلف لکھتے تھے۔ ان کے

خطوط کے مطالعہ کرتے وقت شاید ہی کہیں یہ احساس ہو کہ الفاظ کے انتخاب یا مطالب کی

دلکش الفاظ کا تالش و جستجو میں انہیں کاوش کرنی پڑی بلکہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ مطالب

204

جامہ پہن کر اسی طرح اس کے سامنے چلے آرہے ہیں۔ جیسے ہی حاالت کیوں نہ ہو ان کا

روکتا نہیں اور لکھتے جاتا تھا۔ اسی انداز میں تفضل حسین خان مرحوم کو اپنی فارسی کالم

کے ناپسندیدگی کے بارے میں غالب لکھتے ہیں۔

فارسی:

زار بیت دیوان فارسی من کہ کم و بیش ہفت ہ

دارد منطبع می شود و غالب کہ در عرض دو

ماہ بیایان رسد۔قرار دادہ ام کہ یک جلد سبیل

ہدیہ بواالخدمت نیز خواہم فرستاد چون

مجموعہ نثر دار نہ سفینہ نظم نیز داشتہ پاشند۔

من آن می خواہم کہ چون نواب مرا وقعی ننہا

دو ستا یشم رابہ سگفتگی نیز پرفت من ہم بے

گی کنم واین قصیدہ ال خط کشم و در حوصل

دیوان ننویسم و چون نواب نام مرا درد دفتر

خود نپسندم ۔ حضرت اندرین باب چہ سفیر

مایندہ"۔

اردو ترجمہ:

"انہیں دنوں میں میرا فارسی کالم کا دیوان

جو کم و بیش سات ہزار اشعار پر مشتمل ہے

)مطبع دارالسالم دہلی میں( چھپ رہا ہے اور

بہت ممکن ہے کہ دو ماہ کے اندر اندر مکمل

ہوجائے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک جلد

بطور عطیہ کے خدمت عالی میں بھی

کے ساتھ دیوان بھیجوں گا تاکہ مجموعہ نثر

نظم بھی ان کے پاس ہو )اب( میرا یہ ارادہ

ہے کہ چوں کہ نواب نے مجھے درخور اعتنا

نہ سمجھا اور میری مدح کو پسندیدگی کی

نظر سے نہیں دیکھا تو میں بھی کم ظرفی

سے کم لوں اور اس قصیدے پر خط تنسیخ

کھینچوں اور دیوان میں شامل نہ کروں۔ جس

ا نام اپنے دفتر میں پسند طرح نواب نے میر

نہیں کیا میں بھی ان کے نام نامی کو اپنے

205

دیوان میں گوارا نہ کروں۔ اس ضمن آپ کی

(۱۴۱کیا رائے ہے"۔)

مرزا غالب کے خطوط میں ہر طرح کے موضوع پر بات کی گئی ہے تمام خطوط کو چھوڑ

ر پر حیران رہ کر ایک ایک خط میں وہ مسائل چھڑے کہ انسان اس شخصیت کی سوچ و فک

جاتا ہے ایک خط میں کئی امور کا ذکر کرنا غالب ہی کا کمال ہے۔ ایک تو غالب کو فارسی

زبان پر مکمل عبور حاصل تھا اور دوسری بات یہ کہ ہر موضوع ایسی روانگی کے ساتھ

لکھتے ہیں جیسے الفاظ اس کے سامنے خود جھک کر آتے تھے عالم کے بارے میں جو الفاظ

تعمال کرتے ہے وہ ذرا دیکھیں کیسے کیسے الفاظ کو سامنے التے ہیں لکھتے ہیں۔و ہ اس

)فارسی(:

عالم علم، و عالم عالم، عالم عامل، عامل

عادل، )درعمل، و در عمل سر( دام اکرامہ آلودہ عالم

عالم درد دل۔"

ترجمہ:

عالموں کے عالم، مشہور زمانہ عالم، عالم با

علم کی پہچان اور عمل کی عمل و عامل با عدل،

(۱۴۲داستان، خدا آپ کے اکرام ہمیشہ قائم رکھے۔")

غالب کی دوستی بھی بے مثال ہوتی تھی جس سے غالب کی دوستی ہوتی تھی اسے سل کی

بات کہنے میں کتراتے بھی نہیں اور ہر طرح کی بات یعنی موضوع پر لکھتے تھے اپنی

کتابوں کے بارے میں ضرور ذکر کرتے تھے اور فارسی نثر اور حصوصا اپنی تحریر کردہ

غالب کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے تحریر کتابوں ان کے دوستوں کے پاس ضرور ہونی

چاہیئے اور فارسی زبان و ادب کے بارے میں کہتے تھے اگر آپ کو فارسی سے لگاؤ ہے تو

بخوبی سیکھی یہ نگارشات آپ کے پاس کیوں نہیں ہے کیونکہ ان نگارشات سے فارسی

جاسکتی ہے۔ غالب اپنی فارسی زبان اور کتابوں کے بارے میں نول کشور کو ایک خط میں

لکھتے ہیں۔

فارسی:

" درپارسی زبان بسا سخن گفتہ ام و ہم نامہ

ہا نگاشہتہ۔ اکنون کہ دل از ناتوانی سگالش بر

نمی تابد، کار بر خود آسان کردہ ام و ہر چہ

دو مینویسم۔ گوئی گفتار می باید نبشت در ار

در نامہ فرومی پیچم و بہر دوست می فرستم

206

حاشہ کہ در اردو زبان نیز سخن آرائی و خود

نمائی آئین باشد آنچہ با نزدیگان توان گفت، بہ

دوران نوشتہ میشود۔ مدعا ہمان گزارش مدعا

ست و دیگر ہیچ۔ اینک فرمان زما پذیر فتم ، و

زی سخن گفتم۔درنامہ فارسی آمیختہ بہ تا

سہ نسخہ در نثر دارم پنج آہنگ و مہر نیمروز

و دستنبو۔ نشگفت کہ در لکھنؤ نیزمردم این

نامہ ہائینامی داشتہ باشند۔ اگر ذوق نگریستن

نگارش پارسی دارند، چرا این سوادہارا فراہم

نیارند، مرا خود ہنگام آنست کہ با کافور و کفن

پنجاہ سال کار افتد شصت و پنج سال زیستم و

سخن گفتم آخر ہر آغاز انجامے ہست۔ رسیدن

اودہ اخبار ازان سو در ہر ماہ چہار بار و

رسیدن زر ازین سو در ہر سال دوبار، اگر

منظور دارند، منظور ااست۔"

اردو ترجمہ:

میں نے زبان فارسی میں میں بہت شعر کہے

ہیں اور خطوط بھی لکھے ہیں۔ اب کہ ضعف

ش کا متحمل نہیں ہوسکتا کے سبب دل اس کاو

تو میں نے ایک آسان راستہ ڈھونڈ لیا ہے اور

مجھے جو کچھ بھی لکھنا ہوتا ہے اردو میں

لکھتا ہوں۔ گویا کہ بات چیت کوتہ کرکے خط

کے طور پر دوستوں بھیجتا ہوں۔ معاذہللا افر

اردو میں سخن آرائی اور خود نمائی میرا

سکتی شیوہ ہو۔ جو بات نزدیکوں سے کی جا

ہے وہی دور والوں کو لکھ دی جاتی ہے۔

مقصد محض اظہار مدعا ہے اور کچھ نہیں۔

یہ لیجئے میں نے جناب کی حکم کی تعمیل

کردی اور یہ خط عربی آمیز فارسی میں لکھ

دیا۔میری فارسی نثر کے تین مجموعے ہیں۔

پنج آہنگ، مہر نیمروز اور دستنبو۔ تعجب

ں کے پاس یہ نہیں کہ لکھنؤ میں بھی لوگو

207

مشہور کتابیں ہوں۔ اگر آپ کو فارسی

نگارشات پڑھنے کا شوق ہو تق یہ تحریریں

مہیا کیوں نہیں کر لیتے۔ میرا تو اب

کافوروکفن سے واسطہ پڑنے کا وقت ہے

پینسٹھ سال جیا اور پچاس سال سخن سرائی

کی۔ بہر صورت ہر آغاز کا ایک انجام ہوتا

ر ہر ماہ چار ہے۔ آپ کی طرف سے اودھ اخبا

بار آیا کرے گا اور میری طرف سے سال

میں دو بار )اس کے معاوضہ کی( ادائیگی

ہوگی۔ اگر آپ کو منظور ہے تو مجھے بھی

(۱۴۳منظور ہے۔ )

غالب کی انانیت اور شدید احساس کے بارے میں ڈاکٹر تحسین فراقی لکھتے ہیں۔

"انا کی اسی شدید احساس نے ان کی

مالل پیدا کردیا تھا۔ غالب شخصیت میں گہرا

خاندانی تفاخر اور شعور انا تو اتنا بڑھا ہوا

تھا کہ اگر وہ انگریزی جانتے تو ہمیشہ اپنے

میں لکھتے۔ CAPIALSنام کے تمام حروف

ناقدری زمانہ سے ان کی شدید واہمہ شکنی

ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ماضی کے بے

یدا اعتدالیوں نے ان کے یہاں ایسا کرب پ

کردیا جو جو ذات حق سے گہرے انسالک کا

دیباچہ بن جاتا ہے آسکر وائلڈ نے اپنی کتاب

Propoundis میں کس قدر درست کہا تھا It

si the sense of sorrow which

remarriesto dod یوں غالب کی ایک فغاں

نہیں فغانوں ایک سلسلہ خون میں دوبا اور

ے مظاہر ان نہایا ہوا نظر آتا ہے اور اس ک

کی اردو اور فارسی شاعری اور ان کی بعض

نثری تحریروں میں جابجا نظر آتے

(۱۴۴ہیں۔)

خطوط غالب خواہ فارسی زبان کے ہو یا اردو زبان کے ہو معمولی چیز یا معمولی کام کی

طرف اس نے اشارہ کیا ہوگا یا تفصیال گفتگو کی ہوگی ٹوپی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ

208

ریشمی لنگی ہے وہ تو یا پشاور میں ملتا ہے یا ملتان میں اس کے عالوہ لنگی یعنی پگڑی جو

کا ذکر کتنے خوب صورت انداز میں کرتے ہیں کہ لنگی سر پر رکھنے کے لیے ہوتی ہے نہ

کہ کاندھے پر رکھی جائے اس ذکر اپنے ایک خط میں اس انداز سے کرتے ہیں۔

فارسی:

است دولت موعود دسمبر ۲۶امروز سہ شنبہ

یعنی طیلسان بسن رسید و نامہ با آن نبود و

برید ڈاک نیز از من چیزے درخواست چون

نگاشتہ روئے عنواش نگرستم پوسٹپڈ بود۔

باری ازاں روکہ کہ میدانستم درین کیہ چسیت

انعامے بہ آورندہ دادم و آنراکشودم وردادیدم

وردادیدم و از خود رفتم و بر خود بالیدم و

مان دم آن ہر دوپارہ ربہم پیوند دادم و ہ

برسربستم۔ آشکار باد کہ من لنگ از بہر آن

خواہم کہ بسر پتم و مقیم خرامم چون چھلویان

بردوش نعی فگنم۔ بارے جواب نامہ موالنا و

سپاس عطیہانشا کردم و این نامہ کہ بنام نا

مئی شماست، ہم درنور داین ورق پیچدم و بہ

داشتم"۔ حضرت محدوم روان

اردو ترجمہ:

تاریخ ہے ۲۶آج منگل کا دن اور دسمبر کی

دولت موعود یعنی لنگی مجھے ملی۔ )لیکن(

اس کے ساتھ خط کوئی نہیں تھا۔ ڈاکیہ نے

بھی مجھے سے کچھ طلب نہیں کیا۔ عنوان پر

( لکھا ہوا Post paidنظر ڈالی تو اس پر )

تھا۔ اب چونکہ مجھے معلوم تھا کہ اس کیسہ

ں کیا ہے النے والے کو انعام دے کر می

)پارسل( کھوال۔ چادر )لنگی( دیکھی اور

جھوم اٹھا اور پھوال سمایا اور اسی وقت

دونوں ٹکڑے جوڑ کر سر پر باندھی۔

واضح ہو کہ مجھے لنگی اس لیے چاہیئے کہ

سر پر باندھوں اور سر پر باندھ کر گھوموں

209

( پھروں۔ میں )عام( دہلویوں کی طرح )لنگی

کاندھے پر نہیں ڈالتا۔ بارے موالنا کا جواب

اور اس تحفہ کا شکریہ لکھا اور اس خط کو

کہ جو تمھارے نام ہے اس کے ساتھ منسلک

کرکے موالنا )سید رجب علی( کی خدمت میں

(۱۴۵روانہ کردیا۔" )

مرزا غالب کی خطوط کی یہ خصوصیت ہے کہ بات اشاوروں کنایوں میں گفتگو نہیں کرتے

کہ صاف الفاظ میں کہ دیتے تھے کہ فالں شخص میں یہ خوبی ہے اور یہ خامی یہاں تک بل

کہ سر پر لنگی کی بات بھی واضح الفاظ میں کہ دی اور غالب کا ایک ایک خط پورے

فالسفے سے بھرا ہوا ہے عقل و دانش کی بات ہو یا تہذیب کی تعریف یا برم سخن سرائی ہو یا

اور اس کے ساتھ قرابت داری کی بات کرنی ہو وہ کوئی مرزا غالب اپنا جنشین منتخب کرنا

سے سیکھے غالب ایک خط میں یوں لکھتے ہیں غالب نے یہ سلطان زادہ بشیرالدین میسور

کے نام لکھتے ہیں۔

فارسی:

کہ اگر دانشوران داد سخن دہند، شہسواری

میدان سخن سلطان راست، تا غاشیہ بردوش

ود از دیر باز سر سخن کہ نہند! نامہ نگار خ

سنجی ندارد۔ نہ گہر در ترازوست و نہ زور

در بازو۔ شست و شش مرحلہ از مسیر عمر

سبکسیر پیمودہ آمد۔ پنجاہ سال ہنگام

مہرروزی و وعشقبازی بانکو محضران دہلی

گرم داشتہ آمد تا درین مدت چہ مایہ دوستان

یکدل فراہم آمدہ باشند۔ ناگاہ چرخ تیز گردان

د ہائے روحانی را بدانسان برید کہ خون پیون

از رگ جان فرو چیکد۔ ازان بے مہر عزیزان

کہ ہمہ رانیارم شمرد، درین تیز باران حوادث

و نا سزا کار زار نماند مگر خستہ چند۔ اینک

من و بہ داغ کشتگان نژند زیستن و بر حال

خستگان خود گریستن۔ خستہ دہرا دہرم و

ہر و از نقشہائے پیشین ماتمدار شہر و اہل ش

در نثر سہ ارتنگ است، پنچ آہنگ، مہر

نیمروز و دستنبو۔ دوتا روشناس نظرع آن واال

210

منظر شدہ۔ سمین نیز نشگفت کہ در آنجا رسیدہ

باشد و اگر نرسیدہ است پس از یافتن آگہی

میتوانم فرستاد۔

اردو ترجمہ:

"کہ اگر اہل دانش داد سخن دیں تو میدان سخن

شہسواری آپ ہی کا حق ہے اب دیکھنا یہ کی

ہے غاشیہ برادری )کی سعادت( کس کو

نصیب ہوتی ہے مکتوب نگار کو خود کافی

عرصے سے میالن سخن سنجی نہیں۔ نہ پلے

میں موتی ہیں اور نہ بازوں میں طاقت اس

عمر سبک رفتار کی سر گاہ کے چھیاسٹھ

مرحلے طے ہوچکے ہیں۔ پچاس سال نیک

لی کے عشق اور ان کی الفت پیشگی نہادان دہ

نے دل کو گرمائے رکھا اور اس مدت میں

کیسے کیسے دوستان با اخالق جمع نہ ہوئے

ہونگے۔ اچانک فلک تیز رفتار ان روحانی

رشتوں کو اس طرح کاٹ دیا کہ رگ جاں

سے خون ٹپک پڑا۔ ان بے مروت دوستوں

میں سے جن کا اب شمار بھی مشکل ہے اور

کی تیز بارش اور کارزار نا ہنجار اس حوادث

میں ساتھ چھوڑ گئے صرف چند شکسہ حال

باقی ہیں۔ اب میں ہوں کہ داغ رفتگال کو

)سینہ سے لگائے( ناشاد جی رہا ہوں اور

اپنے حستہ خانوں کے احوال پر آنسو بہا رہا

ہوں زمانے کی سنگین کا زخم خوردہ ہوں

یرے اور شہر واہالیان شہر شہر کا غزادار۔ م

آثار نثر میں صرف تین مجموعے ہیں۔ پنج

آہنگ، مہر نیمروز اور دستنبو ان میں سے دو

تو آپ کی نظر بلند منظر سے آشنا ہوچکے

ہیں۔ رہا تیسرا تو عجب نہیں کہ وہ بھی پہنچ

چکا ہو اور اگر نہیں پہنچا ہے تو یہ علم

(۱۴۶ہونے پر بھیجا جاسکتا ہے:۔ )

211

بارے میں یعنی جس انداز میں وہ لکھتے تھے یا لکھنے کا جو مرزا غالب اپنی تحریر کے

انداز تھا کچھ یوں تحریر کرتے ہیں۔

فارسی:

دستور من انست کہ بر کاغذ پارہ ہا مسودہ

کردہ آن مسودہ رابکتابے کہ فرستادہ شما

است صاف میکنم و از بہر شمانگہ میدارم۔

کاہل قلمم، رنجورم، بیدل و بیدماغم، دیر دیر

نویسم، اندک اندک می نویسم ، گاہ گاہ می

مینویسم۔ بہر رنگ آنچہ مینویسم از برای

شمادر کتاب شما ذخیرہ میکنم۔ بیائیدو بنگر

یدو برخورید۔

اردو ترجمہ:

"میرا طریقہ کار یہ ہے کہ علیحدہ علیحدہ

کاغذوں پر مسودہ تیار کرکے تمہاری بھیجی

ہوئی کتاب پر صاف کرتا ہوں اور تمہارے

یے محفوظ کرلیتا ہوں۔ سست قلم ہوں، بیمار ل

ہوں، بے حوصلہ و بے دماغ ہوں۔ دیر میں

لکھتا ہوں، تھوڑا تھوڑا لکھتا ہوں کبھی کبھی

لکھتا ہوں، بہر صورت جو بھی لکھتا ہوں

تمہارے لیے تمہاری کتاب میں جمع کرلیتا

(۱۴۷ہوں آؤ خود دیکھو اور لطف اٹھاؤ"۔ )

ہوتا ہے عموما دنیاوی سطح پر )بڑے لوگ( سے مراد لکھنے والے ہر آدمی کا ایک جانشین

یا دوسرے معامالت والے ایک نائب مقرر کرتا ہے کہ میرے بعد فالں میرا نائب یا جانشین

ہوگا غالب نے بھی اپنی جانشینی میں مرزا نواب والؤالدین خاں کو لیا تھا اس کے ساتھ عقل

کرتے ہے تو ان کو اپنی مسند پر بٹھانے کی بات دانش اور تہذب کے بارے میں جب گفتگو

بھی کرتے ہیں مرزا عالؤالدین کے نام لکھتے ہیں۔

فارسی:

گوہر خرد را بہ ترازوے سخن سنجیم و

نوائے سخن را بہنجار خرد تواند بود اگر

گفتار است وردانش است، ہمہ ایزدی فرہ و

212

آمیغی ارزانش است۔ با این ہمہ از دربایست

کار آموختن فرہنگ است از آموز ہائے این

گار و بہ پیروی راہ دان پیمودن را گفتار۔ اے

ندیم ہان بنگر برادر زادہ نامور روشندل

روشن گہر میرزا عالؤالدین خان بہادر بہ

فرتاب خرد خداداد راہ سخن بہ رہنمائی من

رفت و در پیرئی من برنائی خویش بہ

بزمستان سخن جائے من از من گرفت اینک

چنانکہ در خوویشاوندی و یگانگی مردم چشم

جہان بین من است برچا ربالش ہنر مندی و

فرزانگی جانشین من است۔

اردو ترجمہ:

"عقل کے موتی کو سخن کے ترازو میں

تولیں اور آہنگ سخن کو عقل کے سانچے

میں ڈھالیں۔ وہ زبان و بیان ہو یا حکمت و

ی دانش یہ لطف خداوندی اور آمیزہ کرم ا لہ

ہے ان سب باتوں کے باوجود اس علم کی

ضروریات کا معلم )حقیقی( اے سیکھنا اور

زبان و بیان کے راہ شناس کی پیروی میں یہ

راہ طے کرنا ہی تہذیب کہالتا ہے تو اے

دوست یہ دیکھو کہ میرے نامور، روشن دل

اور روشن گہر برادر زادہ مرزا عالؤالدین

خداداد کی خان بہادر کہ جنہوں نے عقل

روشنی میں میری رہنمائی میں راہ سخن طے

کی ہے )انہوں نے( میرے بڑھاپے اور بزم

سخن سرائی میں اپنی جوانی کے دوران مجھ

سے میری جگہ چین لی۔ چنانچہ جس طرح وہ

قرابت داری اور یگانگت میں میری جہاں ہیں

آنکھ کی پتلی ہے۔ ہنر مندی اور تدبیر کی

(۱۴۸شین بھی ہے"۔ )مسند پر میرا جان

موتی پروانی اور مسند نشینی کی بات اس خط میں کہی گئی ہے اس کے عالوہ غالب کچھ

عرصہ کیلئے گوشہ نشین بھی رہے اور دہلی سے دل برداشتہ بھی ہوئے تھے یعنی اس کا دل

213

دہلی والوں سے اور وہاں کے مکینوں سے بھر گیا تھا گوشہ نشینی کے دوران بھی غالب نے

پنے دوستوں کو جو خطوط لکھیں ہیں اس میں فقیری کی بات کی گئی ہے لیکن فقیر بھی ایسا ا

نہیں کہ بھیگ مانگیں۔ بلکہ ایک غیرت مند فقیر کہ طرح جو سوال کرتا ہےاس کے جواب کا

بھی طلب گار ہوتا ہے اور یہی حال غالب کا تھا اگر ایک انگریز کی مدح سرائی بھی کی ہے

سے بھی جواب ملے ہیں اور ایک بڑی شخصیت کی نشانی ہے کہ تعلق اور تو اس کی طرف

دوستی ایک طرف سے نہیں بلکہ دونوں اطراف سے ہیں اسی طرح کا ایک خط تفضل حسین

خیر آبادی کے نام لکھتے ہیں۔

فارسی:

زنہار زنہار ازیں نامہ آن ندانند کہ غالب کژ

اندیشہ گدائیست ابرام پیشہ، بلکہ این مشتمل

بر سوالیست کہ جواب آن میخواہم ہکذا اگر چہ

از خالئق کمترین و مردے گوشہ نشینم لیکن

مرانیز در فرقہ بے نوایان و زمرہ بے سرو

پایاں آبروئے دادہ اند۔ گدایم امااز گدایان بار

گاہ روشناس شاہم۔ اگر مدح اورنگ آرائے

دھلی گہر سفتہ ام منشور رافتی بمن دادہ است

رنر جنرل راستودہ ام خوشنودی نامہ و اگر گو

ہا بمن فرستادہ۔

اردو ترجمہ:

"اس خط سے ہرگز یہ خیال نہ کیجئے گا کہ

کج فکر ایک فقیر ہے اور حجت کرنے کا

عادی، بلکہ یہ خط ایک سوال پر مبنی ہے

جس کا مجھے جواب چاہیئے چنانچہ باوجود

اس کے کہ میں کمترین مخلوق میں ہوں اور

نشین شخص ہوں لیکن بے نواؤں ایک گوشہ

کے فرقے میں اور ناداروں کے زمرے میں

میری بھی)کچھ( آبرو ہے میں فقیر ضرور

ہوں لیکن فقیر بارگاہ اور روشناس بادشاہ۔

اگر میں تحت نشین دہلی کی مدح میں موتی

پروئے ہیں تو اس نے ) بھی میری سخن

پروری کو سراہتے ہوئے( اپنی شفقت کا

ے دیا ہے اور اگر گورنر جنرل منشور مجھ

214

کا قصیدہ کہا ہے تو اس نے خوشنودی کے

(۱۴۹خط مجھے بھیجے ہیں"۔ )

اسی طرح اگر بزم سخن سرائی ہو یا فارسی شاعری کی وسعت اور گہرائی کی بات ہو یا

جہاں تک طرز و آہنگ، رنگ اور نگارش ہو یا افکار و خیاالت کا تعلق ہو یہ تمام

کے شعراء اور نثر نگاروں میں موجود تھی غالب غالب بھی اسی دور خصوصیات ہندوستان

کے شخصیت ہیں غالب نے تمام برگزیدہ شخصیات سےفیض حاصل کیا لیکن ان تمام سے ہٹ

کر اپنا ایک الگ انداز اپنایا تمام شعراء اور نثر نگاروں کے انداز کو اپنے اندر جذب کیا لیکن

نے دیا اگر وہ ایسا کرتے تو پھر انکی شاعری اور نثر اپنے آپ کو کسی میں جذب نہیں ہو

ہندوستان کی نہیں بلکہ ایران کی شاعری اور نثر لگتی اس لیے ان تمام سے شے انہوں نے

اپنے لیے ایک الگ راستہ اپنایا غالب کی فارسی شاعری اور ذہنی ہم آہنگی کے بارے میں

غالب اور عہد عالب میں لکھتے ہیں۔

تشکیل میں سب سے اہم "غالب کی ذہنی

حصہ ان کے احساس انفرادات اور زوال پذیر

سماج کی بدلتی ہوئی قدروں کا ہے کیونکہ

غالب اپنے دور کی تمام تر تبدیلیوں کا اپنی

افتاد طبع اور اپنے خانگی و معاشی حاالت

سے گریز نہیں کرسکتے تھے اور فراریت

ذا ان حاالت و کے بھی قائل نہیں تھے۔ لہ

یات سے جو اثرات مرتب ہوئے ان کو کیف

نچوڑ کر اپنے شعر و سخن کے جام میں

انڈیل لیا ان کے اس جام کا ہر گھونٹ رنگا

رنگ کیفیتوں کا ایک جہاں اپنے اندر لیے

(۱۵۰ہوئے ہے"۔)

دیکھا جائے تو غالب کے اوپر یہ بات بالکل پورے طور پر سچ ثابت ہوتی ہے۔ اور اس کے

ہے۔ کیونکہ مرزا غالب کا زمانہ ہر قسم کے تصادم اور کشمکش سے لیے تاریخ بھی گواہ

بھرا ہوا تھا اور غالب جیسے مفکر، باشعور اور حساس طبع انسان بھی اسی زمانے میں اپنی

موتیاں بھکر رہے تھے اور ویسے بھی شاعر حساس دل والے ہوتے ہیں۔ عموما یہ دیکھا گیا

ھی دل پر لے لیتے ہیں ایک جگہ ان پسند آگیا اگر ہے کہ حضرات معمولی سے معمولی بات ب

اب وہاں سے ان کو جانے کے لیے کہا جائے تو وہ بہت رنجیدہ ہو جاتے ہیں یہ حال غالب کا

بھی تھا۔ کہ کہ کلکتے سے رنجیدگی کی بات ہو اور دہلی والوں کے بارے میں ان کی رائے

ں۔کیا تھا یہ خود غالب اپنی ایک خط میں یوں لکھتے ہی

فارسی:

215

درنامہ کہ حکیم صادق علی خان بہ من

رسانیدہ اند، انقطاع عالقہ ہو گلی و عزم

انقطاع عالقہ جہانگیر نگر و مالل از کلکتہ و

احرام دارالخالفت دہلی مرقوم بود۔ ہر چند

ورود مالزماں بہ دہلی سرمایہ جہاں جہاں

طرب ست، اما ملول بودن از کلکتہ چہ غضب

لی شایستگی آں ندارد کہ آزادہ است، وہللا دہ

در وے خاک نشیں تواند بود۔ خاص و عام ایں

بقعہ بے سبب آزار و مردو زن ایں تیرہ بوم

مردہ خوار۔ بہ خاطر دارم کہ ثوں ایں داوری

بہ پایاں رسد، بہ بہانہ ازیں بر آیم و کلکتہ را

دریابم۔

اردو ترجمہ:

"اس خط میں کہ حکیم صادق علی خان نے

پہنچایا ہے عالقہ ہوگلی کے قطع مجھے

ہونے اور جہاں گیر نگر کے عالقہ کی

علیحدگی کا ارادہ اور کلکتے سے رنجیدگی

کے ساتھ دارالخالفہ دہلی کا عزم روانگی

تحریر تھا، ہر چند جناب کے مالزموں کا

دہلی آنا کائنات کی خوشیوں کی دولت ہے

لیکن کلکتے سے رنجیدگی بھی تو ایک قہر

م نہیں بخدا ، دہلی میں وہ توانائی نہیں سے ک

کہ کوئی آزادہ منش یہاں خاک نشین بن جائے

اس آبادی کے لوگ بغیر سبب کے لوگوں کو

تکلیف دینے والے ہیں اور اس ناہنجار سر

زمین کئ مردوزن مردوں کے کھانے والے

ہیں نیت یہ ہے کہ ج مقدمہ ختم ہوجائے تو

ر کھڑا کسی بہانے سے اس شہر سے نکل ک

(۱۵۱ہوں اور کلکتہ پہنچ جاؤں"۔)

اور فنی کالسیکی اعتبار سے مکاتیب غالب تخلیق کا پہال اور نادر نمونہ ہیں مرزا غالب نے

مکتوب نگاری سے فن کو ہماری زبان میں اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ اگر اس بنا پر

عنی فنی خصوصیات میں غالب کو ترقی پسند کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اس کے ساتھ ساتھ ی

216

سے بعض خصوصیات کالسیکی ادب یعنی فارسی مکاتیب میں بھی موجود تھیں اور یہی

خیال کیا جاسکتا ہے کہ غالب نے ان سے استفادہ کیا ہوگا اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب

پہلے شخص ہیں۔ جنہوں اس طرز خاص کو فارسی اور اردو میں سب سے پہلے اپنایا خواہ

بار سے یا کوئی اور حوالہ ہو غالب نے ان تمام خصوصیات کو خطوط میں سمویا کہ فنی اعت

دوسرے حضرات یا لکھنے والے وہ نہ کر سکے یعنی غالب کے ذاتی حاالت ہو غالب کی

سوانح کے تمام تر ماخذ مکاتیب غالب ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خطوط غالب کی

لب کی ترتیب ہی ناممکن ہوتی یا اگر ہوتی بھی تو اتنی مفصل غیر موجودگی میں شاید سانح غا

نہ ہوتی جتنی کہ آج موجود ہے۔ مکاتیب غالب میں غالب کے ذاتی حاالت کی تفصیل اپنی

پوری جزئیات کے ساتھ بکھری پڑی ہے۔ جن میں پیدائش سے لیکر وفات کے حاالت کا ذکر

کی گئی اپنے والد، چچا، دادا اور نانا کے موجود ہیں۔ پیدائش نام و نسب اور خاندان تک بات

متعلق متعدد خطوط میں ذکر کیا گیا ہے، اور خاندانی واجاہت، فوجی اعزازت اور بلندی

درجات کا اظہار بھی کیا ہے۔بھائی کے وفات اور ان کے بچوں اور بیوی کا ذکر ہو یا ان کی

خانگی زندگی ہو یا وظائف اور کفالت کا بوجھ ہو تک کا ذکر موجود ہے، غالب کی شادی اور

پنشن اور سفر وغیرہ یا مماربازی کے مقدمے ہو اور مقدمے کے دوران دوستوں اور

عزیزوں کے بے مروتی ہو یا مقدمے کے اخراجات ہو یا رہائی ہو تفصیال ذکر کیا گیا ہے

بات ہو یعنی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس کا ذکر غالب نے نہ کی ہو بڑی سے بڑی

یا چھوٹی سے چھوٹی بات اور کام ہو غالب نے پوری ایمانداری سے اپنے خطوط میں ان کا

ذکر ضرور کیا ہے۔ خواہ یہ ذکر فارسی خطوط میں ہو یا اردو خطوط میں ہو خالق کائنات کی

وحدانیت سے لیکر حضور کی ذات تک ہو اور اس کے بعد خلفائے راشدین اور اہل بیت کی

دنیاوی معامالت ہو ذکر ضرور آیا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ غالب اگر خط بات ہو یا

لکھتے تھے تو جواب کا بھی ضرور انتظار کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ دوست ان کو ان

کے خط کا جواب ضرور دیں یعنی بقول شیفتہ

دونوں طرف سے آگ برابر لگی ہوئی ہے اسی کا نام محبت ہے شیفتہ

217

جاتحوالہ

طبع پنجم مارچ "تاریخ ادب اردو جلد اول" مجلس ترقی اردو ادب الہور جمیل جالبی ڈاکٹر ( ۱

۴۱۰ص ۲۰۰۵

۶۱ء ص ۲۰۰۰( خلیق انجم ڈاکٹر "غالب کے خطوط' جلد اول، نئی دلی، غالب انسٹی ٹیوٹ ۲

۱۰۴ء ص ۲۰۰۰( خلیق انجم ڈاکٹر 'غالب کے خطوط، جلد اول، نئی دلی، غالب انسٹی ٹیوٹ ۳

( الطاف حسین حالی "یادگار غالب، خزینہ علم و ادب الکریم مارکیٹ اردو بازار الہور سال ۴

۱۷۴ء ص ۲۰۰۲اشاعت

( عبادت بریلوی ڈاکٹر 'انتخاب خطوط غالب' اردو اکیڈمی سندھ کراچی سن اشاعت اکتوبر ۵

۲۸ء ص ۱۹۹۷

اچی سن اشاعت اکتوبر ( عبادت بریلوی ڈاکٹر"انتخاب خطوط غالب "اردو اکیڈمی سندھ کر۶

۲۸، ۲۹ء ص ۱۹۹۷

( تحسین فراقی ڈاکٹر "غالب کے اردو، فارسی مکاتیب کا ایک جائزہ، مثمولہ سورج الہور ۷

۱۲۳سورج پبلشنگ بیورو، ص

ء الہور ص ۱۹۸۲( محمد اکرام شیخ "حیات غالب" ادارہ ثقافت اسالمیہ بار دوم سال اشاعت ۸

۵۸

۴۲ء ص ۱۸۶۴( دہلی، مطبع اکمل المطابع، ۹

۸۰، ص ۱۹۳۸( دہلی مکتبہ جامعہ ۱۰

( سید وزیر الحسن عابدی، مرتب دیباچہ 'پنچ آہنگ" از مرزا اسدہللا خان غالب، الہور ۱۱

۴، ص ۱۹۶۹مجلس یادگار غالب

( خیابان غالب نمبر "شعبہ اردو پشاور یونیورسٹی" ترتیب محمد شمس الدین صدیقی سید ۱۲

۱۰۷ص ۱۹۶۹ فروری ۶بر مرتضی اختر جعفری شمارہ نم

218

، ص ۱۹۵۸( محمد اکرام شیخ حکم فرزانہ' ادارہ ثقافت اسالمیہ مکب روڈ الہور سن اشاعت ۱۳

۴۰

۱۰۰، ۹۹ص // // // // // // // // ( ۱۴

( خیابان غالب نمبر، شعبہ اردو پشاور یونیورسٹی، ترتیب محمد شمس الدین صدیقی سید ۱۵

ی اختر جعفری۔ شمارہ نمر ۱۰۸ص ۱۹۶۹فروری (۶) مرتض

۵۶( محمد اکرام شیخ ڈکٹر، "حکیم فرزانہ" الہور، ادارہ ثقافت اسالمیہ ص ۱۶

۱۷) // // // //

۵۷ص // // // // (۱۸

۵۷ص // // // // ( ۱۹

۹۲ص ء۱۹۶۱ ( "نگار" ایڈیٹر نیاز فتح پوری سال اشاعت فروری ۲۰

۹۲ص // // // // ( ۲۱

۔۲۵۳ء ص ۱۸۶۸نثر غالب" مطبع نولکشور، لکھنؤ جنوری ( :کلیات ۲۲

( نذیر احمد پروفیسر "غالب کی مکتوب نگاری" غالب انسٹی ٹیوٹ ایوان غالب مارگ نئی ۲۳

۔۲۲۶ء ص ۲۰۰۳سن اشاعت ۲دہلی۔

( مالک رام "غالب کی فارسی تصانیف" مثمولہ سورج الہور سورج پبلشنگ بیورو ص ۲۴

۔۷۸۱

۱۷۹ص ۱۹۷۵غالب" الہور مکتبہ شعر و ادب ( مالک رام، ذکر۲۵

۔۱۹۶۰( مالک رام، نگار ، لکھنؤ جوالئی ۲۶

( حامد حسین قادری موالنا، غالب کی اردو نثر اور دوسرے مضامین" کراچی ادارہ یادگار ۲۷

۔۲۷غالب ص

۔۵۳، ص ۱۹۶۱( خلیق انجم ڈاکٹر "غالب کی نادر تحریریں " دہلی ۲۸

ء ص ۱۹۶۲ط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ( غالم رسول مہر "خطو۲۹

۔۴۹۸

۔۱۲۳مہر نیمروز صفحہ ۔۱۸۷۵، ۱۹۷۱( مطبع نو لکشور لکھنؤ "کلیات نثر غالب" ۳۰

219

( شکیل تپاقی ڈاکٹر "پاکستان میں غالب شناسی" غزنی سٹریٹ اردو بازار الہور سن ۳۱

۔۲۰۹ء ص ۲۰۱۴اشاعت

ن سید ڈاکٹر ۳۲ ۔۴۵غالب اور انقالب ساؤن کراچی ادارہ یادگار غالب ص (معین الرحم

ء ، ۱۹۶۲( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۳۳

۳۶۴ص

۴۷۷// ص // // ( ۳۴

۱۶۱ص // // // (۳۵

۵۹۲ص // // // ( ۳۶

۴۷۷ص // // // (۳۷

۲۴۵ص // // // ( ۳۸

ن سید ڈاکٹ۳۹ ر "غالب کا علمی سرمایہ" الوقار پبلی کیشنز سال اشاعت ( معین الرحم

۔۳۰۱ء ص ۲۰۱۳

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۴۰

۔۲۲۱

( خلیق انجم "غالب کے خطوط" جلد دوم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سنہ اشاعت ۴۱

۵۸۴ص ء ۲۰۰۶

۵۹۰ص // // // ( ۴۲

۴۹۵ص // // // ( ۴۳

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۴۴

۔۴۹۳

۔۱۹۶ص // // // ( ۴۵

۔۴۴۹، ۴۴۸ص // // // ( ۴۶

۷۳ص // // // ( ۴۷

۔۶۴ص // // // ( ۴۸

۶۵۹ص // // // (۴۹

220

ء ص ۱۹۶۲الہور بار سوم ( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز ۵۰

۵۴۵

۔۵۰۵ص // // // ( ۵۱

۔۲۱۱ص // // // ( ۵۲

۔۵۸۰ص // // // ( ۵۳

( خلیق انجم "غالب کے خطوط" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دلی جلد سوم سنہ اشاعت ۵۴

۔۱۰۹۴ء ص ۱۹۸۷

۱۱۰۰ص // // // ( ۵۵

۲۵۲ص // // // ( ۵۶

۔۲۶۰" الہور۔ ادارہ ثقافت گپنت روڈ ص ( حامد حسین قادری "داستان تاریخ اردو۵۷

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۵۸

۔۱۳۸

۱۳۸ص // // // (۵۹

۔۱۶۵ص // // // ( ۶۰

۔۱۳۸ص // // // ( ۶۱

۔۳۷۰ص // // // ( ۶۲

۔۳۷۰ص // // // ( ۶۳

انسٹی ٹیوٹ ، نئی دلی جلد چہارم سنہ اشاعت ( خلیق انجم "غالب کے خطوط" غالب ۶۴

۔۱۵۱۸ء ص ۱۹۹۳

۸۴۱ص ۲۰۰۶( خلیق انجم جلد دوم سن اشاعت ۶۵

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر خطوط غالب شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۶۶

۱۵۱

ء ۱۹۸۷( خلیق انجم غالب کے خطوط غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی جلد سوم سن اشاعت ۶۷

۱۰۰۵ص

۱۰۰۲ص // // // ( ۶۸

221

۷۴۲ء ص ۲۰۰۶جلد سوم سنہ اشاعت // // // ( ۶۹

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر ،خطوط غالب شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۷۰

۱۰۷

ء ص ۱۹۹۳( خلیق انجم،غالب کے خطوط ، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی جلد چہارم ۷۱

۱۴۳۹

ء ص ۱۹۶۲یخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ( غآلم رسول مہر، خطوط غالب ش۷۲

۴۸۳

ء ص ۱۹۸۷( خلیق انجم، غالب کے خطوط غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی جلد سوم ۷۳

۱۰۰۰

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر، خطوط غالب شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۷۴

۶۱

۳۷۰ص // // // // ( ۷۵

انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی جلد سوم سنہ اشاعت ( خلیق انجم، غالب کے خطوط، غالب۷۶

۹۹۰ء ص ۱۹۸۷

۳( نذیر احمد پروفیسر، نقد قاطع برہان دہلی ، غالب انسٹی ٹیوٹ ص ۷۷

۲۸( عبدالودود قاضی مرتبہ ماثر غالب کراچی ادارہ یادگار غالب ص ۷۸

ء ۲۰۰( خلیق انجم غالب کے خطوط جلد اول غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سنہ اشاعت ۷۹

۱۱۰ص

( الطاف حسین حالی "یادگار غالب" خزینہ علم و ادب الکریم مارکیٹ سال اشاعت ۸۰

ء اردو بازار الہور ص ۲۰۰۲

۔ ۱۹۳، ۱۹۴ص // // // ( ۸۱

۳۴۷ص (الطاف حسین حالی ، یادگار غالب غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دلی سن ندارد۸۲

غالب" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سن ( شاہد ماہلی رضا حیدر ڈاکٹر، "غالب اور عہد ۸۳

۔۲۱۹ء ص ۲۰۰۱اشاعت

( الطاف حسین حالی "یادگار غالب" خذینہ علم و ادب الکریم مارکیٹ اردو بازار الہور سن ۸۴

۳۴۷ء ص ۲۰۰۲اشاعت

222

( شاہد ماہلی، ڈاکٹر رضا حیدر "غالب اور عہد غالب" نئی نسل کی نظر میں، غالب انسٹی ۸۵

۔۲۲۳ء ص ۲۰۰۱ل اشاعت ٹیوٹ، نئی دہلی سا

( خلیق انجم ڈاکٹر "غالب کے خطوط" جلد سوم، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی سن اشاعت ۸۶

۔۱۲۳۴ء ص ۱۹۸۷

( پرتو روہیلہ "مترجم و مرتب "کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم ۸۷

۔۸۱ء ص ۲۰۰۸آباد سن اشاعت

۔ ۲۸۷، ۲۸۶و ارد ۷۱۷ص فارسی // // // // ( ۸۸

( پرتو روہیلہ مترجم و مرتب ، غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ" بزم علم و فن ۸۹

۔۶۴اردو ۱۵۷ء ص فارسی ۲۰۰۰پاکستان انٹرنیشنل، اسالم آباد ،

ء ص ۲۰۰۲( الطاف حسین حالی "یادگار غالب" خذینہ علم و ادب الہور سن اشاعت ۹۰

۔۷۴

۳طع برہان غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی ص ( نذیر احمد پرفیسر نقد قا۹۱

۲۸( عبدالودود قاضی ماثر غالب کراچی ادارہ یادگار غالب ص ۹۲

ء ص ۲۰۰۰( خلیق انجم غالب کے خطوط جلد اول غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی سن اشاعت ۹۳

۱۱۰

( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ" بزم علم و فن ۹۴

۔۵۳اردو ۱۴۷ء ص فارسی ۲۰۰انٹرنیشنل ، اسالم آباد پاکستان

۵۳اردو ۱۴۷ص فارسی // // // ( ۹۵

۔۲۵اردو ۱۲۳ص فارسی // // // ( ۹۶

۔۶۶اردو ۱۵۹ص فارسی // // // ( ۹۷

( پرتو روہیلہ مترجم و مرتب "کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم ۹۸

۔۳۱۶اردو ۷۴۸ی ص فارس ۲۰۰۸سن اشاعت

۔۳۱۷اردو ۷۴۹ص فارسی // // // ( ۹۹

۔۳۱۸اردو ۷۵۰ص فارسی // // // ( ۱۰۰

۔۳۱۹اردو ۷۵۰ص فارسی // // // ( ۱۰۱

۔۱۹۶اردو ۶۲۶ص فارسی // // // ( ۱۰۲

223

۔۱۶۵اردو ۵۹۴ص فارسی // // // ( ۱۰۳

۶۷اردو ۴۴۸ص فارسی // // // ( ۱۰۴

۱۹۱اردو ۶۲۰فارسی ص // // // ( ۱۰۵

( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ" بزم علم و فن ۱۰۶

۷۷اردو ۱۶۸ء ص فارسی ۲۰۰پاکستان انٹرنیشنل، اسالم آباد

۔۹۲اردو ۱۸۳// ص فارسی // // ( ۱۰۷

ر سن اشاعت سرائے بیت الحکمت الہو ( ایوب صابر ڈاکٹر "انتخاب خطوط غالب" کتاب ۱۰۸

۔۱۹ء ص ۲۰۱۳

غالم رسول مہر خطوط غالب بار سوم شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور سن اشاعت ( ۱۰۹

۔۲۸۵ء ص ۱۹۶۲

پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ" بزم علم و فن (۱۱۰

۳۹اردو ۱۳۶ء ص فارسی ۲۰۰۰پاکستان انٹرنیشنل، اسالم آباد

۴۲اردو ۱۳۹ص فارسی // // // ( ۱۱۱

۱۰۹اردو ۱۹7ص فاسی // // // ( ۱۱۲

( پرتو روہیلہ "کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم آباد سن اشاعت ۱۱۳

۱۰۱اردو ۵۲۴، ۵۲۳ء ص فارسی ۲۰۰۸

۱۳۷اردو ۵۶۲ص فارسی // // // ( ۱۱۳

م علی اینڈ سنز الہور سن اشاعت ( غالم رسول مہر "خطوط غالب بار سوم شیخ غال۱۱۴

۲۳۵، ۲۳۴ء ص ۱۹۶۲

( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ" بزم علم و فن ۱۱۵

۷۱اردو ۱۶۳ء ص فارسی ۲۰۰۰پاکستان انٹرنیشنل ، اسالم آباد

۷۱اردو ۱۶۳ص فارسی // // // ( ۱۱۶

۷۲اردو ۱۶۴ص فارسی // // // ( ۱۱۷

( پرتو روہیلہ مترجم و مرتب "کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم ۱۱۸

۲۵۸اردو ۶۸۶ء ص فارسی ۲۰۰۸آباد سن اشاعت

۲۵۶اردو ۶۸۵، ۶۸۴ص فارسی // // // ( ۱۱۹

224

۳۲۴اردو ۷۵۶// ص فارسی // // (۱۲۰

۳۲۵اردو ۷۵۷ص فارسی // // // ( ۱۲۱

مترجم "غالب کےب فارسی خطوط کااردو ترجمہ" بزم علم و فن ( پرتو روہیلہ مرتب و۱۲۲

۔۴۹اردو ۱۴۴ء ص فارسی ۲۰۰۰پاکستان انٹرنیشنل ، اسالم آباد

۔۸۵اردو ۱۷۶، ۱۷۵ص فارسی // // // ( ۱۲۳

( شاہد ماہلی، رضا حیدر ڈاکٹر مرتبین غالب اور عہد غالب "غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی ۱۲۴

۲۵۹ء دہلی ص ۲۰۰۱دہلی" سال اشاعت

( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ بزم و علم و فن ۱۲۵

۔۔۹۳اردو ۱۸۴، ۱۸۳ء ص فارسی ۲۰۰۰پاکستان انٹرنیشنل اسالم آباد

۹۵اردو ۱۸۵ص فارسی // // // ( ۱۲۶

۱۰۲اردو ۱۹۳// ص فارسی // // ( ۱۲۷

۷۵ اردو ۱۶۷ص فارسی // // ( //۱۲۸

( پرتوروہیلہ مترجم و مرتب "کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم ۱۲۹

۔۲۷۴اردو ۷۰۲ء ص فارسی ۲۰۰۸آباد سن اشاعت

۲۷۱اردو ۷۰۰، ۶۹۹ص فارسی // // // ( ۱۳۰

۲۷۲اردو ۷۰۱ص فارسی // // // ( ۱۳۱

اردو ترجمہ" بزم علم و فن ( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "غالب کے فارسی خطوط کا۱۳۲

۔۱۰۹اردو ۱۹۷ء ص فارسی ۲۰۰۰پاکستان انٹرنیشنل ، اسالم آباد

۱۰۸، ۱۰۷اردو ۲۰۱، ۲۰۰ص فارسی // // // ( ۱۳۳

۔۶۱اردو ۱۵۵، ۱۵۴// ص فارسی // // ( ۱۳۴

( پرتو روہیلہ مترجم و مرتب " کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم۱۳۵

۲۵۵اردو ۶۸۳ء ص فارسی ۲۰۰۸آباد سن اشاعت

۲۵۶اردو ۶۸۴// ص فارسی // // ( ۱۳۶

۱۹۸اردو ۶۲۵، ۶۲۴ص فارسی // // // ( ۱۳۷

225

( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ" داراالشاعت ۱۳۸

۶۳اردو ۱۵۶ء ص فارسی ۲۰۰۰بزم علم و فن پاکستان انٹرنیشنل سن اشاعت

( پرتو روہیلہ مترجم و مرتب "کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم ۱۳۹

۳۱۰اردو ۷۴۱، ۷۴۰ء ص فارسی ۲۰۰۸سن اشاعت

۳۱۰اردو ۷۴۱ص فارسی // // // ( ۱۴۰

۔۳۱۱اردو ۷۴۲، ۷۴۱ص فارسی // // // ( ۱۴۱

۳۳۲اردو ۷۶۳، ۷۶۲ص فارسی // // // ( ۱۴۲

۱۲۸اردو ۵۵۲ص فارسی // // // ( ۱۴۳

۳۲۴اردو ۷۵۲ص فارسی // // // ( ۱۴۴

این پونچھ روڈ -۷۹۳( تحسین فراقی ڈاکٹر "غالب فکر و فرہنگ" اردو اکیڈمی پاکستان ۱۴۵

۱۱۰، ۱۰۹سمن آباد الہور سن ندارد ص

نڈیشن اسالم ( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤ۱۴۶

۳۱۶اردو ۷۴۷ء ص فارسی ۲۰۰۸آباد سن اشاعت

۲۹۸اردو ۷۲۸فارسی ص // // // ( ۱۴۷

۳۱۳اردو ۷۴۴ص فارسی // // // ( ۱۴۸

۳۲۷اردو ۷۵۸ص فارسی // // // ( ۱۴۹

۳۳۱اردو ۷۶۲ص فارسی // // // ( ۱۵۰

نسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی سال ( شاہد ماہلی، رضا حیدر داکٹر "غالب اور عہد غالب" غالب ا۱۵۱

۱۳۲، ۱۳۱ء ص ۲۰۰۱اشاعت

( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم ۱۵۲

۳۵۴اردو ۷۸۷ء ص فارسی ۲۰۰۸آباد سن اشاعت

226

چوتھا: باب

خطوط غالب کا تاریخی ، ادبی

و موضوعی تجزیہ

227

خطوط غالب کا تاریخی تجزیہ

وہاں ان کی عث وقیع و قابل قدر ہیں۔اخطوط غالب جہاں اپنے دیگر اور محاسن و مطالب کے ب

۔ خطوط غالب کا مطالعہ کرنے والے سے یہ بات تاریخی حوالے سے بھی اہمیت مسلم ہے

پوشیدہ نہیں کہ خطوط غالب میں غالب نے اپنے دور کی پوری تاریخ مفصل پیش کی ہیں۔

معاشی ، ں ، درباری ماحول ہو۔ جنگ آزادی سے پہلے کےسی خالت ہوچاہے وہ سیا

ء کے بعد پیش آنے والے حاالت ہوں اور ان ۱۸۵۷معاشرتی اور سیاسی حاالت ہوں یا پھر

حاالت کا اہل ہندوستان اور حصوصا دہلی کے رہنے والوں کی اجتماعی و انفرادی زندگی پر

طوط غالب میں ملتی ہے۔ نیز غالب کا جو اثرات مرتب ہوئے ان سب حاالت کی تفصیل ہمیں ح

میں خط کی تاریخ بھی رقم کی ہے۔ اور اگر مذکورہ کمال یہ ہے کہ ہر خط کی ابتداء یا آخر

قعہ اباال دونوں صورتوں میں نہ ہو تو خط کے درمیان میں تاریخ لکھ دی ہے۔ جس قاری کو و

کبھی عیسوی تاریخ لکھتے کی اصل تاریخ تاریخ سے بھی وقفیت حاصل ہوجاتی ہے۔ غالب

ہیں تو کبھی ہجری اور کبھی دونوں۔

ن حاالت کا لیکر غالب کی وفات تک غالب نے ج جنگ آزادی کے بعد سے

اگر ان تمام بیانات کو توں بیان کردیا ہے۔ خطوط غالب سےمشاہدہ کیا انہیں جوں کا

ستان میں انگریزی ا اس سے "ہندوالگ کردیا جائے اور باقاعدہ ترتیب دیا جائے تو یقین

خیم کتاب مرتب دی جاسکتی ہے۔ جن کا ماخذ " یا کسی اور نام سے تاریخ کی ض اقتدار

خطوط غالب ہی ہوگا اس قسم کی مثالیں ہمیں غالب کے خطوط میں جگہ جگہ ملتی ہیں

کو میر مہدی مجروح کے نام لکھا ہے۔ ء 1859فروری 2وہ خط جو انہوں غا؛لب کا

دہلی( کے خاالت کا تفصیلی مرقع موجود ہے۔ جو اس زمانے کی اس میں ہندوستان )

ور پڑھنے واال ان حاالت کو پوری پوری تفصیالت کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ ا

لکھتے ہیں۔ کو مجروح مرزا غالب میر مہدیجزئیات کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔

" میرٹ سے آکر دیکھا کہ یہاں بڑی

روں شہرت ہے۔ اور یہ حالت ہے کہ گو

عت نہیں ہے۔ الہوری کی پاسبانی پر قنا

تھانیدار مونڈھابچھا کر دروازے کا

228

سڑک پر بیٹھا ہے۔ جو باہر سے گورے

کی آنکھ بجا کر آتا ہے۔ اس کو پکڑ کر

حواالت میں بھیج دیتا ہے۔ حاکم کے

پاس سے پانچ پانچ بید لگتے ہیں۔ یا دو

روپے جرمانہ لیا جاتا ہے۔ آٹھ دن قید

عالوہ سب تھانوں پر ے۔ اس سے ہ رہتا

حکم ہے کہ دریافت کرو۔ کون بے ٹکٹ

مقیم ہے۔ اور کون ٹکٹ رکھتا ہے۔

تھانوں میں نقشے مرتب ہونے لگے۔

یہاں کا جماعہ دار میرے پاس بھی آیا۔

و مجھے نقشے میں میں نے کہابھائی ت

ت کی عبارت الگ ییفنہ رکھ۔ میری ک

نشن لکھ۔ عبارت یہ کہ " اسدہللا خان پ

ء سے حکیم پٹیالے والے ۱۸۵۰دار

کے بھائی کےحویلی میں رہتا ہے۔ نہ

کالوں کے وقت میں کہیں گیا۔ نہ

گوروں کے زمانےمیں نکال ۔ اور نہ

بہادر کے نکاال گیا ۔ کرنل برن صاحب

کی اقامت کا مدازبانی حکم پر اس

رہے۔" اب تک کسی حاکم نے وہ حکم

نہیں بدال اب حاکم وقت کو اختیار ہے۔

پرسوں یہ عبارت جماعہ دار نے محلے

کے نقشے کےساتھ کو توائی میں بھیج

دی ہے۔ کل سے یہ حکم نکال ہے کہ یہ

ان و کان کیوں لوگ شہر سے باہر مک

بن چکے ہیں بناتے ہیں۔ جو مکار

229

ممانعت کا حکم انہیں ڈھا دو اور آئندہ کو

سنادو۔ اور یہ بھی مشہور ہے کہ پانچ

ہزار ٹکٹ چھاپے گئے ہیں۔جو مسلمان

شہر میں اقامت چاہئے ، بہ قدر مقدور

قرار دینا حاکم نذرانہ دے۔ اس کا اندازہ

۔ روپیہ دے اور ٹکٹ کی رائے پر ہے

لے گھر برباد ہوجائے اب شہر میں آباد

ہوجائے آج تک یہ صورت ہے،

شہر کے بسنے کی کونسی دیکھئے

ہے۔ جو رہتے وہ بھی اخراج مہورت

کئے جاتے ہیں یا جو باہر پڑے ہیں وہ

الملک ہلل شہر میں آتے ہیں۔

(۱) "والحکم ہلل

غالب کا بیان نہ تاریخ ہے۔ اور نہ اخبار کی خبر ، لیکن ان کی تخریر سے ہمیں ان کے عہد

گو کی طرح سب کچھ دلچسپ انداز میں بیان ہے وہ ایک داستان کے تمام حاالت کا علم ہوجاتا

چلے جاتے ہیں۔ میر مہدی مجروح لکھتے ہیں۔

"اب یہاں ٹکٹ چھاپے گئے ہیں۔ میں

بھی دیکھے۔ فارسی عبارت یہ ہے۔

"ٹکٹ آبادی درون شہر دلی بہ شرط

م کی مقدار روپےکی حاکجرمانہ ادخال

ج پانچ ہزار ٹکٹ چھپ رائے پر ہے۔ آ

یل ہے۔ تعط یوم چکا ہے۔ کل اتوار

یہ کاغذ پرسوں دو شبنے سے دیکھے

(۲) کیوں کر تقسیم ہوں"

230

ء سے پہلے کے حاالت و واقعات کا تقابلی موازنہ اس کے بعد پیش آنے 1857غالب نے

والے حاالت و واقعات سے کیا ہے۔ مغل حکومت میں ہندوستان )دہلی( کا جو نقشہ تھا اور بعد

گت بنی اسے بیان کیا ہے۔ موضوع غالب کے خطوط کا اہم کے ہندوستان کی جو حالت یا در

موضوع ہے۔ مجروح کو لکھتے ہیں۔

"کیا پوچھتے ہوں کیا لکھوں؟ دلی کی

پر تھی۔ ہستی منحصر کئی ہنگاموں

ہ بازار زقلعہ ، چاندنی چوک،ہر رو

فتے سیر جمنا کی مسجد جامع کا، ہر ہ

پل کی، ہر سال میلہ پول والوں کا یہ

تیں اب نہیں۔ پھر کہو دلی پانچوں با

کہاں؟ ہاں کوئی شہر قلمرو ہند میں اس

نام کا تھا۔نواب گورنرجنرل بہادر پندرہ

داخل ہوں گے دیکھئے ں دسمبر کو یہا

اترتے ہیں۔ اور کیونکر کہاں

دربارکرتے ہیں ۔ آگے کے درباروں

ن کا ساتھ جاگیر دار تھے۔ کہ ا میں

بہادر الگ الگ دربار ہوتا تھا۔ جھجر،

گڑھ، بلب گڑھ، فرح نگر، دو جانہ ،

پاٹودی، لوہارو ، چارمعدوم مخص۔ تین

جو باقی رہے اس میں سے دو جانہ و

لوہادو تخت ہانسی حصار پاٹودی

حاضر۔ اگر پانسی حصار کے صاحب

آئے کمشنر بہادر ان دونوں کو یہاں لے

تو تین رئیس ۔ ورنہ ایک رئیس بس۔

لوگ ، والے مہاجن رہے دربار عام

سب موجود ۔ ایل اسالم میں صرف تین

231

آدمی باقی ہیں۔ میرٹ میں

مصطف ےخان، سلطان جی میں مولوی

صدر الدین خان، بلی ماردوں میں سگ

دینا موسوم بہ اسد۔ تینوں مردودو

مطرود و مجروح و مغموم تم آتے ہو

چلے آؤ۔ جاں نثار خان کے چھتے کی

سڑک ، خان چند کے کوچے کی

جاؤ۔ بالقی بیگم کے سڑک دیکھ

کوچے کا ڈہنا، جامع مسجد کے گرد

ستر ستر گز گول میدان نکلنا سن جاؤ

غالبافسردہ دل کو دیکھ جاؤ، چلے

(۳) جاؤ"

دلی شہر کا حال یوں بیان کرتے ہیں۔ میں مجروح کے نام ایک اور خط

اب تمہاری دلی کی باتیں ہیں۔ "لو سنو

چوک میں بیگم کے باغ کے دروازے

منے حوض کے پاس جو کنواں کےسا

تھا اس میں سنگ وخشت و خاک ڈال

کر بند کردیا۔بلی ماروں کے دروازے

کے پاس کئی دکانیں ڈھا کر راستہ

چوڑا کرلیا۔ شہر کی آبادی کا حکم

خاص و عام کچھ نہیں پنشن داروں

سے حاکموں کا کام کچھ نہیں تاج

ل، مرزا ،قیصر، مرزا جواں بخت مح

لی بیگ جے پوری سالے والیت ع کے

آبادی سے کی زوجہ ان سب کی آلہ

232

رہائی ہوگئ بادشاہ، مرزا جواں بخت ،

مرزا عباس شاہ، زینت محل کلکتے

پہنچے اور وہاں سے جہاز پر چڑھائی

ہوگئ دیکھئے کیپ میں رہیں پالندن

(۴) جائیں"

ء کو لکھا ہے۔ وہ خط نہیں 1857دسمبر 5 خط جو منشی ہرگوپال تفتہ کے نام غالب کا وہ

گویا دلی شہر یا غالب کا ذاتی مرثیہ کہالیا جاسکتا ہے۔ یہ طویل مکالمہ غالب کے ذاتی دکھ کا

ء کے بعد کی دلی کی پوری تاریخ مکمل تصویر ہے۔ غالب کے احباب کا 1957مالل ہی نہیں

الی اور انتشارکی منہ وں کی زبوں حی بندوبست اور مسلمانت جرنیلھڑنا، الل قلعے کی کیفیبچ

بولتی تصویریں اس خط میں ہمارے سامنے قلمی صورت میں موجود ہیں تفتہ کو کس درجہ

رنج و مالل کے ساتھ لکھتے ہیں۔

"صاحب!

تم جانتے ہو کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ اور

کیا واقع ہوا۔ وہ ایک جنم تھا کہ جس

تم باہم دوست تھے۔ اور طرح میں ہم

معامالت مہر و کے ہم میں طرح

محبت درپیش آئے۔ شعر کہے دیوان

جمع کئے اسی زمانے میں ایک اور

بزرگ تھے۔ کہ وہ ہمارے تمہارے

دلی دوست تھے۔ اور منشی بنی بخش

م اور حقیر تخلص تھا۔ ناگاہ نہ اان کا ن

اشخاص، نہ وہ وہ زمانہ رہا نہ وہ

الط، نہ وہ انبساط، معامالت نہ وہ اخت

ہم کو چند مدت کے پھر دوسرا جنم بعد

س جنم کی مال۔ اگر چہ چہ صورت ا

233

ہے۔ یعنی ایک بغینہ مثل پہلے جنم کے

نی بخش صاحب نے منشی ب خط میں

کو بھیجا، اس کا جواب مجھ کو آیا۔

تم بھی موسوم اور ایک خط تمہارا کہ

بہ منشی ہرگوپال و متخلص بہ تفتہ ہو

آج آیا اور میں جس شہر میں ہوں

اس کانام بھی دلی اور اس کے محلے

ماروں کا محلہ ہے۔ لیکن کا نام بلی

دوست بھی اس جنم کے دوستوں ایک

میں نہیں پایا جاتا۔ وہللا ڈھونڈھنے کو

ملتا۔ کیا مسلمان ، اس شہر میں نہیں

امیر، کیا غریب، کیا اہل حرفہ، اگر

کچھ ہیں تو باہر کے ہیں۔ ہنود البتہ

کہ اب پوچھوگئے ہیں۔ہو کچھ کچھ آباد

تو کیوں مسکن قدیم میں بیٹھا رہا۔

محمد حسن صاحب بندہ! میں حکیم

مکان میں نو دس حان مرخوم کے

تا ہوں ۔ اور برس سے کرائے تو رہ

یہاں قریب کیا بلکہ دیوار بہ دیوار ہیں

ں کے اور وہ نوکر ہیں گھر حکیمو

والی پٹیالہ کے راجا نرندر سنگھ بہادر

بان عالی شان سے عہد راجا نے صاح

کہ بروقت غارت دہلی یہ لوگ لیا تھا۔

بچ رہیں۔ چنانچہ بعد فتح راجا کے

سپاہی یہاں آبیٹھے اور

234

یہ کوچا محفوظ رہا ورنہ میں کہاں

امیر اور یہ شہر کہاں؟ مبالغہ نہ جاننا

گئےجو رہ گئے تھے غریب سب نکل

وہ بھی نکالے گئے۔ جاگیردار ، پنشن

کوئی بھی اہل حرفہ دار، دولت مند،

واب لکھتے ہوئے مفصل جنہیں ہے۔

ڈرتا ہوں مالزمان قلعہ پرشدت ہے۔

اور باز پرس اور دارو گیر میں مبتال

ہیں۔ مگر وہ نوکر جو اس ہنگام میں

ے میں ہنگام نوکر ہوئے ہیں اور

شریک رہے ہیں۔ میں غریب شاعر

دس دس برس سے تاریخ لکھنے

ا لق ہوکی اصالح دینے پر متعشعراور

واہی اس کو نوکری سمجھو، ہوں۔ خ

اس فتنہ و آشوب خوا ہی مزدوری جانو۔

، میں نے دخل ت میںمیں کسی مصلح

ر کی خدمت بجا نہیں دیا، صرف اشعا

التا رہا۔ اور نظر اپنی بے گناہی پر

ے نکل نہیں گیا۔ میرا شہر میں شہر س

کو معلوم ہیں۔ مگر چونکہ حکامہونا

دفتر میں سے یا تیری طرف بادشاہی

مخبروں کے بیان سے

ذا طلبی کوئی بات پائی نہیں گئی۔ لہ

یں ہوئی۔ ورنہ جہاں بڑے بڑے نہ

ہوئے، یا پکڑے جاگیر دار بالئے

235

ہوئے آئے ہیں میری کہاں حقیقت تھی۔

عرض کہ اپنے مکان میں بیٹھا

ہوں۔ دروازے سے باہر نکل نہیں

سکتا ۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بڑی

میرے پاس آوے، بات ہے۔ رہا یہ کوئی

شہر میں ہے کون جو آوے؟ گھر کے

گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم

سیاست پاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست یا

زد ہم مئی سے آج تک، یعنی شہ پنجم

بہ دستور ہے۔ تک ء۱۸۵۷دسمبر

کچھ نیک و بد کا حال مجھ کو نہیں

طرف معلوم۔ بلکہ ہنوز ایسے امور کی

ام کو توجہ بھی نہیں دیکھئے انجام حک

کار کیا ہوتا ہے۔ یہاں باہر سے

اندرکوئی بغیر ٹکٹ کے آنے جانے

نہ کرنا۔ نہیں پاتا۔ تم زنہار یہاں کا ارداہ

دیکھنا چاہئے۔ مسلمانوں کی ابھی

(۵) تا ہے یا نہیں"وآبادی کا حکم ہ

یہاں یہ بات بھی توجہ کی قابل ہے کہ غالب کی دنیا بہت وسیع ہے اگر صرف ان انگریز

ن سے پنشن جعہدیداروں کے حاالت کا جائزہ لیا جائے۔ جن سے غالب کے تعلقات تھے یا

کے سلسلے میں غالب نے رابطہ قائم کیا تھا۔ تو انیسویں صدی کے نصف اول کے ہندوستان

اریخ کا بہت بڑا حصہ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ اگر ان فارسی میں برطانوی حکومت کی ت

شاعروں اور نعت نویسوں کا تذکرہ مرتب کیا جائے جن کا ذکر غالب کے خطوط میں آیا ہے

تو فارسی ادب کی ایک ایسی تاریخ مرتب ہوجائے گی جس میں فارسی کے اہم ترین ایرانی

ایک اور ہندوستانی شعراء کا ذکر ہوگا اسی طرح اردو شاعروں اور ادیبوں کا بھی نسبتا

236

بو" اور ب کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم صرف "دستنپر مرت طوط کی بنیاد محتصر سا تذکرہ ان خ

ء کی بغاوت کا مطالعہ کریں تو اس سے متعلق 1857کے حوالے سے طغالب کے خطو

ماجی ، تہذیبی شخصیتیں نظر میں آجاتی ہیں۔ اس لئے غالب عہد کی سبیشتر اہم واقعات اور

ہیں۔طوط غالب اہم ترین ماخذکے لئے بھی خاور سیاسی تاریخ اور زندگی کے مطالعے

رام پور، بیکا نیر، الور پھرت پور، قیروز پور، غالب کے عہد کی بعض ریاستوں مثال

لوہارو، حیدر آباد، اودھ، جے پور، باندہ، پانی پت، وغیرہ کے حاالت پر بھی غالب کے

ھ نہ کچھ روشنی پڑتی ہے۔غالب کے ہاتھ کے لکھے ہوئے جو خطوط دستیاب خطوط سے کچ

خط میں تاریخ ضرور لکھتے تھے۔ ممکن ہے ان سے اندازہ ہوتا ہے۔ کہ غالب ہرہوئے ہیں۔

یہ اس مراسلت کا اثر ہو جو پنشن کے سلسلے میں غالب اور برطانوی حکومت کے درمیان

آسان ہوتا ہے۔ اور وہ لئے ےخ جاننا قاری کاقعے کی اصل تاریتھی۔ جس سے کسی بھی و

واقعے کو اس کے تاریخی پس منظر اور تناظر میں جانچ اور پرکھ سکتا ہے۔ بعض خطوط وہ

بھی ہیں جن پر تاریخ تحریر موجود نہیں ان خطوں میں غالب نے جو واقعات قلمبند کئے ہیں

میں خلیق انجم ا ہے۔ اس سلسلے ان واقعات کی مدد سے بھی تاریخ تحریر کا یقین کیا جا سکت

کی رائے قابل ذکر ہے۔

ہونے لگے تو تاریخ تحریر کو غیر ضروری سمجھکے خطوط شائع " جب غالب

ف کو حذ ف کردیا گیا۔ "عود ہندی" میں کافی خطوط کی تاریخ تحریرکرحذ

کردیا گیا ہے۔ اس کے برعکس " اردو معلی " بیشتر خطوط پر تاریخ تحریر

موجود ہے۔ ایسے خطوط کی بہت بڑی تعداد ہے جن پر تاریخ تحریر نہیں

ہے۔ ان خطوں میں غالب نے جو واقعات بیان کئے ہیں۔ ان کی مدد سے

اور ہر تاریخ تحریر کیین کیا ہے۔بیشتر خطوں کی تاریخ تحریر کا تع میں نے

ر مجھ سے پیش کئے ہیں۔ تاکہ اگ ل ین کیلئے حاشیے میں اپنے مکمل دالئتع

تو مستقبل کا محقق اسے درست کرسکے۔ جن خطوط کے متن سےغلطی ہو

237

ن کیلئے میں نے قیاس اور اندازہ سے کاما ریخ تحریر کا تعین نہیں ہوسکا۔تا

تحریر ہی کے رہنے دیا۔ تاکہ خطوط غالب کا نقاد نہیں لیا۔ بلکہ انھیں بغیر تاریخ

(۶) ہوں۔"اور سوانح نگار غلط فہمی کا شکار نہ

238

خطوط غالب کا ادبی جائزہ

بیان کی خوبیاں! و زبان

دیباچے میں میر مہدی مجروح اس الب کا تیسرا دیباچہ ہے کہاردوئے معلی جو خطوط غ

لکھتے ہیں۔

"حضرت )غالب( کا یہ جو سخن ہے وہ در عدن جو بات ہے ذرہ معنی کرامات ہے۔

نی یہ غزل کی فصاحت یہ قصیدہ کی متانت یہ لفظوں ییہ نثر کی رنگینی یہ نظم کی شیر

ت معانی یہ طالقب لسانی یہ سالمت عبارت یہ روانی مطالب کی خوش اسلوبی، یہ جد

یں۔ یہ باتیں ہیں کہ مصری کی ڈلیاں ہیں۔"دیکھی نہ سنی ۔ سطریں ہیں کہ موتی کی لڑیاں ہ

(۷)

اس میں شبہ نہیں کہ ادبی سربلندی ادبی حوالے سے مکاتیب غالب اردو ادب کا شاہکار ہیں

باتین سب صل نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ بعد کی کاوش و جستجو کوشش اور محنت کے بغیر حا

ہ فطرت نے کسی ادبی شخصیت کو کہاں تک ادبی کسے ضروری اور بنیادی بات یہ ہے۔

وہ جوہر اصلی ہوتا مذاق سے نوازا ہے۔ دراصل ذہانت و لیاقت اور فطری رجحان و میالن ہی

خمیر اٹھتا ہے۔ اور مکاتیب غالب کے مطالعے سے قاری کو ہے جس سے ادبی مذاق مذاح کا

غالب کو قدرت نے ت و ذہانت، ادبی مذاق کا فورا احساس ہوتا ہے۔غالب کی فن شناسی لیاق

ر ے خطوط ہیں۔ اور نثکصرف شو و ادب کے لئے پیدا کیا تھا۔ اس کا نثری سرمایا صرف ان

میں مشعول پر متوجہ ہونے سے پہلے تیس پینتیس برس تک وہ قدیم ادب فارسی کے طواف

فکر و نطر نے نشو و بلوغ کی رہ چکے تھے۔ اسی مشعولیوں کے دوران میں ان کے قوائے

قائع و معارف پر انہیں عبور حاصل ہوا فارسی کے الیب بیان کے منزلیں طے کیں۔ اور اس

شبو دار گوہر جمع ہوتے رہے وحسن کالم اور لطافت ادا کے خ خزینہ ادب میں صدیوں سے

تھے۔ مرزا نہ مخض انہیں درج حافظ میں جمع کیا۔ بلکہ ایک بالغ نظر جوہری کی طرح ان

نئے انداز پیدا کرتے رہے۔ اور و قرنوں تک طرز و آرائش کے نئے پشو ئےگوہرو سے د

239

ردو کی فضا میں ابر گوہر بار بنا کر مرزا فارسی ادب کی پوری دولت سمیٹ لینے کے بعد ا

نمو دار ہوئے۔ زبان کی لطافت، الفاظ کی موزونی، بیان کے حسن اور تراکیب کی دالویزی

کے اسرار ان پر روشن ہوچکے تھے۔ وہ معانی کے دریا کو عبارت کے کوزے میں بند

پر صاحب تحریر یہ مقام بلندمیں کمال بہم پہچانے جانتے تھے۔ ادب میں کرنے کی ہنر مندی

ہل قلم کو میسر نہیں آتا۔اور ا

اردو نثر غالب کی ادبی مذاق سے متاثر ہوئی۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اردو نثر

غالب کے ادبی مذاق سے متاثر ہوئی ہے۔ ادبی حیثیت سے سر سید سے پہلے کائی نچر اگر

سادگی و صفائی ینثر میں جو حقیق قابل وقعت اور قابل تقلید ہے تو وہ غالب کی نثر ہے اردو

وجہ سے دبی کوئی نثر کیغالب سے پہلے تکلف اور تصنع ۔نثر کی اصل شان ہے کہجو

کرے۔ عبارت آرائی ہوئی تھی ہر نثر نگار کا مطع نظریہ ہوتا تھا کہ ذیادہ علمیت کی نمائش

اہمیت دی نہیں جاتی تھی۔ یہ بھی ع کے باعث مطالب و معانی کو کوئیاور تکلف و تصن

حقیقت ہے کہ غالب سے پہلے اردو میں سادہ نثر کی ابتداء فورٹ ولیم کالج سے ہوئی تھی۔

کہانیوں تک محدود تھی۔ ابالغ خیال اور اظہار ےلیکن فورٹ ولیم کالج کی نثر چند قص

ور نہ یہ نثر عصری دیا جاسکا۔ ا نثر سے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہمطالب کے ضمن میں اس

حقائق اور زمانے کی روش کو اس طرح بیان کرسکی۔ جس طرح کے خطوط غالب میں اس

کا عکس و پر تو نظر آتا ہے۔ الغرض واقعات غالب وہ پہال کامیاب نثری نمونہ ہے۔ جس میں

اظہار مطالب پر زور دیا گیا زبان واضح اور صریح ہے۔ انداز بیان سیدھا سادہ اور صاف ہے۔

جیسا کہ منشی محمد حسن کو اپنے ایک فارسی مکتوب میں لکھتے ہیں۔

رب راچون دیگران دلے، بساختگی آشنامث"حضرت سالمت می دانید کو غالب صافی

و زبانے بہ تکلف زمزمہ سرانیت۔ زبانش رادلے دادہ اند کہ از آزادگی فرجام، آرائش

گی تاب رنگ آمیزی افسانہ وافسون نیارکہ از ساد اند و دلش راز بانے بخشیدہگفتار ندارد

دو اگر نہ انچین بودے من دانم و دل کہ درین چشم روشنی کہ پیش آوردہ دولت و ساز

(۸) ے۔" کرد اقبال است از اقسام سخن چہا بکار رفت

240

اردو ترجمہ!

۔ آپ تو جانتے ہیں کہ صفا کیش غالب کا دل دوسروں کی " خدا جناب عالی کو سالمت رکھے

ع آشنا نہیں اور اس کی زبان با تکلف نغمہ سرائی سے بیگانہ ہے۔ اس کی زبان کو تصنطرح

قدرت نے وہ دیا ہے۔ جو انجام کی آزادی کے سبب تزئین گفتار کے الئق نہیں اور اس

کے زبان کو دل عطا کی ہے۔ جو سادگی کے باعث حرف و حکایت کی رنگ آمیزی کی

اور اگر ایسا نہ ہوتا میں جانتا ہوں میرا دل کہ مبارک باد میں جو مل نہیں حمت

فراہم کردہ اور خوش بختی کی تیار کردہ ہے۔ انواع سخن میں کیا سعادت کی

(۹کیا )رنگینیاں( ہوتیں۔" )

سی ادائے خاص کو برتا ہے غالب نے اردو زبان میں جو مکاتیب تحریر کئے ہیں۔ ان میں ا

کے اردو خطوط میں عری میں ان کا طرہ امتیاز ہے یہی وجہ ہے کہ غالب جو اردو شعر و شا

بت سادگی، روانی اور سالست زیادہ ہے۔ کیونکہ فارسی مکاتیب میں فارسی خطوط کی نس

غالب کا زیادہ زور زبان و بیان اور جملوں کی خراش تراش پر صرف ہوا۔ ایسا نہیں کہ اردو

اظہار زیادہ واضح اور بے ساختہ یں۔ بلکہ یہاں پیرایہیب میں نئی کمزوریاں ہزبان کے مکات

دکھا رہا ہے جہاں تک تعلق ہے۔ فنی محاسن کا تو غالب کا فن تحریر یہاں بھی اپنی تابانیاں

حیدر دانش غالب کی اردو مکتوب نگاری کے فن پر بات کرتے ہے۔ جیسا کہ پروفیسر صفی

ہوئے لکھتے ہیں۔

نی تخلیق کا پہال اور نادر نمونہ ہیں۔ مرزا صاحب نے مکتوب"اردو میں غالب کے مکاتیب ف

اگر انہیں ترقی پر نگاری کے فن کو ہماری زبان میں اس خوبی سے پیش کیا ہے۔ کہ اس بنا

پسند

کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ غالب کی فنی حصوصیات میں سےبعض حصوصیات کالسیکی

فارسی

ادہ کیا ہو۔یں قیاس ہے کہ غالب نے ان سے استفمکاتیب میں موجود تھیں اور یہ بھی قر

241

الب ہی پہلے شخص تھے جنہوں نے اس طرز خاص کولیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غ

سب سے پہلے اردو میں اختیار کیا مرزا غالب یقینا اردو میں فن مکتوب نگاری کے موجد

ہیں

(۱۰سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔" ) اور اس معاملے میں ان کو جو اولیت حاصل ہے اس

صاحب کی رائے کے ضمن میں غالب کا ادبی مقام و مرتبہ متعین کرنا کا دشوار نہیں۔ رپرفیس

غالب کے خطوط میں جو ادبی رنگ، بے ساختگی، سالسیت، زبان و بیان کی خوبیاں،

میں یا تو سرے اسلوبیاتی اور لسانیاتی کماالت موجود ہیں وہ ان کے معاصرین کی تحریروں

انیسویں صدی میں غالب کے بعد دوسری سے موجود ہی نہیں اور اگر ہیں تو بہت کم مثال

کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ لیکن ان بڑی شخصیت سرسید کی ہے۔ جس

میں سے زیادہ تر خطوط کلکٹر، پرنسپل، رجسٹرار، سکرٹری، ایڈمنسٹریٹر یا سرکاری و نیم

ہ ان میں وہ کیفیت ، دلچسپی اور اثر آفرینی ذ لہداروں و افسروں کو لکھے گئے ہیں۔سرکاری ا

ممکن نہیں جو غالب کے خطوط میں ہے۔ اس حوالے سے علی احمد فاطمی کی یہ رائے کافی

وقیع ہیں۔

"غالب ، غالب ہیں اور سر سید ۔ سرسید ایک شاعر دوسرا ادیب، ایک بے باک اور

اط اور ڈپلومیٹ ایک فنکار دوسرا معمار اور بھی بہت کچھ بدال بدال سابالی دوسرا محتال ا

(۱۱اس لئے فرق تو ہونا ہی چاہئے" )

الگ انداز، ان کی تحریروں کی جان ہے۔ فنکارانہ اور بے باک وبے غالب کا ہی شاعرانہ اور

کی چاہئے مخاطب کوئی ہو۔ موضوع کوئی سا ہو لسانیاتی و اسلوبیاتی چاشنی اور قاری

دلچسپی کم نہیں ہوتی۔ غالب کے خطوں کی ادبی اہمیت یہی ہے کہ وہ مراسلہ لکھنے کو

مکالمہ جانتے اور اپنی اس روش پر فخر و ناز کرتے ہوئے اسے ایجاد کا درجہ دیتے ہیں۔

مگر یہ خط صرف اسی معنی میں ایجاد نہیں یہاں مراسلے کی مہم بڑی سیدھی سادھی

اسے ایجاد کہنے کے ہمارے پاس اور وجوہات بھی ہیں۔ ی ہے۔روزمرہ زبان میں طے ہوئ

ایک سبب تو یہ کہ ان سے پہلے کے ادیب خط کو انشاپردازی کا وہ مقام دیتے ہیں جس میں

242

ایک ایک لفظ کو ناپ تول کرنگینے کی طرح عبارت میں جڑنا ضروری اور عبات کو اس

مقفی نہ ہو۔ غالب نہ صرف اس وقت تک عبارت نہیں سمجھا جاتا تھا جب تک وہ مجع وہ

روش کو مذموم قرار دیا بلکہ طعن و طنز کا نشانہ بھی بنایا۔

بقول ڈاکٹر وقار عظیم!

"غالب کو ان کی شاعری نے غالب بنایا اور دوسری بات یہ کہ خط نویسی

(۱۲یا مراسلہ نگاری کو صحیح معنوں میں مراسلہ نگاری غالب نے بنایا" )

مکالمہ بنانے کا سہرا غالب کے سر ہے۔ کہ سادگی بیان اور روزمرہ کی گویا مراسلے کو

زبان استعمال کرنے کے باوجود بھی ان کا انداز تحریر اعلی ادبی انداز تحریر ہے۔ غالب کے

ساتھ ساتھ یہ اعزاز میرامن کو بھی حاصل ہے۔ کہ وہ اردو نثر سادگی سے پیش کرتے ہیں

ر کے مفصل ایوان کے دروازے واکرتے ہے۔ مگر جو اور اپنی معروف داستان میں نث

سیاسی، معاشرتی، سماجی اور جگ بیتی کا جو حسن امتزاج خطوط غالب میں ملتا ہے۔ تہذیب

جدید کا غلبہ اور تہذیب قدیم کے انحطاط کی جو داستان ہمیں خطوط غالب میں نظر آتی

اس کے حال کا مشاہدہ اور ہے۔سیاسی ، معاشرتی اور تہذیبی زندگی کے ماضی کا علم اور

اس کے مستقبل کو دیکھنے کی جو تہذیب غالب میں ہے۔ وہ غالب سے پہلے کسی ادیب یا

شاعر میں نہیں اور انہوں نے اپنی بصیرت سے ان تین رخوں کی جو مکمل تصویر بادہ و

ساغر کے پردوں میں اپنی شاعری میں دکھائی ہے۔ اس کا عکس ہمیں اس کے خطوں میں

و شفاف آئینے کی طرح دکھائی دیتا ہے صاف

پروفیسر سید وقار عظیم کی یہ رائے غالب کے حوالے سے ہمیشہ سند رہے گی۔

"میرا من اردو کا عظیم کارنامہ تخلیق کرکے بھی اس کا عشر عشیر بھی نہ کر سکے جو

(۱۳غالب نے کیا" )

مرقع نگاری :

گار کے اس لئے بھی بہت بلند ہے۔ کہ مرزا غالب کا ادبی مقام بحیثیت ایک نثر ن

وہ لفظوں کے مدد سے ماحول کی تصویر کشی یوں کرتا ہے کہ اس پر حقیقت کا گمان ہونے

243

لگتا ہے۔ غالب اپنی وسعت نظری، حسن تخیل، طرز بیان کے سبب تحریر میں اس قدر جز

۔ کہ افسانوی ئیات پیش کرتا ہے کہ وہ تصویر بن جاتی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے

ادب کی قدیم ترین صف داستان کا خالق بھی مرقع نگار ہوتا ہے داستانوں میں قلمی تصاویر

کی بے شمار مثالیں موجود ہوتی ہیں۔ غالب کو بھی ایک داستان گو کی طرح زبان و بیان پر

ہ کی اپنی قوت متخیل طالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر اور اتنی قدرت حاصل ہے۔ کہ وہ اپنے م

مدد سے اپنے ارد گرد ماحول اور اپنے عہد کا عکس پیش کردیتا ہے اور چونکہ غالب فارسی

ذا اپنے مشاہدات اور احساسات اور اطراف و اور اردو دونوں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے۔ لہ

نی اطفال معلوم ہوتا تھا۔ منشی ب قلمی مرقع پیش کرنا انہیں باز یچہاکنات میں موجود اشیاء کے

بخش مرحوم کے نام فارسی مکتوب کی ابتداء یوں کرتے ہیں۔

"صبح کا وقت ہے۔ ایوان کے پردے گرے ہوئے ہیں انگھیٹی میں

آگ روشن ہے اور میں انگھیٹی کے پاس بیٹھا ہاتھ تاپ رہا ہوں

مشرق کی جانب پردہ اٹھا ہوا ہے۔ اور کمرے میں دھوپ پھیل

(۱۴رہی ہے" )

ہر لکھتے ہیں۔منشی جواہر سنگھ جو

"اس وقت ایک پہر دن چڑھا ہے۔ جمعرات کا دن ربیع االول کی

چوتھی اور مارچ کی تیرہ تاریخ ہے۔ تمہارے والد رائے چھمبل

صاحب سلم، میرے پہلو میں بیٹھے ہیں اور میں ان سے باتیں

(۱۵کرتا اور خط لکھتا جاتا ہوں" )

ہیں جو غالب نے مغلیہ سلطنت کے انحطاط والے سے اہم مرقع وہمگر تاریخی اور سیاسی ح

ء کی جنگ آزادی کے بعد پیش آنے والے حاالت کے تناظر میں پینٹ کئے ہیں۔ ۱۸۵۷اور

انہیں دلی کے گلی کوچوں، کڑوں، اور باغوں سے محبت ہے۔ دلی کی تباہی انگریزوں کی

لفاظ میں درد ان کے اآمد ان سب ا حال دوستوں کو سنا سنا کر دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔

244

ارا کرتی ہے۔ بھی ، غالب کی جزئیات ہمیں ایک ایک منظر کا نظ بھی ہے اور جھلجالہٹ

تھی۔ جہاں قلعہ کی رونق تھی جہاں بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلتا غالب کی دلی وہ دلی

سیر اور تھا۔ چاندنی چوک اور جامع مسجد کے بازاروں کی چہل پہل تھی۔ جمنا کے پل کی

پھول ولوں کا میلہ تھا۔ لیکن سیاسی انقالب میں یہ سب ختم ہوگیا۔ اور غالب اس لئے کہتے ہیں

ین احمد کہ اب دلی موجود نہیں بلکہ تاریخ کا گزرا ہوا پرانا شہر ہے۔ مرزا غالب نواب عالؤالد

بارے میں لکھتے ہیں۔ خان کے نام خط میں دلی کے

ہ کلمہ مرقوم دیکھا کہ دلی بڑا شہر ہے۔ ہر قسم کے آدمی "کل تمھارے خط میں دوبارہ ی

وہاں بہت ہوں گے میری جان! یہ وہ دلی نہیں جس میں تم پیدا ہوئے ہو۔ وہ دلی نہیں

جس میں تم نے علم تحصیل کیا وہ دلی نہیں جس میں تم شعبان بیگ کی حویلی میں مجھ

ن برس سے مقیم ہوں ایک کمپسے پڑھنے آیا کرتے تھے۔ وہ دلی نہیں جس میں اکیاو

ہنود معزول بادشاہ کے ذکور، سراسر ہے مسلمان اہل حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ باقی

(۱۶جو بقیۃ السیف ہیں۔ وہ پانچ پانچ روپے مہینہ پاتے ہیں" )

دلی میں رہتے ہوئے اپنے مکان کا نقشہ ایک خط میں یوں کیھنچتا ہے۔ مرزا ہرگوپال تفتہ کے

یں لکھتے ہیں۔نام خط م

"برسات کا حال تمھیں بھی معلوم ہے۔ اور یہ تم جانتے ہو کہ میرا مکان گھر کا نہیں ہے

یہ کی حویلی میں رہتا ہوں۔ جوالئی سے مینھ شروع ہوا، شہر میں سینکڑوں مکان گرگئے اکر

اور مینھ کی نئی صورت دن رات میں دو چار بار برسے اور ہر بار اس زور کہ ندی نالے

ے اٹھنے، سونے جاگنے، جینے مرنے کا محل اگر ھنیٹکلیں۔ باالخانے کا داالن میرے ببر ن

چہ

گرا نہیں لیکن چھت چھلنی ہوگئی، کہیں لگن کہیں چلمی، کہیں اگالدان رکھ دیا۔ قلم دان

کتابیں اٹھا کر توشہ خانہ کی کوٹھری میں رکھ دیتے۔ مالک مرمت کی طرف متوجہ نہیں

245

(۱۷تین مہینے رہنے کا اتفاق ہوا۔ ) کشتی نوح میں

مکان کا غالب کے خطوط سے پورے دلی کا حال معلوم کیا جاسکتا ہے۔ جہاں وہ اپنے حستہ

تباہی اور برابادی بھی بیان دھکڑا سنا رہا ہیں وہی پر ساتھ ساتھ شہر کی تباہی اور بربادی

کررہا ہے اور خط کے آخر میں حضرت نوح علیہ السالم کی کشتی کی طرف بھی توجہ

دالتے ہیں۔

لسانیاتی و اسلوبیاتی خوبیاں: صوتی آہنگ و مقفی عبارت:

د سادگی اور صفائی ہے صحیح ہے کہ غالب کے خطوں میں بے حیہ

طح پر ہر جگہ جگہ مقفی نثر کا احساس بھی ہوتا ہے لیکن ان کو پڑھتے ہوئے صو تیاتی س

ڑھاتی ہے غالب کی یں اہنگ پیدا کرکے اس کے حسن کو باور یہی اسلوبیاتی خوبی نثر م

لفظیات بہت وسیع تھیں۔ اس لئے اپنے خطوں میں جگہ جگہ اس سے کام لیا ہے۔ غالب قطب

الدولہ بہادر کے نام خط میں یوں لکھتے ہیں۔

جناب واال صفات نے اس زخمی دل درویش کی طرف توجہ نہیں دییہ ہے کہ ان"بات دراصل

اور قصیدہ عرضداشت کو سلطان عالم کی نگاہ التفات سے روشناس نہیں کرایا۔ وقت گزر رہا

ہے

ت میں لئے کمر بستہ اور رانگی کیلئے عجل قافلہ روانہ ہو رہا ہے فقیر کے ساتھی سفر کے

ہیں اور میں

شہ نشین غمزدہ پر ستی اور بے نوائی کی بنا پر پا بہ گل ہوں، خدارا اس گود اسی طرح تہی

رحم

فرمائیں اور قصیدہ اور غرضداشت کو جناب فیض گنجور کی خدمت میں پیش کردیں اور جس

عطیے

(۱۸کا بھی حکم ہو بغیر اسکے کہ اس میں تاخیر ہو مجھ فقیر امیدوار کو ارسال فرمائیں" )

ط میں بنام سلطان زادہ بشیر الدین میسور کو لکھتے ہیں۔فارسی کے ایک خ

246

سخن دیں تو میدان سخن کی شہسواری آپ ہی کا حق ہے "سچ تو یہ ہے کہ اگر اہل دانش داد

اب دیکھنا یہ ہے کہ غاشیہ برادری )کی سعادت( کس کو نصیب ہوتی ہے۔ مکتوب نگار کو

خود

یں اور نہ بازو میں طاقت اس میں موتی ہکافی عرصے سے میالن سخن سنجی نہیں۔ نہ پلے

کعمر سب

رفتار کی سیر گاہ کے چھیاسٹھ مرحلے طے ہوچکے ہیں۔ پچاس سال نیک نہا دان دہلی کے

عشق اور

ان کی الفت پیشگی نے دل کو گرمائے رکھا اور اس مدت میں کیسے کیسے دوستان با

اخالص جمع نہ

رشتوں کو اس طرح کاٹ دیا کہ رگ جاں سے ہوئے ہونگے۔ اچانک فلک تیز نے ان روحانی

مروت دوستوں میں سے کہ جن کا اب شمار بھی مشکل ہے اور جو خون ٹپک پڑا ان بے

ہنجار میں ساتھ چھوڑ گئے صرف چند شکتہ حال ااس حوادث کی تیز بارش اور کار زارن

(۱۹باقی ہیں۔ )

مبالغہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لکل بجا اور بعید از اجیسا عبدالرحمن کی یہ رائے ب

(Emotionally)میں جو زور، روانی اور فطری پن ہے اور کی زبان "غالب کے خطوں

ان کی عبارت میں الفاظ کا استعمال جتنا بر محل چست اور درست ہے۔ اگر غور سے

گی۔ بے ی پر خلوص شخصیت کام کرتی نظر آئےدیکھا جائے تو اس کے پیچھے ان ک

سلوب اپنی سادگی میں تو باغ و بہار اور وہ جذبہ ہے۔ جو تقریباشک ان کا نثری ا

غالب کی شاعری کی طرح ہر خط میں روبن کی طرح دوڑتا ہے۔ مرزا

(۲۰ان کے خطوں کی نثر بھی ان کو پہچان دیتی ہے" )

247

یہ صحیح ہے کہ غالب کے خطوں میں بے خد سادگی اور صفائی ہے لیکن ان کو پڑھتے

سطح پر جگہ جگہ مقفی نثر کا بھی احساس ہوتا ہے۔ یہ (Phonetic)ہوئے صوتیاتی

کے حسن کو بڑھاتی ہے۔ غالب اسلوبیاتی خوبی نثر میں آہنگ پیدا کر کے غالب کے خطوں

یات بہت وسیع تھی اس لئے اپنے خطوں میں جگہ جگہ اس سے کام لیا ہے۔کی لفظ

ناچار "سید صاحب! نہ تم مجرم نہ میں گنہگار تم مجبور میں

(۲۱سر گذشت میری زبانی سنو" ) نواب میری کہانی سنوں۔ میر کی

ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

"روپیہ دے اور ٹکٹ لے۔ گھر برباد ہوجائے آپ شہر میں آباد ہوجائے

سنے کی کون، مہورت ہے؟ جو رہتےبآج تک یہ صورت ہے۔ دیکھے شہر کے

(۲۲ہوئے ہیں وہ شہر میں آتے ہیں" ) ہیں وہ بھی اخراج کیے جاتے ہیں یا جو باہر پڑے

اس طرح غالب ایک جگہ لکھتے ہیں۔

"کس حال میں ہوں کس خیال میں ہو کل شام کو میر صاحب روانہ ہوئے یہاں

ان کی سسرال میں قصے کیا کیا نہ ہوئے۔ خوش دامن صاحب باللیں لیتی ہیں۔

چپ، جی چاہتا ہے سالیاں کھڑی ہوئی دعائیں دیتی ہیں۔ بی بی مانند صورت دیوار

چیخنے کو مگر ناچار چپ۔ وہ تو عنیمت تھا کہ شہر ویران نہ کوئی جان نہ پہچان اس

سے بڑھ کر ایک بات اور ہے اور وہ محل غور ہے ساس غریب نے بہت سی

ے جی میں یہ ھ کردیا ہے۔ اور میرن صاحب نے اپنجلیبیاناور تودہ قالقند سات

راہ میں چٹ کریں گے اور قالقند تمھارے نذر کرکےارادہ کرلیا ہے۔ کہ جلیبیاں

تم پر احسان دھریں گے۔ بھائی میں دلی سے آیاہوں۔ قال قند تمہارے واسطے الیا

ہوں زنہار نہ باور کیجیو۔ مال مفت سمجھ کر لیجیو کون گیا ہے؟ کون الیا ہے ۔۔۔۔

248

مرد پیار یہ لوگ تو ان پر اپنی جان نثار کرتے ہیں۔ عورتیں صدقے جاتی ہیں

(۲۳کرتے ہیں" )

(۲۴"آج تمہارا خط دو پہر کو آیا میں نے مسودہ تاریخ کا پایا" )

"برسات کا حال نہ پوچھو خدا کا قہر ہے۔ قاسم جان کی گلی

(۲۵ہے" )سعادت خان کی نہر

"الور کی ناخوشی، راہ کی محنت کشی تپ کی حرارت گرمی کی شرارت پاس

خیال کی فکر مستقبل کا خیال، تباہی کا رنج آوارگی کا عالم ، کثرت اندوہ و غم

(۲۶کا مالل، جو کہو وہ کم ہے بالفصل تمام عالم کا ایک سا عالم ہے۔" )

"قبلہ کب آپ کو یہ خیال بھی آتا ہے کہ کوئی ہمارا دوست جو

(۲۷غالب کہالتا ہے۔ وہ کیا کھاتا پیتا ہے، اور کیوں کر جیتا ہے" )

:۔مکالماتی انداز بیاں

اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو غالب پہلے ادیب ہیں جنہوں نے خطوں میں

مکالماتی شکل کو کامیابی سے رواج دیا۔ جس سے ان کے خطوں میں ایک ڈرامائی کیفیت

پیدا ہوگئی ہے۔ جو ان نثر کی ادبی حسن میں اضافے کا باعث بھی ہے اس کے ساتھ ان کی

ے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ مکالمے کی وجہ سے بات کا ترسیل زادہ گہری ہوجاتی ہ

جاتی ہے۔ مرزا تفتہ کو لکھے گئے اپنے ایک ے کی نحوی ساخت سادہ اور مختصر ہوجمل

مکتوب کا آغاز یوں کرتے ہیں۔

(۲۸"بھائی! مجھ میں تم میں نامہ نگاری کاہے کو ہے مکالمہ ہے" )

میر مہدی مجروح کو ایک خط میں لکھتے ہیں۔

ود کہتے ہو کہ اس پر یہ لکھا ہوا آیا کہ مکتوب الیہ یہاں نہیں ہے"تم خ

249

(۲۹میں ہوتا اور یہ لکھتا کہ میں نہیں ہوں" )

مدید کہتے ہیں۔آایک اور جگہ میر مہدی کو خوش ا

"ہاہاہا! میرا پیارا میر مہدی آیا، آؤ

(۳۰بھائی مزاج تو اچھا ہے! بیٹھو یہ رام پور ہے" )

اور مثال دیکھئے مرزا نے جو مکتوب میر افضل علی کو لکھا ہے۔ وہ مقفی عبارت کی ایک

مقفی نثر سے مزین و آراستہ ہے۔ پورا خط تقریبا

"تمہارا خط پہنچا، آنکھوں سے لگایا، آنکھوں میں نور آیا، دل پر رکھا، مزہ پایا کل تک

اس نام کو سن کر شرماتے تھے اب بن بن باتیں بناتے ہو، اور ہم کو کڑیاں سناتے ہو،

کاش کہ تم یہاں آجاؤ، تب اس تحریر کا مزہ پاؤ۔ بھائی تمہارے سالے صاحب غرور کے

پتلے ہیں۔ دو ایک بار میں نے ان کو بالیا ، انھوں کرم نہ فرمایا۔ یہ لوگ اور وہی آب و گل

ور گہری نہ چھنے گی۔ وہیں بیٹھے رہو، ہیں تمھارے ان کی کبھی نہ بنے گی کے

یہ رنج و عذاب کا زمانہ جلد تا ہے۔ انشاء ہللا ہللا تعالی دیکھو خدا کیا کر

دعا کہنا اور کہنا، وہ زمانہ آیا ی گزرتا ہے۔ میر سرفراز حسین کو میر

ں ایسے مفقود الخبر ہے کہ سینکڑوں عزیز راہی ملک عدم ہوئے۔ سینکڑؤ

ہوئے کہ ان کے مرگ و زیست کی خبر نہیں دو چار جو باقی رہے

(۳۱ہیں، خدا جانے کہاں بستے ہیں کہ ہم ان کو دیکھنے کو ترستے ہیں۔" )

سے غالب سادہ نثر لکھتے لکھتے دو فقروں کو مقفی کر دیتے ہیں۔ یہ فقرے شعوری کوشش

سے نکلتے ہیں۔ اس سے عبارت زیادہ با معنی اور پر اثر قلم نہیں بلکہ بے ساختہ اور برجستہ

بن جاتی ہے۔ چند فقرے مالخظہ ہوں۔

(۳۲را حال بدستور ہے، دیکھئے خدا کو کیا منظور ہے" )" می

250

(۳۳اپنی فکر اور میری اصالح کو بھی ڈبویا" ) "تم نے روپیہ بھی کھویا، ارو

دہ تارخ کا پایا""آج تمہارا خط دو پہر کو آیا۔ اس میں میں نے مسو

(۳۴اٹھاتا " ) کا خط جاتا، اور پڑھا جاتا، تو میں سنتا اور خظ"جب آپ

(۳۵، دلی کے عاشق دلدادہ" )ہآزاد "او میاں سید زادۂ

251

موضوعی جائزہ:۔

سری اور سطحی مطالعہ کرنے واال بھی اس بات کا ف رخطوط غالب کا ص

سنسناہی زندگی بلکہ نشاط زیست کا حصہ ہے۔ ادراک کرلیتا ہے کہ غالب کے نزدیک کہنا،

مرزا غالب کی کچھ باتیں آپ بیتی ہیں تو کچھ جگ بیتی، کچھ اپنی باتیں کچھ زمانے کی

باتیں ہینکہ زمانہ نام گزرنے کا ہے گزرتا ہے اور دونوں پر گزرتا ہے اپنے اوپر بھی اور

دنیا پر بھی۔

ی نے یادگار غالب میں سجا کر پیش کیا۔ یوں تو غالب کی زندگی کے کئی پہلوؤں کو حال

ذکاءہللا دہلوی نے اپنے مرقعوں میں اور محمد حسین آزاد نے تمثیلی رنگ حیات غالب کو

پیش کیا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ان کے مزاج، کردار اور شخصیت و فن کے حوالے سے مختلف

مایاں تصویریں ان مگر غالب کے کردار ، ان کی شخصیت کی نذرائع سے سامنے آتی ہیں۔

رین اور متاخرین امنے آتی ہیں۔ وہ ہمیں ان کے معاصکے خطوط میں جس طرح نکھر کر س

کی تحریروں میں اس طرح نمایاں نظر نہیں آتیں۔ حتی کہ اگر ہم خطوط غالب پر موضوعی

ذریعہ خود خطوط غالب ہی ہے۔ چاہیں بھی تو اس کے لئے واحد مستندلحاظ کچھ پیش کرنا

جائے تو بے جا ن موضوعات کو اگر جگ بیتی اور آپ بیتی کے ضمن میں شمار کیااور ا

ہم خطوط غالب کا موضوعی جائزہ انہی دو بنیادی موضوعات کے کر لنہیں۔ لہذہ آگے چ

تحت لیں گے۔

آپ بیتی:۔

خذ مکاتیب غالب ہیں تو یہ اگر یہ کہا جائے کہ غالب کی سواغ کے تمام تر ما

یداز حقیقت نہیں۔ قاری کو مکاتیب میں غالب کی زندگی پوری جزئیات کے ساتھ کہنا بع

بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ غالب کی پیدائش سے لے کر ان کا نام و نسب ، خاندان ، بچپن ،

وظیفہ و پنشن، اخالق و عادات، سفر و حضر یہ تمام باتیں پوری جزئیات کے ساتھ شادی،

تیب غالب سے مل سکتی ہیں۔ پڑھنے والے کو آسانی سے مکا

غالب کے ذاتی خاالت

252

نام و نسب خاندان ۔ پیدائش

شادی اور خانگی زندگی ۔ بھائی کی وفات

وظائف و پنشن و سفر

اخالق و عادات

ماحول

جگ بیتی: ۔

روش عام یوں تو خطوط غالب کی مقبولیت اور اہمیت کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثال

سادگی، سالست، بے ساختگی، بے تکلفی اور انداز بیاں اور اس کے ساتھ سے ہٹ کر انفرادی

ظرافت و شوخی کی شمولیت۔ ان حصوصیات کے عالوہ جو چیز ان خطوط کی اہمیت میں

اسی ہے۔ غالب اپنے خطوط میں اپنے عہد کی تصاویر کو جا اضافہ کرتی وہ اپنے عہد کی عک

بجا پیش کرتے ہیں۔ ایک روزنامچہ اگر انہوں نے "دستنبو" کے نام سے تحریر کیا تو دوسرا

ان کے اس عہد کی تہذیبی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح غالب کے خطوط سے ان

یت حاصل کی جاسکتی ہے۔ خطوط کے عہد کے سیاسی سماجی اور معاشرتی حاالت سے واقف

غالب صرف خطوط نہیں اپنے عہد کے حقیقی مرقعے ہیں۔ غالب کی شاعری غالب کا نامکمل

تعارف ہے۔ لیکن غالب کے خطوط نے انہیں مکمل طور پر ہمارے سامنے ال کھڑا کر دیتے

لکہ ہیں۔ غالب کے خطوط سے نہ صرف دلی کا احوال اور مغلوں کا زوال معلوم ہوتا ہے۔ ب

قرب و جوار کے حاالت سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ وہ اپنی شوخی اور ظرافت کے

کے انقالب کے رد 1857اور درد بیتی کا اظہار کر جاتے ہیں۔ پردے میں اپنی ذہانت

مرقع کشی میں لی والوں اور خصوصا مسلمانوں کی ہوئی اس کرب کیعمل سے جو تباہی د

ی والوں کی تباہی ان کی اپنی ی اور دل یں ڈوبی نظر آتی ہیں۔ دل غالب کی انگلیاں خون دل م

بربادی تھی۔

آپ بیتی:۔

253

ہر سنگھ سے اپنی بیماری کا ذکر کس بے ارسی مکتوب میں منشی جوفا ایک اپنے

سکا سدباب و تدارک، عالج پوری جزئیات تکلفی سے کرتے ہیں۔ بیماری کی اصل کیفیت، ا

کے ساتھ موجود ہے۔

خود از زور یکہ شمار رفتہ ایدرنجورم۔"من

دردی شانہ پدید آمدو ریش از اعضا سر برزد۔

ھم درد گر انپای بو دوھم۔ زخم دیر بہم آی۔

سہ ماہ صاحب فراش بودم و تامنزل نواب امین

و حز مسری خویش نمیز الدین احمد خان بہادر

ون کہ آں درد زوال پذیر فت و آں زخم بہ شد۔نکا

رپیرانہ سری جوش زد و پیکر من چون سطحن من دوخ

پہر مجدر شد۔ از سرتا بپا ہکہ ھای سرخ سو زندہ پدیدس

بغد مان حکیم امام الدین خان رگ سرخ سو زندہ پریدآمدآمد۔

ام و آب شاھترہ و سبز مروق می اشامم تا بعد ازین باسلیق زدہ

(۳۶)"چہدوی دھد و فرحام کار چہ شود۔

ترجمہ:۔

جس دن سے تم گئے ہو۔ میں خود بھی بیمار ہوں۔ شانے میں درد "

اٹھا اور جسم پر )جگہ جگہ( زخم ہوگئے۔ معذوری کے ساتھ زخم کے

صاحبے کی تکلیف بھی تھی۔ تین ماہ تک کے دیر سے بھرن

فراش رہا۔ یہاں تک کہ نواب امین الدین احمد خان بہادر کے

جاسکتا تھا۔ اب کہ وہ تکلیفرا تک نہیں ام سمکان اور اپنی حر

254

رفع ہوئی اور وہ زخم ٹھیک ہوا ہے۔ تو اس بڑھاپے میں

میرے خون نے جوش مارا۔ اور سارے جسم پر آسمان کے

تاروں کی طرح دانے نکل آئے۔ سر سے پاؤں تک سارے

جسم پر سرخ چکنے پڑگئے ہیں۔ حکیم امام الدین کی ہدایت پر

ز کا عرق مصفی پی رہا ہوں۔فصد کھلوائی ہے۔ اور شاہترہ سب

(۳۷)"دیکھئے آئندہ کیا ہوتا ہے۔ اور انجام کار کیا ہو۔

گردوپیش میں واقع صہ کالم یہ کہ غالب اپنے ساتھ پیش آنے والے ہر واقعے اور سانحے خال

ہونے والے حاالت کو پوری جزئیات اور تفصیل کے ساتھ اپنے مکتوبات میں بیان کرتے ہیں۔

گویا مکتوب نگاری ان کے نزدیک ایک مشغلہ اور شغل بیکاری نہیں۔ بلکہ تحلیل نفسی کا

یک ذریعہ ہے۔ اپنے خطوط میں وہ ایک حقیقت پسند انسان کے طور پر ابھر کر سامنے آتےا

ہیں۔ کہ جو ان کی آنکھوں کے سامنے آیا، اور وہ اس سے متاثر ہوئے، ان کے لب پر آیا۔ اور

یہی بے تکلفی ، سادگی، حقیقت نگاری ان کے خطوط کی جان ہے۔ اور قاری دلچسپی سے

خطوط کو پڑھتا جاتا ہے اور قدم قدم پر رنگ و نور کی ایک نئی دنیا بکھری نظر آتی ہے۔

قلم جو خیال ذہن کے پردۂ اسکرین پر یلہرایا فورا سپرد ی اسی کا ہے کہبے ساختگی نام ہ

ہوگیا۔ غالب کی یہی فنی بے ساختگی ان کے مکاتیب کی جان ہے۔ اور یہی چھوٹے بڑے

موضوعات ان کے خطوط کو جلد بخشتے ہیں۔ مگر غالب کی اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ

کہ خط کی حیاتی فضا میں اسے اس انداز سے کسی بات کو چھوٹا اور بڑا نہیں سمجھتے، بل

کھپا دیتے ہیں کہ قاری دلچسپی لئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ روز مرہ کے چھوٹی چھوٹی اور

رائے میں یوں جزئیات کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ وہ ان کا یمعمولی واقعات کو جس محاکاتی پ

وہ بھی غالب نے کر ھنا ہے تو کمقصد کی بات ل صرفخط لکھنے کا مدعا اگرکمال ہے۔

ہار اوروں سے جداگانہ مگر چونکہ وہ خط کو مکالمے کے مقام و مگرپیرایہ اظدکھایاہے۔

مرتبے تک النا ہی نہیں چاہتے تھے الئے بھی، اور یہ عظیم مقصد روزمرہ کے محصوص

لئے غالب کا انداز شعری ہی س مکالماتی انداز گفتگو کے بغیر حل ہی نہیں ہوسکتا ہے۔ ا

د نہیں بلکہ انداز مکتوب نگاری بھی جداگانہ ہے۔ غالب روز مرہ کے معمولی واقعات کو منفر

255

چھخملاپنے خطوط کا موضوع بناتے چلے جاتے ہیں۔ جیسا کہ رائےسے کس خوبصورتی

کھتری کا نام خط میں وہ لکھتے ہیں۔

"دیروز آخر روز چنا نکہ خوی منست بچانہ نواب امین الدین خان

ض راہ خواجہ رحمت صاحب الیا فتم چون مدت میر فتم در عر

ھاست کہ کہ میر خیراتی صاحب مرابا خواجہ صاحب مالقات

علیک بمیان آمد لختی ایستاد یم و خبر مزاج دادہ اند، سالم

دیوان و راجہ پرسش کردم۔ گفت کہ خالف ھمد پرسیدیم ازحال

مہرا چیست؟ گفت ھسہلی روی دادہ بود، رفع شد، گفتم اکنون ماج

(۳۸)خوشی و خوشنودی تا اینجا سخن از زبان خواجہ رحمت بود۔"

ترجمہ:۔

اب امین الدین ن ڈھلے اپنی عادت کے مطابق )جب(نواچھا سنو کل د

لے گھر جارہا تھا تو راستے میں خواجہ رحمت علی صاحب مل گئے۔ چونکہ مدتوں

سالم علیک ہوئی۔جہ صاحب سے میری مالقات کراچکے ہیں۔ اپہلے میر خیراتی، خو

رسی کی۔ میں نے دیوانیر کھڑے ہوکر ایک دوسرے کی مزاج پہم نے تھوڑی د

اور راجہ )الور( کا مزاج پوچھا بتایا کہ معمولی سی رنجش پیدا ہوگئی۔ میں نےپوچھا اب

(۳۹)واجہ رحمت کی ہوئی۔"خکیا حال ہے بتایا کہ اب راضی بازی ہیں۔ تو یہاں تک تو بات

یں غالب نے اپنے فلسفہ حیات، نظریہ زندگی، ذوق، پسند و ناپسند، کو موضوع خطوط غالب م

نچ، اور ان وغالب کے ذوق شعری، ذہنی اور نفسیاتی ا بناکر پیش کیا ہے۔ جس کو پڑھنے واال

آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ غالب اپنی زندگی میں بھی ایک محبتی انسان کے فلسفہ حیات کو

دہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ایک وسیع حفلوں اور مجلسوں کے دلداتوں کی متھے۔جو یار دوس

ح آبادی کے الفاظ میں اسکی حلقہ احباب وسیع تھا۔ اور جوش ملیالمشرب انسان تھے۔ ان کا

256

کھتری کے نام رائے چھجمل وجہ بھی یہی تھی۔ کہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔

خط لکھتے ہیں۔

محبت کیش دیگر ندارم نثارم عتاب چر اخشم از چہ راہ؟"مہاراج با چومنی کہ بز

(۴۰)گفتہ فرستادہ اندلہ بہ الور میروم و باز بتو دیع نیا مدہ اند۔

ترجمہ:۔

"مہاراج مجھ جیسے )شخص( کے ساتھ کہ جس کا محبت کے عالوہ کوئی مسلک

ہی نہیں ناراضی کیوں اور غصہ کس لئے۔ کہال بھیجا۔ کہ الور جارہاہوں اور

(۴۱)پھر رخصت کی مالقات کو نہیں آئے۔

غالب اپنے خطوط میں برسبیل تذکرہ اپنی خاندانی خاالت و تاریخ اور اپنے کالم اردو و

االت ہی نہیں جان پاتے بلکہ کالم حی موضوع بنایا ہے۔ جس سے ہم ان کے نجفارسی کو بھی

ایک خط میں جو انہوں غالب کے حوالے سے بھی ہماری رہنمائی ہوئی ہے۔ جیسا کہ اپنے

نے مولوی رجب علی خان کو لکھا ہے۔ اپنی گذشتہ خاندانی جاہ و حشمت اور اپنی موجودہ

مالی تنگدستی کا ذکر کچھ اس پیرائے میں کیا ہے۔

"میرا چچا انگریزی سرکار میں صاحب جاہ و دستگار و ملک و سیاہ تھا۔

ہے۔ میرےاور سیالب گزر جانے پر جس طرح زمین گیلی رہ جاتی

اور صرف عزت باقی رہ گئی ہے۔بعد ی دولتمندی کے ان آثار کے ھپاس ب

اہنے ہاتھ کے عزت مندوں میں مجھے ہمیشہ نشستگورنر کے دربار میں د

ملتی تھی۔ اور میں ایک قصیدہ بطور نذر کے پیش کرتا تھا اور اس نذر

اورسرائی کے بدلے میں نہیں بلکہ رئیس ذادگی بعوض کہ جو مدحکے

سرداری کی شناحت کے طور پر مجھے جیفہ سیر پیچ اور ماالئے مروارید

کے ساتھ خلقت ہفت یا رچہ مال کرتی تھی اور گورنمنٹ کے فرمان کے

257

دربار الہور بموجب مجھ پر خلقت کی نذر معاف تھی۔ لیکن اب

ء 1864ستمبر 6 مجریہ الہور (Precedence)کی

ستمبر سال مذکور( دیکھ کر یہ معلوم 13مشنر دہلی بتاریخ کسلہ بہ دفتر امر

کر عوام کے جرگے میں ہوا کہ مجھے رئیس ذادوں کے زمرے سے نکال

بٹھا دیا ہے۔ اور نذر کے پچاس روپے اور خلقت کے پچھتر روپے

حیرت نے مجھے فروماندہ کردیا ہے۔۔۔۔ مقرر ہوئے ہیں۔ الزما

مری()لفٹننٹ گورنر رابرٹ منٹگ حاکم پنجابخون نے جوش مارا

کی درگاہ میں اپنی نالش لے کر گیا۔ اور یہ عرض کیا کہ اگر

ملی ہے تو مجھے وہ خطا بتائی پر یہ سزا کسی گناہ کے بدلے کے طور

جائے اگر ایسا نہیں ہیں تو میرے مرتبہ میں تخفیف نہ کی جائے

نمجھے میرے )سابقہ( منصب پر بحال کیا جائے۔ لیکاور

ے اس پر کوئی دھیان نہ دیا اورنٹگمری صاحب بہادرنجناب م

والیت چلے گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فلک رخصت میکلوڈ صاحب

کیا رائے رکھتے ہیں اور کیا حکم فرماتے ہیں۔۔۔۔ آپ یہ روداد بہادر

سنانے کا مقصد یہ کیا کہ اگر اس ضمن میں آپ کوئی عنائت کر

ہوگی۔۔۔۔۔ ورنہ ہدایت )فرمائیے کہ کیاسکتے ہیں۔ تو مہربانی

(۴۲)حد ادب۔ غالب محتاج انصاف۔" زیادہ کیا جائے(

غالب کا یہ خط اور اس قسم کے متعدد اور مکاتیب ہمیں ان کے خاندانی جاہ و حشم کی تاریخ

غالب اپنے خاندانی وقار کا سے آگاہ ہی نہیں کرتے بلکہ اس بات کا سراغ بھی دیتے ہیں کہ

ی طرف زمانے اور غم تھا۔ اور وہ اپنے خاندانی وقار کا کتنا مان رکتھے تھے۔ تو دوسرز کتنا

258

رونا غالب کی سیہ بختی نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ غالب کے ا حکومت کی بے التفاتی کا رون

ید یہی حاالت تھے جب غالب نے زمانے کی کا مرثیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ شا ی حاالتتذا

ر کہا ہوگا۔ کہ لی تنگدستیوں کے حصاقوں سے تنگ آکپنی ماناقدری ، اور ا

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے۔

غالب کی سوانح عمری اگر مرتب کرنی ہو تو خطوط غالب سے بہتر ماخذ شاید ہی کوئی ہو۔

انہوں نے اپنے خطوط میں جا بجا زمانے کی ناقدری مغلیہ دور اور انگریز حکومت کی بے

، اپنی بدبختی کا رونا رویا ہے۔۔۔۔۔۔ اور اپنی تاریخ پیدائش، فاتی و الپرواہی، مالی تنگدستی الت

، نوجوانی کے حاالت، اپنی فاقہ مستی، شراب نوشی، جوئے بازی، قید و بند، بچپن، لڑکپن

پنشن کی بندش گویا ہر قسم کے حاالت جو پیش شادی سفر، اوالد کی وفات، بھائی کی موت،

قلمبند کئے ہیں۔ جن سے بڑی آسانی سے غالب کی سوانح عمری مرتب کی جاسکتی آئے

خطوط غالب کا مطالعہ قاری کے سامنے غالب کی مکمل شخصیت کا عکس ال کھڑا ہے۔

کردیتی ہے۔ یہاں غالب کی شخصیت بپر ان کی شاعری کی طرح دبیز پردے نہیں پڑے ہوئے۔

۔۔۔۔۔بلکہ ہر چیز صاف، شفاف اور واشگاف ہے ۔۔

خط لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

غالب چاہے کسی کے نام کے عاشق ہوں نہ ہوں، مگر خط لکھنے کا ایک بنیادی مقصد اور

جو ان کے سامنے موجود تھا اور وہ یہ کہ وہ ہمکالمی کے پیاسے تھے۔ خود لکھتے ہیں۔

ظاہر ہےکہ دو اشخاص"میں تو ہمکالمی کا پیاسا ہوں اور

جب ایک دوسرے سے دور ہوں تو زبان قلم ہی سے

گفتگو کرسکتے ہیں۔ اب میں خط لکھ رہا ہوں اور سمجھتا

ہوں کہ جب تک یہ تحریر ختم نہیں ہوتی مجھے چین نہیں

(۴۳)آئے گا۔"

259

ہمکالمی کے پیاس تو تھی ہی مگر اس حقیقت کا ادراک بھی خطوط غالب کے مطالعے سے

ا ہے کہ غالب کو اپنی جان پہچان کے لوگوں، عزیز و اقربا اور حصوصا دوستوں سے ہوجات

بے حد محبت تھی۔ اور ان کی صحبت میں رہنا دل سے پسند تھا۔ اور اس حقیقت کا اظہار

فارسی انہوں نے اپنے اردو اور فارسی خطوط میں جا بجا کیا ہے۔ جیسے کہ اپنے ایک

رقم طراز ہیں۔۔۔۔۔۔۔لکھا ہے کچھ یوں نامبانکے الل وکیل کےی مکتوب میں جو انہوں نے جان

"آئین تسلیم نہ آنست کہ اگر سیلی از دست دوست خورند گرہ

بر ابرو فگنند یا اگر بمثل سنگ بارد سردردند۔ یزدان راسپاس کہ

اگر چہ غم بسیار دادہ است لیکن دوستان غمخوار دادہ است۔ یا رب

ون منی کہ بہ ھیچ نیرزم مہرمی وررندکہ با یاین گر انما یگان

(۴۴)یدہ۔"آفرکیا نند اینان ال ازکدام گوھر

ترجمہ:۔

مانچہ کھائیںشیوہ نہیں کہ اگر دوست کے ہاتھ ط " تسلیم و رضا کا یہ

تو ماتھے پر بل ڈال لیں، اور اگر پتھر برس تو سر چھپائیں۔ ہللا کا شکر

)ان کے ساتھ( غمہے کہ اگر چہ اس نے بہت غم دئے ہیں لیکن

ے ہیں۔ یا خدا یہ گراں ما یہ لوگ کون ہیں۔یخوار دوست )بھی( دئ

کہ مجھ جیسے بے قدر و قیمت شخص سے محبت کرتے ہیں۔ اور تو

(۴۵)جوہر سے پیدا کیاہے۔" نے ان لوگوں کو کس

شاعرانہ شخصیت پوری آب و تاب کے ساتھ ان کے ہر مکتوب میں جلوہ ہوکر غالب کی

سامنے آتی ہے۔ رند بال کش تو تھے ہی اور اپنی شاعری جا بجا اس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اور

غالب کی حقیقت پسندی و حقیقت نگاری کا اعتراف کرنا پڑے گاکہ انہوں نے اپنے خطوط

ئی سے کام لیا ہے۔ اور اپنی پرورش جو معاشرتی یا میں بھی پوری صداقت اور حق گو

260

کسی فنکار کی فنی و یح ہو کہ غلط اسکا ببانگ دہل اعتراف کیا ہے۔ حاخالقی اعتبار سے ص

فکری عظمت متعین کرنا تب بھی آسان ہوجاتا ہے۔ جب وہ یہی خاالت، ذاتی خیاالت، اور اپنے

تا ہے۔ اب اسکی فنکارانہ چابکدستی اطراف و اکناف میں موجود حقائق کو بعینہ پیش کر

استعداد کتنی ہے۔ اسکا فیصلہ آنے واال وقت کرتا ہے۔ غالب نے اپنے کردار، اپنی شخصیت،

اور اپنے عادات و اطوار کی ایک مکمل تصویر پڑھنے اور سننے والے کے سامنے پیش

کو جو خط غالب چرا تبصرہ کرسکے۔ منشی ہرگوپال تفتہ وکردی ہے۔ تاکہ وہ اس پر بال چوں

ء میں لکھا اس میں شغل بادہ کشی کا ذکر مال خط ہو۔ 1853نے مارچ

" اس وقت جب بارش ہورہی ہے اور بے باک ہوا چل رہی ہے۔ اور مجھے

رات سوائے شراب پینے کے اور کوئی کام نہیں ہے۔ تمہارے تین خط

(۴۶)ے۔"پے درپے پہنچے۔۔ پہلے خط کا جواب تیار کرکے آگرے بھیج دیا ہ

اگر شاعری کے عالوہ غالب بادہ و صنم کا تذکرہ نہ بھی کرتے تو وہ کوئی ایسی ڈھکی چھپی

ہے۔بات نہ تھی۔ البتہ یہ غالب کی جرات انداز

تصوف میں صوفیاء کے ہاں جبر و قدر کے مسئلے پر صدیوں سے اتفاق و اختالف اور

ہیں۔ یوں تو آسمان )خدا( کو تمام مسائل و مختلف آراء و دالئل و براہین پیش کئے جاتے رہے

مصائب اور آرام و تکالیف کا پیش خیمہ و ذمہ دار ٹھہرانا فارسی و اردو شاعری کی روایت

آسمان کو تمام مصیبتوں کے نزول کا سب نہیں کہا۔ بلکہ وہ کلیتا ہے۔ مگر غالب نے روایتا

ھے گئے چوتھے مکتوب میں وہ اس ل تھے۔ مولوی رجب علی جان کو لکنظریہ جبر کے قائ

امر کا بڑے واضح انداز میں اظہار کرتے ہیں۔

"میں چونکہ ہر صفت، ہر فعل، اور ہر امر کو منجانب ہللا

سمجھتا ہوں، اور خدا سے جھگڑا جائز نہیں۔ اسلئے جو کچھ بھی

(۴۷)ہوا۔ اس سے بے غم ہوا۔ اور جو کچھ گزرا اس پر خوش۔"

کے نام خط میں لکھتے ہیں۔منشی بنی بخش مرحوم

261

"ہم تو روزگار کے تباہ کئے ہوئے ہیں۔ کس سے داد رسی مانگیں

اور منصفی کیلئے کس کے در پر جائیں۔ آسمان کے مارے ہوئے

نے حد ادب کا خیال نہ رکھتے ہوئے اپنی ایک غزل غالب

اس طرح دہائی دی ہے۔

سپہر را تو بتاراج ما گذاشتہ ای

۔د در خزانہ ئستنہ ہرچہ دزد زما بر

"سنتے ہیں کہ نو سر میں مہا راجہ کو اختیار ملے گا

ایسا ہوگا جیسا خدا نے خلق کو دیا ہے۔ سب کچھ اپنے

بدنام کیا ۔ ہاں ملے گا مگر وہ اختیار قبضہ قدرت

(۴۸)میں رکھا آدمی کو۔

ترجمہ:۔

آسمان کو تو نے ہماری لوٹ مار کیلئے مامور کیا ہوا ہے)تو کیا(

تو نہیں کہ قزاق جو ہم سے لوٹ کر لے گیا ہے تیرے ایسا

(۴۹)ہی خزانے میں موجود ہے۔"

ہود کا ہے۔ غالب کا مشہور ف مسئلہ وحدت الوجود اور وحدت الشتصوف کا ایک اور معرو

شعر ہے۔

عشرت قطرہ پے دریا میں فنا ہوجانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا۔

ھرت پور ہے۔ اس خط میں ام جانی بانکے الل وکیل راج باور فارسی کا ایک مکتوب جو بن

ے کہ کہ وحدت الوجود کے اس نظریئے کا بیان ہے جو اس بات کی داللت ہ غالب صریحا

262

قارئین کی نذر ہے۔ ل تھے۔ خط سے اس اقتباس کا اردو ترجمہ غالب وجودی نظریئے کے قائ

جو غالب کی وجودی ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔

وں کا عقیدہ ہے اور میں بھی اس پر کاربند ہوں کہ قطرہ عین دریا ہے۔"موحد

(۵۰)لیکن ایسا بھی نہیں کہ دریا کی رانی قطرے پر ظلم نہیں کرتی۔"

غالب کے خطوط کا موضوعاتی جائزہ لیتے رہیں تو قدم قدم پر غالب کی شخصیت کے لئے

ایک انسان جو محسوس کرتا ہے۔ اس رنگ بکھرے نظر آئیں گے۔ غالب ایک انسان تھے۔ اور

تی ہے۔ جو دیکھتا ہے۔ جو سوچتا ہے۔ جو پرکھتا ہے۔ جن ناکامیوں کا شکار ہوتا ہے۔ جن بی پر

محرومیوں سے پاال پڑتا ہے ۔ اسی سے اسکی سوچ ، شخصیت، بنتی ہے۔ انسان کا ماحول

سوچتے دیکھتے،اسکی فکری تربیت گاہ ہے۔ لہذہ غالب ایک حساس انسان کی طرح جو کچھ

پرد قلم کرتے ہیں۔ کبھی بزبان شعر، تو کبھی بہ انداز نثر۔اور محسوس کرتے ہیں۔ اسے س

کا ایک اہم موضوع جسکا اردو اور فارسی مکاتیب میں بہت تکرار سے غالب کے خطوط

ذکر ہے۔ وہ غالب کی نجی زندگی اور بدقسمتی۔ وہ اپنی قسمت سے شاعر ضرور ہے۔ لیکن

جہد کرتے ہیں۔ مگر مستقبل میں سیکھنے والی محرومیاں اور ونہیں ہیں۔ وہ جدکم حوصلہ

ناکامیاں اسے نا امید کردیتی ہیں۔ جانی بانکے الل کو ایک فارسی مکتوب میں جو کچھ غالب

نے لکھا ہے۔ اس کا ترجمہ ذیل میں ہے۔

ں قیام اختیار کیا ہے۔ تم نے لکھنو می کہ" جس دن سے

اور تمہاری تحریروں سے یہ ظاہر ہوا ہے۔ کہ تمہیں قطب

الدولہ کے ساتھ جو شاہ ) واجد علی شاہ( کے خاص مزاجیوں میں

دل میں سوچتا تھا اور کہتا سے ہے۔ قربت و انسیت حاصل ہوگئی

تھا کہ ع ۔۔۔۔ باشد کہ ہمیں بیغہ بر آرد یرو بال۔

قصہ کو تاہ طرح )ترجمہ(:۔ ممکن ہے یہی انڈا پروبال نکالے

طرح کی خواہشات )دل میں ( رکھتا تھا۔ اور مجھے یقین تھا کہ

263

میر احمد حسین جو میرے لیئے میرے بیٹے کی حیثیت رکھتا ہے

اور خوش بختی کی پیشانی رکھتا ہے۔ عجب نہیں کہ قطب الدولہ

رتے کہ وہ شاہ اودھ )واجد علی شاہ( سےکو اس پر آمادہ ک

دربار شاہی سے میرے نام فرمان طلب میرا ذکر کرلے۔ اور

بھیجا جائے تاکہ میں لکھنو پہنچوں اور بادشاہ سے ملوں۔ میری نا

کامیوں کا دور ختم ہو۔ مگر واہ ری میری تقدیر کہ وہ ہنگامہ خیال

(۵۱)اور وہ ساری امیدواری مایوسی میں تبدیل ہوگئی۔"درہم برہم ہوگیا۔

غالب ک ہ ہیں۔ چاہے وجوہات داخلی ہوں یا وب زندگی کا نوحے خطوط اس کی پرآشمختصرا

ول، گزر اوقات کیلئے روپے کا حصضے، پنشن کی بندش، قرض جو اپنوں کے تقاخارجی

زمانے کی ناقدری، مایوسی، ، محرومی یہ غالب تھے کہ جن کا حوصلہ اور عزم پھر بھی

چٹان تھا۔

لکھتے ہیں۔ جب انھیں واجد علی شاہ کی جانی بانکے الل وکیل کے نام ایک اور خط میں مزید

صحت یابی کی خبر ملی۔

"تم نے انتہائے بیماری کے رفع ہونے اور غسل صحت کے ارادے

ز جمعرات لکھا ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو لیکن وہ بات نہیں کا برو

لکھی جس سے دل کو تقویت ملے اور امید بندھے۔ جشن غسل صحت

پاکیزہ تقریب ہے۔ کیا اچھا ہو کہ یہ خط جو میںقصیدہ نذر گزارنے کیلئے

کل سپرد ڈاک ہوگا۔ ابھی تمہیں نہ مال ہو۔تمہیں آج لکھ رہا ہوں۔ اور

(۵۲)کہ میرا قصیدہ بادشاہ تک اور بادشاہ کا عطیہ مجھ تک پہنچ جائے۔"

اسی طرح ایک اور خط میں کچھ یوں لکھتے ہیں۔

264

یں۔ اور نواب صاحب کو پہنچا "جان من قصیدہ پہنچ رہا ہے۔ خود پڑھ ل

دیں۔ اور اس امر کی کوشش کریں کہ بادشاہ کی نظر سے گزرے اور

صلہ حاصل ہو ۔۔۔۔۔ چونکہ مدعا تو رقم کا حصول ہے۔ خود سوچیں

یہ رقم لکھنو سے مجھے کس طرح بھیجیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں شہر میں

اگر انہیں قرض دار ہوں اور )اسی شہر میں( میرے ڈگری دار بھی ہیں۔

تو ڈگریاں پیش کرکے مجھ سے عدالت کے حکم زور پر یہ رقم خبر ہوگئی۔

(۵۳)"چین کر لے جائیں گے۔

اہی آئینہ دار ن کی ذاتی زندگی، شخصیت کگویا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خطوط غالب ا

کے نہیں، بلکہ ان کے خطوط میں معاشرتی عناصر بھی نظر آتے ہیں۔ ایک طرف اگر ان

اجی اور خطوط ان کی شخصیت کے آئینہ دار رہیں تو دوسری طرف تاریخی، سیاسی، سم

ندگی کرتے ہیں۔ شاعری میں فکر کا عنصر ہے، تخیل کی معاشی حاالت کی بھی نمائ

کارفرمائی ہے اور فلسفیانہ رنگ غالب ہے۔ جبکہ خطوط میں وہ بے تکلفانہ گفتگو کرے نظر

ر و عافیت دریافت کرنے یا اپنی خیریت سے مکتوب الیہ کا آتے ہیں۔ عام طور پر خطوط خی

باخبر کرنے کیلئے لکھے جاتے ہیں۔ لیکن غالب نے ان میں جدت پیدا کی۔ ان کے خطوط میں

ادبی، علمی، اور لغوی مباحث کثرت ہے۔ انہوں نے اپنے معاصرین کا ذکر بھی بڑے اہتمام

شعارکی تشریح ان کے کالم میں بکثرت عراء کے کالم پر رائے اور مشکل اشسے کیا ہے ا

موجود ہے۔ امال کی تصحیح ہو، الل قلعے کا حال ہو، بہادر شاہ کی بیماری کا ذکر ہو،

قرضے کا تذکرہ ہو، اپنے مذہبی اعتقادات کا ذکر ہو، شغل شراب کی بابت بات ہو، مغلیہ دور

ی بیماری آزاری اور تکلیف رونا ہو، اپن اکی زوال کی داستان ہو، زمانے کی بے قدری کا رون

غالب کے پر درد ہو، یا انگریز بہادر کی آمد اور دلی کی تباہی کا مرثیہ، یہ تمام باتین کا قصہ

خطوط کا موضوع بنتی چلی جاتی ہیں۔ اور وہ اس پر بے تکلفی سے اظہار کرتے جاتے ہیں۔

ے بعد رام پور، جے کبھی اپنے حال پر روتے ہیں۔ تو کبھی احباب کی جدائی پر جو تباہی ک

پور، اور پانی پت اور لکھنو تالش رزق میں جانکلے تھے۔

265

اس عہد کی معاشرت موجود یوں بھی کسی بھی ادیب کی تحلیقات میں نہ چاہتے ہوئے بھی

ہوتی ہے۔ بسا اوقات وہ اپنے خیاالت گردوپیش کی چیزوں سے متاثر ہوکر اپنی تحریروں میں

پیش کرتا ہے۔ اس طرح اس کی تحریروں میں زمانے کا رنگ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ یہ خوبی

ہوا غالب کے خطوط میں بھی ہے۔ اسی کے خطوط میں جابجا سیاسی و معاشرتی رنگ لکھا

ہے۔ خطوط غالب کا مطالعہ کرنے واال یوں محسوس کرتا ہے جیسے وہ غالب کے عہد میں

وہ وہر کے نام ہے۔غالب کا وہ خط جو منشی جوہر سنگ جہی جی رہا ہو۔ مثال کے طور پر

امجد علی شاہ کی وفات کے بعد اس دور کا سیاسی منظر نامہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔

نشین ہوا تو اس کے نااہلی و بد دماغی کا ذکر غالب نے اپنے فارسی جب اسکا بیٹا تخت

مکتوب جسکا ترجمہ ذیل میں درج ہے یوں کہا ہے۔

"آج کل لکھنو کا حال دگر گوں ہے۔ وہ بادشاہ ) امجد علی شاہ( کہ جس

ثنا گری میں کرتا تھا اور جس تک میرے دوست ) اعتقادالدولہ نوروزعلی خان(

چانک فوت ہوگیا۔ اس کا بیٹا جو اس کی جگہ تخت نشین ہوا ہے۔کی رسائی تھی۔ ا

وں کو ڈھانے کا حکم دے دیا۔ الزمی فتنہاغ و بدرائے ہے۔ اہل ہنود کے معبدبد دم

فساد برپا ہونا تھا۔ شہر کے بد معاشوں نے اس کے وزیر کو بازار میں پکڑ لیا۔ تلوار

نڈھال چھوڑ کر چلےکے دو تین وار کئے ادھ موا کردیا۔ اور اسی طرح

و تدبرنام کے عالوہ کسی سے رعبت نہیں۔ ہوش مندیگئے۔ گانے بجانے والوں

(۵۴)کہ یہ ہنگامہ فرد اور امن و امان صورت پذیر ہو۔"کو نہیں۔ طویل مدت چاہیئے۔

آگے چل کر اسی خط میں لکھتے ہیں۔

کیا تمہارےچہ معنی دارد۔۔۔ "شہزادہ شاہ رخ کی موت پر حیرت و تعجب کا اظہار

خیال میں شاہوں اور شاہزادوں پر موت کا بس نہیں چلتا! ہاں شاہ رخ شکار

سے واپسی پر جب میرٹھ کے قریب پہنچا تو ہیضہ میں مبتال ہوکر اسی عالقے میں

266

(۵۵)فوت ہوگیا۔"

مرزا ہرگوپال تفتہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔

اس سے دو دن پیشتر کہ" ہائے عہد کہ مجھ پر محرم سے زیادہ گزری

لوگ شام کو ماہ نو دیکھیں اورصبح عید منائیں۔ )بہادر شاہ( کی طبیعت

۔ اور شدید بخار اور خطرناک اسہال میں مبتال ہوگئے۔۔۔۔۔خراب ہوگئی

خون کی خدت رفع نہیں ہوئی اور دست بند ہونے میں نہیں آتے۔۔۔

گھر سےمانگ کر روزانہ قلعے میں جاتا ہوں کھانا کبھی شاہزادوں کے

کھاتا ہوں اور شام کے وقت پے غم کدے میں آجاتا ہوں اور کبھی

دوپہر اپنے گھر کھانا کھاتا ہوں۔ آج تک تو یہی مصروفیت ہے۔ کل کی خبر

(۵۶)نہیں کیا پیش آئے۔"

غالب کے خطوط کا ایک بڑا اہم موضوع زبان کے قواعد اور اسرار و رموز کی درستگی

کی اصالح اور شعری تصحیح کا ہے۔ یہاں غالب کی شخصیت ایک ماہر اور اپنے شاگردوں

فن اور ماہر لسانیات کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ معلوم یہ پڑھتا ہے کہ غالب قدم قدم

پر اپنے شاگردوں کی علمی رہنمائی فرماتے تھے اور انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے تھے ان

ے علمی مباحث ہیں۔کے بیشتر خطوط کا موضوع اسی قسم ک

نواب انوار الدولہ سعدالدین خان بہادر شفق کو لکھتے ہیں۔

"فعل الزم کو جب متعدی کہا جائے تو پہلے مضارع میں مصدر بنالینا چاہیئے۔

گر یدن مصدر مضارعی گرد اندن و گشتن مصدر اصلی گرود مضارع

متعدی موافق اس قاعدہ کے گر اندن و گردان گردان نیدن، مصدر

دناعدہ کے کردن کا متعدی کناندن و کنانیندن، مصدر متعدی موافق اس قنی

267

جیسے چلنے کی فارسی چلیدن، اور یہ شوخیہے نہ کراندن۔ تو کرانے کی فارسی ہے۔

ظرافت ہے۔ نہ اس سے صحت ہے نہ لطافت کراندن غلط اور کنا نیدن صحیح و طبع

کہیں گے۔ بلکہ گردیدن وروئیدن۔۔۔ گشتن کو گشتاندن اور استن کورستاندن نہ

لغا کے کالم میں کردن کا متعدی شاید کہیںکر گرداندن وروباندن لکھیں گے۔ ب بنا

تذکیر و 12کراندن ٹکسال باہر ہے۔ نہ آیا ہو۔ اگر آیا ہوگا کنا نیدن آیا ہوگا۔

تانیث کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ دہی بعض کہتے ہیں دہی اچھی، قلم کوئی کہتا ہے

ٹوٹ گیا، کوئی کہتا ہے قلم ٹوٹ گئی۔ فقیر )غالب( دہی کو مذکر بولتا ہے اورقلم

شنگرف بھی مذبذب ہے کوئی مذکر اور کوئی ھی مذکر جانتا ہے۔ علی ہذا لقیاس قلم کو ب

مچدان کےمؤنث کہوں گا۔ خالصہ یہ کہ اس ہ مؤنث کہتا ہے۔ میں تو شنگرف کو

(۵۷)ند"اوخد 12نزدیک کردن کا متعدی کنا یندن ہے اور شنگرف مؤنث

مینا مرزا پوری کو لکھتے ہیں۔

"بندہ پرور لکھنو اور دہلی میں تذکر و تانیث کا بہت اختالف پائیے گا۔ سانس

میرے نزدیک مذکر ہے لیکن اگر اہل لکھنو اسے مؤنث کہیں تو میں ان کو منع

کو مؤنث نہ کہوں گا۔ آپ کو اختیار ہے جو چاہیئے کہیںنہیں کرسکتا خود سانس

لیکن جفا کے مؤنث ہونے میں اہل دلی و لکھنو کو باہم اتفاق ہے کبھی

(۵۸)کوئی نہ کہیں گا جفا کیا"

مکتوب میں لکھتے ہیں۔ اردو مرزا یوسف علی خان کو اپنے ایک

شین ہوکہ ن "سعادت و اقبال نشان مرزا یوسف علی خان کو بعد دعا کے دل

تانیث و تذکیر ہر گز متفق علیہ جمہور نہیں اے لو لفظ اس ملک کے لوگوں

268

کے نزدیک مذکر ہے، اہل یورپ اس کو مؤنث بولتے ہیں۔ خیر تو میری زبان

(۵۹)پر ہے وہ میں لکھ لیتا ہوں۔ اس باب میں کسی کا کالم خجت و برہان نہیں ہے۔"

توب میں لکھتے ہیں۔منشی ہرگوپال تفتہ کو اپنے فارسی مک

"بیش از بیش اور کم از کم ایسی چیز نہیں کہ جب تک کالم جامی اور اسیر سے

یں۔ یہ ایک پسندیدہ طرز اظہار ہے اور دلکش بیان۔ہم نہ مانکوئی نظیر نہ ملے

بلکہ اگر بیشتر از بیش و کمتر از کم لکھیں گے تو مضحکہ خیز بات ہوگی۔ مجھے

کہ تسویہ کے جواز کے موقع پر یا منع تسویہ کی جگہ کمتر میں ہے دراصل کالم اس

جائے گا( جامی کا مقصد تسویہسکتا ہے۔ یا نہیں یا )صرف( کم )دیکھالکھا جا

نہیں بلکہ جب وہ کہتا ہے "کم از صد غم" تو اس سے اس کی مراد ننانوے

نہیں ہوتی۔ ہاں اس طرح اگر ہندی کی عبارت کی فارسی کریں "چاند کی

نی آفتاب کی روشنی سے کم ہے تو اس کو اس طرح لکھیں "روشنی روش

(۶۰)ہذا القیاس۔۔۔" ماہ از فروغ مہر کم تراست "چشم ما از رختہ دیوار کم تر نیست" علی

خطوط غالب کا بیشتر حصہ )چاہے فارسی زبان میں ہو یا اردو میں( شاگردوں کی اصالح کی

کرتے تھے۔ یہ حقیقت اظہر یرمشتمل ہے۔ جن کی اصالح، دلجوئی، یا تع ف غالب تحریرا

من الشمس ہےکہ جنگ آزادی کے بعد غالب کے شاگرد، روزگار کی تالش میں مختلف

وہ بذریعہ خط و عالقوں اور شہروں کی طرف نقل مکانی کرگئے۔ یا پھر نکالے گئے۔ لہذا

وضوع پر کتابت غالب سے اصالح لیتے رہے خطوط غالب کا ایک ضخیم حصہ صرف اس م

تالیف و مدون ہوسکتا ہے۔ غالب کے شاگرد جو شعری مسودے اصالح کی نیت سے ارسال

کرتے تھے غالب بداز اصالح انہیں روانہ کردیتے تھے۔ خطوط غالب سے اس کی کئی ایک

مثالیں غالب کے قاری کو ملیں گی۔ مرزا ہرگوپال تفتہ کو لکھتے ہیں۔

کر بھیجا ہے۔ تکلف خط بناارسل، جس کو تم نے بہ صاحب! دوسرا پ

269

سطور کا پیچ و تاب سمجھ میں آتا ہے۔ پہنچا، نہ اصالح کو جگہ، نہ تحریر

تم نے الگ الگ دو رقع پر کیوں نہ لکھا۔ اور چھدرا چھدرا کیوں نہ

(۶۱)لکھا۔ ایک آدھ رقعہ زیادہ ہوجاتا تو ہوجاتا"۔

بھائی!

کارہ آیا۔ اور ایک خط تمہارا اور ایک خط ر"پرسوں شام کو ڈاک کا پ

جانی جی کا الیا۔ تمہارے خط میں اوراق اشعار بابوجی کے خط میں جے پور

کے اخبار دو دن سے مجھ کو وجع الصدر ہے۔ اور میں بہت بے چین

ہوں۔ ابھی اشعار کو دیکھ نہیں سکتا۔ بابو صاحب کے بھیجے ہوئے کو اغذ

(۶۲)دو چار روز کے بھیجے جائیں گے۔" تم بھیجتا ہوں، اشعار بعد

تفتہ ہی کو لکھتے ہیں

"میں نے مانا تمہاری شاعری کو۔ میں جانتا ہوں کہ کوئی دم تم کو فکر

التزام کیا ہے ترصیع گی صفت سخن سے فرصت نہ ہوگی۔ یہ جو تم نے

کا اور دولخت شعر لکھنے کا۔ اس میں ضرور نشست معنی بھی ملخوط رکھا کرو۔

(۶۳)بارہ دیکھا کرو۔"جو کچھ لکھو اس کو دوبارہ سہ اور

تفتہ کو اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہے۔

تم اپنے کالم کے بھیجنے میں مجھ سے پرسش کیوں کرتے ہو؟

سخن سنج رچا جز ہیں تو بیس جز ہیں تو ، بے تکلف بھیج دو۔ میں شاع

اب نہیں رہا۔ صرف سخن فہم رہ گیا ہوں۔ بوڑھے پہلوان کی

طرح پیچ بتانے کے گوں ہوں۔ بناوٹ نہ سمجھنا، شعر کہنا مجھ

270

وٹ گیا۔ اپنا اگال کالم دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوںسے بلکل چھ

(۶۴)کر کہا تھا۔ قصہ مختصر وہ اجزا جلد بھیج دو۔"کہ یہ میں نے کیوں

"مرزا تفتہ!

(۶۵)ی کبھی تمہارے کالم میں نہیں دیکھی تھی کہ شعر ناموزوں ہو"یہ غلط

میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں۔

"جان غالب!

(۶۶۔ ) ء 1860تمہارا خط پہنچا، غزل اصالح کے بعد پہنچتی ہے" "

"ہاں صاحب!

کیا چاہتے ہو؟ مجتہد العصر کے مسودے کو اصالح دے تم

کیا لکھوں؟ تم میرے ہم عمر نہیں جو سالم لکھوں۔کر بھیج دیا۔ اب اور

ریدا کرومیں فقیر نہیں جو دعا لکھوں۔ تمہارا دماغ چل گیا ہے۔ لفافے کو ک

(۶۷۔ )ء1861مسودے کو بار بار دیکھا کرو پاؤ گے کیا ؟"

میاں داد خاں سیاح کو لکھتے ہیں۔

ہوں کہ"سعادت و اقبال نشاں، منشی میاں داد خاں سے بہت شرمندہ

ن کے خطوط کا جواب نہیں لکھا۔غزلونمسودے گم ہوگئے۔ اسا

(۶۸۔ )ء 1860شرمندگی سے پاسخ نگار نہ ہوا۔" )صبح دو شنبہ دسمبر

میاں داد خاں سیاح کو ایک دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں۔

منشی صاحب!

271

لکھتا "تمہارے خط پہنچنے کی تمہیں اطالع دیتا ہوں اور مطالب مستفسرہ کا جواب

ء1861جنوری یا فروری "ہوں

"صاحب!

"مہر سالم تمہارا خط پہنچا۔ دونوں غزلیں دیکیں خوش ہوا۔ فقیر کا شیوہ

خوشامد نہیں۔ اور فن شعر میں اگر اس شیوے کی رعایت کی جاوے تو

شاگرد ناقص رہ جاتا ہے۔ یاد کرو کبھی کوئی غزل تمہاری اس طرح کی نہیں

(۶۹۔ )ء1862جون 17سہ شنبہ اصالح نہ ہوئی ہو"کہ جس میں

بنام میاں داد خاں سیاح!

"میں تم سے شرمندہ ہوں۔ پہال خط تمہارا مع قصیدہ پہنچا میں قصیدہ کسی کتاب میں

(۷۰۔ )ء1862جون 17سہ شنبہ رکھ کر بھول گیا۔ دوسرا خط دیکھ کر قصیدہ یاد آیا۔"

و لکھتے ہیں۔چودھری عبدالغفور سرور ک

"جناب چودھری صاحب کی یاد آوری اور مہر گستری کا شکر بجا التا ہوں۔

(۷۱)آپ کا خط مع قصیدہ و مثنوی مال"

ء میں لکھا ہے اس میں یوں 1859مرزا خاتم علی کو جو مکتوب غالب نے اپریل

رقمطراز ہیں۔

میں نے دیکھا ہے۔"تمہارا خط اور قصیدہ پہنچا۔۔۔۔۔۔ انشاءہللا خاں کا بھی قصیدہ

تم نے بہت بڑھ کر لکھا ہے۔ اور اچھا سماں باندھا ہے۔ زبان پاکیزہ، مضامین اچھوتے،

(۷2)معانی نازک، مطالب کا بیان دلنشیں زیادہ کیا لکھوں۔"

"ظہوری کی غزل پر خوب غزل لکھی ہے۔ دوسری غزل کے باب میں

عاشقانہ مضامین اس سے زیادہ نہیں کہ سکتا کہ طالب علمانہ ردیف میں

272

(۷۳)اچھے درج کئے ہیں۔"

دان علی خاں رعنا کو لکھتے ہیں۔مر

(۷۴)"کاغذ اشعار میں نے دیکھ لیا کہیں اصالح کی حاجت نہ تھی۔"

"بندہ پرور!

کل دو پہر کو آپ کی عنایت نام کے ساتھ ہی جناب

ہوں غزلاخگر کا مہربانی نامہ مع غزل پہنچا۔ آج جواب آپ کو لکھتا

(۷۵)میں نے دیکھ لی۔ سوائے دو ایک جگہ کے کہیں اصالح کی حاجت نہ تھی"۔۔۔

موالنا احمد حسین مرزا پوری کو دوسرے خط میں لکھتے ہیں۔

"جان غالب!

کل تمہاری دو غزلیں بعد اصالح، ٹکٹ دار لفافے کے اندر رکھ کر بھجوادی

ہے۔ہیں۔ مطلع تو تم نے میری زبان سے کہا

پر ائے یوسفی ہے لوٹ قاتل کے لڑکپناد

سواد دیدہ یعقوب کے دبے ہیں دامن پر

اس زمین میں میری غزل بھی ہے۔ اور ناسخ و آتش کی بھی غزلیں

دیکھی ہیں۔ تم نے بہت بڑھ کر لکھا ہے۔ گردن کا قافیہ نے میں

بھی مجھے پسند آیا ہے۔

نزاکت ان کی وقت قتل، مقتل میں یہ کہتی ہے

یہ آنے خون ناحق جس سے انہیں اس کی گردن پرعرض

کہ ساری غزل بے مثل و الجواب ہے۔ کیوں نہ ہو، ابھی

273

زمین شعر کو آسمان پر پہنچایا ہے۔ اس تمہارا شباب ہے۔

(۷۶)غزل میں تو تم نے جوانی کا زور دکھایا ہے۔"

شیخ لطیف احمد بلگرامی کے نام مکتوب میں غالب یوں رقمطراز ہیں۔

"تمہارا مسودہ آیا۔ کمتر جگہ اصالح کی پائی۔

(۷۷)روش بھی مجھے پسند آئی۔ دل خوش ہوا"

بات ہوسکتی ہے۔ لیکن طوالت کے اگر چہ اس باب میں اس موضوع پر اور بھی تفصیال

غالب نے لب سے اس بات کی غماز ہیں کہہ مذکورہ باال چند مثالیں خطوط غاخوف سے ی

اصالح شعری تھا۔ اور ان کے وہ شاگرد جو ے ہیں جن کا مقصد کثرت سے ایسے خطوط لکھ

ان سے استفادہ کرتے رہتے فوقتا سخ گشتری سے شعف رکھتے تھے۔ گاہے بہ گاہے، وقتا

تھے۔

274

حوالہ جات

غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی )سنہ جلد دوم، غالب کے خطوط، خلیق انجم، (1

501 ،502 ص ء(2006اشاعت

2) 504 ص ایضا

3) 514 ،515 ص ایضا

4) 500 ص ایضا

غالب انسٹی ٹیوٹ ایوان غالب مارگ نئی غالب کے خطوط جلد اول، خلیق انجم، (5

266، 267، 268ص ء( 2000دہلی )سنہ اشاعت

غالب کے خطوط جلد اول تیسرا ایڈیشن غالب انسٹی ٹیوٹ ایوان غالب خلیق انجم، (6

، 19ص ء( 2000)سنہ اشاعت مارگ نئی دہلی

18

مارچ 6مبارک علی ایڈیشن مرزا اسدہللا خان غالب دیباچہ اردوئے معلی (7

ء 1869

ہیلہ : کلیات مکتوبات فارسی غالب۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم آباد اشاعت وپرتور (8

فارسی 427ء ص 2008

9) اردو 6ص ایضا

ء ص 1969فروری 6بر شاہین پریس پشاور شمارہ نم بر خیابان غالب نم (10

41

لب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ( غاغالب کی مکتوب نگاری پروفیسر نذیر احمد ) (11

255ء ص 2003سال اشاعت

35ء ص 1969غالب نبر خیابان شاہین برقی پریس پشاور سال فروری (12

13) 37 ص ایضا

پرتور وہیلہ ، غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ داراالشاعت بزم و فن (14

42 ص ء 2000پاکستان انٹرنیشنل اسالم آباد سن اشاعت

275

15) 20 ص ایضا

غالم رسول مہر، خطوط غالب شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم (16

78ء ص 1962

17) 206 ص ایضا

" داراالشاعت بزم علم ترجمہ اردو خطوط کاغالب کے فارسی " پرترور و ہیلہ (18

109ء ص 2000 اشاعت ہسن اکستان انٹرنیشنل اسالم آباد و فن پ

ک فاؤنڈیشن اسالم آباد سن اشاعت پرتور وہیلہ، کلیات مکتوبات فارسی غالب نیشنل ب (19

298ص ء 2008

پروفیسر نذیر احمد ، غالب کی مکتوبات نگاری، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سال (20

281ص ء 2003اشاعت

خلیق انجم : غالبکے خطوط جلد دوم م غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سن اشاعت (21

501ص ء 2006

22) 502 ص ایضا

23) 527۔ 528 ص ایضا

24) 233 ص ایضا

25) 236 ص ایضا

ای (26 236۔ 237 ص ضا

27) 643 ص ایضا

28) 295 ص ایضا

29) 491 ص ایضا

30) 517 ص ایضا

31) 791۔ 792 ص ایضا

32) 270 ص ایضا

33) 326 ص ایضا

34) 533 ص ایضا

35) 526 ص ایضا

276

36) 525 ص ایضا

پرتور وہیلہ ۔ غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ داراالشاعت بزم علم و فن (37

19ص ء 2000پاکستان انٹرنیشنل سن اشاعت

38) 39 ص ایضا

39) 39 ص ایضا

40) 63 ص ایضا

41) 85 ص ایضا

42) 64 ص ایضا

43) 43 ص ایضا

44) 84 ص ایضا

45) 97 ص ایضا

46) 99 ص ایضا

47) 101۔ 102 ص ایضا

پرتور وہیلہ ، غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ داراالشاعت بزم علم و فن (48

23ص ء 2000انٹرنیشنل سن اشاعت پاکستان

49) 23۔ 24ص ایضا

50) 77۔ 78ص ایضا

ء 1961سال اشاعت 6خلیق انجم ، غالب کی نادر تحریریں مکتبہ شاہراہ دہلی نمبر (51

32، 33ص

52) 98ص ایضا

53) 99ص ایضا

خلیق انجم ۔ غالب کے خطوط ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی تیسرا ایڈیشن سن اشاعت (54

233ء ص 2000

55) 350ص ایضا

56) 260ص ایضا

57) 273ص ایضا

277

58) 341ص ایضا

ی جلد دوم سنہ اشاعت لب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلخلیق انجم ، غالب کے خطوط ، غا (59

523ء ص 2006

60) 532ص ایضا

61) 550ص ایضا

62) 557ص ایضا

63) 558ص ایضا

64) 596ص ایضا

65) 718، 719ص ایضا

66) 811ص ایضا

67) 824ص ایضا

68) 827ص ایضا

69) 829ص ایضا

70) 831ص ایضا

278

پانچواں باب

اردو، فارسی خطوط کا تقابلی غالب کے

جائزہ

279

اس زمانے کی سیاسی ،معاشی ، حال کا جائزہ لینے سے پہلے صورتادبی کسی زمانے کی

تاریخ ایک معاشرتی ، تہذیبی اور اقتصادی صورت حال کا جائزہ لینا ضروی ہوتا ہے کیونکہ

حقیقی عمل ہے اور ہر زمانے اور ہر دور کے چشمے اس سے پچھلے زمانے سے نکلتے

ہیں اور یہ حال بر صغیر کا بھی ہے غالب نے بھی اسی دور میں آنکھ کھولی تھی یا کہہ

سکتے ہیں کہ اس سے پہلے اس دنیا میں آچکے تھے۔ برصغیر کے اس ادبی منظر نامے پر

( سے برصغیر پاک و ہند کی تقسیم تک جن مشاہیر ادب نے اپنے دور ء۱۸۵۷یا جنگ آزادی )

کی سیاسی تبدیلیوں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطے کے لیے عملی اقدامات سرانجام دیے ان کا ذکر کرنا نہایت ضروری جنہوں نے اس

ہے کیونکہ اس خطے کی مجموعی حاالت کا جائزہ اگر لیا جائے تو مذکورہ حاالت اس منظر

نی ادبی، اور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ موجود تھی۔نامے پر اپ

ء سے پہلے برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کی سیاسی و اقتصادی صورتحال کے ۱۸۵۸

خالف اس سرزمین کے رہنے والوں میں پیدا ہونے والے شعوری رد عمل سے لیکر تحریک

ا جائے تو غلط نہ ہوگا آزادی تک کے دور کو ہندوستان کی تاریخ کو اگر شدید ابتدائی دور کہ

ہندوستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں کسی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی شروع میں

ہندوستان پر مسلمان حملہ آور ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر انگریز

میاں تجارت کی عرض سے نمودار ہوئے اور آخر کار انگریز ہندوستان کے حکمران بن

ے، اس کے بارے میں ممتاز حسین، جنگ آزادی کا اثر ہمارے کلچر اور ادب پر" گئ

ء کی جنگ آزادی کے بارے میں لکھتے ہیں۔۱۸۵۸

ہندوستان کی تاریخ میں انگریز بحیثیت ایک

ء کی جنگ پالسی کے ۱۸۵۸طاقت کے

بعد ہمارے سامنے آئے۔ اسی زمانے سے

یا انھوں نے ہندوستان کو فتح کرنا شروع کرد

ء ۱۸۱۸اور اس تیز رفتاری کے ساتھ کہ

تک انھوں نے سارے ہندوستان کو بجز پنجاب

اور سندھ کے فتح کرلیا"۔

(۱)

فیصد قابض ہوچکے تھے۔ برصغیر ۸۰پالسی جنگ کے بعد انگریز ہندوستان پر تقریبا اسی

کے تھے اور ان پاک و ہند سیاسی، معاشی اور اقتصادی سطح پر اس وقت انتہائی خراب ہوچ

سب کی وجہ مرکز کی کمزوری اور حکمران خاندانوں کے درمیان دشمنی تھی اور اسی

طرح آہستہ آہستہ جو لوگ تجارت کی عرض سے یہاں آئے تھےاب وہ ہندوستان کے بڑے

280

بڑے شہروں کے حکمران بن چکے تھے۔ جیسے بنگال، دہلی میسور، اور اودھ پر ان کی

اور پھر کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا قیام اس وقت تک برصغیر حکمرانی قائم ہوچکی تھی

پاک و ہند میں انگریزوں نے اپنے دلوں میں یہاں کے عوام میں اپنے لیے انتہائی نفرت اور

سرکشی کے جذبات پیدا کرچکے تھے۔

انگریزوں نے پہلے یہاں مذہبی جذبات کو ہوا دی اور پھر دوسری معامالت میں دلچسپی لینی

شروع کردی اور آخر یہی ہوا کہ فوج نے اولین سرکشی میرٹھ پر کردی اس کے بارے میں

سرسید احمد خان "کیا" سبب ہو ہندوستان کی سرکشی کا" کے نام سے سرکشی کے اسباب

بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

ء کی سرکشی میں یہی ہوا کہ ۱۸۵۷"

بہت سی باتیں ایک مدت دراز سے لوگوں

مع ہوتی جاتی تھی اور بڑا کے دل میں ج

میگزین جمع ہوگیا تھا۔ صرف اس کی شتابی

میں آگ لگانا باقی تھی کہ سال گزشتہ میں

فوج کی بغاوت نے اس میں آگ لگادی۔ جس

قدر اسباب سرکشی کے جمع ہوگئے اگر غور

کرکے سب کو احاطہ میں الیا جائے تو پانچ

اصول مبنی ہوتے ہیں۔

ی بر عکس سمجھنا ( غلط فہمی رعایا یعن۱)

تجاویز گورنمنٹ کا۔

( جاری ہونا ایسے آئین اور ضوابط اور ۲)

طریق حکومت کا جو ہندوستان کی حکومت

اور ہندوستانیوں کی عادات کے مناسب نہ

تھے یا مفرت رسانی کرتے تھے۔

( ناوقف رہنا گورنمنٹ کا رعایا کے اصلی ۳)

حاالت اور اطوار اور عادات اور ان مصائب

و ان پر گزرتی تھیں اور جن سے سے ج

رعایا کا دل گورنمنٹ سے پھٹا جاتا تھا۔

( ترک ہونا ان امور کا ہماری گورنمنٹ کی ۴)

طرف سے جن کا بجا النا ہماری گورنمنٹ پر

ہندوستان کی حکومت کے لیے واجب اور

الزم تھا۔

281

(۲( بد انتظامی اور بے اہتمامی فوج کی۔ )۵)

کے پاس بہت زیادہ یا بے پناہ فوجی طاقت تھی۔ جس کی بل بوتے کیونکہ اس وقت انگریزوں

ء کی ۱۸۵۷پر انگریزوں نے سرکشی کی تھی۔ یعنی زبردستی حکومت پر قابض ہوگئے

جنگ آزادی نے ہندوستان کی سیاست، مذہب، تعلیم، زبان و ادب، تہذیب و ثقافت غرض زندگی

یونکہ مسلمان کئی سو سال تک اس حطے کے تمام پہلوؤں پر گہرے اثرات چھوڑ دئے ہیں۔ ک

پر حکمرانی کرتے آئے تھے۔ اسی وجہ سے سکھوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا تھا اوران

تما م کا اصل نشانہ صرف اور صرف مسلمان تھے کیونکہ مسلمانوں کو ہر چیز میں فوقیت

تہذیب ہو، ہر حاصل تھی۔ خواہ وہ سیاست، ہو مذہب ہو، دولت، صنعت و حرفت، تعلیم و

اعتبار سے بر صغیر و پاک و ہند صرف مسلمانوں کو فوقیت حاصل تھی۔مرزا غالب بھی اسی

دور میں شاعری میں بھی مصروف تھے اور ساتھ ساتھ خطوط بھی اپنی دوستوں کو لکھ رہے

تھے کیونکہ مرزا غالب کے بقول بارہ برس عمر میں کاغذ نظم و نثر میں مانند اپنے نامہ

ل کے سیاہ کر رہا ہوں اسی دوران میں غالب نے اردو زبان و ادب میں بھی دلچسپی لینی اعما

شروع کی تھی۔ غالب کا اشتیاق شعر و سخن اس قدر بڑھ گیا تھا کہ وہ علمی ادبی محفلوں اور

دہلی کے مشاعروں میں بھی جانے لگے تھے۔ دہلی میں قیام کے دوران غالب کا ذوق شعر و

ء کی جنگ آزادی تک ریاست فیروز پور سے سات سو روپے ۱۸۵۷ا سخن بڑھ گیا تھ

ماہوار بطور جاگیر ملتے رہے۔ اس دور میں غالب کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور بعد

میں اپنا ایک مکان مل گیا۔ اسی دور میں غالب پہلے تاریخ خاندان تیموری لکھی۔ اور اس کے

سے بھی نوازا اور ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ صلے میں بہادر شاہ ظفر نے ان کو انعام

غالب جس طرح تخلیق میں )شعر وسخن( یا نثر نگاری ہو میں یکتا تھے اسی طرح وہ شاہانہ

زندگی بسر کرنے کے بھی دلدادہ تھے۔

جنگ آزادی کے بعد مرزا غالب کی جاگیر اور ان کا وظیفہ ختم ہوگیا اس کے بعد مرزا غالب

صی کمی آگئی تھی اسی دوران میں یوسف علی خان بہادر والٹی رام پور ان کی آمدنی میں حا

کی شاگردی میں آئے تھے تو گاہے بہ گاہے کچھ روپیہ بھیج دیتے تھے کچھ عرصہ کے لیے

ء کی بغاوت کے بعد مرزا کوئی گیارہ ۱۸۵۷انگریز حکومت سے بھی رقم ملتی رہی ۔

لیے بڑے مشکالت و امتحان کا تھا لیکن ان سب بارہ سال تک زندہ رہے اور یہ دور ان کے

باتوں کے باوجود بھی ان کی شاعری اور نثر میں وہی چمک دھمک موجود تھی کیونکہ

ء ۱۸۵۷صرف اس وقت کے شاعر یا نثر نگار نہ تھے بلکہ وہ تو ہمیشہ کے لیے تھے۔

ہیں۔ سے پہلے اور بعد کے حاالت کے بارے میں "غالب اور عہد غالب" میں لکھتے

ء سے پہلے کا زمانہ نسبتا آسودہ ۱۸۵۷

ء میں دہلی آئے اور ۱۹۰۳تھا۔ انگریز

اہستہ آہستہ یہاں کے سیاسی ملکی حاالت پر

اپنی گرفت مضبوط کرتے گئے جس کا اثر

282

عام زندگی پر بہت گہرا پڑا۔ عام زندگی

ناکامی اور احساس کمتری کا شکار ہوگئی دو

ح کے فکری تہذیبوں کے تصادم نے ایک طر

کشمکش کو جنم دیا غالب نے مغلیہ سلطنت

کو ختم ہوتے دیکھا تھا جس کا بہت گہرا اثر

ان کی شخصیت پر پڑا اپنے عہد کے حاالت

سے حد درجہ متاثر ہونے کے باوجود غالب

نے خود کو ان کے حوالے نہیں کیا۔ لیکن اس

کا یہ مطلب بھی نہیں کہ جو نئی آگہی اور

ورہی تھی اس سے غالب نئی صورت پیدا ہ

نے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہیں

کہ اصالح، تعمیر و تشکیل اور تغیر کے اس

ماحول میں غالب کی فکر نئی فضاؤں کی

تالش کرتی رہی غالب نے اپنے اضطراب

اور اپنی بے چینیوں کو کسی طاقت اور قوت

کے خالف انقالب کا نعرہ نہیں بنایا بہت

پنے عہد کے سیاسی اور توازن کے ساتھ ا

(۳سماجی حاالت کی طرف اشارہ کیا۔" )

ء کی جنگ آزادی نے ہندوستانی زندگی کے تمام تر پہلوؤں پر گہرے اثرات مرتب ۱۸۵۷

کئے تھے اس میں سیاست، مذہب، تعلیم، زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت یہ تمام ادارے شامل

ں منظر عام پر آچکی تھی اور شاعری ء( کے کئی کتابی۱۸۵۷تھے اس سے پہلے غالب )

کا دیوان بھی چپ کر منظر عام پر آچکا تھا۔ چونکہ ہم فارسی اور اردو خطوط کا تقابلی جائزہ

پیش کرنا ہے تو اس لیے پر اس سے پہلے اور بعد کے حاالت پر مختصر جائزہ لے رہے ہیں

فاظ ان کا جائزہ اپنے فارسی خواہ جو حاالت یا واقعات ہو غالب نے مختصر نہیں بلکہ جامع ال

اور اردو خطوط میں پیش کیا ہے یعنی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس پر غالب نے دینی

خطوط میں ذکر نہ کیا ہو یہاں پر بات چونکہ غدر کے حاالت و واقعات پر ہورہی ہیں تو غدر

"دشنبو" بھی شائع پر مرزا غالب کی کتاب جو ان کی آنکھوں دیکھا حال ہے لکھی ہوئی کتاب

ہوچکی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں غالب اور عہد غالب میں لکھتے ہیں۔

ء میں غدر ہوگیا، غدر کا خاص ۱۸۵۷"

مرکز دہلی تھا۔ یہاں پر ہر جانب قتل و

غارتگری اور لوٹ مار مچی ہوئی تھی۔ اس

سے جہاں دہلی کی عوام متاثر ہوئی، وہاں

اد ہوگئے۔ کئی ارباب کمال بھی تباہ و برب

283

مرزا غالب پر بھی اس کا شدید اثر پڑا تھا۔

انہوں نے غدر کے حاالت اور اپنی سرگزشت

کا آنکھوں دیکھا حال "دشنبو" میں بیان کیا۔ یہ

(۳ء میں چھپی تھی۔" )۱۸۵۸کتاب

ء کی جنگ آزادی ہندوستان میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے جنگ ۱۸۵۷تاریخ میں

ریک میں صرف فوجی بغاوت نہیں تھی بلکہ اس میں زندگی کے شعبہ کو آزادی کی اس تح

متاثر کردیا تھا اور اس کی وجہ سے معاشرتی ابشری علم و فن کے میدان میں رکاوٹیں

سامنے آرہی تھی، لکھنے والے یا اہل علم تصنیف و تالیف کا کام جس گہرائی سے کر رہے

وں کو اپنی جان بچانا مشکل ہوگیا تھا ڈاکٹر شمس تھے اس میں رکاوٹ پیدا ہوگئی تھی اور لوگ

الدین صدیقی کے مطابق۔

ء کے بعد کئی برس انگریزوں کی ۱۸۵۷

حکمت عملی اسی اصول پر مبنی رہی کہ

ہندوستان کے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ

کمزور، ناکارہ اور مختاج بنا دیا جائے اور ان

کے حوصلے ایسے پست کر دئیے جائیں کہ

پھر کبھی انگریزی حکومت کے خالف وہ

بزد آزما ہونے کا خیال تک دل میں نہ السکیں

جنگ آزادی کا پہال مرکز دہلی تھا اور سب

سے زیادہ مصیبت بھی دہلی ہی کے حصے

(۵میں آئی۔")

مرزا اسدہللا خان غالب بھی دہلی میں رہتے تھے اور سہلی میں وہ بھی اس لیے جنگ آزادی

بری طرح متاثر ہوئے تھے انگریزوں کی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کی اس مصیبت سے

اور ہندو کے ساتھ ایک ہونے والے پالیسی کی وجہ سے علم و ادب کی روایات بری طرح

متاثر ہورہی تھی۔ اور اس کی وجہ سے کم از کم دس سال تک کوئی کتاب منظر عام پر نہیں

غالب کا ذکر ملتا ہے یہ لکھنوؤ کا ایک اہم ء کے اخبار اودھ میں مرزا ۱۸۶۲آسکی۔ البتہ

اخبار تھا جو شمالی ہند سے شائع ہوتا تھا اس اخبار کے شائع کرنے والے اور مالک منشی

نول کشور تھے اس اخبار میں مختلف شماروں میں غالب کا ذکر آیا ہے اور اس اخبار میں

شامل ہے جس کے بارے غالب کی تصانیف کے اشتہاروں کے عالوہ ایک نثری مضمون بھی

میں مھمڈ عتیق صدیقی لکھتے ہیں۔

"اس مضمون کی اہمیت یہ ہے کہ یہ سیاسی

نوعیت کا ہے اور میرے علم کے مطابق

مرزا غالب کے اردو نثر کے کسی متداول

284

مجموع میں اسے جگہ نہیں مل سکی

(۶ہے۔")

ئی ساتھ ساتھ یہاں تک سرسری بات غالب سے پہلے اور بعد کے حاالت و وقعات پر ہوء یعنی غدر پر بھی بات ہوئی اب ہم مرزا غالب کی فارسی اور اردو خطوط کا ۱۸۵۷

تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ خطوط کے حوالے سے فارسی اور اردو میں جو انہوں نے اپنے

متعلق معلومات کا ذخیرہ ہمیں لیے چھوڑا ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ غالب نے اپنی سرسری میں ذات و ماحول کے متعلق معلومات کا جو گراں قدر ذخیرہ بے قصد و ارادہ فراہم تحریرات

کردیا ہے، اس کا عشر عشیرہ بھی کسی دوسرے مجموعے میں نظر نہ آئے گا۔ یہاں سرسری

تحریرات سے مراد خطوط غالب ہی ہیں جو خود غالب نے شروع میں شائع کرانے کے لیے رسری طور پر لکھے گئے تھے۔ غالب کی شخصیت ان کے نہیں لکھے تھے۔ بلکہ یوں ہی س

خطوط کے آئینے میں پوری طرح منعکس ہوتی ہے اور ظاہر بھی ہے کسی کی شخصیت تو

خارجی اور داخلی عوامل سے مل کر بنتی ہے۔ اس سے قطع نظر خارجی طور پر بھی غالب ے خطوط سے پوری کی ذات، ماحوالور ان کے آدات و اطوار و خصائل کی آئینہ دار ان ک

طرح ہوتی ہے۔ مرزا غالب کے مکاتیب کو سامنے رکھ کر حیات غالب کا مکمل نقشہ تیار کیا

جاسکتا ہے مثال کے طور پر غالب کب پیدا ہوئے، غالب کہاں پیدا ہوئے ، خاندانی کیفیت کیا کی تھی ان کا وسائل معاش کیا کیا تھے، کہاں کہاں اور کن کن مکانوں میں رہے، دن رات

مشعلیت کا کیا حال تھا، ان کے اخالق کیسے تھے غرض یہ کہ ان کی زندگی کا شاید ی کوئی

ایسا پہلو ہو جس پر خطط میں روشنی نہ ڈالی گئی ہو، اس کے عالوہ غآلب جس ماحول اور عصری تقاضوں میں زندگی بسر کرہے تھے اس کی تفصیالت بھی ان کے خطوط میں جابجا

ہے کہ خطوط غالب سے جہاں غالب کے ذاتی حاالت کی تفصیل ملتی ہے، ملتی ہیں حقیقت یہ

وہاں غالب کے ماحول اور معاشرے کے متعلق بھی تفصیلی معلومات ملتی ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ معلومات فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے خطوط میں موجود

یا گیا ہے۔ سب سے پہلے اس امر کا ذکر ضروری ہے اور پوری تفصیل کے ساتھ اس کا ذکر ک

ہے کہ فارسی زبان میں غالب کے خطوط کتنے ہیں اور اردو زبان میں کتنے ہیں اس حوالے سے غالب شناسی نے بڑا کام کیا ہے۔ حصوصا امتیاز علی عرشی، موالنا غالم رسول مہر،

فارسی کے حوالے سے پرتو مالک رام، خلیق انجم اور سید معین الرحمان شامل ہیں۔ حصوصا

روہیلہ نے جو فارسی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا ہے آج تک کوئی اور نہ کر سکا ، مرزا غالب کو ان کی اسلوب میں کوشش کی گئی ہے کہ غالب کی زبان میں وہ لکھے جائیں۔ جس

ام سے میں وہ بالکل کامیاب ہوئے ہیں۔ ان تمام خطوط کو کلیات مکتوبات فارسی غالب کے ن

شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے فہرست میں تمام صفحات کی نمبر وار ترتیب بتائی گئی ہے۔ سب سے اہم کام اس میں عاحد متکلم کا نام سے ہے جس میں یہ بتانے کی کواشش کی گئی ہے

کہ غالب کے فارسی نثر کا کام میں نے کب مکمل کیا اور اس کو غالب کے لہجے میں دالنے

ی ان خطوط کے ترجمے کے بارے میں پرتو روہیلہ نے خود ان کا ذکر کیا ہے۔ کی کوشش ک پرتو روہیلہ کے مطابق۔

"غالب کے مکتوبات فارسی کے یہ پانچ مجموعے یعنی نامہ ہائے فارسی غالب، باغ دو در، مآثر غالب، متفرقات

غالب اور پنج آہنگ کا آہنگ پنجم جس طرح مختلف اوقات

285

رح مختلف سالوں میں ان کا اردو میں طبع ہوئے اس طترجمہ بھی ہوا اور اس کار خیر میں مختلف لوگوں نے

اپنے مقدور بھر اپنا اپنا حصہ بھی ڈاال کوئی نامہ ہائے

فارسی غالب کے ترجمے کے بعد ہی تھک کر بیٹھ گیا اور کسی نے صرف آہنگ پنجم کے بعد ہی اس راہ کو خیر باد

بعد اس میدان سے کنارہ کہا اور کسی نے باغ دودر کے

کرلیا۔ عرض میرے علم میں نہیں کہ کسی نے آج تک اتنی دل جمعی اور ثابت قدمی کا مظاہر کیا ہو کہ غالب کے

مکتوبات کے پانچوں کتابوں کے مکتوبات کا سلسلہ وار

ترجمہ کیا ہو اور پھر بات کلیات مکتوبات فارسی غالب کی دت کسی کے نصیب طباعت تک پہنچی ہو سو جہاں یہ سعا

نہیں تھی کہ اس نے غالب کے فارسی مکتوبات کے تمام

مجموعوں کا بال شرکت غیرے ترجمہ کیا، یہ خوش بختی بھی ہللا تعالی نے میرے لیے ہی مقدر کی تھی کہ کہ ان

مکتوبات کے کلیات کا سہرا بھی میرے سر ہی بندھے۔

قادر دنیائے ادب کا یقینا یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جومطلق نے مجھے عطا فرمایا ہے اور جس کے لیے میں

(۷جس قدر شکر ادا کروں کم ہے۔" )

مصنف نے ترجمہ کرتے وقت بہت سے کتابوں سے مدد کا ذکر بھی کیا ہے اور ساتھ یہ بھی

اس واحد متکلم میں کھا گیا ہے کہ فالں مجموعے میں کتنے خطوط شامل تھے اور کتنے

ے تھے ان تمام کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ اور ساتھ خط لکھنے والے لوگوں کو خط لکھے گئکی پوری تاریخ بھی لکھ دی گئی ہے کتاب میں پہلے مکتوبات کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے اس

کے بعد مکتوب الیہم کے حاالت زندگی لکھی گئی ہے اور کتاب کے آخر میں مکتوبات کا

ط کا بہترین نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد فارسی متن دیا گیا ہے جو کہ غالب کے خغالب کے اردو نثر کے بارے میں کچھ ذکر کرنا چاہتے ہیں مرزا غالب اردو فارسی شاعری

ہو یا نثر ہو دونوں میں نمایاں خصوصیات کے حامل شخصیت تھے اور نظم نثر میں ان کی

تے ہیں۔ یہ خصوصیات شخصیت کی بنیادی خصوصیت کے اثرات بھی نمایاں طور پر نظر آخواہ نظم یا نثر میں ان کی شخصیت پر براہ راست اثر دکھاتی ہے۔مرزا غالب نے فارسی نثر

میں بھی کمال حاصل کیا تھا غالب کے خطوط فارسی زبان و ادب میں اپنی انفرادیت کی

بہترین مثال ہے ۔ اور ان کی پوری شخصیت کی عکاسی کرتے دکھائی دیتا ہے۔ غالب کے رسی خطوط میں غالب کے زبان و بیان اور موضوع کی حوب صورتی کا پورا خیال رکھا فا

ہے اور نظر بھی آتا ہے اور یہ یہ ایک ماہر فنکار کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے ان کے

خطوط میں ڈرامائی اور داستان گوئی کا رنگ بھی پیدا کیا گیا ہے اور فارسی مکاتیب میں باوجود یہ خطوط اعلی نثری خصوصیات کے حامل نظر آتے ہیں و موضوعاتی تکرار کے

کہ آسان نثر میں لکھی گئی ہے اور ساتھ پوری دلیل اور حجت والی نثر میں تحریر کی ہے

فارسی خطط میں غالب کی شخصیت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ جو کسی سے دکھا ل حاکہ ان خطوط میں واضح طور پر چھپا نہیں پوری زندگی کی سوانح اور تاریخ کا مکم

286

ہمیں نظر آتا ہے اور دکھائی دیتا ہے فارسی خطوط نگاری کے بارے میں سید وزیر الحسن عابدی کچھ ان الفاظ میں تبصرہ کرتے دکھائی دیتا ہے۔ سید وزیر الحسن عابدی لکھتے ہیں۔

"غالب انیسویں صدی کے ربع اول میں فارسی نامہ تھے۔ ان کا اسلوب ، "القاب نگاری میں صاحب طرز

و آداب متعارفہ، رسمیہ" والے روایتی اور رائج

الوقت اسلوب خالف تھا اور اس کی بنیاد اس ادبی عقیدے پر تھی کہ القاب و آداب خیریت گوئی اور

عافیت جوئی، حشو زائد ہے۔ وہ اس روایت شکن

اسلوب میں پوری اثر آفرینی پر قادر تھے جسے (۸ی" کہا ہے۔")انہوں نے "ساحر

مرزا غالب کا انداز بیان فارسی زبان میں دوسرے حضرات کے اسلوب نگار تھے اور جو عام طور پر روایتی روش میں لکھ رہے تھے بالکل مختلف تھا غالب کے اسلوب بیان سے تمام

لکھنے والے اور ادا شناس واقف تھے اور اس دور کے معاشرے میں و جانے پہچانے جاتے

رسی خطوط کے اتھ ساتھ دوسری نثری فتوحات بھی مرزا غالب کی فارسی دانی کا تھے۔ فامنہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک جگہ پر نہیں بلکہ کئی جگہوں پر غالب نے اردو کے مقابلے میں

فارسی زبان و ادب کو ترجیح دینی کی کوسشش کی ہے اور اوجہ سے غالب فارسی نثر کا

رکھتی ہے۔ فارسی زبان ادب کے عالوہ اردو میں ان کے اسلوب ان کی اردو نثر پر فوقیت خطوط کی نثری فتوحات کا وقیع سرمایہ موجود ہیں اسی حوالے سے گالب کی زندگی کا ہر

پہلو اور ساتھ ان کے مزاج کی ہر خصوصیت ان کے خطوط میں موجود ہیں یہ ٹھیک ہے کہ

موالنا الطاف حسین حالی غالب کو لوگ شاعری کی وجہ سے چاہتےہیں۔ اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔

" جہاں تک دیکھا جاتا ہے مرزا کی عام شہرت ہندوستان میں جس قدر ان کی اردو نثر

کی اشاعت سے وئی ہے ویسی نظم اردو اور

(۹نظم فارسی سے نہیں ۔")

جہاں تک مرزا غالب کے خطوط کی بنیادی خصوصیت ہے ان میں بے پناہ خلوص اور

یہی وجہ ہے کہ غالب کے خطوط میں ایک جانی پہچانی فضا ہمیں نظر آتی سچائی ہے اورہے اور ساتھ ہی ایک دلفریب اور دلکش ماحول ہمیں نظرآتا ہے اصل میں یہ خطوط ایک

ایسے شخصیت کے قلم سے نکلے ہے جس نے کسی بات چھپانے کی کوشش نہیں کی اور نہ

ہے۔ یہ خطوط حقیقت نگاری کا منہ بولتا ثبوت ہے کچھ چھپایا اور نہ مبالغہ آرائی سے کام لیا اور ان خطوط میں غالب کی نثر نگاری کی تمام خصوصیات باآسانی میسر ہیں۔ نثری

خصوصیات کے حوالے سے غالب کے خطوط کا جائزہ ڈاکٹر عبادت بریلوی کچھ ان الفاظ

میں پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کے مطابق۔

ور فنی اعتبار سے بھی " یہ خطوط جمالیات ا

بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں نہ صرف خطوط نویسی کے فن کا ایک نیا اور اچھوتا

287

انداز ملتا ہے بلکہ ادبی نثر کو بھی ان میں ایک نئی صورت مشکل نظر آتی ہے۔ اس نثر

میں سادگی اور صفائی ہے، روانی اور بہاؤ

ہے اس میں سادگی کا حسن بھی ہے اور (۱۰دگی بھی۔")حسن کی سا

غالب کے خطوط خواہ اسلوب کے حوالے سے ہو یا مزاج کے اعتبار سے ہو منفرد خصوصیات کے حامل ہیں ان خطوط میں غالب نے اس وقت کی زبان اور دور کا لب و لہجہ

بیان کیا ہے۔جو اس وقت مشہور اور لوگوں کی زبانوں پر مقبول بھی تھا۔ اصل میں یہ خطوط

کہ اس پورے دور کا مرثیہ بیان کیا ہے کیوں کہ اس زمانے میں صرف غالب کے نہیں بلمرزا غالب ہی ان حاالت سے سے دو چار نہیں تھے بلکہ تمام کے زندگیوں کا یہی حال تھا۔

اس لیے غالب نے اس وقت کی عبارت آرائی اپنے خطوط میں کیا ہے اور اس سے کام لیا ہے

سے شگفتہ اسلوب اور شستہ آرائی کی بنا پر ٹھوس ان تمام باتوں کے عالوہ غالب کی زباناور مشکل موضوعات کو دلکش بنا دیتی ہے۔ ان مشکل مسائل کو بھیب غالب نے رنگین اور

پر کاری سے بیان کیا ہے اور غالبا یہی ان کی اردو خطوط یا نثر کی کی باکمال خصوصیت

لکھتے ہیں۔ہے اردو کی اس نثر کے حوالے سے موالنا حامد حسن قادری

"نثر اردو میں غالب کی اولویت اور اولیت

نے جو طریقہ ایجاد کیا اور اس میں جو جدتیں پیدا کیں اور ان کو جس التزام، اہتمام

اور کمال کے ساتھ برتا، اس میں غالب اول

(۱۱بھی ہیں اور آخر بھی۔" )

ے حاالت پر مبنی خطوط بظاہر تو ہمیں یہ خطوط نظر آتے ہیں لیکن اصل میں یہ اس یا دور ک

ہیں جو کچھ اس دور میں ہو رہا تھا یا جو کچھ مشکالت تھے یا بادشاہوں کے بننے اور معزول ہونے کے وقعات ہا یا دوسرے امور ان کا تمام ذکر کسی نی کسی طرح انہوں نے

اپنے خطوط میں ضرور کیا ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کے مطابق۔

انداز ہے۔ غالب کے بیشتر خطوط کا یہی

نبظاہر ان انھوں نے اپنا رونا رویا ہے۔ لیکن

ان میں سلطنتوں کے مٹنے کا ذکر بھی ہے۔ شاہان وقت کے معزول ہونے کا بیان بھی ہے۔

جاگیروں کے ختم ہونے کی تفصیل بھی ہے۔

ان سب باتوں کو پیش کرکے غالب نے درخقیقت اس زمانے کی انفرادی اور

ام افراتفری اور اجتماعی زندگی کی اس تم

انتشار کو پیش کیا ہے، جس کے محرک یہ (۱۲حاالت تھے۔")

اردو زبان و ادب میں خط کے لیے دوسری زبانوں سے لیے گئے مختلف نام بھی رائج ہیں مثال مکتب، نامہ، مراسلہ، ھٹی اور لٹیر وغیرہ اردو ادب کی دوسری ابتدائی اضاف کی طرح

288

یر اثر رہی ثو کہ ابتداء میں ہندوستان میں ، فارسی خط خطوط نگاری بھی فارسی ادب کے زو کتابت ہی کا رواج تھا، اسی لیے جب اردو خطوط نویسی کا آغاز ہو تو تو اس پر فارسی

خطوط نویسی کے بہت زیادہ گہرے اثرات تھے، خط کے شروع میں اعقابات و آداب کا

ختتامیے، خطوط کا خاصہ رہے، سلسلہ، انشاء پردازی، خط کا مضمون مسجع اور طویل ایعنی یہ ایک پر تصنع اور ارآئشی صنف کے طور پر ظہور میں آئی لیکن بعد میں غالب کے

منفرد انداز تحریر اور اس کے ساتھ ساتھ سرسید کی سادہ نثر نے خطوط کو عام بول چال کی

ب نے زبان سے فریب تر کردیا اور اس نئے اسلوب روشناس کروایا۔ حاص طور پر غالخطوط نگاری کے نئے ضابطے متعین کیے اور خط کے ذریعے عرض حال کرنا آسان بنا

دیا اس انداز کے متعلق ڈاکٹر سید عبدہللا لکھتے ہیں۔

"نئی طرز کی ایجاد کا سہرا صحیح معنوں

میں غالب کے سر ہے۔ انھوں نے نئے انداز

میں خط لکھ کر اردو میں نہ صرف مکتوب نکالی بلکہ خود اردو نثر نگاری کی طرز نو

کو بھی ایک بدیع طرز نگارش سے آشنا کیا۔"

(۱۳)

اس کے عالوہ مرزا غالب نے ذاتی معاممالتی، رسمی، کاروباری اور کئی طرح کے خطوط

لکھے، اگر چہ ہر خط کو لکھنے کی وجہ الگ تھی۔ لیکن اس کے عالوہ سب میں ایک بات کا شوق تھا، مرزا غالب کی خطوط نگاری میں مشترک تھی اور وہ ان کا خطوط نویسی

باقاعدگی اور اس کے ساتھ ساتھ فنی پختگی پائی جاتی تھی۔ ایسے لگتا ہے یا یوں معلوم ہوتا

ہے کہ خط لکھنا گویا ان کے مشاغل میں شامل رہا۔ مرزا غالب خط پڑھنے سے زیادہ خط ان کے خطوط سے لکھنے میں خوش محسوس کرتے تھے اور اسی طرح پڑھنے واال بھ

محفوظ ہوتا تھا۔ ڈاکٹر سید عبدہللا کے مطابق۔

"ان )غالب( کے خطوں میں ہم کالمی کی وہ

بے کراں آرزو موجزن ہے جو کسی طور

تسکین نہیں پاتی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فطرت کی پیاس جب شعر کی شراب

سے بھی تشغی نہیں پاتی تو نثر میں اپنی

کو ڈھونڈ نکلتے تھے یہی آرزوئے شوقتشنگی ذوق کبھی انھیں بوستان خیال کی ورق

گردانی پر مجبور کرتی تھی وہ جب تنگنسئے

غزل سے اکتا جاتے تھے تو ابنائے نثر کی (۱۴سایحت کرلیتے تھے۔")

خطوط غالب میں غالب کی شخصیت اور ان کے عہد اور زمانے کے حاالت کے گہرے وط تاریخی، معاشرتی، سیاسی ، نجی اور شخصی معلومات کے عکاس ہیں۔ غالب کے یہ خط

بیش بہا ذخیرے ہیں۔ ہم یہ بات نہایت واضح طور پر کہ سکتے ہیں کہ غالب کی زندگی کے

گہرے راز اور پوشیدہ امور ان خطوط کے باعث منظر عام پر آگئے جن کے باعث غالب

289

د مدد ملی۔ اگر چہ ان خطوط کی پچیدہ شخصیت اور اس کی زندگی کو سمجھنے میں بے حکے ذریعے کہیں کہیں غا لب کی شخصیت کے دوہرے معیارات بھی سامنے آتے ہیں۔ لیکن

ان خطوط میں غالب کی نہایت واضح اور شفاف تصویر دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ

ہت خطوط شائع ہونے پر بے حد مقبول ہوئے۔ بلکہ صرف یہ ہی ایک وجہ نہیں ہے اور بھی بسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر خطوط غالب کو ادب میں ایک بلند مرتبہ اور بلند مقام حاصل

ہے۔

سب سے پہلی خصوصیت غالب کے خطوط کی یہ ہے کہ انھوں اردو خطوط نگاری کو رواج

دے کر نئے اسلوب سے روشناس کرایا۔ یہ اسلوب سادہ اور عام بول چال کے قریب تھا۔

وط نویسی کی آرائشی نثر کو یک سر نظر انداز اور طویل القابات کی انھوں نے فارسی خطبجائے خط کے آغاز سے ہی اصل مدعا کی طرف دھیان دیا۔ ڈاکٹر سید عبدہللا اس اصل مدعا

کے بارے میں لکھتے ہیں۔

"وہ "غالب" مکتوب الیہ کو کسی ایسے لفظ سے

مخاطب کرتے ہیں جو جو اس کے حسب حال ہو۔

، صاحب، میری جان، برخودار، پیر و میاں، بھائیمرشد حضرت، جناب عالی، قبلہ، سید صاحب وغیرہ

بلکہ بعض اوقات تو وہ کوئی لفظ بھی نہیں لکھتے،

(۱۵فورا اظہار مدعا کرنے لگتے ہیں۔" )

خطوط نویسی کے باب میں ان کی اپنی متعین کردہ ایک اور خوبی جو اپنی امتیازی شان

ان کی ظرافت، اپنی حسن لطیف سے وہ غم کو بھی پھل جھڑی بنا رکھتی ہے اور وہ ہے دیتے ہیں اور اس طرح خط مکتوب الیہہ پر ذرا بھی گراں نہیں گزرتا۔ غالب کے خطوط میں

مقفی فقرات بھی موجود ہیں اور ساتھ جزئیات نگاری بھیہ موجود ہیں مرزا غالب واحد

پر پوری قدرت حاصل تھی اس غالب نے شخصیت ہے جنہیں نظم و نثر دونوں میں اظہار اپنے ذہن کی باگ دوڑ کبھی الفاظ کے ہاتھ میں نہیں دی تھی اور مرزا غالب کے ایسے

خطوط بھی تعداد کے لخاظ سے بہت کم ہے جو پورے کے پورے مقفی عبارت پر مشتمل ہوں

ھے مرزا عام طور پر ان کے خط میں دو یا تین فقرے ایسے مقفی عبارت پر مشتمل ہوتے تغالب کے خطوط میں جو مقفی فقرے استعمال ہوئے ہیں وہ فقرے ایسی برحبتگی اور بے

ساختگی کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں کہ ان سے نثر کے خوب صورتی میں اور اضافی ہوا

اور اظہار میں اس سے زیادہ طاقت پیدا ہوگئی ہے غالب نے مقفی فقرے وہاں پر استعمال ان کے پاس کہنے کے لیے کوئی خاص بات نہیں ہوتی تھی اور خط کا کیے ہیں جہاں پر

جواب ضروری ہوتا تھا اور غالب نے تعداد کے لحاظ سے خطوط میں ایسے فقرے بہت کم

لکھے ہیں مقفی عبارت کے بارے میں پہال پیرا گراف جو چودھری عبدالغفور سرور کے نام ہے لکھتے ہیں۔

آیا۔ "بہت دن کے بعد پرسوں آپ کا خطسرنامے پر دستخط اور کے اور نام آپ کا

پایا۔ دسٹخط دیکھ کر مفہوم ہوا، خط خط کے

پڑھنے سے معلوم ہوا کہ تمھارے دشمن بہ

290

عارضہ تپ و لرزہ رنجور ہیں۔ ہللا ہللا، ضعف کی یہ شدت کہ خط کے لکھنے سے معذور

ہیں خدا وہ دن دکھائے کہ تمھارا خط خط

مہ دیکھ کر دل تمھارے دستخطی آئے۔ سرناکو فرحت ہو، خط پڑ کر دونی مسرت ہو،

جب تک ایسا خط نہ آئے گا، دل سو دازدہ

آرام نہ پائے گا۔ قاصد ڈاک کی راہ دیکھتا رہوں گا۔ جناب ایزدی میں سرگرم دعا رہوں

( ۱۷گا۔" )

مقفی عبارت کے حوالے سے مرزا غالب کا ایک خط نہیں بلکہ کئی خطوط میں مقفی عبارت

ذکر آیا ہے دو جانے میں شادی تھی اس کا ذکر نواب عالوالدین خاں عالئی کو لکھا ہے کا

غالب نے اپنی صحت اور سفر کی زحمت کی وجیہہ سے اور کچھ خاندانی معامالت کی وجہ یقت بھی ہے مزاح بھی ملسو هيلع هللا ىلصسے کچھ ناراضگی کا اظہار کچھ اس انداز سے کیا ہے جس میں ح

آرائی بھی ہے نواب عالوالدین خاں عالئی کو لکھتے ہیں۔ ہے، غصہ بھی اور ساتھ عبارت

"دو جانے میں میرا انتظار ااااور میرے آنے

کا تقریب شادی پر مدار یہ بھی شعبہ ہے انھی

ظنون کا جس سے تمھارے چچا کو گمان ہے مجھ پر جنون کا جاگیردار میں نہ تھا کہ ایک

جاگیر دار مجھ کو بالتا۔ میں نہ تھا کہ اپنا

سازو سامان لے کر چال جاتا، دو جانے جاکر شادی کموؤں اور پھر اس فصل میں کہ دنیا

کرہ نار ہو۔ لوہار و بھائی کے دیکھنے کو نہ

جاؤں اور پھر اس موسم میں کہ جاڑے کی (۱۸گرمی بازار ہو۔")

غالب کی یہ خوبی ہے کہ مقفی عبارت لکھتے ہوئے بھی فقرے مقفی نظر نہیں آتے اور صا ان عبارت کو پڑھنے سے یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ مقفی عبارت کے فقرے حصو

یا الفاظ ہیں بلکہ اس سن بھی ایک خاص قسم کی روانی اور موسیقیت پیدا کردی گئی ہے۔ ان

عبارات کے عالوہ غالب کے خطوط میں ایک رنگ نہیں بلکہ کئی رنگ پائے جائے ہیں طبیعت کے مختلف انداز اور نجی زندگی کے معامالتی مرزا غالب کے ان خطوط میں ان کی

کے رنگوں کے ساتھ ساتھ اس زمانے اور عہد کی تاریخ بھی مرتب ہورہی ہے ان احوال کے

بارے میں موالنا الطاف حسین حالی یادگار غالب میں لکھتے ہں۔

"مرزا کی اردو خط و کتابت کا طریقہ فی

پہلے الواقع سب سے نرالہ ہے۔ مرزا سےکسی نے خط و کتابت میں یہ رنگ اختیار کیا

اور نہ ان کے بعد کسی اس کی پوری پوری

(۱۹تقلید ہوسکی۔ " )

291

مرزا غالب کے فارسی اور اردو خطوط کا تقابلی جائزہ اگر لیا جائے تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ ا وہی غالب کے خطوط کا جو اسلوب فارسی زبان میں تھا جو سب سے الگ اور نراال تھ

اسلوب ان کا اردو زبان و ادب میں بھی تھا مرزا کے ہاں شاعری ہو یا نثر دونوں زبونوں میں

تمام کا انداز بیاں دوسرے سے الگ ہے اور اس کی اپنی الگ الگ پہچان ہے۔ مرزا غالب کے خطوط جو فارسی زبان میں ہے ان میں بھی موضوعات مختلف اور متنوع ہیں اور اسی طرح

زبان میں بھی یہی ہے۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں غالب کی شخصیت سے اردو

متعلق تمام باتیں ان خطوط میں موجود ہیں ابتداء سے لے پیدائش کے حاالت و واقعات کا ذکر دونوں طرح کے خطوں میں موجود ہیں ان دونوں طرح کے خطوط میں بچپن کے حاالت ہو ،

غمی اور اس کے اثرات ہو، احباب اور دوستوں اور شاگردوں اور تعلیم و تربیت ہو، شادی و

متعلقین ہو یا مالی الجنیں ہو یا گھریلوں پیشانیاں ہو یا پھر دور دراز کے عالقوں کا سفر ہو، یا پنشن کی مکمل تفصیل ہو دلی کے حاالت، و وقاعات ہو غدر کے وقعات ان تمام حاالت و

اور فردا فردا ایک ایک پر غالب پر غالب کے فارسی اور واقعات کی پوری تفصیل ملتی ہے

اردو خطوط میں ان پر روشنی ڈالی گئی ہے ان خطوط کے موضوعات صرف تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اپنی ذہنی رجحان اور افتاد طبع کو بھی سامنے رکھا ہے، بلکہ غالب ہر چیز

اظہار بھی اپنی خطوط سے ہوتا کے بارے میں وہ ایک صائب رائے رکھتے ہیں اور اسی کا

ہے اور یہی وجہ ہے کہ غالب کی شخصیت اور ان کا نظریہ حیات ان خطوط میں پوری طرح موجود ہے غالب اپنی پوری زندگی کاتفتہ اس ایک خط یوں کھینچتے ہیں یہ خط مرزا

ہرگوپال تفتہ کے نام ہیں لکھتے ہیں۔

" "سنو" عالم دو ہیں۔ ایک عالم ارواح اور

ک عالم آب و گل حاکم ان دونوں عالموں کا ای

وہ ایک ہے جو خود فرماتا ہے۔ "لمن الملک الیوم" اور پھر آپ جواب دیتا ہے۔ ہلل الواحد

القھار" ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ عالم آب و

گل کے مجرم عالم ارواح میں سزا پاتے ہیں، لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہ

ا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں گار کو دنی

ھ میں ۱۲۱۲چنانچہ میں آٹھویں رجب روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔ تیرہ

ھ کو ۱۲۲۵برس حواالت میں رہا۔ رجب

میرے واسطے حکم دوام جس صادر ہوا۔ ایک بٹیرے میرے پاؤں میں ڈال دی اور دلی شہر

کو زنداں مقرر کیا اور مجھے اس زنداں میں

فکر نظم و نثر کو مشقت ٹھرایا۔ ڈال دیا۔برسوں کے بعد میں جیل خانہ سے بھاگا تین

برس بالد شرقیہ پھرتا رہا۔ پایان کار مجھے

کلکتہ پکڑ الئے۔ پھر اسی مجلس میں بٹھایا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریزپا ہے، دو ہتکڑیاں

اور بڑھادیں پانویڑی سے فگار۔ ہاتھ ہتکڑیوں

292

ری اور مشکل سے زحم دار۔ مشقت مقرہوگئی۔ طاقت یک قلم زائل ہوگئی۔ بے حیا ہوں

۔ سال گزشتہ بٹیری کو زاویہ زنداں میں

چھوڑ مع دونوں ہتکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ، مراد آباد ہوتا ہوا رام پور پہنچا کچھ دن کم دو

مہینے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑا گیا۔ اب عہد

یا؟ کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا۔ بھاگوں کا کبھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔ حکم رہائی

دیکھیئے کب صادر ہو۔ ایک ضعیف سا

ء ۱۲۷۷احتمال ہے کہ اس ماہ ذی الحجہ میں چھوٹ جاؤں۔ بہر تقدیر بعد رہائی کے تو

آدمی سوائے اپنے گھر کے اور کہیں نہیں

جاتا۔ میں بھی بعد نجات سیدھاعالم ارواح کو (۲۰چال جاؤں گا۔")

میں غالب نے اپنی زندگی کے مدو جزر کو پیش کیا ہے اور اپنی خانہ داری کے اس خط موضوع پر روشنی ڈالی ہے پیدائش سے لے کر وفا ت تک کے حاالت و واقعات کو اس ایک

خط میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے پیدائش کا مسئلہ خود حل کرنا پھر اس کیلئے قرآنی

شادی کا مسئلہ، قید کا مسئلہ، کلکتہ کا سفر جہاں غالب دو آیات کو دلیل کے طور پر پیش کرناسال سات ماہ رہے تھے اور ہتکڑیوں سے مراد عارف کے بچے اور اس کی والدہ کا انتقال

اور پھر رام پور کا سفر اور آخر میں دیکھئے کہ موت کب آتی ہے کے واقعات کا ذکر ہے۔

یل کی پرواز میں بلندی پر تھی اور اس ان باتوں سے واضح ہو ہوتا ہے کہ غالب کے تختخیالتی پرواز کے ذریعے غالب کے کہنے کا انداز بیان میں ایک طرح کی تمثل نگاری کی

خصوصیت بھی نظر آتی ہے یا پیدا ہوجاتی ہے اور یہ چیزیں ان کے خطوط میں موجود ہے

ن کی نظر رہتی مرزا غالب زندگی کا شعور رکھتے ہوئے زندگی کے ان بنیادی حقائق پر اتھی لیکن غالب نے ان کو بڑے دلکش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ صرف

اور صرف انہی کا خاصہ ہے۔ مرزا غالب نے اپنے خطوط میں آپ بیتی کے انداز میں خود

اپنی سرگزشت کے بارے میں بہت سے اوراق پیش کیے ہیں غالب کے ان خطوط میں صرف میں دیگر احوال و کوائف کے عالوہ مجلسی زندگی کا یہ رجحان بھی پیدا آپ بیتی نہیں اس

کیا ہے کہ مکتوب نگار اپنے احباب کے سامنے اپنی بیتی زندگی کے تجربات و مشاہدات کی

جھلک بھی پیش کرے چنانچہ مرزا غالب نے مختلف اوقات میں مختلف خطوط میں اپنے داز سے لکھا ہے اگر ان خطوط میں موجود مواد کو بارے میں اتنا کچھ لکھ دیا ہے اور اس ان

سلیقے سے ترتیب دیا جائے تو ان خطوط سے مرزا غالب کی ایک مکمل آپ بیتی تیار

ہوسکتی ہے مرزا غالب کو اعلی حسب و نسب پر بڑا ناز تھا۔ اور عموما اس کا ذکر ایک خط ں بھی کئی مرتبہ کیا ہے میں نہیں بلکہ کئی خطوط میں کیا ہے خطوط کے عالوہ شاعری می

اردو اور فارسی اشعار میں اپنے سلجوقی النسل ہونے اور تورانی الوطن ہونے پر جابجا فخر

کرتے ہوئے دیکھائی دیتا ہے فارسی اور اردو میں طرح کے خطوط میں غالب اپنے ترک نام خط اور سلجوقی ہونے پر فخر کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے مولوی منشی حبیب ہللا خاں کے

میں غالب اپنی خاندان اور اپنے اباء و اجداد کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں۔

293

ء بھائی میں قوم کا ۱۸۶۷فروری ۱۵"ترک سلجوقی ہوں دادا میرا ماوراء النہر سے

شاد عالم کے وقت میں ہندوستان میں آیا۔

سلطنت ضعیف ہوگئی تھی۔ صرف پچاس ہوا۔ گھوڑے نقارہ نشان سے شاہ عالم کا نوکر

ایک پرگنہ سیر حاصل ذات کی تنخواہ اور

رسالے کی تنخوا میں پایا۔ بعد انتقال اس کے جو طوائف الملوک کا ہنگامہ گرم تھا۔ وہ

عالقہ نہ رہا۔ باپ میرا عبدہلل بیگ خان بہادر

لکھنؤ جاکر نواب آصف الدولہ کا نوکر ہوا۔ بعد چند روز حیدر آباد جاکر نواب نظام علی

وکر ہوا۔ تین سو سوار کی جمعیت خاں کو ن

سے الزم رہا۔ کئی برس وہاں رہا، وہ نوکری ایک خانہ جنگی کے بکھیڑے میں جاتی

رہی۔والد نے گھبرا کر الور کا قصہ کیا، راؤ

راجہ بختاور سنگھ کا نوکر ہوا وہاں کسی لڑائی میں مارا گیا۔ نصرہللا خاں بیگ میرا

آباد کا چچا حقیقی مرہٹوں کی طرف سے اکبر

صوبہ دار تھا۔ اس نے مجھے پاال۔ ء میں جرنیل لیک صاحب کا عمل ۱۸۰۶

ہوا۔ صوبہ داری کمشنری ہوگئی اور صاحب

کمشنر ایک انگریز مقرر ہوا، میرے چچا کو جرنیل لیک صاحب نے سواروں کی پھرتی کا

حکم دیا۔ چار سو سوار کا بریگڈیر ہوا پانچ

رس کا تھا جو برس کا تھا جو باپ مر گیا آٹھ بء میں کلکتے گیا۔ ۱۸۳۰چچا مر گیا،

نواب گورنر جنرل سے ملنے کی درخواست

کی، دفتر دیکھا گیا میری ریاست کا حال (۲۱معلوم کیا گیا۔ مالزمت ہوئی"۔ )

آپ بیتی اور سوانحی احوال کا ذکر اردو میں نہیں بلکہ فارسی خطوط میں موجود کیا ہے۔ سبی کا ذکر گل رعنا کو ترتیب دینے والے شاعر اور عظیم سوانحی حاالت اور اعلی ن

شخصیت مولوی سراج الدین احمد کے نام خط میں کچھ اس انداز میں لکھتے ہیں۔

فارسی:

"ترک نژادم و اسب من بہ افراسیاب و پستنگ می پیوندد، و بزرگان من از آنجا کہ با

سلجوقیاں پیوند ہم گوہری داشتند بعدودولت

سروری و سپہدی افرشتند سپری اینان ریت

294

شدن روز گار جاہمندی آن گروہ چون بہ ناروائی و بینوائی روی آور د جمعے را ذوق

رہزنی و غار تگری از جائے بردو طائفہ

رکشا ورزی پشیہ گشت۔ نیا گان مرابہ توران زمین زمین شہر سمر قند آرامشگاہ شد۔ از آن

گ ہند میانہ نیای من از پدر خود رنجیدہ آہن

کردو بہ الہور ہمر ہی معین الملک گذید۔ چون بساط باذوالفقار الدولہ میرزا نجف خان بہادر

پیوست، زان پس پدرم عبدہللا بیگ خان بہ

شاہجہان آباد بہ وجود آمد ومن بہ اکبر آباد، چون پنج سال از عمر من گذشت، پدر از

سرم سایہ بر گرفت عم من نصرہللا بیگ خاں

کہ مرابہ ناز پرورد، گاہ مرگش چون خواستفراز آمد کما بیش پنج سال پس از گذ شتن

برادئیے مہین برادر برداشت و ہمہ ادرین

خرابہ جا تنہا گذاشت۔"

اردو ترجمہ:

ترک نژاد ہوں اور میرا سلسلہ نسب افراسیاب

و پشتنگ سے جاملتا ہے اور میرے اجداد

چونکہ سلجوقیوں کے ساتھ خون کا رشتہ رکھتے تھے، ان کے عہد حکومت میں

سرداری کے جھنڈے اٹھائے تھے۔ جاہ و

مرتبت کے احتتام پر جب وہ گروہ نکامی اور بے نوائی سے دو چار ہو تو کچھ کو رہزنی

ور لوٹ مارنے گمراہ کردیا اور کچھ نے ا

کاشت کاری کو اپنا پیشہ بنایا۔ میرے اجداد نے توران کے شہر سمر قند میں بود و باش

اختیار کی۔ اسی زمانے میں میرے )پر( دادا

نے اپنے باپ سے ناراض ہوکر ہندوستان کا عزم کیا اور الہور میں معین الملک کی رفاقت

ملک کی بساط )اقبال( اختیار کی۔ جب معین ال

بھی لپیٹ دی گئی وہ دہلی آگئے اور ذوالفقار الدولہ میرزا نجف خان کے متوسلین میں

شامل ہوگئے۔ اس کے بعد میرے والد عبدہللا

بیگ خان دہلی میں پیدا ہوئے اورمیں آگرے میں ابھی میں پانچ سال ہی کا تھا کہ میرے

والد کا سایہ سر سے آٹھ گیا۔ میرے چچا

رہللا بیگ خاں چونکہ چاہتے تھے کہ ناز نص

295

نعمت سے میری پرورش کریں لیکن موت نے مہلت نہ دی اور اپنے بڑے بھائی کی

موت کے کم و بیش پانچ سال بعد انتقال کیا

اور مجھے اس ویرانے میں تنہا چھوڑ دیا۔" (۲۲)

ا ذکر کیا آیا۔ صرف ایک میں نہیں بلکہ کئی خطوط میں سلجوقی ہونے اور ترک نژاد ہونے کفارسی اور اردو خطوط کے عالوہ نظم ہونے میں ترکی ہونی اور سلجوقی ہونے کا ذکر بار

بار کرتے ہیں چونکہ مرزا کا تعلق ترکوں کے ایک قبیلہ سے تھا اور اس کے عالوہ غالب

کے خاندان میں فوج میں بڑے بڑے یعنی اعلی عہدوں پر بھی فائز رہے تھیں اسی کے بارے رجب علی خان کے نام اپنی خاندانی تاریخ اور ذاتی احوال کے بارے میں لکھتے ہیں۔ میں

فارسی:

سخن بسیار است، بسیارے ازان فرو گذاشتہ

آیہ تا در صورت در دے کہ زندگی در گرو درمان پذیر فتن آنست عرضہ داشتہ آید۔ غم

مرا در سر کار انگریزی جا ہے و دستگا ہے

بامن چنانکہ پس از و ملکے سپاہے بود۔ گذشتن سیل زمین نمناک ماند ازن ہمہ آثار

ثروت آبروئے ماندبس۔ در انجمن گورنری

بصف اصحاب بمین نشتگے شاپتہ یا فتمے و قصیدہ نذر کردمے وہم بدان نذرنہ بصلہ مدح

گستری بلکہ بہ رعایت، ہفت پارچہ با جیغہ و

سرپیچ و ماالئے مراورید یا فتمے۔"

:اردو ترجمہ

باتیں بہت سہ ہیں اور ان میں سے بہت سی

ایسی ہیں جن کو بھال دیا جاتا ہے تاکہ اس

درد کی صورت میں کہ زندگی جس درد کی دوا کی تالش میں مبتال ہے، اظہار کیا

جاسکے، میرا چچا انگریزی سرکار میں

صاحب جاو ودستگاہ و ملک وسپاہ تھا اور سیالب گزر جانے پر جس طرح زمین گیلی

رہ جاتی ہے میرے پاس بھی دولت مندی کے

ان آثار کے بعد صرف عزت ہی باقی رہ گئی۔ گورنر کے دربار میں داہنے ہاتھ کے عزت

مندوں میں مجھے ہمیشہ نشت ملتی تھی اور

میں ایک قصیدہ بطور نذر کے پیش کرتا تھا۔ اور اس نذر کے عوض کہ جو مدح سرائی

296

گی اور کے بدلے میں نہیں بلکہ رئیس زادسرداری کی شناحت کے طور پر بھی مجھے

جیفہ سر پیچ باور ماالئے مروارید کے ساتھ

(۲۳خلغت ہفت پارچہ مال کرتی تھی"۔ )

مرزا غالب نے جس خاندان میں آنکھ کھولی وہ ابیک ترکوں کا مشہور خاندان تھا۔ پہلے اس

ے تھے اور غالب نے خود خاندان کا پیشہ سپہ گری تھا اور وہ ہمیشہ سے یہی کام کرتے آئ اس کا ایک جگہ اظہار کیا ہے۔

سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپہ گری

کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے۔

لیکن ان سب باتوں کے باوجود غالب سپہ گری واال پیشہ اختیار نہ کرسکے اور جس چیز کو

ام باتوں کے وہ عزت نہیں سمجھتے تھے وہی ان کے لیے ذریعہ عزت بن گئی لیکن ان تم

باوجود سپہ گری والی بنیادی خصوصیات ان میں ہمیشہ رہی، اس کے عالوہ یعنی سوانح غالب کے بعد غالب کے ذاتی حاالت کی تفصیل اپنی جزئیات کے ساتھ بکھری پڑی ہے جن

میں پیدائش نام و نسب، خاندان، عہد طفلی،، تعلیم، شادی، سکونت، سفر و حضر، ابتال و

و پنشن، سعی و سفارش، اخالق و عادات، مصروفیات و مشاعل، شاگردوں اور اسیری، وظیفہاحباب کے تذکرے، تصانیف، وغیرہ کے تمام موضوعات شامل ہیں جو کہ فارسی اور اردو

خطوط میں پیش کئے گئے ہیں نام عرف اور خطاب کے متعلق خطوط میں جابجا تحریرات

کھتے ہیں۔ملتی ہیں منشی شیو نرائن کو ایک خط میں ل

"سنو"میری جان" "نوابی" کا مجھ کو خطاب

ہے "نجم الدولہ" اور اطراف و جوانب کے امراء سب مجھ کو "نواب" لکھتے ہیں بعض

انگریز بھی، چنانچہ صاحب بہادر نے جوان

دنوں ایک روبکاری بھیجی ہے تو لفافے پر"نواب اسدہللا خان" لکھا لیکن یہ یاد رہے

"مرزا" یا "میر" نہیں نواب کے لفظ کے ساتھ

لکھتے۔ یہ خالف دستور ہے یا "نواب اسدہللا (۲۴خاں لکھو یا "مرزا اسدخاں"۔)

غالب قوم کے ایبک ترک تھے۔ اپنے ترک سلجوقی ہونے پر بار بار فخر کرتے اس کا تذکرہ بھی کئی خطوط میں موجود ہے یہ خطوط فارسی زبان میں ہو یا اردو میں دونوں میں ایک ہی

ح کا ذکر موجود ہیں، اپنے خاندان کے ساتھ آباؤ و اجداد کا ذکر بھی بیشتر خطوط میں طر

جگہ جگہ کیا ہے۔اور شاہی درباروں میں ان کی جاہ و منزلت کو فخریہ انداز میں بیان کیا ہے اپنے والد چچا، دادا اور نانا کے کئی خطوط میں ذکر کیا گیا ہے اور اپنی خاندانی وجاہت

زات اور بلندی درجات کا اظہار کیا ہے۔ اسی کے بارے میں ڈاکٹر غالم حسین فوجی اعزا

ذوالفقار محاسن خطوط غالب میں لکھتے ہیں۔

297

"آپ بیتی یا خود و نوشت سوانح عمری لکھنے کا رجحان بھی عام طور پر اس دور

میں پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان شباب و شیب کی

قدم وادیوں سے گزر کر کہولت کی منزل میں رکھتا ہے۔ آپ بیتی سنانے کی یہ فطری

خواہش مجلسی ماحول ہی میں پوری ہوسکتی

ہے۔ غالب کی اردو خطوط نویسی کا سلسلہ بھی زندگی کے اسی مرحلے میں شروع ہوا۔

واقعہ انقالب کے بعد انہوں نے مجلسی

ماحول سے محرومی کا مداوا خطوط سے کیا لہ ۔ ان محرکات نے ان کے خطوط میں مراس

نگاری اور مکالمہ نگاری کے فاصلوں کو

ختم کر دیا۔ وہ اپنے خطوط میں جو فضا قائم کرتے ہیں۔ اس میں وہی کیفیات ملتی ہیں جو

اس قسم کی شبانہ محفلوں میں عام طور پر

ہوتی ہیں۔ خبریں سنانا، خبروں پر تبصرے، باتیں کرنا، مکالمے، شکوے شکائتیں، ماحول

دلی کی فضاء پیدا کرنے کی مرقع کشی، زندہ

کے لیے لطیفے اور بذلہ سنجی، زندگی کی آرزؤں اور تمناوؤں کا اظہار، آرزوؤں کی

شکست و رنجت سے پیدا ہونے والے غم سے

خود نباہ کرنا اور دوسروں کو بھی حوصلہ دالنا، غالب کے خطوط کی اہم خصوصیات

(۲۵ہیں۔" )

حاسن پر کی گئی جس کے بارے میں یہاں پر مختصر سی بات صرف خطوط غالب کی م

ڈاکٹر غالم حسین ذوالفقار نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اس کے بعد مرزا غالب کے اخالق

و عادات اور دوست احباب سے جو تعلق تھا اس کا ذکر بھی صرف اردو خطوط میں نہیں جو خط فارسی بلکہ فارسی خطوط میں اسی طرح موجود ہیں اگر اس کا موازنہ کیا جائے تو

زبان میں لکھا گیا ہے وہی اور اسی طرح کا خط اردو زبان میں بھی لکھا گیا ہے کیونکہ

سادہ مرزا غالب ایک کثیر االحباب شخصیت کے مالک تھے اسی طرح مرزا صاحب طبغادل راست گو، صلح کل، انسان دوست اور مرنجان مرنج شخصیت کے مالک بھی تھے۔

اور ایثار و کرم کی خوبی بھی مرزا غالب کی عادات میں شامل تھی۔ مرزا قلندری و آزاد کی

کے ہاں ہر وقت دوسوں کی کثیر تعداد موجود ہوتی تھی۔ غالب چونکہ ایک خوش طبع اور خوش مذاق آدمی تھے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر لوگ نشاط اور سرور حاصل کرتے تھے اسی

ثیت حاصل تھی اسی وجہ سے مرز کے وجہ سے غالب کی شخصیت کو ایک مقناطیسی حی

ہاں کی مسلمان، ہندو، اور ہرطرح کے لوگ آکر بیٹھ جاتے تھے اور خوشی محسوس کرتے تھے فارسی کے ایک خط میں راج بھرت پور کے نام لکھتے ہیں۔

فارسی:

298

"آئین تسلیم نہ آنست کہ اگر سیلی از دست دوست خورند گرہ برابرو فگنند یا اگر بمثل

د سرد زدند۔ یزدان را سپاس کہ اگر سنگ بار

چہ غم بسیار دادہ است لیکن دوستان غمخوار دادہ است۔ یا رب این گر انمایگان کہ با چون

منی کہ بہ ھیچ نیرزم مہرمی ور رند کیا نند

اینان را از کدام گوھر آفریدہ۔"

اردو ترجمہ:

تسلیم و رضا کا یہ شیوہ نہیں اگر دوست کے

ائیں تو ماتھے پر بل ڈال ہاتھ سے طمانچہ کھ

لیں اور اگر پتر برسے تو سر چھپائےہللا کا شکر ہے کہ اگر چہ اسی نے بہت غم دیئے

ہیں لیکن ان کے ساتھ غمخوار دوست )بھی(

دیے ہیں۔ یا خدایہ گراں مایہ لوگ کون ہیں کہ مجھ جیسے بےقدر و قیمت شخص سے

محبت کرتے ہیں اور تو نے ان لوگوں کو

(۲۶سے پیدا کیا ہے۔" )کس جوہر

مرزا غالب نے فارسی زبان و ادب میں اپنے دوستوں اور شاگردوں کے بارے میں جتنے

خطوط لکھے گئے ہیں مرزا غالب اخالق کے بہت بڑے مرتبے پر فائز تھے۔ عفو و درگزر بندہ نوازی، انکساری و مروت، تواضع و خدمت ان کے اخالق و عادات کا حصہ تھے مرزا

ے اخالق اور عادات کے بارے میں موالنا حالی لکھتے ہیں۔غالب ک

"مرزا کے اخالق نہایت وسیع تھے۔ وہ ایک

شخص سے جو ان سے ملنے جاتا تھا، بہت

کشادہ پیشانی سے ملتے تھے جو شخص ایک دفعہ ان سے مل آتا تھا اس کو ہمیشہ ان سے

ملنے کا اشتیاق رہتا تھا دوستوں کو دیکھ

وجاتے تھے اور ان کی خوشی کروہ باغ باغ ہسے خوش اور ان کے غم سے غمگین ہوتے

تھے۔ اس لیے ان کے دوست ہر ملت اور ہر

مذہب کے نہ صرف دہلی میں بلکہ ہندوستان میں بے شمار تھے۔ جو خطوط انھوں نے

اپنے دوستوں کو لکھے ہیں ان کے ایک ایک

حرف سے مہر و محبت و غمخواری و ۔ ہر ایک خط کا یگانگت ٹپکتی پڑتی ہے

جواب لکھنا، وہ اپنے ذمے فرض عین

سمجھتے تھے ان کا بہت سا وقت دوستوں

299

کے خطوں کے جواب لکھنے میں صرف ہوتا تھا۔ بیماری اور تکلیف کی حالت میں بھی

وہ خطوں کے جواب لکھنے سے باز نہ آتے

تھے وہ دوستوں کی فرمائشوں سے کبھی ح کے تنگ دل نہ ہوتے تھے غزلوں کی اصال

سوا اور طرح طرح کی فرمائیشیں ان کے

بعض خالص و مخلص دوست کرتے تھے اور وہ غالب ان کی تعمیل کرتے تھے،

مروت اور لحاظ مرزا کی طبیعت میں بہ

درجہ عنایت تھا۔ سائل ان دروازے سے خالی ہاتھ بہت کم جاتا تھا۔ ان کے مکان کے آگے

ت لنگڑے لولے اور اپاہچ مرد و عورت ہر وق

پڑے رہتے تھے۔ غدر کے بعد ان کی آمدنی کچھ اور ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار ہوگئی تھی

اور کھانے پینے کا خرچ بھی لمبا چوڑا نہ

تھا۔ مگر وہ غریبوں اور مختاجوں کی مدد اپنی بساط سے زیادہ کرتے تھے۔ اس لیے

(۲۷اکثر تنگ رہتے تھے۔" )

د ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی دونوں زبانوں میں جو خطوط ہمارے سانے موجو

پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی جس میں وہ اپنے دوستوں کی خوشیوں میں خوش

اور غموں میں غمگین رہنے والے آدمی تھے اور اپنی زندگی دوستوں اور اپنے احباب پر کا حلقہ نہایت نچاور کرنے والوں میں شامل تھے۔ کیونکہ مرزا صاحب کے دوست و احباب

وسیع اور پھیال ہوا تھا اور ہر وقت ان کی خدمت میں ہمہ تن گوش رہتے تھے۔ منشی ہرگوپال

تفتہ نے نواب مصطفے خان شیفتہ اور ساتھ ضیاءالدین احمد خان نیر کی تعریف میں ایک کھتے قصیدہ لکھا تھا مرزا نے ان کا صلہ دلوایا اس کے بارے میں غالب ہر گوپال تفتہ کو ل

ہیں۔

"تم کو معلوم رہے کہ ایک ممدوح تمھارے

آتے ہیں ان کو میں نے تمھارے فکر اور

ء میں ۱۸۶۲تکالش کا مالح پایا۔ جنوری کچھ تمھاری خدمت میں بھیجیں گے تم کو

قبول کرنا ہوگا۔ سمجھے یہ کون؟ یعنی نواب

مصطفے خاں صاحب دوسرے ممدوح یعنی آخر دسمبر نواب ضیاءالدین احمد خاں، وہ

ء یا اوائل جنوری میں حاضر ہوں ۱۸۶۲

(۲۸گے۔" )

چونکہ مرزا کا تعلق سنی، شیعہ، ہندو، سکھ ہر طبقہ کے لوگوں سے تھا ، امیر اور غریب ہر

قسم کے لوگ ان سے فیض اٹھاتے تھے اور خوشی محسوس کرتے تھے۔ کیونکہ غالب

300

ہ اڑانے والے شخصیت تھے۔ جیسے عظیم فن کار خوش طبع اور دوسرے کا کبھی مذاق ناسی دوست و احباب کے بارے میں غالب اور غہد غالب میں ان کے شاگردوں اور دوسرے

احباب کے بارے میں لکھتے ہیں۔

"ان کے شاگردوں اور دوستوں کا حلقہ نہایت

وسیع ہے جس میں ہر طبقے اور مذہب کے

لوگ شامل ہیں، مثال منشی نول کشور، بال شی شیو نرائن آرام، منشی مکند بے خبر، من

جواہر سنگھ، امید سنگھ، منشی ہرگوپال تفتہ،

میر مہدی مجروح، مفتی صدرالدین آرزدہ، مصطفے خاں شیفتہ، موالنا فضل حق خیر

آبادی، خواجہ الطاف حسین حالی، سرسید

احمد خان وغیرہ وغیرہ ہے۔ غالب سے محبت کرنے والوں میں صرف دنیا دار ہی نہیں

و قال لوگ بھی نظر آتے ہیں۔" صاحب حال

(۲۹)

اردو زبان و ادب میں نظم و نثر کے نمونے دکن اور فورٹ ولیم کالج میں منظر عام پر آچکے

تھے اگر چہ اردو نثر نگاری میں سب سے دل کش اور الزوال نمونے خطوط غالب کی وجہ نے علمی، ادبی سے منظر عام پر آگئے تھے لیکن اس سے پہلے سر سید اور ان کے رفقاء

سرگرمیوں میں پہلے سے شہرت حاصل کی تھی۔ لیکن دنیا کی دوسری ترقی یافتہ زبانوں کی

طرح اردو نثر نے بھی علمی و ادبی مقام میں قدم رکھا تھا اور اس میں مرزا غالب کا حاص مقام ہے وہ ہے فارسی اور اردو خطوط کے حوالے سے اردو نثر کے ارتقاء میں غالب کا جو

حصہ ہے اس کا نظیر ملنا مشکل ہے اگر مرزا نے آج سے پہلے سادہ اور بےتکلف انداز

تحریر اختیار نہ کیا ہوتا تو شاید اس وقت ہماری زبان میں اسی طرح کی عبارت آرائی کی جاتی اور ہم اسی طرح قوافی کی تالش میں سرگرداں نظر آتے جس طرح فارسی نثر کے تتبع

یں کر رہے تھے۔ مرزا نے اپنے ملکہ انشا پردازی سے سادہ زبان میں میں ہم ابتدائی دور م

بے تکلفی، جدت شیرینی، لطافت اور ظرافت کارس بھر کر اپنے انداز تحریر کو بے حد دلکش اور سہل ممتنع بنا دیا اور اپنی شخصیت اور طبیعت کی شگفتگی اور زور قلم کو کام

ی اور زبان کو وہ تازگی بخشی۔ جس کے سامنے بڑے میں الکر اپنے انداز بیان کو وہ تابندگ

بڑے انشا پردازوں کی نگارشات ماند اور پھیکی پڑ گئیں۔دوسروں کے ذہن میں بات بٹھانا یہ فن غالب سے زیادہ کون جانتا تھا کیونکہ غالب خود بھی بات کرتے تھے صاف اور سادہ

قع رکھتے تھے ایک سچا فن الفاظ میں کہنے کے عادی تھے اور دوسروں سے بھی یہی تو

کار اپنے فن میں اظہار شخصیت کے معاملے میں دوئی اور دو رنگی کا نہ شکار ہوتا ہے اور نہ ہی متہمل ہوسکتا ہے اور یہ بات غالب کی شاعری اور خطوط دونوں پر پوری طرح

صادق آتا ہے۔ غالب کے ہاں شاعری میں بھی ان کی شخصیت کے نمایاں حصے ظاہر ہوئے

یں اپنے ایک دوست عیشں و آرام اور غزل کہیں اور شراب پئیں اور آزاد زندگی گزارنے ہ دوکے بارے میں غالب یوں لکھتے ہیں۔ منشی ہرگوپال تفتہ کے نام۔

فارسی:

301

"بحیر تم کہ ملول چرائید کدام حلقہ دام است کہ آھنگ گستن آن دارند خدمتی نسیت،

زحمتی نسیت صحبتی ھست، عشرتی ھست۔

انکہ خواھند باشند از صبح تا شام و از شام چنتا بام سخن شگالند و غزل گویندومی خورندو

آزاد زیند۔"

اردو ترجمہ:

حیران ہوں کہ تم افسردہ کیوں ہو! وہ کون سا حلقہ دام ہے جسے توڑنے کا ارادہ ہے؟ کسی

کی نوکری نہیں، )دل میں( کوئی زخم نہیں،

ہے۔ صحبت )احباب( ہے اور عیش و آرام جس طرح چاہیں رہیں۔ صبح سے شام تک

اور شام سے صبح تک فکر سخن کیا کریں۔

غزل کہیں شراب پئیں اور آزادی کی زندگی (۳۰گزاریں۔" )

جس طرح خطوط میں ان کی شخصیت کے نمایاں حصے ظاہر ہوئے ہیں اسی طرح شاعری ط میں دونوں میں ان کے علم و فن اور ان کی شخصیت کے حصے نمایاں ہیں لیکن خطو

طرح کے فارسی اور اردو دونوں کے غالب کے شاعری میں اتنا زیادہ ہے خطوط میں ان کی

شخصیت ، عادات و اطوار، اخالق، خوبیاں اور خامیاں دونوں اجاگر ہوتی نظر آتی ہیں دونوں زبانوں میں لکھے گئے خطوط میں غالب کی ایک بات واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ

صیت بالکل واضح ہوکر سامنے آجاتے تھے اس میں صرف اپنی ذات کے مرزا کی شخ

حوالے سے نہیں بلکہ دوستوں کے بارے میں بھی برمال اظہار کے قائل تھے شراب نوشی ہو، قرض داری ہو، ؟بازی جیسے باتوں پر سرپوشی نہیں کی اور ہمیشہ ان کا ظہار کیا ہے۔

و یا کسی نسخہ میں امال کی درستگی ہو بغیر اگر کسی نسخے میں درکار اشعار کی وضاحت ہ

کسی حوف کے وہ کھلے عام کہ دیتے تھے منشی ہرگوپال کو ایک خط میں یوں لکھتے ہیں۔

فارسی:

مشفق من اللہ ھر گوپال تفتہ از جانب اسدہللا

از خود رفتہ بعد سالم این زحمت درپذیر نرکہ

خاطر از چند روز جو یای دیوان محمد حسین نظیری و جماکل الدین عرفی است و چنان

مسموع شدہ کہ این ھردو نسخہ آن کرم

فرمادارند، ال جرم خواھش آنست کہ ھردو عرفی ھمیں دم بہ نسخہ یعنی دیوان نظیری و

نامہ سپار بسیار ندواگر احیانا ایفوقت ارسال

آن مجموعہ ھا اتفاق نبغتد فردا بامدان کہ نزد

302

من آیند با خود آور ندو بندہ را درین خواھش مبرم شنا سند زیادہ زیادہ۔"

اردو ترجمہ:

میرے مشفق ہرگوپال تفتہ اسدہللا از خود رفتہ

ت گوارا کریں کا سالم قبول کریں اور یہ زحمکہ چونکہ کئی دن سے مجھےمحمد حسین

نظیری اور جمال الدین عرفی کے دیوان کی

تالش ہے اور یہ سننے میں آیا ہے کہ یہ دونوں نسخے ان کر مفرما )یعنی آپ( کے

پاس ہیں، الزمی یہ چاہتا ہوں کہ یہ دونوں

نسخے یعنی دیوان نظیری و عرفی اسی وقت اور اگر اتفاقا یہ حامل خط کے حوالے کردیں

مجموعے اس وقت بھیجنے نہ جاسکیں )تو(

کل صبح جب )آپ( میرے پاس آئیں اپنے ساتھ لیتے آئیں اور یہ جان لیں کہ یہ درخواست

بصد اصرار ہے اس سے زیادہ اور کیا

(۳۱کہوں۔" )

مرزا غالب کی خوبی صرف فارسی اشعار یا خطوط میں نہیں بلکہ اردو اشعار اور خطوط

ی ایسے جملوں سے بھرے پڑے ہیں ویسے بھی غالب کو قدرت نے شعر و ادب کے لیے بھاس دنیا میں بھیجا تھا اور جو جوہر ان کو عطا کیے گئے تھے وہ دوسروں میں ناممکن ہے

کافی عرصے تک فارسی زبان میں نظم و نثر میں مصروف رہنے کے بعد اردو کی طرف

کو وہ کچھ دیا جس کی مثال نہیں فارسی میں شعرو ادب متوجہ ہوئے اور اردو زبان و ادب کو پوری طرح سمیٹنے لینے کے بعد اردو کی فضا میں قدم رکھا اور ابر گوہر بار بنا کر

نمودار ہوئے، زبان کی لطافت، الفاظ کی موزونی بیان کے حسن اور تراکیب کی دالویزی کے

کے معانی کو کوزے میں بند کرنے کی وہ اسرار و رموز پیش کیئے اور اس کے ساتھ الفاظ ہنر مندی میں وہ کمال حاصل کیا، سخن دانی و سخن فہمی کے جو جوہر مرزا کے ہاں ہے وہ

کسی اور کے ہاں ملنا دشوار ہیں مولوی عبدالغفور خان ساح کے نام ایک خط میں غالب

لکھتے ہیں۔

"دیوان فیض عنوان اسم باسمی ہے دفتر بے

جا ہے۔ الفاظ متین معانی بلند مثال اس کا نام بعمدہ بندش دل پسند ہم فقیر لوگ اعالن کلمہ

الحق میں بے باک و گستاخ ہیں شیخ امام

بخش طرز جدید کے موجد اور پیرانی ناہموار روشوں کے ناسخ تھے۔ آپ ان سے بڑھ کر

بعینہ مبالغہ بے مبالغہ نساح ہیں تم دانائے

رو امور اردو زبانہو، سرمایہ نازش قل

303

ہندوستان ہو، خاکسار نے ابتدائے سن تمیز میں اردو زبان میں سخن سرائی کی ہے، پھر

اوسط عمر میں بادشاہ دہلی کا نوکر ہوکر چند

روز اسی روش پر خامہ فرسائی کی ہے، نظم و نثر فارسی کا عاشق اور مائل ہوں۔ ہندوستان

میں رہتا ہوں۔ مگر تیغ افہانی کا گھائل ہوں۔

زور چکا سکا، فارسی زبان میں جہاں تکبہت کچھ بکا۔ اب نہ فارسی کی فکر نہ اردو

کا ذکر نہ دنیا میں توقع نہ عقبی کی امید میں

ہوں اور اندوہ ناکامی جاوید جیسا کہ خود ایک قصیدہ لغت کی تشبیب میں کہتا ہوں۔

چشم کشود اند بکر ہائے من زییندہ نا امیدم واز رفتہ شرمسار

ک کم ستر سال دنیا میں رہا اب اور کہاں ایتک رہوں گا ایک اردو کا دیوان ہزار بارہ

سوبیت کا تین رسالے نثر کے یہ پانچ نسخے

مرتب ہوگئے اب اور کیا کہوں گا مح کا صلہ نہ مال غزل کی داد نہ پائی، ہرزہ گوئی میں

(۳۲ساری عمر گنوائی۔" )

زا کو حاصل ہے نہ وہ پہلے ان سے موجود تھا اور القاب و آداب کے بارے میں جو کمال مر

نہ بعد میں کسی نے اپنایا کیونکہ غالب سے پہلے جو خطوط لکھے جاتے تھے اس میں

لمبے چوڑے القابات و آداب موجود ہوتے تھے اس حوالے سے غالب کا کمال یہ ہے کہ انہوں جو نثر موجود ہے غالب نے نے اپنی نثر میں خواہ فارسی زبان میں ہے یا اردو زبان میں

اپنی نثر کے ہر زاویے اور ہر پہلو میں اپنی ایجاد و اختراع کی بناء پر زبان کا دامن وسیع کیا

ہے۔ غالب کے استعمال کردہالقابات و آداب دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لفظوں کے کی چیز یہ ہے کہ نئے نئے استعمال کے بہت بڑے خالق اور لفاظی کے شہنشاہ ہیں۔ خاصے

ان القاب و آداب نے تحریر یا زبان کو بوجھل نہیں ہونے دیا بلکہ شگفتہ بنا دیا ہے۔ القابات کی

کثرت بے تکلفی، بے ساختگی اور گفتگو کے انداز پر مبنی ہے غالب القاب استعمال کرتے ریر ہوئے شخص اور شخصیت دونوں کا خیال رکھتے ہیں، ہر کسی کے حسب حال القاب تح

کرنا مرزا غالب ہے نواب والءالدین عالئی کے نام خطوط میں حسب ذیل القاب لکھے ہیں۔

"اجی موالنا عالئی، مرزا عالئی موالئی، میری جان، صاحب جانا عالیشانا، مرزا بیان،

سعادت و اقبال نشان، یار بھیجتے گویا بھائی موالنا عالئی وغیرہ۔"

ت دیکھئے۔مرزا تفتہ کے نام خطوط کے القابا

مہاراج، بندہ پرور، کاشانہ دل کے ماہ دو ہفتہ منشی ہر گوپال تفتہ، نور نظرو لخت مگر، جی مرزا تفتہ، برخوردار، میرے مہربان۔

304

میر مہدی مجروح کے نام ایک خط میں جو القاب لکھے ہیں اس سے خط کے مضمون کا ہیں۔اندازہ ہوجاتا ہے غالب میر مہدی مجروح کے نام یوں لکھتے

(۳۳"جو یالے حال دہلی والو سالم لو")

اصل میں یہ صرف القاب ہی نہیں بلکہ ایک موزوں مصرع بھی ہے اسی طرح فارسی اور

اردو میں اپنے چھوٹوں کے لیے مہاراج، سیدمیاں، صاحب، سید، فرزنددلبند، میری جان قبال نشان وغیرہ برخوردار، بھائی، نور چشم راحت جاں، اقبال نشان، جان من، سعادت و ا

جیسے القابات سے مخاطب کیا ہے جب کہ خواجہ غالم غواث خاں بے خبر، نواب انوار

الدولہ شفق اور شہزادہ بشیر الدین جیسے لوگوں کو پیرومرشد، جناب عالی، قبلہ و کعبہ، قبلہ حاجات اور خداوند نعمت جیسے القابات سے نوازا ہے۔

وط میں غالب نے طویل اور پر تصنع القاب استعمال کیے نواب میر غالم بابا خاں کے نام خط ہیں چند مثالیں مالخظہ ہوں۔

"سبحان ہللا تعالی شانہ، مااعظم ہریانہ، جناب مستطاعت نواب میر غالم بابا خاں، سقودہ بہر زبان و نامور بہر دریا، نواب صاحب، شفیق کرم کسترمہ نفوی تبار، نواب میر غالم بابا خاں

بہادر"

واب صاحب، جمیل المناقب، عمیم االحسان، عالی شان، داال دودمان زاد مجدکم۔"ن

اس کے عالوہ غالب کے خطوط میں استعمال ہونے والے کچھ ملے جلے القابات بھی مالحظہ ہوں۔

"حضرت ولی نعمت، آیہ رحمت سالمت، میری جان، خدا تیرا نگہبان، میاں لطیف، مزماج، تہد العصر سرفراز حسین، سعادت و اقبال نشاں منشی میاں داد شریف، میری جان کے چین مج

خاں۔"

مرزا غالب کے ان مثالوں سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ غالب نے جو القاب استعمال کئے

ہیں۔جوکہ فارسی یا اردو خطوط میں کیے ہیں غالب کے ہاں ان القاقب و آداب میں بھی واضح

آفرینی سے کام لیا ہے۔ غالب سے پہلے جو القاب و آداب طور پر بھی معنی آفرینی اور نکتہ موضوع بھی آنے کی خطوط میں استعمال ہوتے تھے غالب نے ان کا خاتمہ کیا اور فورا

کوشش کی ہے فارسی زبان میں چند مثالیں مالخظہ ہوں جو بغیر القاب و آداب کے شروع کیا

ہے۔

فارسی:

زہ جان من درآن ھنگام سر نگرانی از اندا

گذشت و دل اگہی جوی بود۔

اردو ترجمہ:

"میری جان اس وقت پریشانی حد سے زیادہ (۳۴تھی اور دل )تمھاری( خیر کا طالب تھا۔")

305

فارسی:

نور دیدہ و سرور سینہ غالب منشی جواھر

سنگھ از عمر و دولت برخورند۔"

اردو ترجمہ:

")خدا کرے( غالب کی آنکھوں کا نور اور دل

جواہر سنگھ عمر و دولت سے کا سرور منشی

(۳۵بہرہ مند ہوں۔" )

نواب عالؤالدین احمد خان بہادر کے نام:

فارسی:

"جانشین غالب را از غالب دعا، نامہ شما و پیام وال برادر رسید، ھی ھی چہ مایہ ببدردو

بدگمانست کہ سخن نمی پذیردومیداند کہ سخن

میتوانم گفت۔"

اردو ترجمہ:

غالب کی دعا۔ آپ کا خط "جانشین غالب کو

برادر گرامی )نواب امین الدین احمد خاں کا

پیاغام پہنچا۔ ہائے ہائے کس قدر بے درد اور بدظن )شخص( ہے کہ )میری( بات نہیں مانتا

(۳۶اور سمجھتا ہے" )

اردو سے پہلے مرزا نے فارسی ادب کی پوری طرح علم و دولت سمیٹ لینے کے بعد اردو

کی فضا میں وہ موتی بروئے کہ دنیا ادب میں اس کی مثال نہیں، غالب کے ہاں زبان کی

لطافت، القانی کی موزونی ہوں، بیان کے حسن اور تراکیب کی دآلویزی کے اسرار ان پر طوط میں بے تکلفی اور سادگی جدت طرازی، شوخی روشن ہوچکے تھے غالب کے خ

تحریر، جزئیات نگاری اور نظر کشی ذات اور ماحول ہو یہ تمام چیزیں غالب کے دونوں

طرح کے خطوط میں پائے جاتے ہیں۔ مرزا غالب کے مکاتیب میں ذات اور ماحول کی نمایاں را نقشہ تیار کیا جاسکتا خصوصیات پائی جاتی ہے اور ان روشنی میں غالب کی زندگی کا پو

ہے اس کے بعد منظر کشی ہو جزئیات کی منظر کشی اور ماحول اور واقعے کی مکمل

تصویر کھینچنا ہو کوئی غالب سے پوچھے ان سے بہترین منظر کشی کسی اور کے ہاں نہیں ،لتی اس کے بعد جزئیات نگاری بھی مکاتیب کا خوب صورت نمونہ پیش کرتی ہیں مرزا کے

ہر خط میں پوری تفصیل، تحریر کی حسن بھی فن کا درجہ حاصل کرتی ہے وہ جزئیات ہاں

نگاری ہر خط میں واقعات و مناظر کی بطور خاص خیال رکھتے تھے ان کے ہاں جزئیات و تفاصیل اس دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں کہ تحریر میں اور مزہ بڑھ جاتا ہے۔ مفصل

ہ ہوجاتے ہیں لیکن غالب جزئیات نگاری کا خاص خیال بیانات عموما بے لطف اور بے مز

رکھتے ہیں۔ مرزا جزئیات نگاری کو اس ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ تحریر بے مزہ ہونے

306

کے بجائے پر لطف ہوجاتی ہے۔ اپنے زور بیاں سے مرزا کو حاالت و واقعات کی لفظی وں میں شاید ہی وہ تصویریں کھینچے پر وہ قدرت حاصل ہے کہ رنگ و روغن کی تصویر

دلکشی و تاثیر ہو جوان کے لفظی پیکروں میں موجود ہوتی ہے ایک خط میر مہدی مجروح

کو یوں لکھتے ہیں۔

میں بہ مجرد استماع اس خبر کے ڈاک میں

بیٹھ کر میرٹھ گیا۔ ان کو دیکھا ۔ چاردن وہاں رہا، پھر ڈاک میں اپنے گھر آیا، دن و تاریخ

۔ مگر ہفتے کو گیا، آنے جانے کی یاد نہیں

منگل کو آیا۔ آج بدھ دوم فروری ہے مجھ کو (۳۷آئے ہولے نواں دن ہے۔" )

مرزا کے ہاں جزئیات اس تفصیل اور دلکش انداز میں ہوتے ہیں کہ تحریر میں بد مزگی کی بجائے لطف پیدا ہوتا ہے۔ بنام رائے چھمبل کہری کے نام لکھتے ہیں۔

فارسی:

خوئے مست بحانہ دیروز آخر روز چنانکہ

نواب امین الدین خان میر فتم، در عرض راہ خواجہ رحمت صاحب را یافتم، چون مدت

ھاست کہ میر خیراتی صاحب مرابا خواجہ

صاحب مالقات دادہ اند، سالم علیک"

اردو ترجمہ:

اچھا سنو کل دن دھلے اپنی عادت کے مطابق

)جب( نواب امین الدین خان کے گھر جارہا

استے میں خواجہ رحمت )علی( تھا تو رصاحب مل گئے، چونکہ مدتوں پہلے میر

خیراتی )میر محمد حسین عرف میر خیراتی(

خواجہ صاحب سے میری مالقات کراچکے (۳۹ہیں۔ سالم علیک ہوئی۔" )

جزئیات نگاری کی ایک بہترین مثال منشی بنی بخش مرحوم کے ہاں دیکھیں۔

فارسی:

فروھشتہ "صبح است، پردہ ھای ایوان

"درمنقل آترشی افروختہ ومن برکنار منقل نشستہ و دست بر آتش داشتہ، خاور سعری

پردہ باالزدہ اندپر تو مہر جہانتاب زاویہ را

فرو گرفت،"

307

اردو ترجمہ:

"صبح کا وقت ایوان کے پردے گرے ہوئے

ہیں انگھیٹی میں آگ روشن ہے اور میں ۔ انگھیٹی کے پاس بیٹھا ہاتھ تاپ رہا ہوں

مشرق کی جانب پردہ اٹھا ہوا ہے اور کمرے

(۴۰میں دھوپ پھیلی ہوئی ہے۔ )

میر مہدی مجروح کے نام جزئیات نگاری کی ایک مثال مالخظہ کیجئے۔

"میرٹھ سے آکر دیکھا کہ یہاں بڑی شدت ہے۔

اور یہ حالت ہے کہ گوروں کی پاسبانی پر

قناعت نہیں ہے۔ الہوری دروازہ کا تھانے دار ھا بچھا کر سڑک پر بیٹھا ہے۔ جو باہر مونڈ

کے گورے کی آنکھ بیچا کر آتا ہے۔ اس کو

پکڑ کر حواالت میں بھیج دیتا ہے۔ حاکم کےہاں پانچ پانچ بید لگتے ہیں یا دو روپے

جرمانہ لیا جاتا ہے۔ آٹھ دن قید رہتا ہے۔"

(۴۱)

مثالیں ہے اس کے جزئیات نگاری اور منظر کشی کے عالوہ ذات اور ماحول کی بے شمار

عالوہ نکتہ افرینی، شوخی، مزاح اور ظرافت کی گئی مثالیں موجود ہیں ابتال و اسیری وظائف و پنشن اور سفر کے واقعات فارسی اور اردو خطوط میں پائے جاتے ہیں مرزا غالب کا

فارسی کالم ندرت بیان اور مضمون آفرینی کی وجہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے لیکن اس

ے ساتھ مرزا کے اردو خطوط بھی ہمارے اس دور کی سماجی زندگی کا مطالعہ کرنے کا کبہٹ بڑا ذخیرہ ہیں۔ زندگی کے وہ حصے جو شعر میں چھپ جاتے ہیں وہ مرزا کے ان

خطوط میں ظاہر ہوتے ہیں دلی کا حال بالکل ایسا لگتا ہے جیسے آنکھوں کے سامنے ہو، دلی

ہندوستانیوں کے ساتھ ظلم و زیادتیاں ہو یا ظلم و زیادتی ہو اور کی تباہی ہو یا انگریزوں کینئی طرز کی زندگی کی آمد جیسے واقعات و حاالت کا ذکر، اس کا ذکر ایک خط میں میر

سرفراز حسین کو لکھتے ہیں۔

"کتابیں کہاں سے چھپواتا۔ روٹی کھانے کو

نہیں، شراب پینے کو نہیں ، جاڑے آتے ہیں،

کی فکر ہے۔ کتابیں کیا لحاف تو شک چھپواونگا میاں میں بڑی مصیبت میں ہوں۔

مجلسراکی دیواریں گر گئی ہیں۔ پاخانہ ڈھے

گیا ہے، چھتیں ٹپک رہی ہیں۔ دیوان خانہ کا حال محلسرا سے بدتر ہے۔ ابر دو گھنٹے بر

سے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے اگر تم

سے ہوسکے تو مجھ کو وہ حویلی جس میں سن رہتے ہیں میرے رہنے کو دلوادو، میر ح

308

برسات گذر جائے گی۔ مرمت ہوجائے گی پھر صاحب اور میم اور بابا لوگ اپنے قدیم

(۴۲مسکن میں آرہیں گے")

مرزا غالب کے اردو، فارسی خطوط اس حوالے سے بھی بہت زیادہ اہم ہے مواد خواہ

ت یا یہ مقام کسی دوسرے سماجی تاریخ کے مطالعے کے لیے فراہم کرتے ہیں یہ خصوصی

خطوط نگار کو حاصل نہیں ہوا جو اس زمانے کی میں وہ اہم واقعات جو کہ سیاسی اور اقتصادی زندگی کے مطالعے میں گم ہیں غالب کے یہ خطوط اہم بہت زیادہ اور معتبر مواد

فراہم کرتے ہیں پروفیسر نذیر احمد غالب کی مکتوب نگاری کے بارے میں جو فارسی اور

اردو کے حوالے سے ہیں لکھتے ہیں۔

اگر حقیقت پوچھے تو یہ ہے کہ غالب کے

فارسی خطوط میں وہ کیف اور مزہ ہے جو اس وقت کے ایرانی نامہ نویسوں کے ہاں

باوجود اہل زبان ہونے کے، نظر نہیں آتا،

ابالغ و Communication خطوط نویسی ترسیل کا اہم ترین وسیلہ ہیں۔ جو اس فن میں

جس قدر ماہر ہوگا اس کے خطوط بھی اتنے

ہی با اثر ہوں گے۔ غالب کے اردو خطوط ان کے اس وصف مخصوص کے جیتے جاتے

ثبوت ہیں۔ زبان بدل جانے سے فطری

صالحیت کم نہیں ہوتی، مختلف سمت میں Channelise ہار اس ہوجاتی ہے اور اپنا اظ

زبان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کرتی

ہے کہ یہی بالغت ہے۔ غالب کے فارسی (۴۳مکتوب اسی بالغت کے آئینہ دار ہیں۔)

مرزا غالب کے فارسی اور اردو خطوط کے تقریبا تمام پہلو پر اظہار خیال کیا گیا ہے کیونکہ گئےط ہیں جو مرزا غالب غالب کے اردو اور فارسی خطوط ایک خاص اسلوب میں لکھے

سے مختص ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ غالب کے فارسی خطوط میں تقریبا وہی انداز بیان و

نگارش اختیار کیا ہے جس کا رواج ہندوستان میں کئی سو سالوں سے چل رہا تھا، خطوط غالب بنیادی طور پر بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں ہر امور سے بحث کی گئی ہے۔ اصل

میں یہ خطوط فارسی زبان کے ہو یا اردو زبان میں لکھے گئے ہیں یہ خطوط ان کی زندگی،

احباب، شاگردوں وغیرہ ملنا مالنا اور ان کے تعلقات کی نوعیت کیا تھی، ان کے ادبی رجحانات، معاصر سماجی، معاشرتی حاالت کی عکاسی اور ان کے بارے میں غالب کی

و ادبی معر کے ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہیں۔ رائے اس کے ساتھ ساتھ علمی

مرزا غالب کی زبان پر فارسی کے اثرات نہ صرف گہرے ہیں بلکہ اردو زبان فارسی کے

زیر سایہ ہی پروان چڑھی ہے۔ اور غالب کو فارسی زبان سے جو محبت تھی اس کے بارے

سادہ سہل اور آسان زبان میں میں رائے نہیں ہوسکتیں، غالب کے خطوط اردو میں اگر چہ

309

لکھے گئے ہیں تاہم فارسی کے اثرات پھر بھی نمایاں طور پر اپنا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ غالب کے فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال ایسی روانی اور

ے۔ اس کے باوجود برجستگی سے کیا ہے کہ ان سے نثر زیادہ موثر اور معنی خیز ہوگئی ہ

بعض خطوط میں ثقیل فارسی الفاظ و تراکیب بھی نظر آتے ہیں ان میں کچھ خطوط نواب سورت مفتی سید محمد عباس اور مولوی عبدالرزاق شاکر کے نام لکھے گئے ہیں۔ ان میں

تکلف نظر آتا ہے۔ شیخ محمد اکرام ایسے خطوط کے بارے میں لکھتے ہیں۔

میں یہ تکلف اور "ایسے خطوط کی تعداد جن

آورد فارسی الفاظ و تراکیب کی فراوانی ہو

بہت نہیں۔ جوں جوں مرزا کا طرز تحریر پختہ ہوا انہوں نے دیکھا کہ سلیس اردو میں

کیسی کیسی گلکاریاں ہوسکتی ہے تو فارسی

(۴۴تراکیب کی کثرت بھی جاتی رہی۔ )

ی اور اس نے یہاں کے مقامی فارسی ایک طویل عرصے تک ہندوستان کی سرکاری زبان رہ

ماحول کو بہت متاثر کیا۔ اس لیے اردو کو جب تحریری شکل ملیرسم الخط ہی کی وجہ سے ( ۱۸۰۰مال۔ ویسے بھی اردو نثر کی طرف صحیح معنوں میں توجہ فورٹ ولیم کالج کے قیام )

قیام میں حاصل ہوئی جیسے انگریزوں نے ہندوستانی ماحول اور سماج کو سمجھنے کے لیے

کیا تھا۔ یہ بات ضروری تھی کہ مقامی زبانوں پر عبور حاصل کیا جائے۔ اردو کو چونکہ برصغیر میں قبول عام حاصل ہوچکا تھا اس لیے انگریزوں نے اس کی طرف خصوصی

توجہ دی اور دیگر زبانوں میں خاص طور پر عربی، سنسکرت سے ترجمے کروائے گئے۔

اردو نثر میں "نوطرز مرصع" کی صورت میں ایک گرانقدر تاہم اس کالج کے قیام سے قبل ء میں مکمل کیا۔۱۷۷۵اضافہ ہوچکا تھا۔ اسے میر عطا حسین خان تخسین نے

فورٹ ولیم کالج کے نثری ادب میں سب سے زیادہ مقبولیت میرا من دہلوی کی تصنیف "باغ و صورت تھی۔ اس بہار" کو حاصل ہوئی جو دراصل "نو طرز مرصع" کی ہی تلخیص شدہ

تصنیف کو بال شبہ اردو نثر کی معراج اور اردو کے نثری سرمائے میں اہم ترین اضافہ کہا

جاسکتا ہے اگر چہ رجب علی بیگ سرور نے "فسانہ عجائب" کے دیباچے میں میرا من کی نثر پر اعتراض کیے ہیں لیکن وہ معاصرانہ چشمک کے سوا کوئی اور حیثیت نہیں رکھتے

خود سرور کی تحریر اور اسلوب میرا من دہلوی کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ کیونکہ

سکے چنانچہ "باغ و بہار" اور "فسانہ عجائب" دونوں کو اردو نثر کے ارتقاء کی اہم کڑی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ شروع میں زیادہ داستانوی سرمایہ دوسری زبانوں میں خصوصا

ے ڈاکٹر خلیق انجم کے مطابق۔فارسی سے ترجمہ شدہ یا ماخوذ ہ

"تقریبا سولھویں صدی سے اردو نظم و نثر

کی صورت میں کتابیں لکھی جارہی ہیں۔

لیکن ابتدائی تین صدی تک اردو امالء کے ارتقاء کی رفتار بہت سست رہی۔ انیسویں

صدی کے شروع کے ساٹھ ستر برسوں میں

310

یعنی عہد غالب میں اردو امالء کے مسائل پر (۴۵گی سے غور کیا جانے لگا۔")سنجید

اردو کے جدید نثر کے ارتقاء میں دوسری بڑی منزل دہلی کالج ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی ء میں قائم ہوئی اس سوسائٹی نے ہندوستانی طالب علموں کے لیے نصابی ۱۸۴۳ہے جو

ات بالکل کتب تیار کیں جن میں بیشتر مختلف علوم کی انگریزی کتب کا ترجمہ تھیں یہ ب

صحیح ہے کہ اس کالج نے اردو نثر کے جدید آہنگ کے لیے فضاء کو بالکل ہموار کر دیا تھا۔ اسی طرح انیسویں صدی میں جاری ہونے والے مختلف اخبارات اور جرائد نے بھی

صاف، سادہ اور سلیس نثر کو رواج دینے میں اہم کردار ادا کیا ان اخبارات اور جرائد میں

جہاں نما" دہلی اخبار، محب ہند، فوائد الناظریں، تحفتہ الحدائق، نور مغربی اور اخبار "جام نور مشرقی وغیرہ کو بڑی شہرت اور اہمیت حاصل ہے۔

اس مختصر تذکرے کے بعد بجا طور یہ کہ سکتے ہیں کہ مرزا غالب سے پہلے ہی جدید نثر ارسی کی تصنیف "پنچ آہنگ کی ابتداء ہوچکی تھی، مرزا غالب کی نثر نگاری کی ابتداء ف

سے ہوئی دوسری تصنیف جو فارسی زبان میں ہے "مہر نیمروز" ہے غالب کا نثری سرمایہ

فارسی زبان و ادب میں ان تصانیف کے عالوہ خاصی تعداد میں وہ خطوط ہے جو ہمیں دستیاب ہیں اسی کے عالوہ بھی کئی رسالے اور کتابیں منظر عام پر آچکے ہیں لیکن غالب

ی نثر کے صحیح اور حقیقی حوبیاں ان خطوط میں کھلتے ہیں۔کیونکہ غالب کی نثری اور ک

تخلیقی صالحیتوں کا اندازہ ان کے خطوط سے ہی ہوسکتا ہے ڈاکٹر خلیق انجم کے مطابق۔

"فورٹ ولیم کالج کی تصنیفات و تالیفات کے

وجود میں آنے سے قبل اردو نثر فارسی کے ہ اردو کے نثر نگار زیر اثر اس حد تک تھا ک

کثرت سے فارسی الفاظ و ترکیبیں استعمال

کرتے تھے بیشتر اوقات فقروں کی قواعدی ساخت بھی فارسی کے انداز پر ہوئی۔ فارسی

انشاء پردازی کے انداز پر غیر معمولی تکلف

(۴۶و تصنع سے کام لیا جاتا ہے۔" )

ھے۔ ایک پر تکلف دوسرا فطری مرزا غالب کے زمانے میں اردو نثر کے دو اسلوب راج ت

اسلوب پر تکلف اسلوب نگاری جو کہ فارسی کی پیروی میں رائج ہوئی، عربی فارسی تراکیب استعارات صنانع اور قواتی، تشبیہات کا زیادہ تر استعمال بھی اس اسلوب کا امتیازی خوبی

بھی فارسی تھی۔ مرزا غالب تک یہی اسلوب مشہور و مقبول تھا مرزا غالب کی زبان پر

اسلوب کی نگارشات عام تھی اور تقریبا تیس برس میں غالب کلکتے گئے تھے اور کوئی دس گیارہ ماہ وہاں مقیم رہے اس دوران انہوں نے فورٹ ولیم کالج کی نثری داستانیں ان کی

نظیروں سے گزرے ہوں گے، میرا من کی باغ و بہار زندہ نثر نے غالب کو بھی متاثر کیا

ب بیس برس بعد غالب نے اردو خطوط نگاری شروع کی تو میرامن کی طرح دہلی جب غالکی زندہ رہنے والی زبان میں ابتداء کی۔ پر تکلف اور پر تصنع انداز کو نظر انداز کرکے

فطری اور سادہ اسلوب اختیار کیا فطری اور سادہ اسلوب اختیار کی اصل وجہ خود غالب نے

311

اری چھوڑ کر اردو کی طرف راعب ہونے کے حوالے سے بیان کی ہے۔ فارسی خطوط نگ مولوی عبدالرزاق شاکر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔

"بندہ نواز فارسی میں خطوں کا لکھنا پہلے سے متروک ہے پیرانہ سری وضعف کے

صدموں سے محنت یژوہی و جگر کاوی کی

قوت مجھ میں نہیں رہی۔ حرارت عزیزی کو ہے۔ شعر مضمل ہوگئے زوال ہے اور یہ حال

(۴۷قوی غالب وہ عناصر میں اعتدال کہاں۔")

کیونکہ فارسی میں لکھنے کے لیے قوت درکار تھی اور طاقت اور وہ اب غالب میں نہ رہی

تھی۔پیرانہ سری اور کمزوری اور پریشانیاں زیادہ اور محنت اور کاوش کی طاقت اب غالب

سی میں لکھنا متروک کردیا اور اردو کی طرف میں نہیں رہی تھی اسی وجہ غالب نے فارراعب ہوگئے فارسی زبان میں غالب نے "پنچ آہنگ" سے اپنی نثر کا اغاز کیا۔ دوسری

تصنیف مہر نیمروز اس کے بعد کئی رسائل اور کتابیں منظر عام پر آگئی اردو اور فارسی

ارسی اور اردو خطوط جو مرزا کا دستیاب مواد جو ہمارے پاس موجود ہیں وہ ہے غالب کے فغالب نے آسان زبان میں لکھے ہیں جیسے کہ ابتداء غالب نے فارسی خطوط سے کی اور

انتہا اردو خطوط پر ہوئی مرزا غالب کا جو خط بھی اٹھا کر پڑھ لو تو اس پر فارسی گوئی

کے اثرات نمایاں ہے ابتدائی فارسی نثر کے بارے میں موالنہ حالی لکھتے ہیں۔

ء تک فارسی میں خط و ۱۸۵۰ "مرزا

کتابت کرتے تھے۔ مگر سنہ مذکورہ میں جبکہ وہ تاریخ نویسی کی خدمت پر مامور

کیے گئے اور ہمہ تن مہر نیمروز کے لکھنے

میں مصروف ہوگئے اس وقت بضرورت ان کو اردو میں خط و کتابت کرنی پڑی ہوگی وہ

فارسی نثریں اور اکثر فارسی خطوط جن میں

یلہ کا عمل اور شاعری کا عنصر قوت متخنظم سے بھی کسی قدر غالب معلوم ہوتا ہے۔

(۴۸نہایت کاوش سے لکھتے تھے۔" )

مرزا غالب سے پہلے فارسی نثر کا رواج عام تھا اور عام بول چال کی زبان بھی فارسی تھی

فارسی کو ہندوستان کی سرکاری زبان کی حیثیت بھی حاصل رہی تھی اس وقت اردو زبان

اتنی عام نہیں تھی غالب سے قبل فارسی اور اردو دونوں میں مشکل الفاظ مسجع مقضی الفاظ پر تکلف عبارت کا عام زندگی میں اس میں فارسی زبان کے آسان الفاظ کا استعمال غالب کا

وطیرہ رہا اور یہ آخر دم تک رہا کہ غالب جب بھی کوئی خط لکھتے تھے اس میں فارسی

ی عبارت کے بارے میں زبان کے الفاظ کا استعمال ہوتا تھا مشکل پسندی اور مسجع مقض ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں۔

"غالب کے زمانے میں اردو نثر کا رواج عام نہیں تھا۔ عام طور پر لکھنے کی زبان فارسی

312

تھی۔ اس لیے فارسی نثر کے اثرات ہر طرف چھائےہوئے تھے اور جب کبھی کوئی اردو

ھنا بھی تھا تو وہ فارسی کی نقل ہوتی نثر لک

تھی۔ مسجع، مقفی اور پر تکلف عبارت کا رواج عام تھا اگر چہ فورٹ ولیم کالج نے

اردو میں آسان نثر کے اچھے نمونے پیش

کیے تھے، لیکن ابھی تک فارسی کا اثر اتنا گہرا تھا کہ آسان اور سادہ نثر اپنے اثرات کو

(۴۹عام نہیں کرسکتی تھی۔" )

مرزا غالب فارسی زبان و ادب کا اچھا مذاق رکھتے تھے اور فارسی زبان و ادب پر بہت

عبور حاصل تھا یہی وجہ ہے کہ آخری عمر میں بھی جو کچھ لکھا، نظم یا نثر فارسی کا اثر

زائل نہیں ہوا آخری دم تک اس کی نظم و نثر پر فارسی گوئی کے اثرات نے غالب کے اردو نہیں بنایا بلکہ اس میں ایک نئی شان پیدا کی ہے۔ ڈاکر عبادت بریلوی کے نثر کو بوجھل

مطابق:

"غالب فارسی زبان کا بڑا رچا ہوا مذاق

رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی کے

اثرات غالب کی اردو نثر کو بوجھل نہیں بناتے بلکہ رنگین فضا پیدا کرتے ہیں۔ اس

تی فضا میں غالب بانکپن اور طرحداری مل

ہے۔ غالب فارسی کی نئی نئی تراکیبیں تراشتے ہیں۔ لیکن یہ ترکیبیں نامانوس نہیں

ہوتیں، ان ترکیبوں میں ایک شان و شکوہ ہوتا

ہے غالب کی نثر میں یہ شان و شکوہ، بانکپن اور طرحداری موجود ہے لیکن یہ شعوری

(۵۰نہیں ہے۔ فطری معلوم ہوتا ہے۔" )

یں بھی عربی اور فارسی کے ایسے الفاظ اسعمال کیے ہیں جو مرزا غالب نے اردو خطوط م

اردو میں بھی مستعمل نہیں ، مثال، ادغانی بمعنی یقین، درنگ بمعنی تاخیر، کون بمعنی تعمیر،

استعالج بمعنی عالج، عظنون بمعنی شبہ ہونا۔

ھ مرزا غالب نے اردو خطوط میں کبھی آدھے اور کبھی پورے فقرے فارسی زبان میں لک

جاتے ہیں اس کے لیے چند مثالیں مالخظہ ہوں۔

(۵۱"اتحاد اسم دلیل مودت روحانی ہے۔" )

"اور وہ امر بعد تعجب مفرط کے موجب

(۵۲نشاط مفرط ہوگا" )

"صریر قلم ماتمیوں کے شیون کا خروش

(۵۳ہے")

313

(۵۴"ایک مژہ برہم زدن نہیں تھی")

(۵۵"آفتاب سر کوہ ہے" )

طرح کے بہت سارے مثالیں ہے ہم نے یہاں پر چند ایک پر اکتفا غالب کی خطوط میں اسی

کیا ہے۔جس میں غالب کی اردو پر فارسی گوئی کا اثر نمایاں ہے اس کے عالوہ مرزا نے

فارسی الفاظ تراکیب اور محاورے پیش کی ہے جو خطوط غالب میں استعمال کیے ہیں آج کے یہ محاورے آج کے اس عہد کے ادبی نثر میں اس زمانے میں اس کا استعمال نہیں یہ تراکیب

اس کا استعمال متروک ہوچکا ہے چند ایک مثالیں مالحظہ ہوں۔

"فرصت" فارسی میں "موقع، فراغت، چھٹکارا، نجات اور خالصی" کے معنوں میں استعمال

ہوتا ہے۔ غالب نے یہ لفظ کثرت سے بیماری سے نجات بننے کے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔

:مثال

"میاں تفتہ نے کچھ حال آپ کے آشعرب چشم

کا لکھا تھا پھر ان کے ہی خط سے یہ دریافت (۵۶ہوا کہ کچھ فرصیت ہے")

اسی طرح ایک اور مثال لیجئے یہ مرزا حسین کے نام غالب کا لکھا ہوا خط ہے۔

نہا کے "جریدہ" فارسی میں اس لفظ کا مطلب "تنہا، اکیال اور رسالہ" ہے۔ غالب نے یہ لفظ ت

مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ مثال جریدہ بہ سبیل ڈاک آئیں گے۔

(۵۷جریدہ بہ سبیل ڈاک آئیں گے۔" )

"داستان تاریخ اردو" کے مصنف حامد حسن قادری نے ایسے محاوروں اور تراکیب کے

بارے میں لکھا ہے۔

"بعض جگہ الفاظ کی ترتیب میں قدامت ہے۔

لے سے تھا یہ فارسی کی عادت کا اثر جو پہ

اور اب تک رہا ہے بعض فارسی محاوروں کو ترجمہ کردیا ہے۔ مثال لکھتے ہیں "کوئی

بے وفائی بھی سرزد نہیں ہوئی جو دستور

قدیم کو برہم مارے" برہم مارنا "برہم زون" (۵۸کا ترجمہ ہے۔")

اسی طرح کے بہت الفاظ ہیں جو خطوط غالب میں غالب نے وہ الفاظ روز مرہ کے لیے ستعمال کیے ہیں لیکن آج وہ متروک ہوچکے ہیں اسی طرح مندرجہ ذیل الفاظ کے جو معنی ا

اردو میں لکھے گئے ہیں وہ فارسی زبان میں تو استعمال ہو رہے ہیں لیکن اردو میں اس کا

استعمال نہیں ہے مثال توقف بمعنی صبر و تحمل، سیاست بمعنی سزا، مسترد بمعنی واپس کرنا و غم تجھ کو ہے وہی غم مجھ کو بھی ہے۔ تاہم اب یہ الفاظ متروک ہوچکے ہیں ہمدرد بمعنی ج

جہاں تک مرزا غالب کے فارسی اور اردو مکاتیب کے اسلوب کا آپس میں جو تعلق ہے یہ

314

سوانحی حاالت یا زمانی حاالت ہو خواہ اردو ہو یا فارسی کا حصہ ہو اس کے بارے میں ڈاکٹر تحسین فراقی لکھتے ہیں۔

وانحی اور زمانی معلومات کے اعتبار "سسے اردو مکاتیب پر فائق تر ہونے کے

باوجود اس سالست بے ساختہ پن، غیر

معمولی ظرافت اور حسن بیان سے مزین نہیں جو ان کے اردو مکاتیب کا حصہ ہے۔ پھر

بھی ان میں کہیں کہیں سالست روانی اور

برجستگی کا وہ رنگ نظر آتا ہے جو غالب وب خاص ہے، مراسلے کو مکالمہ کا اسل

بنانے کا جو دعوی غالب اردو مکاتیب میں

کرتے ہیں اس کی اولین نمود مع اعالن ان کے بعض فارسی مکاتیب ہی میں ہوتی ہے

اور مراسلے کو مکالمہ بنانے کا فن درحقیقت

ان کے ذوق حضور کے وفور کا نتیجہ ہے۔" (۵۹)

نظم و نثر میں جو سرمایہ ہمارے لیے چھوڑا ہے اس زندگی کے اوائل میں غالب نے فارسیسے کسی کو انکار نہیں کیونکہ فارسی میں غالب کا نثری سرمایہ کافی تعداد میں دستیاب ہے

اور یہ دستیاب مواد مرزا کے وہ خطوط ہے جو ہمارے سامنے موجود ہے اس کے عالوہ

حاصل تھا لیکن غالب کی مرزا کو صرف فارسی نہیں بلکہ اردو پر بھی اسی طرح عبور خطوط میں آخر تک اردو خطوط میں فارسی الفاظ کا بر محل استعمال کرنا۔

یہ خصوصیت صرف اور صرف مرزا کی تھی اور اس کے ساتھ اچھی لگتی مرزا کی فارسی خطوط نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر تحسین فراقی ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

گاری کا "جہاں تک غالب کی اردو مکتوب نتعلق ہے اس کا عرصہ بیس بائیس سال پھیال

ہے جب کہ ان کے فارسی مکاتیب کا عرصہ

ء تک کو محیط ۱۸۲۸ء سے ۱۸۲۶ہے۔ گویا ان کی فارسی مکتوب نگاری ان کی

اردو مکتوب نگاری پر مقدم ہے اور اس لحاظ

سے اس عہد کے واقعات اور سوانح غالب کا (۶۰موزوں ترین ماخذ ہے۔")

مرزا تقریبا پچاس سال کی عمر میں اردو مکتوب نگاری شروع کی تھی اس قبل وہ فارسی زبان و ادب میں مشعول تھے ظاہری بات ہے آخری عمر میں پھر اس کی اثر تو ہوتی ہے اور

یہی معاملہ مرزا کے ساتھ بھی ہوا کہ آخری دم تک اس پر فارسی گوئی کے اثرات مرزا

ر کرتے تھے فارسی شاعری کی طرح اردو شاعری میں نمایاں نظر ہمیشہ فارسی دانی پر فخ

315

آتی ہے۔ مرزا کا جو اسلوب اشعار کے حوالے فارسی زبان ہو یا اردو ہو دونوں میں یکساں خوبیاں موجود ہیں ان اشعار کے بارے میں محمد اکرام شیخ کہتے ہیں۔

"اگر چہ ان کے ابتدائی اشعار اردو ہیں لیکن زبان کی تمام خصوصیات مضمون اور

فارسی شاعری کی ہیں مرزا اپنے اردو اور

فارسی کالم میں وہ حد فاضل نہیں رکھتے تھے۔ جو اس زمانے میں فارسی سے عوام

کی ناواقفیت کی وجہ سے ہوگئی تھی۔ وہ "گل

رعنا" کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔ کہ میں نے اردو شعر گوئی میں بھی وہی طریقہ

(۶۱و فارسی میں روا رکھا تھا۔")اختیار کیا ج

مرزا غالب اردو ادب کے وہ عظیم مینار ہے جس کی روشنی سو سال گزرے کے باوجود بھی

کم نہیں ہوئی غالب کی خدمات کے اتنے پہلو ہیں کہ ان پر کئی کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں

ایک باغ بہار جن میں غالب کے فن اور شخصیت کے مختلف پہلو اجاگر کی جاسکتی ہے وہ شخصیت تھے۔ بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر جانتے تھے زندگی کو ہر پہلو سے دیکھنے

کے عادی تھے اور دنیا میں زندہ رہنے کے وہ طریقے اختیار کرتے تھے جہاں ناکامی اور

مایوسی کا نام تک نہیں تھا۔ مرزا غالب اس دور میں بھی اپنی ادبی حلقوں میں سب سے نمایاں اور اپنے ہم عصروں میں بھی نمایاں تھے۔ حاالنکہ ان پر فارسی گوئی کے اثرات نمایاں تھے

تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب ماحول اور معاشرے میں علمی ادبی حلقوں میں اس وقت

فارسی کا رواج عام تھا اور فارسی زبان و ادب کو بڑی شہرت بھی حاصل تھی۔ غالب ایک مالک تھے ویسے بھی ہندوستان میں ہر قوم و ملت کے لوگ آباد نباض شناس شخصیت کے

تھے تو ایسے حاالت میں وقت کی بات سمجھنا غالب سے زیادہ تر کون جان سکتا ہے۔ غالب

نے اس کے لیے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ فارسی کے بجائے اردو زبان و ادب میں اپنا لوہا ار کی مجال نہیں ہے بقول ڈاکٹر عقیلہ جاوید۔منوائے اور وہ منوا چکے جس سے کسی کو انک

"سیاسی، معاشی، اور معاشرتی حاالت تیزی سے بدل رہے ہیں ان حاالت میں فارسی کی

جگہ اردو کوو فروغ حاص ہوگا۔ انھوں نے

اردو پر خصوصی توجہ دی۔ اس زمانے میں فارسی میں خطوط لکھے جاتے تھے لیکن

وع غالب نے اردو میں خطوط لکھنے شر

کئے، ان کے یہ خطوط اس وقت کے لخاظ سے نرالے اور انوکھے ہیں طرز تحریر میں

اتنی زیادہ تبدیلی ہے کہ ایک نئی صنف کے

طور پر سامنے آئے اور مقبول بھی ہوئے۔" (۶۲)

316

مرزا کے خطوط خواہ اردو کے ہو یا فارسی کے ہو اس پر اردو کا اثر ہو یا فارسی زبان کا کے خطوط میں زندگی کا ایک اجتماعی شعور ملتا ہے۔غالب نے ذاتی طور اثر ہو۔ مرزا غالب

پر حاالت کو دیکھنے کی جو کوشش کی وہاں پر غالب کا ذہنی رد عمل کے طور پر بھی

اظہار کیا ہے جس کا تعلق باہر کے ماحول سے ہو یا اندر کے ہو یا غالب کی معامل فہمی اور سے باخبر رکھنا مرزا معاملہ فہم اور دور اندیش دراندیشی نے انہیں آنے والے واقعات

شخصیت کے مالک ہیں خطوط میں ان واقعات اور چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے

دیکھائی دیتی ہے جو بڑے بڑے محقق اور رسیر چیر نہ کرسکے اسی انداز کا ایک خط تفتہ کے نام۔

"صاحب تم جانتے ہو کہ یہ معاملہ کیا ہے ا؟ وہ ایک جنم تھا جس میں ہم اور کیا واقع ہو

تم باہم دوست تھے اور طرح طرح کے ہم میں

تم میں مہر و محبت درپیش آئے شعر (۶۳کہے۔")

مرزا شہاب الدین احمد خان ثاقب کو لکھتے ہیں۔

"آدمی تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ خدا کرے

یہاں کا حال سن لیا کرتے ہو اگر جیتے رہے ئے گا ورنہ قصہ اور ملنا نصیب ہوا تو کہا جا

مختصر تمام ہوا لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں اور

وہ بھی کونسی خوشی کی بات ہے جو (۶۴لکھوں۔" )

اسی طرح کا ایک خط حکیم غالم نجف خان کو لکھتے ہیں۔

"انصاف کرو لکھوں تو کیا لکھوں؟ کچھ لکھ

سکتا ہوں، کچھ قابل لکھنے کے ہے تم نے و میں لکھتا مجھ کو لکھا تو کیا لکھا اور اب ج

ہوں تو کیا لکھتا ہوں؟بس اتنا ہے کہ اب تک

ہم تم جیتے ہیں زیادہ اس سے نہ تم لکھو گے (۶۵نہ میں لکھوں گا۔")

مرزا کے خطوط میں اس عہد کا بھر پور جائزہ پیش کیا گیا ہے اگر باقاعدگی کے ساتھ نہیں تاثر تھے اور اپنے آپ کیا تو حاالت و وقعات پر تبصرے ضرور کیے ہیں کیونکہ وہ خود م

کو اس ماحول اور معاشرے سے الگ بھی نہیں ہوسکتے تھے یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ

اردو نظم و نثر فارسی کے زیر سایہ پروان چڑھی اس میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ شروع کے اردو پر فارسی زبان و ادب کے بہت زیادہ گہرے اثرات مرتب ہیں چونکہ

ا غالب بنیادی طور فارسی زبان کے شاعر اور ادیب تھے یا اگر ہم کہے کہ فارسی زبان مرز

غالب کی پہلی تخلیقی زبان تھی تو غلط نہ ہوگا مرزا غالب کی روز مرہ بولنے والی زبان اگر چہ اردو تھی وہ جب اردو میں شعر کہتے یا اردو میں نثر لکھتے تو غالب کی ذہن میں بات

317

ر وہ تھیفارسی زبان کا غلبہ ضرور رہتا تھا مرزا نے اردو میں جتنا کچھ لکھا ضرور ہوتی اوخواہ وہ دیباچے ہو یا نظمیں ہو ان پر فارسی زبان کے اثرات ضرور نظرآ تے ہیں خطوط میں

جو اردو زبان میں لکھے گئے ہیں۔اس میں مرزا کی کوشش ہوتی تھی کہ خطوط کو روز مرہ

تیں کریں اور یہی وجہ ہے کہ ان خطوط کی زبان نہایت صاف، کی زبان میں لکھیں اور باسادہ اور سلیس اور رواں نثر میں لکھی گئی ہے غالب کی خطوط پر فارسی گوئی کا اثر

نمایاں ہیں حاالنکہ مرزا کی کوشش رہی کہ اردو خطوط میں عربی اور فارسی الفاظ کا

ج نہیں مرزا نے اپنے خطوط میں جو استعمال بہت کم کیا جائے جن کا اردو میں کوئی رواعربی، فارسی الفاظ استعمال کیے یہب اس وقت کے نثر میں رائج تھے اور لوگ بھی اس

طرح کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ محمد حسین آزاد کی رائے کے مطابق جو مرزا غالب

فارسی کے بارے میں دیتے ہیں حاالنکہ آزاد غالب کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ غالب زبان کے شاعر اور دیب تھے۔ بقول موالنہ محمد حسین آزاد۔

""مرزا صاحب کو اصلی شوق فارسی کی نظم و نثر کا تھا اور اس کمال کو اپنا فخر

سمجھتے تھے۔ لیکن چوں کہ تصانیف ان کی

اردو میں بھی چھپی ہیں اور جس طرح امرا اور وسائے اکبر آباد میں علو خاندان سے

مرزا ئے فارسی ہیں اسی طرح نامی اور

(۶۶اردو معلی کے مالک ہیں۔")

موالنا محمد حسین آزاد کی دوسری رائے بالکل مختلف ہے غالب کے خطوط کے بارے میں

یہ رائے مالخظہ کیجئے۔

"ان )اردو( خطوط کی عبارت ایسی ہے کہ

گویا آپ سامنے بیٹھے گل افشانی کررہے ہیں بھی خاص مگر کیا کریں کہ ان کی باتیں

فارسی کی خوش نما تراشوں اور عمدہ

ترکیبوں سے مرصع ہوتی تھیں بعض فقرے کم استعداد ہندو ستانیوں کے کانوں کو نئے

معلوم ہوں، تو وہ جانیں۔ یہ علم کی کم رواجی

(۶۷کا سبب ہے۔")

غالب ایک زندہ استعارے کی طرح ہماری تہذیبی اور ادبی روایات میں رواں دوان ہیں۔ اس

کےساتھ سب چیزین پرانی ہوگئیں مگر وہ پرانا نہیں ہواوہ آج بھی نیا اور انوکھا ہے ان کے اٹھائے ہوئے سوال آج بھی ذہنوں پریشان کردیتے ہیں ان کا منطقی استدالل ، ان کی تمنائیں

اس کا طرز فکر سب کچھ یوں لگتاہے جیسے آج ہی کی بات ہووہ اپنے عہد میں رہتے ہوئے

ے ترجمان تھے اور روح ازل پارس کی طرح ہوتی ہے کہ جسے چھولینے سے روح ازل کاس کا وجود سونے کا ہوجاتا ہے یہ وہ اسم اعظم کہ جس کے ہاتھ آجائے وہ سدا سرسبز

ہوجاتا ہے جیسے مرزا نے میر مہدی مجروح کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔

318

"مار ڈاال یار تیری جواب طلبی نےاس چرح برا ہو۔ ہم نے اس کا کیا بگاڑا کچ رفتار کا

تھا؟ ملک و مال، جاہ و جالل کچھ نہیں

رکھتے تھے ایک گوشہ و توشہ تھا چند مفلس، بے نوا ایک جگہ فراہم ہوکر کچھ ہنس

بول لیتے تھے۔یہ شاعر میر درد کا ہے۔ کل

سے مجھے مکیش بہت یاد کرتا ہے۔ سو صاحب! اب تم ہی بتاؤ کہ میں تم کو کیا

صحبتیں اور تقریریں جو یاد کرتے ہو لکھو؟

اور تو کچھ بن نہ آتی، مجھ سے خط پر خط لکھواتے ہو، آنسوؤں سے پیاس نہیں بجھتی۔

یہ تحریر تالفی اس تقریر کی نہیں کرسکتی۔

بہر حال کچھ لکھتا ہوں۔ دیکھو کیا لکھتا ہوں۔ سنو! پنشن کی رپورٹ کا ابھی کچھ حال

ید۔معلوم نہیں۔ دیر آید درست آ

بھئی میں تم سے بہت آزدہ ہوں۔ میرن

صاحب کی تندرستی کے بیان میں نہ اظہار

مسرت، نہ مجھ کو تہنیت، بلکہ اس طرح سے لکھا گیا ہے کہ گویا ان کا تندرست ہونا تم کو

ناگوار ہوا ہے۔ لکھتے ہو کہ )میرن صاحب

ویسے ہی ہوگئے جیسے آگے تھے(۔ چھلتے یہ معنی کہ ہے کھودتے پھرتے ہیں۔ اس کے

کیا غضب ہوا! یہ کیوں اچھے ہوگئے۔ یہ

باتیں تمہاری ہم کو پسند نہیں آئیں۔ تم نے میر کا وہ مقطع سنا ہوگا۔ کیوں نہ میرن کو معتنم

جانیں؟ )یہ بغیر الفاظ( دلی والوں میں ایک

بچا ہے یہ۔

میر تقی میر کا مقطع یوں ہے!

میر کو کیوں نہ معتنم جانوں؟

لوگوں میں ایک رہا ہے یہ۔اگلے

میر کی جگہ میرن اور رہا کی جگہ بچا کیا اچھا کیا تصرف ہے۔

ارے میاں! تم نے کچھ اور بھی سنا۔ کل

یوسف مرزا کا خط لکھنؤ سے آیا وہ لکھتا

ہے کہ نصیر خان عرف نواب جان والد ان کا اتم الجبس ہوگیا۔ حیران ہوں کہ یہ کیسی آفت

319

زا تو چھوٹ کا ہے کو لکھے آئی۔ یوسف مر (۷۸گا خدا کرے اس نے چھوٹ سنا ہو۔)

نجی خطوط میں خط کے مختلف حصے ہوتے ہیں جیسے مقام و تاریخ، القاب و اداب نفس مضمون، خاتمہ مقام کا نام کاغذ کے دائیں گوشے میں لکھا جاتا ہے اس کے نیچے ایک لکیر

لیہ کے درجے اور شان کے مطابق لکھے ڈال کر تاریخ رکھی جاتی۔ القاب آداب مکتوب ا

جاتے ہیں اس کے نیچے ایک لکیر ڈال کر تاریخ لکھی جاتی ہے۔ نفس مضمون میں جملے چھوٹے، برجستہ، موزون اور شگفتہ ہو، تحریر صاف اور بے ساختہ ہو امال کی غلطیاں نہ

ے نیچے اپنا ہو۔ خاتمے پر والسالم کاغذ کے نصف سے بائیں طرف لکھا جاتا ہے۔ اور اس ک

نام لکھا جاتا ہے۔ لیکن غالب کے خطوط ان قیود سے آزاد ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور مثال دیکھیں اس خط میں عالؤالدین عالئی کو لکھتے ہیں۔

"جان غالب! تم تو ثمر نورس ہو اس نہال کے۔ جس نے میری آنکھوں کے سامنے

نشونمائی پائی ہے اور میں خواہ و سایہ نشین

ہال کا رہا ہوں کیوں کر تم مجھ کو عزیز اس ننہ ہوگئے؟۔ رہی دید و ادید اس کی دو

صورتیں ہیں تم دلی میں آؤ یا میں لوہاروں

میں آؤں۔ تم مجبور میں معذور۔ خود کہتا ہوں کہ میرا عذر زنہار مسموع نہ ہو جب تک نہ

سمجھ لو کہ میں کون ہوں اور ماجرہ کیا ہے؟

وہی لکھا جو کچھ سنا۔ ممکن ہے مرزا غالب نے عالم سر خوشی میں خواجہ حالی نے یقینا

ایک سے زیادہ مرتبہ اس قسم کی بات کہہ دی ہو لیکن اس میں استادی کی نفی کی گئی ہے

صاف ظاہر ہے کہ اس میں استادی کی نفی کی گئی ہے۔ اس کا تعلق تعلیم و تعلم سے نہیں ۔ کے عام دستور کے خالف فکر و نظر نہ کسی بلکہ صرف شاعری ہے یہی مرزا نے اس عہد

استاد کا متحمل ہوسکتا تھا اور نہ کسی کے تلمزے سے انہیں کوئی فائدہ پہنچ سکتا تھا بلکہ

نقصان ہی پہنچتا۔ اس لئے خداداد صالحیتوں کے طبعی نشو نما و ارتقاء کم یا زیادہ روکاؤٹ مقام پر پہنچنا تھا یا تو بالکل نہ پیدا ہوتی اور مختلف منزلیں طے کرتے ہوئے انہیں جس

پہنچتے کہ زندگی کی مہلت ہی تمام ہوجاتی۔

بہر حال حالی کی پیش کردہ روایت سے جس کا موقع محل مخفی ہے تعلیم و تعلم کی نفی نہیں

ہوئی بال شبہ مرزا نے شاعری میں جو کچھ حاصل کیا مبداء فیاض سے حاصل کیا لیکن اس

ہیں عام طریق تعلیم پر کاربندی کے بغیر ہی سب کچھ آگیا یعنی پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ انسیکھنے کی صالحیت و ضرورت ہی پیش نہ آئی اور جب خلیفہ محمد معظم سے تعلیم پانا

مسلم ہے تو پھرمال عبدالصمد سے فارسی زبان کی حقائق سیکھنے کو محل نظر قرار دینا

بلکہ موشگافیاں اس درجہ دروازگار ہیں کہ اہل باعث تعجب ہے اس بارے میں دقیقہ سنجیاں فہم کی طرف سے ان میں صرف وقت امہ نظر سراسر حیرت افزا ہے عجیب بات ہے کہ

حالی کی روایت کو بنیاد بنا کر بحث اور استبدال بڑی بڑی عمارتیں اٹھانے والے بزرگ یہ

روایت درج ہے۔ خیال نہیں فرماتے کہ دو قدم آگے چل کر )یادگار غالب( میں ہی یہ

320

"نواب مصطفی خان مرحوم کہتے ہیں کہ مال عبدالصمد کے ایک خط میں جو اس نے مرزا

کو کسی دوسرے ملک سے بھیجا تھا یہ فقرہ

بھی لکھا تھا۔ اے عزیز چہ کسی کہ بہ این ہمہ آزادگی گاہ گاہ ہے خاطع کے

(۸۱گزری۔")

ئق پیش کئے اور جن کی کوئی مثال اس مرزا غالب نے فارسی زبان کے متعلق جو بنیادی حقا

عہد یا پیشتر کے عہد میں نہیں ملتی وہ یا تو کسی سے سیکھے یا خود وسعت مطالعہ سے پیدا

کیے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ کہیں نہ کہیں سے رہنمائی کی روشنی حاصل کی۔ پھر وسعت پیدا ہوگیا۔ مطالعہ، وقعت نظر اورحسن ذوق کی بنا پر ان کے متعلق قلب میں ادغان

غالب اردو غزل کے سب سے عظیم شاعر ہے۔ کیونکہ وہ زندگی کی مرکب شاعری:صورتوں کی ترجمان ہے۔ ہر دور میں غالب کی پہچان اپنے عصری رجحانات ہی کی حوالے

سے کی۔ اس لئے غالب مشکل پسندی کی باوجود آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ غالب کو فارسی

صل تھا وہ خود بھی فارسی زبان کے بلند پایہ شاعر تھے فارسی کی زبان پر مکمل عبور حا اثر سے ان کی زبان میں شیرنی حاالت اور شگفتگی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے

غالب کی شاعری ہو یا نثر دونوں نے غالب کی زندگی میں وہ شہرت حاصل کی تھی جو بہت ا غالب بڑے خوش قسمت تھے کم شعراء یا ادباء کو نصیب ہوتا ہے اس حوالے سے مرز

خانہ زا د زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں کے کیوں

(۸۳ہیں گرفتار وفا زندان سےگھبرائیں گے کیا۔ )

یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں

(۸۴لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہوگئیں۔)

دراز، دامان باغ باں، وکفت گل رنگا رنگ، بزم آرائیاں ، آرائشیں خم کا کل، اندیشہ ہائے دور

فروش، موج حرام یار، اردو شاعری میں ایسی نادر دلفریب ترکیبیں ہیں اس بہتان کے ساتھ کسی اور شاعری کے ہاں نہیں ملتی۔ ان ترکیبوں سے غالب نے اظہار و ابالغ کا حق ادا کیا

ے!اور جمالیاتی اعتبار سے بھی شاعری میں حسن و ندرت پیدا کی۔ لکھتے ہ

بوئے گل، نالہ دل، دود چراغ محفل

جو تیرے بزم سے نکال سو پریشان (۸۵نکال۔)

عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

(۸۶)

321

ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا (۸۷ہے۔)

اور نکتہ آفرینی پائی جاتی ہے غالب عام روش سے ہٹ غالب کی شاعری میں لطافت خیال کر چلنا پسند کرتے ہیں۔

'بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زہرپا

موتے آتش دیدہ ہے حلقی میری زنجیر کا۔

(۸۸)

نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو

یہ لوگ کیوں میرے زخم جگر کو دیکھتے

(۸۹ہیں۔ )

ہے کہ ہر خواہش پر ہزاروں خواہشیں ایسی

دم نکلے۔

بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم

(۹۰نکلے۔ )

غالب کی شاعری میں فارسی زبان کی جھللک نمائیاں ہیں۔

سوزش باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں

(۹۱دل محیط گر یہ ولب آشنائے خندہ ہے۔ )

ذکر ظریفانہ انداز میں کیا کالم غالب میں بعض اشعار ایسے بھی ملتے ہیں جن میں جنت کا

گیا ہے۔

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

ایسی جنت کا کیا کرے کوئی

(۹۳جس میں الکھوں برس کی حوریں ہو)

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا

(۹۴ہے)

322

کی تلقین کرتے ہیں۔ غالب اپنے کالم میں غم کو برداشت کرنے

نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانئیے

بے صدا ہوجائے گا یہ ساز ہستی ایک دن

(۹۵)

غالب کی خودا داری دیکھیں۔

نگاہ دھر میں ذرے سہمی مگر ہم لوگ

ضیاء کی بھیک نہیں انگتے ستاروں سے۔

بے خودی بے سبب نہیں غالب

(۹۶کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔)

ب اعتقادات کی دنیا میں جذبہ وفا کے زیادہ قدردان ہے ان کی خیال میں ہر مذہب کے غال

پرستار کے دل میں رفاہی کام کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور وفاداری ہی اصل ایمان ہے۔

وفا داری بہ شرط استواری اصل ایمان ہے

مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو ہر

(۹۷ہمن کو۔ )

کو بے اعتدالیوں اور تکبر سے بچنے کا ترغیب دیتا غالب اشارات

ہے۔

بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے

(۹۸جتنے زیادہ ہوگئے اتنی ہی کم ہوئے۔ )

ایک لمحے کے لئے فرض کیا جائے اگر غالب نہ ہوتے تو گزشتہ ایک صدی کا ہمارا ادب

کا معجزہ ہے کہ ہماری شاعری کتنا سپاٹ اور کتنا مجہول ہوتا۔ یہ غالب کی قد آور شخصیترعایت لفظی کے مداری فن سے نکل کر مسائل حیات و کائنات سے پنجہ آزما ہونے لگی۔یہاں

تک مختصر سی بات غالب کی شاعری پر کی گئی ہے۔

اردو کی مکتوب نگاری کے بنیاد کے بارے میں جیسے کچھ محقیقین کا خیال ہیں کہ وہ

یال درست نہیں ہے۔ مرزا غالب سے پہلے فارسی میں خاصی غالب ہی ہیں لیکن ان کا یہ خ

تعداد میں خطوط لکھے گئے ہیں اور اسی طرح اردو میں بھی خاصی تعداد خطوط موجود تھے۔ اردو زبان میں غالب کی دین مکتوب نگاری نہیں بلکہ جیسے کچھ لوگوں کا خیال ہےکہ

ر یہ کہا جائے کہ غالب نے مکتوب انھوں نے اردو زبان میں اس صنف کی ابتدا کی بلکہ اگ

نگاری)اردو( کو باقاعدہ طور پر ایک صنف ادب کی شکل و صورت دی ویسے بھی شاعری میں اگر جائزہ لیا جائے تو غالب کی آواز بہت دور سے سناتی دیتی ہے۔ لیکن خطوط کا

ن کے معاملہ اور ہے جیسے مرزا ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور باتیں کر رہیں ہیں ا

خطوط سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہم سے براہ راست گفتگو میں مصروف ہیں اور ہمیں

323

نصیحتیں نہیں کر رہے بلکہ ہمدرد دوست کی طرح جیسے آپس میں دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں بلکہ غالب تو اس سے بھی بڑھ کر ہے وہ تو ایک دانشور انسان کی طرح ہمارے

شش کرتے دکھائی دیتا ہےغالب کی خطوط میں وہ تمام خوبیاں دکھوں کا حل نکالنے کی کو

پائی جاتی ہے جو اور کسی میں کہاں ،

"بیسویں صدی کا تخلیقی ذہن اور غالب" میں خلیق انجم لکھتے ہیں ۔

"غالب کے خطوط ہمیں ایک سوچ میں ڈوبے

ہوئے دماغ، ایک منطقی فکر، ایک حساس

ا طبیعت اور ایک درد مند دل کے وجود کاحساس دالتے ہیں۔ ان خطوط کی عبارتوں

میں ہم غالب کے سانسوں کی گرمی کو اس

طرح محسوس کرسکتے ہیں۔ جیسے وہ ہمارے ہم دوش ہوں۔ یہ خطوط اپنی سادگی

بیان کے جادو ہی سے پڑھنے والے کو اپنی

گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہ خطوط ایک ایسی انوکھی صناعی کا نمونہ ہیں جوہر تصنع،

ناوٹ اور تکلف سے پاک ہے۔ تماشہ گاہ عالم ب

کی مثال یہ خطوط ہمیں زندگی کی تمام رعنائیوں، دل کشیوں، دلچپیوں، بلندیوں،

پستیوں، کامیابیوں، ناکامیونشادمانیوں،

محرومیوں کے جلوے دکھاتی ہوئے چلتے (۹۹ہیں۔)

ہ اس کے لکھنے غالب نے تو فارسی اور اردو مینخاصی تعداد میں خطوط لکھیں ہیں بلکوالوں میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں، امیر، غریب، بادشاہ، انگریز، شہزادے، دوست،

شاگرد، رشتہ دار، شامل ہیں لیکن کسی نے بھی غالب کے مکتوب نگاری کا اثر قبول نہ کیا

کہ جس نے مکتوب نگاری میں غالب کی پیروی کی اور نک کسی نے کوشش کی حاالنکہ صرین میں بڑےبڑے شخصیات شامل ہیں ان میں مولوی نذیر احمد دہلوی، غالب کے معا

موالنا ذکاء ہللا جیسے لوگ شامل تھے یا تو یہ کہیں کہ ان کے ساتھ معاصرانہ چشک تھی۔ ان

شخصیات کو چھوڑ کر سب سے اہم آدمی جس نے مرزا پر پوری کی پوری کتاب لکھ ڈالی ھوں نے غالب کے اردو فارسی خطوط کا گہرائی سے بلکہ یہ بجا طور پر کہ سکتے ہیں کہ ان

مطالعہ کیا اور ان کی تحریروں پر بہتریں تجزیہ بھی پیش کیا تھا جس کا نام موالنا حالی ہے

لیکن غالب کی تحریروں کا موالنا حالی کے خطوط اور دیگر نثر اور خاص کر اردو خطوط کا کوئی معمولی سا سایہ بھی نظر نہیں آتا۔

ات کے بعد آنے والے محقیقین اور نقاد و شعراء میں ایسے لوگوں کی شمار کسی ان شخصیطور پر بھی کم نہیں ہے اور کافی تعداد میں مرزا غالب کی خطوط نگاری سے متاثر نظر

آتے ہیں ان میں ایک نہیں کئی لوگ کو متاثر دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں صرف چند کے

یں عالمہ محمد اقبال، موالنا ابولکالم آزاد، چودھری محمد علی، نام یہاں لکھ لیتے ہیں ان م

324

مرزا داغ دہلوی جیسے شخصیات شامل ہیں۔ ان لوگوں کے اسلوب نگار پر خطوط غالب کے مکتوب نگاری کے اثرات نمایاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان خیاالت و نظریات کے اثرات کے

میں لکھتے ہیں۔ بارے میں بیسویں صدی کا تخلیقی ذہین اور غالب

"غالب کی نثر نگاری ان کے دور سے لے

کر آج تک بے مثال تصور کر لی گئی ہے۔ آج

بھی ان کے مکتوبات آئینے میں ان کی فکر کی گہرائی و گیرائی کو ناپنے کا عمل جاری

ہے۔ ان میں ان کے دور کی شخصیتوں، ان

کے دور کی تہذیب ، معاشرے، تعلقات و افراتفری، تضادات و تاثرات، زندگی کی

اتفاقات خیاالت وغیرہ کی بھر پور جھلکیاں

ملتی ہیں۔ بالخصوص ان میں ان کے دور کی ادبی شخصیات سے متعلق غالب کے خیاالت

کا پتہ چلتا ہے اور انہی میں خود غالب کی

ذہنیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ محقیقین اور مورخین کے لیے ان کے مکتوبات و دستاویز

یت رکھتے ہیں موجودہ صدی میں کی حیث

غالب تحقیق و جستجوکے لیے جس قدر کام میں الئے گئے ہیں اتنا کسی اور شخصیت کو

بہ استثنائے اقبال کام میں نہیں الیا گیا وہ

صرف اپنی صدی پر اثر انداز نہیں ہوئے ہیں بلکہ اس سے زیادہ اپنے بعد کی صدیوں پر

(۱۰۰حاوی ہیں۔ )

اس عہد کے لیے تھے بلکہ ان شاعری اور دونوں نثر ہر وقت کے لیے مرزا غالب نہ صرف

یکساں ہے غالب کی عظمت اور بڑائی اس میں پنہاہے کہ وہ ہر وقت کی فکری اور دوسری

ضرورتوں کو پورا کرتے چلے آتے ہیں وہ اپنے عہد کا ایک صحیح ترجمان ہیں اس کی یدہ حاالت و واقعات کا بیان ہو یہ سوچنے کے سوچ ، فکر ہو یا نرم و نازک احساسات ہو یا پیچ

متقاضی رہے ہیں اگر چہ غالب مشکل پسند ہونے کے باوجود بھی آج تک زندہ ہیں اور زندہ

رہے گا وہ کونسے ایسے خصوصیات ہے جن بنا پر ایک شاعر یا نثر نگار بعد میں زندہ و ے نہیں بلکہ اپنے عہد کی تابندہ رہتے ہیں غالب کی شاعری،، نثر صرف اپنے زمانے کے لی

مختصر فضا سے ہٹ کر بدلتے ہوئے، متغیر تنقیدی شعور ، یا بدلتے ہوئے شعری مذاق ہو یا

بدلتے ہوئے پیمانوں اور بدلتے ہوئے جمالیاتی اقدار اور تبدیلی کے باوجود، ہر زمانے کے میں یک جا لیے بامعنی اور مشہور ثابت ہوئے۔ یہ تمام ایسے خصوصیات ہیں جو ایک آدمی

ہو اور وہ ہے غالب جن کی ذاتی خوبیاں ہو یا دوسرے اوصاف ہو یہ غالب کی شاعری خوبی

ہو یا نثر کی یہ غالب کے ساتھ اور ان کی فن سے مشروط ہیں۔ اسلوب، فکر، جذبہ، تخیل کے امتزاج اور شخصیت سے جو شاعری پیدا ہوگی اس میں زمانے سے بڑھ کر آنے والے

بھی بات کرنے کی صالحیت موجود ہوتی ہیں۔ مرزا غالب کی شاعری اور زمانوں میں سے

نثر بھی ان خصوصیات کی ایک اہم کڑی تھی جو ہر زمانے کے ادب کو متاثر کرتی ہے اور

325

اس طرف رواں دواں بھی ہیں۔ غالب شناسی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے کے مطابق۔

شاعرانہ معیار "بدلتے ادبی ذوق اور متغیر کے باوجود بھی غالب ہر عہد میں غالب ہی

رہا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غالب ہر

عہد کے قاری سے مکالمہ کرنے کی صالحیت کی وجہ سے ہر زمانے کے لیے

اپنی حیثیت، اہمیت اور ضرورت برقرار رکھ

سکتا ہے۔ کالم کی دیگر خصوصیات بھی صرف نظر یقینا قابل توجہ ہیں اور ان سے

ممکن نہیں لیکن بنیادی وجہ یہی ہے کہ غالب

(۱۰۱اپنے زمانے سے آگے تھا۔")

مرزا غالب جس دور میں پیدا ہوئے اور جس دور میں وہ ہندوستان میں زندگی گزار رہے

تھے وہ انتہائی ایک مشکل دور تھا اور اس وقت کے حاالت سے غالب جیسے آدمی کا متاثر ہےاس دور کے حاالت و واقعات نے غالب کی نثر نے نیا جنم لیا اور نہ ہوا یہ کیسے ہوسکتا

زبان و بیان کو ایک نیا ماحول بھی میسر آیا شاعری ہو یا نثر ان کے پیچھے سارا کچھ زبان

کا ہوتا ہے زبان کے ذریعے ادبی فن پاروں میں نئے تجربات، اظہار کی نئی صورت پیدا نے شاعری بھی کی نثر میں بھی لکھا لیکن غالب کے ہوتی ہے۔ غالب سے پہلے بھی لوگوں

زمانے تک آتے آتے حاالت کے تقاضے مختلف ہوگئے اور ان بدلتے ہوئے اور نئے مزاج کو

غالب بہت تیزی سے قبول کیا جس کی وجہ سے مرزا غالب کی فن کی حیثیت ایک تحریک مد خان سے ہوئی غالب کی شکل اختیار کر گئی لیکن اس تحریک کی اصل ابتداء سر سید اح

سے قبل شاعری کی صحیح نمائندگی میر اور سودا نہ کی تھی۔ دوسری طرف زبان پر اثرات

انشاء جرات اور غالم ہمدانی مصحفی کررہے تھے۔ مرزا نے ان شخصیات کا اثر ضرور قبول کیا ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود غالب کی زبان پر جو اثرات سب سے زیادہ تھے

ہ تھی فارسی کی رنگینی کے اثرات خاصی زیادہ تھی کیونکہ زبان پر فارسی الفاظ کے جو و

شرینی اور رعنائی اور حالوت تھی وہ کسی اور میں کہاں تھی۔ غالب انہی خیاالت کے بارے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں۔

"یہ زبان، اس میں شبہ نہیں کہ ادبی زبان ہے اور غالب کا فنی کارنامہ اسی ادبی زبان کا

تخلیق ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جو

زبان استعمال کی ہے وہ عام فہم کی زبان نہیں ہے۔ اس میں تو ایک ادبی لب و لہجہ

ہے۔ وہ تو ایک تہذیب کی زبان ہے ایک

یہی وجہ ہے کہ جمالیاتی نظام کی زبان ہے اس رچاؤ نظر آتا ہے۔ بڑی ہی رنگینی اور

رعنائی کا احساس ہوتا ہے اور بڑی ہی

326

پرکاری دکھائی دیتی ہے مرصع کاری بھی (۱۰۲اس کی اہم خصوصیت ہے۔)

مرزا غالب کی فارسی اور اردو میں ان کی رنگینی، رعنائی اور پرکاری اور مرصع کاری ہیں غالب چونکہ نے اپنی پہلے زمانے اور نہ بعد میں جیسے بڑے بڑے نمونے پائے جاتے

آنے والی زمانے سے مطمئین نہ تھے غالب ہو یا کوئی اور ہر انسان خوب سے خوب ترکی

تالش میں رہتا ہے روایت سے بغاوت ہر شاعر کی شاعری میں شامل ہوتی ہے مرزا سے تھی لیکن اس کے بعد کے پہلے اس میں یہ رنگ او روایت اردو شاعری میں موجود نہیں

م، راشد۔ ثناءہللا ڈار میراجی۔ فیض اسی طرح دیگر شعراء نے روایت سے ہٹ -شعراء اقبال، ن

کر روایت شکنی کے رجحان کو انہوں نے اپنی شاعری کا محور و مرکز بنایا۔ اسی وجہ سے شعور ترقی پسند شعراء بھی )ترقی پسند تحریک( یعنی غالب کے سماجی، معاشی معاشرتی

سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بعد میں ترقی پسند تحریک کے شعراء افسانہ نگاروں،

دوسرے نثر نگاروں پر بھی تحریک کے اثرات نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر وحید قریشی اس تحریک کا جائزہ کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔

"ترقی پسند تحریک کے زمانے میں سیاسی ر، ادب برائے زندگی کی شعور، سماجی شعو

باتیں ہونے لگیں۔ غالب کا ہی انداز تھا، جس

میں زماجی شعور اور حرکت و عمل تک کے ایک سے زیادہ زاویئے سامنے آئے۔ اس

کے عالوہ غالب کی انسان دوستی کے بھی

بہت تذکرے کیے گئے اور غالب کو ایک (۱۰۳ترقی پسند شاعر تسلیم کیا جانے لگا۔")

جس شخصیت کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ تھے فیض احمد فیض تھے اس تحریک نےکیونکہ فیض کی شاعری میں بھی فارسی اور اردو کے وہ تراکیب نظر آتے ہیں جو مرزا

غالب کی شاعری میں نمایاں تھے جیسے معنی آفرینی اور پیکر تراشی جیسے خصوصیات

یں جدیدیت کا رجحان بالخصوص اقبال کے عالوہ کئی پہلوؤں سے نمایاں ہیں اردو شاعری مکے بعد پیدا ہونے لگا۔ روایتی پس منظر میں جو جدید شعراء پیدا ہوئے غالب و اقبال کے

عالوہ ولی، دوق، میر، آتش، مومن، داغ وغیرہ جدید شعراء موجود تھے۔ جدید شاعری پر جن

ان میں سب سے کا رنگ بہت زیادہ گہرا ہے اور جن کی اسلوب جدیدیت سے آہنگ ہے۔رنگ جنہوں اپنایا وہ غالب کا رنگ ہے اس کے عالوہ غالب کے ہاں سیاسی و سماجی شعور

بہت زیادہ تیز اور طاقت ور ہے اس حوالے میں اس کا ردو عمل موجود صدی کے صدی کے

عام انسان کے رد عمل سے ایک جیسا ہے اور شاید اسی وجہ سے پہلے بہت سے ناقدین اردو الب کو جدید شاعر کہا جاتا ہے یا اگر ان کو آج کا شاعر کہا جائے تو بجا نہ ہوگا ادب میں غ

ن فاروقی لکھتے ہیں بقول فاروقی۔ اس حوالے سے شمس الرحم

"یہ بات بالکل طے ہے کہ غالب ہمارے

آخری بڑی کالسیکی شاعر اور پہلے بڑے

جدید شاعر ہیں، وہ اگر چہ اس صدی کے

327

ئے لیکن ان کا شروع ہونے سے پہلے مرگکالم اس صدی کا استعارہ اور ان کے بیان

کردہ مسائل اس صدی کے مسائل کا جوہر

(۱۰۴ہیں۔" )

شاعری میں ایک صنف قدیم شعراء میں امیجری کا استعمال ہے جو کہ غالب کو اس سلسلے

میں اہم مقام حاصل ہے کیونکہ انہوں نےامیجری کے سلسلے میں جن چیزوں کا سہارا لیا ہےان میں تصویروں اور پیکروں کی تخلیق، تلمیحات اور تشبیحات و استعارات کا استعمال ہیں

شاعری میں غالب سے پہلے اس رجحان کا رواج نہیں تھا لیکن اس کے بعد عام ہوا، تلمیحات

کا استعمال آج کے اردو ادب کا حصہ ہے اور غالب نے اپنی شاعری اور نثر میں بہترین استعمال کیا ہے ادو ادب میں چند تلمیحات کا استعمال عام ہیں مثال قیس، طریقے سے اس کا

لیلی شیریں، فرہاد، کوہکن، تیشہ۔ نمرود، جمشید، ابن مریم، یعقوب، یوسف، زلیخا، خضر،

سکندر، آب حیات وغیرہ جیسے تلمیحات استعمال ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔ چونکہ امیجری ے اور یہ خوبی اس زمانے کی ہے اور مرزا غالب کی خوبی شاعری کی ایک بہترین خوبی ہ

کے پس پشت ان چیزوں کا جائزہ داکٹر عبادت بریلوی کچھ اس طرح لکھتے ہیں ڈاکٹر عبادت

بریلوی لکھتے ہیں۔

"غالب کی شاعری میں تصویروں اور

پیکروں کو ان کے گہرے تہذیبی اور معاشرتی شعور نے تخلیق کیا ہے۔ یہی وجہ

اس تہذیب اور معاشرت کا پورا رچاؤ ہے کہ

ان میں موجود ہے۔ جس نے غالب کو پیدا کیا ہے اور جس کے سائے مینان کی شخصیت

کی نشوو نما ہوئی تھی۔ لیکن غالب نے اس

تہذیب اور معاشرت کو ایک عالم انحطاط میں دیکھا ہے اس میں انہیں زوال کے آثار بھی

نحطاط نظر آتے ہیں اور ان کے احساس میں ا

و زوال کے یہ تاثرات اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ غالب کی تصویروں کی رنگینی اور

نگین کاری میں ایک کسک کی کیفیت پیدا

ہوگئی ہے اور اس کسک کی کیفیت نے ان کی امیجری میں مجموعی طور پر ایک

حزینہ اور المیہ رنگ کو نمایا ں کردیا ہے

اس قدر اور اس رنگ کے اثرات ان کے یہاں پھیلے اور آگے بڑھے ہیں کہ نشاطیہ اور

طربیہ شاعری تک اس سے متاثر ہوئی ہے۔"

(۱۰۵)

اس سے اردو شاعری کے مختلف ادوار پر اگر غور کیا جائے تو اس میں کوئی عہد ایسا نہیں

ہے کہ جس پر غالب کے اثرات نہ ہوں ترقی پسند تحریک ہو یا انجمن پنجاب کے بانیوں کا

328

ی طرف رجحان ہو انجمن پنجاب کے بانیوں میں محمد حسین آزاد، موالنا حالی، جدیدیت کغالب کے جدید اثرات اصل میں انہی کے اثر کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ محمد حسین آزاد، حالی کی

شاعری میں وہی طرز اپنایا گیا تھا جو غالب کا ذہنی سطح تھا اس سے یہ شخصیات بالکل ہم

کے بعد جتنے بھی شعراء آئے تمام کے تمام میں غالب سے استفادہ آہنگ نظر آرہے ہیں انضرور کیا ہے۔ شاعری میں کوئی نہ کوئی رنگ ضرور ہر شاعر نے اپنایا ہے اور کوئی

متاثر ہوئے بغیر رہ بھی نہیں سکتا، ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس نقطہ نظر کا جائزہ اس طرح

لیتے ہیں لکھتے ہیں۔

مدد سے اقبال کے ہم "تقابلی مطالعے کی

عمر دوسرے ممتاز شعراء پر بھی غالب کے اثرات بآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ جگر کے

عہد رندی کی شاعری کا رنگ بعض مقامات

پر غالب کے خمریہ رنگ سے بہت قریب ہوجاتا ہے۔ اصغر کا متصوفانہ لب و لہجہ

کہیں کہیں غالب کے وحدت الوجودی لب و

رنگ محسوس ہوتا لہجے سے ہم آہنگ وہمہے۔ حسرت کے کالم میں فارسی تراکیب کی

کثرت و ندرت تو صاف غالب کے زیر اثر

نظر آتی ہے فانی کی غزل کی معنوی گہرائی اور تہ داری بہ قول رشید احمد صدیقی

غالب کے شعوری طور پر اثر قبول صریحا

کرنے کا نتیجہ ہے۔ یگانہ کی پوری شاعری رد عمل ہے۔ اور رد غالب کی مقبولیت کا

عمل مثبت ہو یا منفی اثر پذیری ہی کا دوسرا

(۱۰۶نام ہے۔")

اردو شاعری میں تقریبا تمام شعراء غالب سے اثر لیے بغیر نہ رہ سکے اس کے عالوہ اردو

نثر میں بھی مرزا کا بہت بڑا مرتبہ و مقام ہے شاعری اور نثر دونوں میں بہت غالب کے ہیں چونکہ اردو زبان میں غالب کا سرمایہ خطوط ہیں جو اپنی گہرے اثرات مرتب کیے

خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں دراصل یہ صرف خطوط نہیں بلکہ یہ

اردو ادب کا بہت بڑا سرمایہ افتخار ہیں۔ ان خطوط میں غالب کے مزاج کی نمایاں خصوصیت کو ادبی سانچے میں ڈھال لیتے تھے۔ اگر یہ تھی کہ غالب زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں

دیکھا جائے تو یہ خطوط غالب کے نجی خطوط پر مشتمل ہیں لیکن ان سب کے باوجود اس

میں وہ ادبی چاشنی نظر آتی ہیں۔ مرزا غالب سے پہلے بھی خطوط لکھے جاتے تھے اور نثر رکھی وہ آگے چل بھی موجود تھی لیکن غالب نے اردو خطوط کے ذریعے جس نثر کی بنیاد

کر ایک الگ ادبی صنف کی صورت اختیار کر گئی جیسے خطوط نویسی کا فن کہاں جائے

تو بجا نہ ہوگا۔ ان خطوط کی وجہ سے اردو نثر میں ایک آسان اور سادہ اور باقاعدہ ادبی نثر لکھنے کی روایت بھی قائم ہوئی حاالنکہ اس دور میں صرف غالب نہیں بلکہ سرسید کی سادہ

اور رواں نثر کی روایت چل پڑھی تھی لیکن اس کے پیچھے یا پس مردہ غالب کے وہ خطوط

جو سادہ اور سلیس نثر میں لکھے جا رہے تھے ان خطوط کے اثرات ضرور موجود تھے۔

329

غالب اور سرسید کی اس سادہ اور رواں نثر کا جائزہ ڈاکٹر محمد علی صدیقی ان الفاظ میں ں۔پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہی

"غالب صرف ایک عہد کے خاتم ہی نہیں بلکہ وہ ایک نئے عہد کے نقیب بھی ہیں۔ سر

سید تحریک کا سلسلہ المحالہ طور پر غالب

سے جاملتا ہے اور شاید اسی لیے علی گڑھ تحریک کے دانشوروں نے غالب شناسی میں

(۱۰۷بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ )

صناف میں جو ترقی ہوئی یا ترقی حاصل کی ان سرسید احمد خان کے زمانے میں نثری ا

اصناف میں تحقیق، تنقید، سوانح نگاری اور مضمون نگاری کو زیادہ فروغ حاصل ہوا ان تمام

کا جائزہ لیا جائے تو اس کی بنیادیں مرزا غالب کی خطوط میں موجود ہیں اردو ادب میں رح غالب کے خطوط میں ان کا جتنے چیزیں یا اصناف پائے جاتے ہیں اس کا کسی نہ کسی ط

سراغ مل جاتا ہے۔ اور ان پر اردو زبان و ادب کے گہرے اثرات مرتب ہیں۔ غالب سے پہلے

تاریخ نویسی موجود نہیں تھی بلکہ اس میں واقعات زمانی کی تسلسل دے مرتب ہورہے تھے ے بلکہ اس کے عالوہ غالب نے بھی تاریخ لکھی ہے اپنی خطوط میں لیکن زمانی اعتبار س

زندگی کے مختلف پہلو کی نشاندہی کی گئی ہے غالب کے ان خطوط میں جو عام سیاسی

معاشی، معاشرتی، اقتصادی اور ثقافتی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کی وضاحت پیش کرتے ہیں اور ان سے بے شمار انسانوں اور جذباتی زندگی کے تصور کشی سامنے آجاتی ہے۔

پر جتنا لکھا گیا ہے یا غالب کی نثر نے اردو نثر کو جتنا متاثر کیا اردو نثر میں غالب کی نثرہے اور بہت سارے اصناف میں غالب کو موضوع بھی بنایا گیا ہے۔ اور غالب کے نقل اتارے

موضوع بنایا گیا ہے۔ گئے ہیں ان موضوعات میں مثال ڈرامے، ناول وغیرہ کو حصوصا

ئی چیز شامل ہوگئی اور وہ تھی اس کا نیا اسلوب اسی حوالے سے مزاح نگاری میں ایک نکے ایک نئی صنف نثر کے طور پر اس کی پہچان ہوئی۔ جو موضوعات غالب نے اپنائے

تھے خصوصا خطوط میں انداز بیاں تھا اس کو دور کرنے کی کوشش کی گئی اور بعد میں

شائع کرنے کا بڑے بڑے شخصیات کے خطوط جمع کرنے کیلئے اور بعد میں ان خطوط کو رواج عام ہو۔ غالب سے پہلے جو القابات ، تکلفات، مصفی و مسجع جملوں کا خاتمہ ہوا۔

خطوط میں جو انداز بیان اپنایا گیا وہ انتہائی آسان، عام فہم، سلیس اور رواں انداز کی بنیاد

اور نہ بعد دالی اور مراسلے کو مکالمے کا جو انداز غالب نے اپنایا وہ غالب سے نہ پہلے تھامیں اور پھر اسی انداز میں لوگوں جو کام کیا وہ اس غالب کے نثر کا بہت زیادہ اثر نمایاں ہیں

اور ساری کی ساری کوشش اور محنت غالب کی نثر کی رہیں منت کی وجہ سے ہیں۔یہ بات

بالکل حقیقت پر مبنی ہے کہ خطوط غالب کے نشانات سر سید احمد خاں سے لے کر موالنا الی، مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر سید عبدہللا اور ڈاکٹر ابواللیث صدیقی تک ح

ہر نثر نگار کے یہاں بالکل واضح نظر آتے ہیں ہمیں اس کے عالوہ بھی بہت زیادہ شخصیات

ہے کہ جن کے لکھنے کا حوالہ بھی غالب ہی ہے غالب کے حوالے سے صرف نام پر اکتفا کی وجہ شہرت غالب رہا ہے ان میں موالنا امتیاز علی عرشی، قاضی کرتے ہیں کہ جن

عبدالودود، مالک رام، شیخ محمد اکرام، ڈاکٹر مختار الدین احمد، موالنا غالم رسول مہر اور

ڈاکٹر خلیق انجم کے نام سر فہرست ہیں۔ اس کے عالوہ تحقیق و تنقید میں بھی غالیبیات پر

330

ن میں ڈاکٹر شوکت سبز واری، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر کچھ لوگوں کی گہری نظر ہے افرمان فتح پوری، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید قدرت علی نقوی، اور ڈاکٹر سید معین الرحمان

کے عالوہ کچھ نام ایسے ہے کہ جنہوں نے زیادہ کام نہیں کیا لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ لکھا

تاب احمد خان کے نام شامل ہیں۔ اس کے عالوہ ہے ان میں پروفیسر حمید احمد خان اور آفکچھ مترجمین بھی شامل ہیں ان میں مختار علی خان عرف مام میں اسے پرتو روہیلہ کے نام

سے یاد کیا جاتا ہے اور لطف الزمان اور اسیر عابد کے نام اہل قلم میں شمار کیے جاتے ہیں۔

سا شاخ ہیں جو غالب سے متاثر نہیں یا مختصرا اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب میں ایسا کون

ایسے کونسے ادیب ہے کہ جن پر غالب کے اثرات نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ غالب

واحد فرد کا نام نہیں بلکہ یہ اپنے اندر ایک تحریک کا نام ہے جن کی وجہ سے اردو زبان و ادب میں بڑی مدد ملتی ہے۔

331

حوالہ جات

ی کا اثر ہمارے کلچر اور ادب پر" مثمولہ "امروز جنگ آزاد ( ممتاز حسین "جنگ آزاد۱

ء اسالم آباد، دوست پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء( نمبر )مرتبہ داکٹر مبارک علی( ۱۸۵۷) ۱۸۷ص

( سرسید احمد خان "کیا سبب ہوا ہندوستان کی سرکشی کا" مثمولہ لیل و نہار جنگ آزادی ۲ء اسالم آباد دوست پبلی کیشنز ص ۲۰۰۹ء نمبر )مرتبہ ڈاکٹر سید جعفر احمد( ۱۸۵۷)

۱۴۴ ،۱۴۳

( شاہد ماہلی رضا حیدر ڈاکٹر، "غالب اور عہد غالب" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سال ۳

۲۱ء ص ۲۰۰۱اشاعت

۷۱ص // // // ( ۴

( شمس الدین صدیقی ڈاکٹر محمد "غالب کا زمانہ" مثمولہ غالب نمبر" شعبہ اردو پشاور ۵ ۲۵۰ء ص ۱۹۶۹فروری ۶ریس پشاور شمارہ نمبر یونیورسٹی برقی پ

ء ص ۱۹۵۷( عتیق صدیقی محمد "ہندوستانی اخبار نویسی" علی گڑھ انجمن ترقی اردو ۶۲۹۴

( پرتو روہیلہ، مترجم و مرتب ، "کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم ۷ ۷ء ص ۲۰۰۸آباد سنہ اشاعت

تب "دیباچہ پنچ آہنگ" از مرزا اسدہللا خان غالب مطبوعات ( سید وزیر الحسن عابدی مر۸ ۱۷ء ص ۱۹۶۹مجلس یادگار غالب الہور پنجاب یونیورسٹی

( الطاف حسین حالی "یادگار غالب" خذینہ علم و ادب اردو بازار الہور سال اشاعت ۹ ۱۷۵ء ص ۲۰۰۲

ید الہور سن اشاعت ( عبادت بریلوی ڈاکٹر "غالب اور مطالعہ غالب" ادارہ ادب و تنق۱۰ ۴۰۵، ۴۰۴ء ص ۱۹۹۴

( حامد حسین قادری، موالنا "غالب کی اردو نثر اور دوسرے مضامین" ادارہ یادگار غالب ۱۱ ۳۴، ۳۳ء ص ۲۰۰۱کراچی سنہ اشاعت

( عبادت بریلوی ڈاکٹر "غالب اور مطالعہ غالب" ادارہ ادب و تنقید الہور سن اشاعت ۱۲ ۴۰۳ء ص ۱۹۹۴

سید ڈاکٹر اردو خطوط نگاری مثمولہ نقوش مکاتیب نمبر محمد طفیل مرتب، الہور ( عبدہللا۱۳ ۲۷ء ص ۱۹۵۷ادارہ فروغ اردو نومبر

۲۸، ۲۷ص // // // ( ۱۴

( مالک رام "اردو کے منفرد مکتوب نگار" مثمولہ نقوش، مکاتیب نمبر، محمد طفیل، ۱۵

۴۰ء ص ۱۹۵۷الہور، ادارہ فروغ اردو نومبر

332

ء ص ۱۹۶۲غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم (۱۶۲۲۷

( خلیق انجم "غالب کے خطوط" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی جلد دوم سن اشاعت ۱۷ ۳۸۷ء ص ۲۰۰۶

( خلیق انجم "غالب کے خطوط" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی جلد اول سنہ اشاعت ۱۸ ۳۸۷ء ص ۲۰۰۰

حسین حالی "یادگار غالب" خزینہ علم و ادب اردو اردو بازار الہور سال اشاعت ( الطاف۱۹ ۱۷۴ء ص ۲۰۰۲

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۲۰۶۹ ،۷۰

( عبادت بریلوی ڈاکٹر "انتخاب خطوط غالب" اردو اکیڈمی سندھ کراچی سنہ اشاعت اکتوبر ۲۱ ۳۵، ۳۴ء ص ۱۹۹۷

( پرتو روہیلہ مترجم و مرتب "کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم آباد ۲۲ ۸۱اردو ۵۰۳، ۵۰۲ ء ص فارسی۲۰۰۸سن اشاعت

۲۸۷، ۲۸۶ص اردو ۷۱۷ص فارسی // // // // // ( ۲۳

عت ( خلیق انجم "غالب کے خطوط" غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دلی جلد سوم سنہ اشا۲۴

۱۰۵۴ء ص ۱۹۸۷

( غالم حسین ذولفقار ڈاکٹر "محاسن خطوط غالب" بزم اقبال الہور سن اشاعت مارچ ۲۵

۵۲ء ص ۲۰۰۳

( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ" بزم علم و فن ۲۶

۸۵اردو ص ۱۷۶، ۱۷۵پاکستان انٹرنیشنل ،اسالم آباد فارسی ص

ء ۱۹۸۷لی "یادگار غالب" مکتبہ عالیہ اردو بازار الہور سنہ اشاعت ( الطاف حسین حا۲۷

۵۶، ۵۵" ص

( خلیق انجم "غالب کے خطوط" جلد اول غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دلی سنہ اشاعت ۲۸

۳۳۴ء ص ۲۰۰۰

( شاہد ماہلی، رضا حیدر ڈاکٹر مرتبین "غالب اور عہد غالب" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۲۹

۲۵۹ء ص ۲۰۰۱سال اشاعت

( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ" بزم علم و فن ۳۰

۷۱، اردو ص ۱۶۳ء فارسی ص ۲۰۰۰پاکستان انٹرنیشنل، اسالم آباد

۷۱اردو ص ۱۶۳// فارسی ص // // // ( ۳۱

333

اشاعت ( عبادت بریلوی ڈاکٹر "انتخاب خطوط غالب" اردو اکیڈمی سندھ کراچی سنہ۳۲ ۱۳۶، ۱۳۵ء ص ۱۹۹۷

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۳۳۳۱۵

( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ" بزم علم و فن ۳۴ ۳۶اردو ص ۱۳۳فارسی ص ء۲۰۰۰پاکستان انٹرنیشنل اسالم آباد

۳۵اردو ص ۱۳۲ارسی ص ف // // // ( ۳۵

۴۴اردو ص ۱۴۱فارسی ص // // // ( ۳۶

( خلیق انجم "غالب کے خطوط" جلد دوم، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سنہ اشاعت ۳۷

۵۰۱ء ص ۲۰۰۶

( پرتو روہیلہ مترجم و مرتب "کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم آباد ۳۸

۱۱۲اردو ص ۵۳۷ ء فارسی ص۲۰۰۸سنہ اشاعت

( پرتو روہیلہ مرتب و مترجم "غالب کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ" بزم علم و فن ۳۹

۴۲اردو ص ۱۳۹ء فارسی ص ۲۰۰۰پاکستان انٹرنیشنل اسالم آباد

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز بار سوم الہور ۴۰

۲۸۱

" جلد دوم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سنہ سال اشاعت ( خلیق انجم، "غالب کے خطوط۴۱

۷۶۲ء ص ۲۰۰۶

( نذیر احمد پروفیسر "غالب کی مکتوب نگاری" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سال اشاعت ۴۲

۲۳۲ء ص ۲۰۰۳

۵۶( محمد اکرام شیخ ڈاکٹر، "حکیم فرزانہ" ادارہ ثقافت اسالمیہ الہور ص ۴۳

۶۱ء ص ۲۰۰۵لد اول نئی دلی غالب انسٹی ٹیوٹ ( خلیق انجم "غالب کے خطوط" ج۴۴

۱۰۴ص // // // // ( ۴۵

ء ۱۹۶۲( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۴۶

۵۳۷ص

( الطاف حسین حآلی "یادگار غالب" خزینہ علم و ادب الکریم مارکیٹ اردو بازار الہور سال ۴۷

۱۷۴ء ص ۲۰۰۲اشاعت

دت بریلوی ڈاکٹر "انتخاب خطوط غالب" اردو اکیڈمی سندھ کراچی سن اشاعت اکتوبر ( عبا۴۸

۶۸ء ص ۱۹۹۷

334

۲۹، ۲۸ص // // // // ( ۴۹

۵۰ ) // // // //

۵۱) // // // //

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۵۲۴۲۰

۸۵ص // // // // ( ۵۳

۵۷۷ص // // // // (۵۴

ء ص ۱۹۸۷( خلیق انجم "غالب کے خطوط" جلد سوم، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی ۵۵

۱۱۱۱

ء ص ۱۹۶۲( غالم رسول مہر "خطوط غالب" شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور بار سوم ۵۶

۴۰۰

۲۶۰( حامد حسن قادری "داستان تاریخ اردو" اردو مرکز لگپت روڈ الہور ص ۵۷

۵۶ڈاکٹر "غالب فکرو فرہنگ" اردو اکیڈمی پاکستان سمن آباد الہور ص ( تحسین فراقی۵۸

( تحسین فراقی ڈاکٹر "غالب کے اردو، فارسی مکاتیب کا ایک جائزہ" مثمولہ سورج الہور ۵۹

۱۲۳سورج پبلشنگ بیورو ص

ء ۱۹۸۲( محمد اکرام شیخ "حیات غالب" ادارہ ثقافت اسالمیہ بار دوم سال اشاعت ۶۰

۵۸الہور ص

( عقیلہ جاوید ڈاکٹر "اردو نثر کا اسلوبیاتی مطالعہ" بیکن بکس غزنی سٹریٹ اردو بازار ۶۱

۷۴ء ص ۲۰۱۴الہور اشاعت

ء ص ۲۰۰۰( خلیق انجم "غالب کے خطوط" جلد اول غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی ۶۲

۲۶۶

۶۹۳ ء ص۲۰۰۶( خلیق انجم "غالب کے خطوط" جلد دوم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۶۳

۶۲۴ص // // // // ( ۶۴

۶۴۸( محمد حسین آزاد "آب حیات" سرفراز پریس لکھنؤ ص ۶۵

۶۲۵ص // // // (۶۶

ء ۱۹۹۷( عبات بریلوی ڈاکٹر "انتخاب خطوط غالب" اردو اکیڈمی سندھ کراچی اکتوبر ۶۷

۳۲ص

335

ر مزنگ روڈ الہو ۳۷( تنویر احمد علوی ڈاکٹر "غالب کے سوانح عمری" دارالشعور ۶۸ ۲۲ء ص ۲۰۱۵پاکستان

۶۹)

ء ۱۹۸۷( خلیق انجم ڈاکٹر ، "غالب کے خطوط" جلد سوم غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی ۷۰

۱۲۳۴ص

ء ص ۲۰۰۲( الطاف حسین حالی "یادگار غالب" خزینہ علم و ادب اردو بازار الہور ۷۱

۲۰

ہ یادگار غالب ( حامد حسن قادری موالنا "غالب کی اردو نثر اور دوسرے مضامین" ادار۷۲

۱۲ء ص ۲۰۰۱کراچی سنہ اشاعت

۴۴ص // // // ( ۷۳

( غالم رسول مہر ترتیب و تدوین محمد عالم مختار حق غالیبیات مہر" مجلس ترقی ادب ۷۴

۱۰۸ء ص ۲۰۱۵الہور

ء ص۲۰۰۰( خلیق انجم "خطوط کے غالب" جلد اول غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۷۵

۷۶)

ء ۱۹۶۲"غالب کے خطوط" بار سوم شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور ( غالم رسول مہر ۷۷

۲۸۸، ۲۸۷ص

۷۰، ۶۹ص // // // // ( ۷۸

۲۰ء ص ۲۰۰۰( الطاف حسین حالی "یادگار غالب" خزینہ علم ادب اردو بازار الہور ۷۹

۲۱ص // // // // ( ۸۰

مہر" مجلس ترقی ادب (غالم رسول مہر ترتیب و تدوین محمد عالم مختار حق "غالیبیات ۸۱

۱۸۴ء ص ۲۰۱۵الہور

۲۱( اسدہللا خان غالب "دیوان غالب" فرخ پبلشرز شاہجہان روڈ الہور سن ندارد ص ۸۲

۱۰۸ص // // // (۸۳

۷ص (۸۴

۷۹ص (۸۵

۱۷۲ص (۸۶

۳ص (۸۷

۱۰۴ص (۸۸

336

۲۱۷ص (۸۹

۲۱۱ص (۹۰

۲۱۴ص (۹۱

۱۵۶ص (۹۲

۱۷۳ص (۹۳

۸۹ص (۹۴

۱۶۲ص (۹۵

۱۲۱ص (۹۶

۱۶۴ص (۹۷

( شاہد ماہلی مرتب "بیسویں صدی کا تخلیقی ذہن اور غالب" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۹۸ ۴۰ء ص ۲۰۰۹

۲۳۹، ۲۳۸ص // // // ( ۹۹

( سلیم اختر ڈاکٹر "مرتب "غالب شناسی اور نیاز و نگار" الہور الوقار پبلی کیشنز ۱۰۰

۱۴ء ص ۱۹۹۸

۲۵۳ء ص ۱۹۶۷ڈاکٹر "غالب کا فن" الہور ادارہ ادب و تنقید ( عبادت بریلوی ۱۰۱

، ۵۱( وحید قریشی ڈاکٹر "تفہیم غالب اکیسویں صدی میں" مثمولہ ماہ نو الہور، جلد نمبر ۱۰۲

۶ء ص ۱۹۹۸، مارچ ۳شمارہ نمبر

( شمس الرحمن فاروقی "غالب کے چند پہلو" انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی ۱۰۳

۱۳ء ص ۲۰۰۱

ء ص ۱۹۶۷( عبادت بریلوی ڈاکٹر "غالب کا فن" ادارہ، ادب ادب و تنقید الہور ۱۰۴

۱۸۳ ،۱۸۴

، ۱۶۸ء ص ۲۰۰۲( فرمان فتح پوری "تعبیرات غالب"ادارہ یادگار غالب کراچی ۱۰۵

۱۶۹

( محمد علی صدیقی ڈاکٹر "غالب اور آج کا شعور" ادارہ یادگار غالب کراچی ۱۰۶

۲۱ء ص ۲۰۰۴

337

چھٹا باب

فرضیہ کی توثیق

تحقیق کا محاکمہ

حاصل تحقیق

338

مرزا اسدہللا خان غالب کی شخصیت اور اس کا فن اردو ادب کا وہ عظیم ترین ترین سرمایہ ہے جس نے نہ صرف اردو نظم و نثر کو جدت و ندرت کی الزوال وسعتوں سے آشنا کیا بلکہ

ں اس انداز میں زندہ رکھا کہ وہ خود ان کے فن نے صدیاں بیت جانے کے بعد بھی خود انھی

اپنے عصر کا آئینہ ہونے کے عالوہ اپنے طرز احساس کی بناء پر ہمارا بھی ہم عصر بن گیا اور نہ جانے کتنی نئی آنے والی نسلوں کا معاصر ہوگا اور اس کی سب سے اہم وجہ اس کا

جدت بہ داماں زایوں سے بھر پور فن ہے۔

متعلم یا معلم نہیں ہیں وہ غالب کو ان کی شاعری کی اوٹ سے وہ لوگ جو باقاعدہ ادب کے

جھانکتے اور ان کے کالم کو سن کر ان کی داد دیتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ غالب کے فن،

ان کی شخصیت اور ان کی عظمت کو دوام عطا کرنے میں ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان لی کردار ادا کیا۔ یوں متعدد ناقدین اساتذہ فن کی نثر اور خصوصا ان کے خطوط نے غیر معمو

اور اہل نظر نقادوں نے علی االعالن بار بار اس امر کا اعتراف کیا کہ غالب کی شاعری اگر

نہ بھی ہوتی تو ان کا نثری سرمایہ یعنی ان کے خطوط بھی ان کو ہمیشہ زندہ رکھتے۔ڈاکٹر ی نثری خصوصیات کا جائزہ کچھ عبادت بریلوی نے غالب کے خطوط کے حوالے سے ان ک

ان الفاظ میں لیا ہے ڈاکٹر عبادت بریلوی کے مطابق:

"یہ خطوط جمالیاتی اور فنی اعتبار سے بھی

بڑی اہمیت رکھتے ہیں، ان میں نہ صرف

خطوط نویسی کے فن کا ایک نیا اور اچھوتا انداز ملتا ہے بلکہ ادبی نثر کو بھی ان میں

تی ہے۔ اس نثر ایک نئی صورت، شکل نظر آ

میں سادگی اور صفائی ہے، روانی اور بہاؤ ہے۔ اس میں سادگی کا حسن بھی ہے اور

(۱حسن کی سادگی بھی۔")

غالب نے اردو مکتوب نگاری کو متعدد حوالوں سے وقار اور اعتماد بخشا، انھوں نے فنی

ہر حوالے سے حوالوں سے ہستی، لسانیاتی، لفظیاتی، تراکیبی، تشبیہاتی، استعاراتی غرض

اردو مکتوب نگاری کو جدید زاویوں اور نئے خطوط پر استوار کیا جب کہ فکری حوالوں سیاسی احوال و کوائف کے سے تاریخی، تہذیبی، سماجی ثقافتی، معاشرتی اور خصوصا

مستند ریکارڈ کا وہ حسین دلکش اور دیدہ زیب نگار خانہ بنا دیا جس میں مذکورہ باال فنی و

محاسن کے موتی آج تک قارئین کی نظروں کو خیرہ کئے ہوئے ہے۔فکری

بقول مولوی عبدالحق "خطوں سے انسان کی سیرت کا جیسا اندازہ ہوتا ہے، وہ کسی دوسرے

ذریعے سے نہیں ہوسکتا" پچھلے ابواب میں ہم نے غالب کے خطوط غالب کی شخصیت اور ے کیونکہ مرزا غالب کے خطوط سے مزاج و مذاق کا پورا نقشہ کھینچنے کی کوشش کی ہ

ہی غالب کی شخصیت اور مزاج و مذاق کی پوری تصویر بنتی ہے۔ مرزا کی شاعری ان کی

شخصیت اور مزاج کے کچھ رخ ضرور متعین کرتی ہے۔ لیکن غالب کی پوری شخصیت اور آتی ہیں۔ ان کے ادبی مزاج و مذاق میرزا اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر

اور یہی وہ ادبی میدان ہے جس میں میرزا اپنی فطری صالحیتوں کے ساتھ پورے کے پورے

موجود ہیں۔ موالنا الطاف حسین حالی "یدگار غالب" میں لکھا ہے موالنا حالی لکھتے ہیں۔

339

"یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ لڑیری قابلیت کے لحاظ سے میرزا جیسا جامع حیثیات آدمی امیر

سرو اور فیضی کے بعد آج تک ہندوستان خ

(۲کی خاک سے نہیں اٹھا۔" )

میرزا غالب ترکمان تھے، والدہ کے انتقال کے باعث پرورش ننھال میں پائی، جو خاصی فارغ

البال تھی۔ اس سے بچپن آزادہ روی اور عیش کوشی میں گزرا۔ طبیعت کی فطری آزادی پر فکر کی جوالنیوں کو کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی۔ اس کوئی پابندی نہ تھی، اس لیے سوچ اور

کے متعلق خود غالب لکھتے ہیں۔ لہو و لعب اور آگے بڑھ کر فسق و فجور اور عیش و

عشرت میں منہمک ہوگیا اور بآلخر تنگ دستی، شراب نوشی اور قمار بازی کی لت قید کی ے۔ بھائی مرزما یوسف کا راہ دکھائی اور اسی غدر کا ہنگامہ بھی ہوا، تو اور مصائب ٹوٹ

انتقال ہوا، پنشن بند ہوگئی غرض غالب کی زندگی جہاں ابتدائی طور پر لہو و لعب اور عیش

و عشرت کی زندگی تھی وہاں ایک کشمکش اور ابتال کی کہانی بھی ہے۔ غالب کی شخصیت میں ایک خلوص تھا۔ ایک صداقت تھی۔ ایک بے تکلفی تھی۔ ایک بے باکی تھی، ایک

جستگی تھی۔ یہی وہ عناصر ہیں جن سے ان کے ادبی مزاج و مذاق کا خمیرا اٹھا۔ اور اسی بر

سبب ان کے خطوط نجی حاالت سے لے کر زمانے کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی ماحول کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس کے عالوہ مرزا غالب کو قدرت نے کئی ایک خوبیاں عطا کی

سلیم، بے پناہ قوت مقابلہ، زبردست فہم صالح، مزاج کی تھیں۔ ان میں پہلے نمبر فطرت

شگفتگی اور خرد تخیلی۔ ان ہی صالحیتوں سے ان کی یعنی غالب کی شخصیت کاخمیر اٹھایا گیا۔ اور یہی صالحیتیں غالب کے ادبی معیار کی بنیاد ہیں۔ اپنے بچپن اور نوجوانی میں البالی

رفان حقیقت سے کبھی منہ نہیں موڑ، یہ اس اور عشرت مزاج ہونے کے باوجود غالب نے ع

کی فطرت سلیم ہی تھی، جس نے زندگی کے ہر موڑ پر اس کی رہنمائی کی، اور ہر کٹھن منزل میں روشنی کا مینار ثابت ہوئی، حاالت کی ناساز گاری نے غالب کی زندگی میں تلخیوں

جھنا بہت دشوار ہوگیا کا زہر گھول دیا تھا۔ جس سے زندگی کے الجھے ہوئے مسائل کو سم

تھا۔ مگر غالب کی فہم صالح نے اس صورت احوال کا ادراک کیا اور اس کی مہم جو طبیعت نے حاالت کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور ایک متوازی ذہن و فکر کے ساتھ اپنی ادبی کاوشوں

کو جاری رکھا۔ مقاومت کے اس جذبے نے اس کے ادبی معیار کو جالدی۔ طبیعت کی

گفتگی نے غالب کی فکرکو ایک شیرینی، ایک لطافت اور ایک بہجت عطا کی۔ جس سے ان شکی ادبی اور شعری تخلیقات میں رنگ و خوشبو کا اضافہ ہوا مرزا غالب کے ہاں فکر و فن

کی بلندی تھی وہ اس عہد کے لیے بھی تھی اور آنے والے وقتوں کے لیے بھی تابندگی اور

گی اس کے بارے میں شاہد ماہلی کی مرتبہ کتاب غالب میں کچھ یوں خوشی کی دلیل ثابت ہو لکھتے ہیں۔

"غالب کی فکرو فن کی یہی جوالنی اور تابندگی اسے جاودانی بخشتی ہے وہ ہماری

حیات کے لطیف ترین پہلوؤں پر نور افشانی

کرتا ہے اور اسے مزین کرتا ہے۔ رفتار و ں و حرکت کی جانب مائل کرتا ہے اور پستیو

محرومیوں سے نبرد آزما ہو کر تازہ بہ تازہ

اور نوبہ نو بلندیوں کی طرف اٹھانے کی

340

کوشش بھی کرتا ہے۔ اسی لئے وہ ہر حال اور ہر رنگ میں ہمارا سب سے اچھا ساتھی اور

رفیق راہ ہے، اسی لئے ہم اسی کی عزت

کرتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں اور (۳کرتے رہیں گے۔" )

لب کے ہاں خیال کی بلند پروازی اور فکر کی گہرائی کا گہرا شعور ملتا ہے جو ان مرزا غاکی شعری اور ادبی کاوشوں میں ہر جگہ موجود ہے۔ یہ ان کی خرد تخیلی کا اعجاز ہے

غالب کا فن، اپنی کیفیت کے اعتبار سے انتہائی بلندیوں پر ہے کسی فن کار کا فن اس کے

دت، شعور کی گہرائی اور فکر کی بلندی سے عبارت ہے۔ان جذبے کی شدت، احساس کی جساری چیزوں نے غالب کے اندر عرفان ذات اور سوز طبعی پیارا کیا۔ اس کے ساتھ معاشرے

اور ماحول کے عمومی اجحانات و میالنات کو سمجھنے اور ان کے تقاضوں سے خود کو ہم

غالب کا پورا ماحول نئے اور پرانے آہنگ کرنے اور اپنا کردار ادا کرنے کا سلیقہ بخشا۔ اقتصادی اور عمرانی اقدار کی کشمکش میں مبتال تھا اور غالب چونکہ عنایت درجہ خود دار

آدمی تھے اسی لیے ایک بے چینی ان کے دل و دماغ پر طاری تھی کیونکہ اسی ٹوٹتی ہوئی

توڑ کوشش کرنی اقدار کے معاشرے میں انہیں اپنی سماجی حیثیت برقرار رکھنے میں سرہے۔ اپنےرقعات غالب میں اس پریشان کن ذہن کشمکش کا واضح طور پر پتہ چلتا ہے زمانے

کے سیاسی و معاشی انحطاط کے پس منظر میں غالب کی تخلیقی صالحیتیں خوب سے خوب

تر ہو رہی تھیں۔ تنگی، معاش نے ان کو زمانے کے سرد و گرم چکھنے اور نشیب و فراز ت اچھا موقع دیا اس سے ان کےذاتی مشاہدات میں وسعت پیدا ہوئی اور وہ دیکھنے کا بہ

تنعم کی حالت میں نہ انسانی زندگی کے ایسے رخوں سے بھی واقف ہوگئے جن سے غالبا

ہوسکتے۔ چنانچہ ان کی درماندگی اور خستگی ان کے ہنر اور فن کا غازہ بن گئی۔ معاشرے کے ذاتی حزن نے مل کر غالب کے ادبی معیار کو بہت کے اجتماعی کرب و ابتالنے اور ان

ہی اونچا کردیا۔ دنیا کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ زبوں و زار معاشرے ہی

فکرو فن کی رفعت و رقعت کے لیے ساز گار ہوتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ خارجی احوال میں کی طرف جھانکتے اور مشکالت و مصائب کے اسیر لوگ محذون و مایوس ہوکر اندر

مستغرق رہنے لگتے ہیں۔ زمانے کی محرومیوں سے اکتا کر وہ خیالی بزم آرائیوں کے سامان

کرتے ہیں۔ اور ان کی فکری اور تخیلی کاوشوں کے نتیجے میں عظیم ادب اور فن جنم لیتا تے ہے۔ اس عظیم فن اور ادب کے بارے میں بیسویں صدی کا تخلیقی ذہن اور غالب میں لکھ

ہیں۔

"غالب کی نثر نگاری ان کے دور سے لے

کر آج تک بے مثال تصور کرلی گئی ہے آج

بھی ان کے مکتوبات کے آئینے میں ان کی فکر کی گہرائی و گیرائی کا ناپنے کا عمل

جاری ہے ان میں ان کے دور کی شخصیتوں،

ان کے دور کی تہذیب، معاشرے، تعلقات و ت خیاالت تاثرات، زندگی کی افراتفری و اتفاقا

وغیرہ کیبھر پور جھلکیاں ملتی ہیں۔کی

بالخصوص ان میں ان کے دور کی ادبی

341

شخصیات سے متعلق غالب کے خیاالت کا پتہ چلتا ہے اور انہی میں خود غالب کی ذہنیت

کھل کر سامنے آتی ہے۔ محقیقین اور مورخین

کے لیے ان مکتوبات دستاویز کی حیثیت غالب تحقیق و رکھتے ہیں۔ موجودہ صدی میں

جستجو کے لیے جس قدر کام میں الئے گئے

ہیں اتنا کسی اور شخصیت کو بہ استثنائے اقبال کام میں نہیں الیا گیا وہ صرف اپنی

صدی پر اثر انداز نہیں ہوئے ہیں بلکہ اس

سے زیادہ اپنے بعد کی صدیوں پر حاوی (۴ہیں۔" )

وں و زار معاشرے ہی فکر و فن کی رفعت دنیا کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ زب

و وقعت کے لیے ساز گار ہوتے ہیں شاید اسی لیے کہ خارجی احوال میں مشکالت و مصائب

کے اسیر لوگ محزون و مایوس ہوکر اندر کی طرف جھانکتے اور مستفرق رہنے لگتے ہیں۔

یں۔ اور ان کی زمانے کی محرومیوں سے اکتا کر وہ خیالی بزم آرائیوں کے سامان کرتے ہ

فکری اور تخیلی کاوشوں کے نتیجے میں عظیم ادب اور فن جنم لیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں

کہ جو حقیقتیں انہیں معاشرے میں برپا نظر نہیں آتیں وہ انہیں زور تخیل سے اپنے فن اور

لی ادب میں اجاگر کرنے کی سعی کرتے ہیں غالب کا ماحول اور معاشرہ بالفعل ایک انفعا

ماحول تھا۔ جب ایک تہذیب دم توڑ رہی تھی اور دوسری تہذیب اس خال کو پر کررہی تھی۔

غالب نے اس سنگھم پر کھڑے ہوکر مٹتی تمدن کی روایات و اقدار کو اپنے ادب کے ذریعے

زندہ جاوید بنانے کی بھر پور کوشش کی اور وہ اس نقش گری میں یقیننا کامیاب رہا۔ کہنے کو

یک معمولی کاروباری چیز ہے، مگر یہ ایک آرٹ بھی ہے، خطوط نگاری کا خط نگاری ا

مقصد چند معلومات کو پیام کی شکل میں چند باتوں کو تحریر کے جامے میں مکتوب الیہ تک

پہنچانا ہے۔ اس کا اولین مقصد ادب پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ اپنی بنیادی حیثیت سے نہایت

خطوط نگاری کو کچھ قدرتی رعاتیں حاصل ہیں اور اس پر رسمی اور کاروباری چیز ہے

کچھ قدرتی پابندیاں بھی عائد ہیں، جو دوسری تحریروں میں نہیں ہوتیں۔ خط سے زیادہ

کاروباری ہے وہاں وہ خالصتا ایک شخصی چیز اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ خط جہاں اصال

کے لیے نہیں لکھے جاتے یہ نجی چیز بھی ہے۔ یعنی وہ مکتوب الیہ کے عالوہ دوسروں

نجی حیثیت خط کی خوبی بھی ہے اور کمزوری بھی اس بنا پر کہ مخاطب ایک فاصلے پر

342

ہوتا ہے جس سے مکتوب نگار روبرو گفتگو نہیں کرسکتا یا کرنا نہیں چاہتا۔ خطوط نویسی

ر نگاری میں دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں ایک تو یہ کہ خطوط نگاری بالعموم اختصا

کا دوسرا نام ہے۔ طویل نویسی خطوط نگاری کی سپرٹ کے منافی ہے۔ خط تو ایک باہمی

گفتگو ہے۔ جسے ضروری حدوں کے اندر رہنا چاہیئے۔ یہ ایک طرح کا طرز ابالغ ہے۔ گویا

اختصار نویسی خطوط نگاری کی جان ہے۔ خطوط نویسی بڑی نازک چیز ہے۔ خط کا

ے اور اس میں شخصیت کا بھر آنا بھی اسکی ماہیت میں سے اختصار اس کی ماہیت میں ہ

ہے۔ بعض لوگ جنہیں شک ہو کہ ان کا خط کسی اور پر کھل جائے گا وہ راز دار نہ لہجہ

اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح خط میں ان کی شخصیت جھلک جاتی ہے خطوط نگاری گفتگو

اسی طرح گویا مکتوب نگاری کے کی ایک طرز ہے یا اسے گفتگو کا قائم مقام ہونا چاہیئے۔

( خط ۴( خط کا اختصار )۳( نجی یا شخصی ہونا )۲( مدعا نگاری )۱لیے چار باتیں اہم ہیں )

پڑھنے والے کے لیے خط کا دلچسپاور پر معنی ہونا، ان کے عالوہ مکتوب نگاری میں

ت کی سادگی و بے تکلفی، جدت و بے ساختگی، جزئیات نگاری و منظر کشی، شوخی و ظراف

پھلواڑی ہوتی ہے مکتوب نگاری بقول غالب مراسلے کو مکالمہ بنانے کا فن ہے، یعنی وہ

گفتگو جو تحریر کے قالب میں ڈھل کر بھی گفتگو ہی رہے۔ اردو نثر میں مرزا غالب کی

اولیت ان کے رقعات کے سبب ہے اور اسی نثر میں غالب نے خطوط نویسی کا جو طریقہ

ہ اول بھی ہے اور آخر بھی۔ مرزا غالب نے خط نگاری کی "محمد شاہی ایجاد کیا اس میں و

روشوں" کو ترک کرکے وہ جدتیں پیدا کیں، جنہوں نے اردو خطوط نویسی کو فرسودہ

راستے سے ہٹا کر فنی معراج پر پہنچا دیا۔ غالب کی مکتوب نگاری میں تین بڑی خصوصیات

گاری کی قدیم روش کو بدل کر خط لکھنے کا نیا پائی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ غالب نے خطوط ن

ڈھنگ اختیار کیا یعنی انہوں نے پر تکلف خطوط نویسی کے مقابلے میں بے تکلف خطوط

نویسی شروع کی۔ دوسری خصوصیت یہ کہ غالب نے خطوط نویسی میں اسٹائل اور طریق

ختلف اصناف نثر اظہار کے مختلف راستے پیدا کیے۔ ایسے راستے جو آنے والی نسلوں کی م

پر اثر انداز ہوئے۔ تیسرے یہ کہ غالب نے خطوط نگاری اور ادب کی سرحدوں کو مال دیا،

یعنی انہوں نے خطوط نویسی کو ادب بنا دیا۔ غالب کے متعلق جو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے

محمد شاہی روشوں کو ترک کرکے خطوط نویسی میں بے تکلفی کو رواج دیا تو بالکل درست

343

ے۔ دراصل یہ بات غالب کے اپنے ایک خط میں شہادت کے طور پر موجود ہے اور یہ خط ہ

انہوں نے میر مہدی مجروح کے نام لکھا ہے۔

"ہاں صاحب! تم کیا چاہتے ہو؟ مجتہد العصر

کے مسودے کو اصالح دے کر بھیج دیا۔ اب

اور کیا لکھوں۔ تم میرے ہم عمر نہیں جو جو دعا لکھوں۔ سالم لکھوں۔ میں فقیر نہیں

تمھارا دماغ چل گیا ہے۔ لفافے کو کریدا کرو،

مسودے کو بار بار دیکھا کرو پاؤ گے گیا؟ یعنی تم کو وہ محمد شاہی روشیں پسند ہیں کہ

یہاں خیریت ہے، وہاں کی عافیت مطلوب ہے۔

خط تمہارا بہت دن کے بعد پہنچا۔ جی خوش ہوا۔ مسودہ بعد اصالح کے بھیجا جاتا ہے۔ بر

خوردار میر سرفراز حسین کو دنیا اور دعا

کہنا اور ہاں حکیم میر اشرف علی اور میر افضل علی کو بھی دعا کہنا۔ الزمہ سعادت

مندی یہ ہے کہ ہمیشہ اسی طرح سے خط

بھیجتے رہو۔

کیوں سچ کہیو۔ اگلوں کے خطوط کی تحریر

کی یہی طرز تھی؟ ہائے، کیا اچھا شیوہ ہے گویا وہ خط ہی نہیں جب تک یوں نہ لکھو

ہے۔ چاہ بے آب ہے۔ ابر بے باراں ہے۔ نخل

بے میوہ ہے۔ خانہ بے چراغ ہے، چراغ بے نور ہے، ہم جانتے ہیں تم زندہ ہو۔ تم جانتے

ہو کہ ہم زندہ ہیں۔ امر ضروری کو لکھ لیا۔

زوائد کو اور وقت پر موقوف رکھا اور اگر تمھاری خوشنودی اسی طرح کی نگارش پر

صر ہے تو بھائی ساڑھے تین سطریں منح

(۵ویسی بھی میں نے لکھ دیں۔" )

مرزا غالب کے اس ایک خط سے اگر اندازہ لگایا جائے کہ غالب نے خطوط نویسی کے قدیم

انداز کو جسے وہ محمد شاہی روشیں" کہ کر پکارتے ہیں، لکیر بدل دیا، انہوں نے مختصر ے اندر جو آرائش بیان اور صنعت گری کا قصہ ہوتا اور سادہ القاب کو رواج دیا اور خطوط ک

اسے ترک کرکے سیدھی سادی زبان میں بے تکلف مطالب کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ انہوں

نے اس منشیانہ روش کو ختم کردیا جو ان کے عہد تک رائج تھی۔ جس کا ایک نمونہ اوپر ی اور نثر نگاری کے دیے گئے خط سے ظاہر ہے۔ غالب نے اپنے خطوط میں خطوط نگار

اعتبار سے زیادہ رس بھرا ہے اور زیادہ با مطلب اور زیادہ با معنی بنا دیا ہے۔ ان کے خطوط

344

کی سادگی اور سالست، اسٹائل کی شوخی اور ظرافت ان جبلت کے ترجمان ہیں۔ انہوں نے پرانی روشوں کے مقابلے میں سادگی اور بے تکلفی کو تحریر کا شعار بنایا۔

غالب نے سب سے پہلے اردو نثر کو زندہ نثر بنایا۔ زندہ نثر کا مطلب یہ ہے کہ غالب مرزا سے پہلے جتنی نثر بھی لکھی گئی وہ سب کی سب بیانیہ نثر جو تکلف و تصنع سے پر تھی۔

غالب نے سب سے پہلے اپنے شخصی جذبات کو اپنی نثر میں منعکس اور زندگی یعنی قصے

اور اس کے مسائل کے لیے اپنی نثر کو زبان کا ترجمان بنایا۔ ان کی کہانیوں کی نثر تھی کیانثر چونکہ زندہ احساس کی ترجمانی کرتی ہے! اس لیے وہ زندہ نثر ہے۔ غالب نے اردو

انشاء کو تکلف دا درد کی پاتال سے نکال کر سادگی و بے تکلفی، بے ساختگی و برجستگی

کیا۔ ان سے پہلے جی نثر انشا پردازی کے تکلفات اور روانی و شگفتگی کی رفعتوں سے آشناسے گراں بار ہوکر مقفی و مسجع، گنجلگ اور مغلق ہوتی تھی۔ جس میں سارا زور معنی کی

بجائے لفاظی پر دیا جاتا تھا۔ جذبات و احساسات اور افکار و خیاالت سے عاری و پیاز کے

زادنے اردو انشاء کو پابہ زنجیر چھلکوں کی طرح بے مغز ہوا کرتی تھی۔ غالب کئ طبع آکرنے والی تکلفات کی ان بیڑیوں کو کاٹ کر اسے آزاد کردیا۔ اس کی کہنگی اور فرسودگی

کا پردہ چاک کرکے اس کے اندر زندگی کی روح تازہ بھری۔ اور شوخی و پرکاری، طنز و

لوب نگارش ظرافت، مرقع نگاری منظر کشی کے لیے جس تازہ اور شگفتہ اور رواں دواں اسکی ضرورت تھی اس کی طرح نو ڈالی۔ غالب کے اس مجتہدانہ اقدام سے اردو انشا و ادب

کی برسوں کی زنگ آلودگی چھٹ گئی اور اردو میں صاف ستھرے اور شوخ نکھرے ہوئے

طرز بیان کا سکہ رواں ہوا۔ چنانچہ غالب پہلے شخص ہیں۔جنہوں نے اپنی جدت فکر اور نثر میں مضامین نو اور فکر تازہ کے اظہار کی رائیں کھولیں اور پھر ندرت بیان سے اردو

سب اسی راہ پو ہو لیے۔ خطوط غالب نثر اردو کا ایک دلکش اور الزوال نمونہ ہیں۔ خطوط

غالب سے پہلے پہل وہ فضا منکشف ہوئی جس میں بعد کے آنے والوں نے زبان اور ادب کے ا اس سے پہلے بہ مشکل تصور کیا جاسکتا تھا۔ ایسے حیرت انگیز کرشمے دکھائے، جن ک

اصل واقعہ یہ ہے کہ اس عہد ما بعد میں سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء کی علمی، ادبی

اور مقصدی سرگرمیوں کے طفیل اردو نثر کو جو وقعت وسعت اور شہرت حاصل ہوئی اس انشا و ادب کو مدعا کا سہرا غالب ہی کے سر ہے جنہوں نے اپنے خطوط کے ذریعے اردو

نگاری کی راہ دکھائی۔

پچھلے ابواب کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غالب پر لکھنے کی روایت اس

وقت سے شروع ہوئی ہے جب غالب خود زندہ تھے اور لکھنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے

شرحیں، تنقیدی پرانے زمانے میں جو کچھ لکھا گیا ہے خواہ تذکرے ہو، اخبارات، مسبوط کتب یا مقاالت اور مضامین ہو اس بات کا ثبوت ہے کہ مرزا غالب کے فن تک رسائی ہر اہل

قلم کے تخلیق کا ذریعہ بنتا رہا اور یہ خواہش رہی بغض لوگوں نے غالب کے تخیل تک

پہنچنے کے لیے جو کوشش کی اس کے نتیجے میں ہر زمانے کے اہل علم و نظر کو مرزا عری قوتوں کے کسی نئے پہلوں کا پہچان ہوتا رہا اس لئے یہی وجہ ہے کہ قریبا غالب کی ش

دو سو سال گزرنے کے باوجود فکر غالب اپنے نئے نئے مفاہم و مطالب کے ساتھ ساتھ اس

میں اضافہ ہوتا رہا ہے اور اس اضافے کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی کوشش ہر دور میں ر دور کی ضرورت بن کر سامنے آرہی ہے۔جاری ہیں اور یہ کوشش غالب کے ہ

345

آج اگر اردو ادب کی بنیاد مضبوط ہیں یا جنہوں نے اردو ادب کی بنیادیں فراہم کی ہیں ان میں غالب کا نام بھی شامل ہے۔ غالب کا نام بھی شامل ہے۔ غالب ایک ہمہ جہت شخصیت کے

ھی تھے کیونکہ تمام مالک تھے اور وہ اس وقت کے سب سے توانا اور مضبوط آواز ب

اصناف اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور تمام اصناف پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب کے ترقی میں یا فروغ میں اس نے کوئی کسیر اٹھا

رکھی ہو اس کی تحریریں ہر وقت اور ہر زمانے کیلئے ہیں اور ہر عہد کے اہل قلم نے ان

کی قدر کے متعین کردہ نئی نئی راہوں کو جنم لیا ہے۔ جس کی وجہ بے شمار راہیں کھل کر سامنے آگئی ہے اس لیے غالب ایک ایسا موضوع ہے جو ہر وقت اور ہر زمانے اہل قلم و اہل

نظر کیلئے محبوب رہا ہے اور لوگوں نے اس میں نئے نئے موضوعات نکال کر اس پر

لے سے کام کیا ہے اردو ادب میں ہر موضوع پر لکھا گیا ہے۔ لیکن تحقیق و تنقید کے حواکسی پر زیادہ مقدار میں اور کسی پر کم مقدار میں لکھا گیا ہے غالب وہ خوش قسمت آدمی

ہیں، کہ جن موضوعات پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے ان میں ایک مرزا غالب اور

اگر پاکستان کی سطح پر ذخیرہ غالب کے حوالے سے اندازہ لگایا جائے تو خصوصا غالب پر بہت کام بھی ہوا ہے اور کتابیں بھی کافی تعداد میں شائع ہوچکی ہیں۔

ڈاکٹر گیان چند جیں کی رائے کے مطابق۔

اردو میں غالب پر جتنا زیادہ لکھا گیا ہے اتنا

با ثتثنائے اقبال کسی اور ادیب پر نہیں لکھا کےادیبوں نے گیا۔ لیکن غالب پر جس پائے

لکھا ہے اور جس قسم کی تاریخ ساز کتابیں

(۶لکھی ہیں، وہ اقبال کا بہرہ نہیں۔" )

مرزا غالب پر ہر زاویئے سے لکھا گیا غالب پر کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس پر لکھا

جائے لیکن اس کے باوجود بھی غالب پر مذید لکھنے کی ضرورت ہے اتنا کچھ لکھنے کے س باقی رہتا ہے کہ۔۔۔۔۔بعد بھی احسا

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

اہل علم و اہل دانش فن پر اب غالب کا بہت سا حصہ قرض ہے اور وہ ہے خطوط کیونکہ

خطوط پر جتنا لکھنا تھا یا لکھنی کی جتنی ضرورت ہے اتنا نہیں لکھا کیونکہ غالب کے ایک وؤں پر بحث کی ہے غالب کی ایک ایک خط میں کئی کئی حصے ہیں اور اس میں کئی پہل

خط پر جتنا کچھ لکھا جاسکتا ہے اتنا کسی اور کے ہاں کہاں ہے اسی مقالے میں اردو اور

فارسی خطوط کی تاریخ ہو سیاسی، سماجی، معاشرتی حاالت ہو یا اردو اور فارسی خطوط زہ لینے کی کوشش کا تقابلی جائزہ ہو اس مقالے میں غالب کے تمام پہلوں کا مختصر سا جائ

کی ہے شاعری کے حوالے سے غالب کے اشعار کی تشریحات تو بہت زیادہ ہوئے اور کئی

کئی دیوان چھپ کر شائع ہوچکے ہیں اس کے عالوہ خطوط پر بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے اور خصوصا اردو اور فارسی کے وہ خطوط جن میں غدر کے بارے میں دہلی کے بارے میں یا

کے حوالے سے بات ہو اسی طرح غالب کے خطوط کئی خطوط سے تحقیق کے نظم و نثر

ساتھ بات کی ہے اول غالب کے القاب و آداب کے بارے میں مکالمہ کا جو انداز غالب نے اپنایا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ خطوط میں لسانی سطح پر دیکھا جائے تو لفظ

346

قسم سامنے اتی ہے جس سے فن پارے میں پھیالؤ غالب کے تعلق کی ایک مثبت اور تخلیقی اور تنوع پیدا ہوجاتا ہے ہر ایک جانتا ہے کہ لفظی استعمال کے لیے غالب شعوری طور پر

کوشش نہیں کر رہے انہوں نے لفظوں کو اکثر اوقات تمام تر معنوی امکانات کے ساتھ نظم

نظم کا حصہ بن جاتا ہے کرنے کی کوشش کی ہے جب ایک لفظ اپنی پورے مفاہم کے ساتھتو اس سے مضمون میں اور زیادہ وسعت پیدا ہوتی ہے۔ لکھنے واال ان تمام معنی و مفاہم کا

احاطہ نہیں کرسکتا ایسے حاالت میں معنی کی تہ تک پہنچنا آسان نہیں۔ چنانچہ ایسا اسلوب

لسل مرزا غالب جہاں مشکل پسندی ہو وہاں اہل نظر کو دعوت دینا ہے اور یہی رجحان مسکے بارے میں سوچنے اور غالب پر مزید لکھنے کی ضرورت کو جنم دے رہا ہے اور

جیسے وقت گزرتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ ضرورت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ شاعری کے

بارے میں ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں۔

"غالب کے انتقال کو ایک صدی ہو رہی ہے۔

تھے جو اپنے غالب ان دیدہ وروں میں زمانے سے آگے جھانک لیتے ہیں۔ ان کی

شاعری انیسویں صدی کے لیے نہیں بیسویں

صدی کے لیے تھی۔ ان کی فکر کی اڑان ان کے ابنائے عصر سے باالتر تھی۔ اس کے

سننے والے ان کے جوہر اندیشہ کی گرفت نہ

(۷کرسکتے تھے۔" )

ہوا خواہ وہ بیسویں صدی تھی بیسیوں صدی غالب پر لکھنے کا عمل کسی دور میں بھی کم نہ

میں غالب کے کئی جوہر سامنے آئے لیکن ختم نہ ہوئے یہاں تک کہ اکیسویں صدی نے فکر غالب کے نئے امکانات کے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ اگر غالب پر لکھنے کے اطراف کا جائزہ

یں لکھنے پر مجبور کیا لیا جائے تو کچھ چیزیں ایسی سامنے آتی ہیں کہ اس پرآنے ہر عہد م

اردو تنقید کے بارے میں غالب کے حوالے سے سمجھنے اور اس سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اور اسی طرح سے بہت سے چیزیں تک ان کی رسائی حاصل کی ہے۔ اسی

طرح بہت سارے لوگوں نے غالب کے اشعار کی تشریخ اور اصل مفہوم تک رسائی کا دعوی

کے عالوہ بعض اشعار کی تشریح ابھی تک صحیح نہیں ہوسکی یا یہ کہیئے بھی کیا ہے اسکہ وہ ان کی دسترس سے باہر تھے۔ اشعار کی تشریح کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور

اس کام میں لوگوں نے غالب کی زندگی کو اوران کی شخصیت کو سامنے رکھ کر اس کے

صرف کی۔ غالب کے ہاں ایک فلسفہ تو نہیں ذہن کو سمجھنے کی کوشش میں اپنی زندگیاںکئی فلسفے ہیں ان میں تصوف ہے، فلسفہ ہے، قلبی واردات ہے، روایت شعری ہے اس کے

عالوہ زندگی کے کئی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے خود ان کو خطوط سوانح زندگی کا

ے۔ جو غیر ایک مکمل باب کھلتا ہے۔ خطوط کی تاریخیں متعین کی گئی خطوط دیکھے گئمطبوعہ آثار تھے ان کی تالش ہوئی یہاں تک کہ غالب کو تاریخ کے آئینے میں دیکھنے کی

سعی کی گئی وقت کے ساتھ موضواعات میں اضافہ ہوتا گیا اور اس کے ساتھ لکھنے کا

دائرہ بھی وسیع تر ہوتا گیا یعنی غالب پر لکھنے کا جو سلسلہ جس جذبے اور جوشکے ساتھ تھا اس جذبے اور جوش اضافہ ہوا اور کمی نہیں اور آنے والے وقتوں میں بھی بہ شروع ہوا

سلسلہ ختم نہ ہونے واال ہے کیونکہ کی شخصیت ہی کچھ ایسی تھی کہ وہ ذات کے ایک

کونے میں رہ کر کائنات کی باتیں کر رہے ہیں۔ غالب پر لکھنے کا یہ سلسلہ اس بات کی

347

و فکری خیاالت کا احاطہ کرنا ابھی ممکن نہیں ہے روایت گواہی دے رہا ہے کہ ان کی فنی کے جو تجربے غالب نے کی ہے وہ سب سے نمایاں ہے خواہ وہ فارسی کی روایت کیوں نہ

ہو فارسی زبان کی روایت میں جو رنگینی اور خوب صورتی تھی جب غالب نے ان کو اردو

وی و صوری ہمیشگی اور شاعری اور خطوط کے سانچے میں ڈالی تو اس سے اس کی معنان کی فنکارانہ عظمت کو اس انتہا تک پہنچایا اور اہل نظر کی یہ تگ و دو اور بھی تیز ہوتا

دکھائی دیا۔ مرزا کی فارسی عزل ہو یا فارسی خطوط ہو یا اردو غزل، خطوط مئیں جدت پیدا

وز بروز کرنے میں نئی بات سامنے آتے گئے اور اس طرح غالب کے علمی سرمایہ میں راضافہ ہوتا گیا، اس طرح ساتھ ساتھ کچھ غلطیاں بھی پیدا ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کے

حدشے اس حوالے سےبڑھ جاتے ہیں اس خدشے کا اظہار ڈاکٹر فرمان فتح پوری ان الفاظ

میں کرتے ہیں لکھتے ہیں۔

غالب اردو کے سب سے مقبول و محبوب

اور شاعر ہیں، ان پر بہت کچھ لکھا گیا ہے خدا جانے ابھی کتنا کچھ لکھنا باقی ہے۔ لیکن

یہ بات بڑی مایوس کن ہے کہ ان کے کالم و

شخصیت کو جس قدر آسان و عام فہم بنانے کی کوشش کی گئی وہ اسی قدر پیچیدہ اور

مجموعہ اضدادبنتے گئے۔ کسی نے انہیں

مفکر و فلسفی بتایا، کسی نے ان کی شاعری مجھا اور کسی نے کو اپنی شکست کی آواز س

ان کے دیوان کو وید مقدسکے ہم مرتبہ بتایا۔

بعض نے انہیں رند شاہد بازو دنیا دار ٹھرایا۔ کسی کی نظر میں وہ انتہائی خود دار و خود

پسند قرار پائے اور کسی نے بھٹی اور

درپوزہ گری کو ان کا پیشہ بتایا۔ ایک نے لکھا کہ وہ اپنے خطوط کو باعث افتخار

تے تھے۔ دوسرے نے کہا کہ وہ ان کی سمجھ

اشاعت کو ننگ و عار خیال کرتے تھے۔ کسی نے انہیں فارسی میں مال عبدالصمد کا

شاگرد بتایا اور کسی نے عبدالصمد کے وجود

کو فرض گردانا۔ ایک نے کہا کہ وہ اپنی فارسی شاعری کو اردو سے بہتر جانتے

تھے۔ دوسرے نے جواب دیا کہ وہ اردو کالم

کو فارسی پر ترجیح دیتے تھے۔ غرض کہ غالب پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے۔ اس پر

نظر ڈالنے سے بہ حیثیت مجموعی کچھ اس

قسم کی متخالف و متضاد باتیں سامنے آتی (۸ہیں۔")

348

یہی مخالف و متضاد باتیں مرزا غالب پر لکھنے کی ضرورت کا بنیاد بنتی گئی ان باتوں سے ی نئے دروازے کھلتے گئے اور انہی کی وجہ سے غالب شناسی کی فکر و آگہی کے کئ

روایت اور بھی مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے۔ غالب کے حوالے سے پاکستان میں ہونے واال

اکثر کام کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے غالب کے عالوہ اردو ادب میں کئی بے مجھا جائے لیکن آج تک ان شخصیات شمار شخصیات ایسے ہیں کہ ان کے فکر و فن کو س

کے بارے میں لکھنے کی ضرورت کو ضروری نہیں سمجھا گیا اس کے باوجود غالب

جیسے شخیصیت پر کئی پہلوؤں پر لکھا گیا اور سمجھا گیا اور آئے دن ہر روز غالب شناسی ہوسکتا ہے، یا غالبیات کے ذخیرہ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ان تمام سواالت کا ایک ہی جواب

اور وہ ہے غالب کے المحدود پہلوؤں تک رسائی حاصل کرلینے اور اس پر کام کی مذید

ضرورت ہے اور غالب پر ابھی تک بہت سارا کام ابھی باقی ہے جس پر مذید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مرزا غالب ایک نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے مرزا غالب تخلیقی

کہ اس نطم و نثر میں اپنے دیے ایک الگ مقام چنا اوراس میں کس حد ذہانت کی انتہا تھی

تک کامیاب ہوئے اس کے بارے میں بیسویں صدی کا تخلیقی ذہن اور غالب میں لکھتے ہیں۔

"سرسری نظر سے بھی دیکھئے تو مرزا

کے اردو خطوط میں ایک ایسے حساس اور ہمہ جہتی تخلیقی ذہن کی کارفرمائی نظر آئے

س کی دوسری نظیر انیسویں صدی میں گی ج

نہیں ملتی جو زندگی کو ہی نہیں خود اپنے وجود کو بھی اس سے الگ ہوکر اکثر ایک

تماشائی کی نظر سے دیکھتا ہے اور ہر

منظر کو اس کی باریکیوں کے ساتھ بیان (۹کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔" )

ازہ لگایا جسکتا ہے۔پاکستان میں ان تخلیقی کاموں سے غالب کے ذہن کے ہمہ جہتی کا اندغالب شناسی کی رویت انتہائی مستحکم ہے اور پاکستانی ادب پر مرزا غالب کے اثرات اتنے

گہرے اور پھیلے ہوئے ہیں کہ اب غالب پر لکھنا اور سوچنا ادیبوں کی ضرورت بن گئی ہے۔

ر پاکستان کے لیے روز بروز غالبیات میں جو نادر اضافہ ہورہا ہے وہ پاکستانی ادب اوء ۲۰۱۶ء تا ۱۹۴۷سرمایہ افتخار سے کم نہیں ہے۔ پاکستان بننے کے بعد آج تک

انہتر برس میں ایسا کوئی سال نہیں آیا جس میں غالب پر کسی نہ کسی پہلو سے کوئی کتاب

منظر عام پر نہ آیا ہوں غالب کی ہر سمت پر لکھا گیا لیکن اس کے باوجود غالب کے کئی وشے اب بھی ہے جس پرمزید لکھا جاسکتا ہے ۔ اشعار کے پہلو پر کئی ادیبوں نے ایسے گ

خوب صورت انداز میں ان کی اشعار کی تشریح اور شرحیں لکھیں تو کسی نے نثر کو بے

مثال قرار پایا اور کئی شخصیات نے ان کے خطوط کو پورے پورے جلدیں تیار کیں اور اس ور زندگیاں صرف کی۔ خطوط پر ہندوستان اور پاکستان میں اپنی لیے خوشی محسوس کی ا

دونوں ممالک میں کئی ایک شخصیات نے ان کا پیچھا کیا کسی نے ایک پہلو پر خامہ فرسائی

کی تو کسی نے دوسری پہلو پر لکھا اور غالب پر یہ سلسلہ اپنے پورے جذبے اور جوش کے ی ہے۔ کہیں سے اخبارات نکالے جارہے ساتھ رواں دواں ہے۔اور نہ ختم ہونے واال سلسلہ جار

تو کوئی رسائل نکال رہے ہیں تو کئی سے غالب نمبر نکل رہا ہے کوئی لگا ہوا نجی سطی پر

تحقیق کررہا ہے اور کئی جامعاتی سطح پر کام ہورہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غالب واحد

349

ادب کے حوالے سے یہ کہا ایک فرد نہیں بلکہ پوری ایک تحریک کا نام ہے بلکہ اگر اردو جائے کہ وہ ایک زمانہ نہیں بلکہ ایک زمانہ بنانے واال ہے تو جھوٹ نہ ہوگا۔ ڈاکٹر فرمان

فتح پوری اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔

"غالب کی شخصیت یک پہلو نہیں ہشت پہلو

ہے، ان کا فن یک رنگ نہیں صد رنگ ہے،

اردو نظم و نثر میں ان کی اولیات ایک دو یں سینکڑوں ہیں۔ ان کی ادبیت یک شیوہ نہ

نہیں ہزار شیوہ ہے ہمارے شعر و ادب پر ان

کے احسانات دو چار نہیں بے شمار ہیں، ان کی ذات یک صفت نہیں جامع الصفات

(۱۰ہے۔")

آئیے دن نئے نئے غالب شناس پیدا ہورہے ہیں ان نئے لوگوں کے لیے نئے امکانات ابھی

وہ ایک نئے انداز سے غالب کے فکر کو متعارف کرو رہے ہیں سامنے آتے جارہے ہیں اور

غالب کو حوالے سے پاکستان میں جتنا کام ہوا ہے۔ معیار اور مقدار کے لحاظ سے انتہائی قابل رشک ہے اور غالب شناسی کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔ بیسویں صدی کا تخلیقی ذہن

اور غالب میں لکھتے ہیں۔

م کا زور کیا صرف کروں "اردو میں اپنے قل

گا،اور عبارت میں معانی نازک کیوں کر

بھروں گا" یہ محض غالب کی کسر نفسی تھی مگر ہم دیکھتے ہیں خطوط نگاری میں غالب

نے جو مقام و مرتبہ حاصل کیا ہے اس کی

مثال اردو ہی کیا کسی بھی عالمی زبان میں نہیں ملتی۔ غالب کے باعث انشا پردازی ایک

کر ابھری۔ اس فن میں غالب کی زبان فن بن

بڑی بے باک ہے اور وہ روایات کی بھر پور عکاس ہے۔ غالب کو ان کے مختصر دیوان

اور انشا پردازی و خطوط ہی کے باعث

عالمگیر شہرت نصیب ہوئی ہے۔ غالب کے پردہ کرنے کے بعد ہند و پاک میں غالب

شناسی کا جس قدر اہتمام ہوا ہے وہ کسی اور

عر و ادیب کے حق میں نہیں ہوا اور آج شابھی غالب کے ہاں نئے نئے پہلو تالش کیے

(۱۱جا رہے ہیں۔" )

فارسی خطوط کے بارے میں مرزا کو شروع میں اپنے دلپذیر انداز کی گہرائی کا صحیح

احساس نہ تھا۔ غالب اپنے فارسی رقعات کو چھاپنے کے خالف نہ تھے۔ حاالنکہ وہ بھی زیادہ

کے اور دوستوں کے "آپس کے معامالت" پر مشتمل تھے اردو مکاتیب کی اشاعت میں تر ان

350

تامل اس لیے تھا کہ اس زمانے میں اردو نثر کو وقیع نہیں سمجھا جاتا تھا، بلکہ غالب کے قول کے مطابق یہ نثر ان کی شہرت سنخوری کے منافی تھی۔ "آپس کے معامالت" واال عذر

لی جو خطوط غالب کی اشاعت کے محرک اور عود ہندی کے طابع زائد تھا۔ منشی ممتاز ع

تھے۔ عود ہندی کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔ "نثر اردو ان کی اوروں کی فارسی سے ہزار درجہ بہتر ہے" یہ سالست بیان، شستگی زبان، روز مرہ کی صفائی اور ان کی شوخی کسی

ی موجود ہیں جن میں نہ عبارت کی کو کب میسر ہے۔ بالشبہ عود ہندی میں ایسے خطوط بھ

کوئی خاص خوبی ہے اور نہ کوئی علمی نکتہ ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ طبع ہونے کے احساس سے پہلے کے تمام خطوط محض کاروباری ہیں اس خیال کی تائید میں مرزا کے

ں جن سے ابتدائی رقعات بنام منشی بنی بخش حقیر کے حوالے سے ایک مثال پیش کرتے ہی

یہ بات پایہ ثبوت تک کو پہنچتا ہے کہ غالب کے ابتدائی خطوط بھی اپنے اندر علمی و ادبی سرمایہ رکھتے تھے۔ نثر غالب کی جملہ خصوصیات ان رقعات میں بھی اپنی بہار دکھا رہی

ہے۔ لکھتے ہیں۔

"صاحب بندہ!

میاں نسیم ہللا یہاں آئے اور وہ حکمت امام فلسفہ مولوی صدرالدین الدین خان سے اور

سے پڑھتے تھے۔ ناگاہ ازروئے اضطرار کو

چلے گئے۔ وقت و داع کہتے تھے کہ والد کی بیماری کی خبر وطن سے ائی ہے ناچار میں

جاتا ہوں اور کتب درسی یہیں چھوڑے جاتا

(۱۲ہوں۔" )

ہ غالب کے خطوط سے ایک نہیں کئی اقتباسات پیش کیے جاسکتے ہیں کہ مکاتیب کی و

خوبی جس کا اظہار خود غالب نے بعد میں کیا ہے وہ ابتدائی خطوط میں بھی جلوہ گر ہیں۔ اردو خطوط میں غالب پہلے شخص ہیں جنہوں اپنے خطوں میں اپنی شخصیت کو بے نقاب

کیا ہے اور یہ اس شخصیت کا کمال بھی ہے کہ عظمت و رقعت کی بجائے و انسانیت پر

کر اپنی پرستش کرانے کی بجائے وہ انسان بن کر دلوں میں رہتی اعتماد کرتی ہے ایک بت بنہے یہ وہ شخصیت ہے جو اپنی داخلی جذبات و احساسات اور خارجی تاثرات و اظہار کو،

اپنی پسند ناپسند کو، خوشی و حزن کے بے تکلفانہ دوسرے کے سامنے رکھ دیتی ہے۔

اظہار سے نہیں روکتا۔ پنشن کی تالش اشاعت کی خیال بھی غالب کو اپنی ذاتی خواہشات کا بدستور جاری ہے پینے پالنے کا تذکرہ اسی طرح جاری و ساری ہے۔ کبھی مرزا یوسف علی

خاں اور کبھی نواب کلب علی خان سے عرض مدعا بیان کرتے ہیں تو کبھی آشیان چیدن اور

ے تعزیت آشیان بستن کے مسئلے پر صاف گفتگو سے نہیں شرماتے۔ کبھی یوسف مرزا سکرتے دکھائی دیتا ہیں۔ دراصل غالب کے خطوں سے جو شخصیت سامنے آتی ہے۔ وہ ہر حال

میں اور ہر رنگ میں اپنی مثال آپ ہے۔ وہ اپنے کالم پر نازاں اور اپنی قسمت پر ماتم کناں

ہے۔ وہ دنیا کے اچھے خاصے شعور کے باوجود محض دنیا دار اور زمانہ ساز نہیں ہے ری سے یہپتہ نہیں چلتا کہ حالی نے کیوں کر غالب کو حیوان ظریف کہا ہے غالب کی شاع

غالب کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی طبیعت میں ظرافت اعلی درجے کی موجود

تھی۔ غالب کے کالم سے غالب کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اس غالب کی ہے جو خیال

351

ود خطوط میں وہ غالب ہمیں ملتا ہے جس کے قدم کی دنیا میں رہتا تھا لیکن اس کے باوجہمیشہ زمین پر جمے ہیں جس میں زندگی گزارنے کا حوصلہ اور برق سے شمع خانہ روشن

کرنے کا ولولہ ملتا ہے۔ جو اپنے نام سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر اپنے فن کو ذلیل نہیں کرتا۔

یت میں ایک بے تکلفی، غالب کی پوری زندگی سراپا حرکت و عمل ہے اور اس کی شخصبیساختگی اور حقیقت پسندی کی موجودگی اس کے خطوں سے چھلکی پڑتی ہے غالب جو

کچھ ہے اس کا کھال اظہار اس کے خطوط میں موجود ہے۔مرزا غالب کی اردو اور فارسی

نظم و نثر کے بارے میں سرور ایک مجموعی جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

نیا رنگ و آہنگ 'غالب نے اردو شاعری کو

دیا۔ مگر اردو نثر کو انہوں نے ایک معنی میں نئی زندگی دی۔ غالب اگرچہ فارسی

شاعری کو اپنی اردو شاعری سے اور

فارسی نثر کو اردو نثر سے بہتر کہتے رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کو اردو نثر کی

اہمیت فارسی نثر سے زیادہ ہے۔ فارسی میں

ا پرداز اور کہنہ وہ ایک صاحب طرز انشمشق استاد ہیں۔مگر اردو میں وہ جدید نثر

کے بانی اور مکتوب نویسی کے رونما ہیں۔

غالب کی انفرادیت خطوں میں نئی شان سے جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ان کی سادگی، بے

ساختگی، دلچسپی اور ظرافت پر بھی زور

دیا جاتا رہا ہے۔ مگر سب سے زیادہ اہم ان (۱۳صداقت ہے۔ )خطوں کی بیباک

سرور کی غالب کے حوالے سے کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہے۔ تنقید کے حوالے سے ہو، تحقیق کے بارے میں ہو اس کے عالوہ کئی مضامین میں بھی غالب تجزیہ کا عنصر

غالب ہے۔ ان کی تجزئے اور تجربے میں حاالت و واقعات جاننے کی کوشش کی ہے جو

شاعری کی خصوصیات نمایاں کرتے دکھائی دیتا ہے۔ سرور نے غالب کی شخصیت اور غالب کے خطوط کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور ان کےخطوط کے ذخیرے میں کوئی ایک

سو پچاس خطوط کو منتخب کیا تھا یعنی منتخب کردہ خطوط میں سرور نے غالب کی

ے ان منتخب کردہ خطوط شخصیت اور اس کے اندر جو شمع روشن تھی ان کا مطالعہ انہوں ن کے ذریعے لیا ہے اور ان خطوط کی قدروقیمت کاتعین کرتے ہوئے سرور لکھتے ہیں۔

"غالب کے ان خطوط سے دراصل جدید نثر کا آغاز ہوتا ہے اگر سرسید "آثارالصنادید"

دس سال بعد لکھتے تو انہیں اپنے مواد کی

صحبائی سے مروجہ طرز میں لکھوانے کی ی۔ ان خطوط کے اثر سے ضرورت نہ ہوت

سرسید اور حالی کی سالمتی طبع کو اپنی

منزل تک پہنچنے میں مدد ملی۔ اردو نثر کی

352

تاریخ میں ان خطوط کا درجہ بہت بلند ہے اور جہاں تک مکتوب نگاری کا تعلق ہے بال

خوف تردید کہا جسکتا ہے کہ خواہ وہ شبلی

ہوں یا ابوالکالم غالب کے خطوں کا اب تک (۱۴اب نہ ہوسکا۔")جو

پروفیسر آل احمد سرور کے اس انتخاب سے مرزا گالب کی شخصیت کے بے شمار گوشے روشن ہوجاتے ہیں تو وہاں سرور کے تحقیقی و تنقیدی شعور سے بھی آگاہی حاصل ہوتی

ن نے "عکس غالب" سے جن خطوط کو منتخب کیا ہے ڈاکٹر سید ہے۔ ڈاکٹر سید معین الرحم

ن لکھتے ہیں۔ معین الرحم

"تفہیم غالب میں ایک نئے در کووا کرتا ہے

اور غالب شناسی میں ایک مستقل قدروقیمت (۱۵کا حامل ہے")

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غالب کی شخصیت اپنے تمام محاسن و مصائب، فکرو فلسفے، توصیف حسن اور تاثیر عشق، عیش کوشی و تنگ دستی، مے نوشی و فاقہ مستی اور شوخی

رندی کے ساتھ ساتھ مکاتیب غالب کے صفحات میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ ان کی صد رنگ و

اور بہار بداماں شخصیت کی چیدہ چیدہ جھلکیاں ان کے کالم میں بھی نظر آتی ہیں۔ لیکن ان کی شخصیت کی کامل تصور اپنی تمام تر جزئیات و تفصیالت کے ساتھ ان کے خطوط ہی

یہ غالب کی اردو و فارسی نثر کی باکمال حصوصیت ہے اردو میں دیکھی جاسکتی ہے اور

نثر کے بارے میں موالنا حامد حسن قادری لکھتے ہیں۔

نثر اردو میں غالب کی اولویت اور اولیت نے

جو طریقہ ایجاد کیا اور اس میں جدتیں پیدا کیں اور ان کو جس التزام، اہتمام اور کمال

بھی ہیں کے ساتھ برتا، اس میں غالب اول

( ۱۶اور آخر بھی۔" )

مجموعی طورپردیکھا جائے تو غالب کے خطوط تاریخی، ادبی، موضوعاتی اورتقابلی

طورپر کئی حوالوں سے بے پناہ اہمیت اختیارکرجاتے ہیں۔ غالب کی اردومکتوب نگاری سے اور پہلے برصغیر میں فارسی میں اپنے ماضی الضمیر کا اظہار بذریعہ خط عام تھا۔ سرکاری

نجی دونوں طرح کے خطوط میں ایک روایتی طرز کو اپنایاجارہاتھا۔ ابتداء میں غالب بھی

اسی روایت کے ایسر رہے اوراپنے فارسی مکاتیب میں اس عالمانہ طرز نگارش پر کاربند نظرآتے ہیں۔ تاہم جلد ہی وہ اس روز کو ترک کرتے ہوئے سادگی اور شائستگی کو باقاعدہ

۔ اس سلسلے میں وہ جدید اردو نثرکے امام کہالئے جاسکتے ہیں۔ وہ خطوط رواج دیتے ہیں

کے قواعد وضوابط سے پوری طرح آگاہ تھے۔ تاہم اپنی منفرد شخصیت انداززیست نویسی اور طرزفکر کی وجہ سے وہ بہر صورت کچھ نیا کرکے دکھانا چاہتے تھے۔ اور اس میدان

رہے۔ غالب کے فارسی خطوط سے ان کے میں شعری ونثری دونوں حوالوں سے کامیاب

اسالف کی تفصیل سے لے کر طرز معاشرت اعزہ واقارب احباب سے تعلق داری ذاتی مشاعل ومصروفیات ، سفروحضر کی معلومات اور رجحان ومیالن طبعی تک رسائی کےلئے

353

لکت معتدبہ مواد مل جاتا ہے۔ اس کے عالوہ غالب کے معاصرین خواہ ان کا تعلق انتظام ممسے ہو یا علمی وادبی حلقہ سے ہر ایک کے بارے میں غالب نے اپنے مخصوص انداز میں

کا اردو حصہ تاریخ ادب اردو میں ایک سنگ میل کی حیثیت قلم اٹھایا ہے ۔ مکاتیب غالب

رکھتا ہے۔ تاریخ حوالے سے دیکھا جائے تو غالب کو ایک ایسا دور مال جو سیاسی اعتبار بے ہنگمی کا دور کہالیا جاسکتا ہے اس پر آشوب دورنے بالخصوص سے افراتفری اور

برصغیر کے مسلمانوں کے نئی آزمائشوں سے دوچار کیا ۔ غالب کے خطوط مین ان سبھی

مشکالت ومصائب کا تذکرہ ملتاہے اس طرح ان خطوط نے مستقبل کے مؤرخین ومحققین کے اس کے بعد کا دور آنکھوں دیکھے ء اور۱۸۵۷لئے ایک ایسا میدان فراہم کیا جہاں سے

احوال کی صورت میں نظر آتا ہے۔

موضوعاتی لحاظ سے دیکھا جائے توغالب نے اپنے خطوط میں جس موضوع پر بھی قلم

اٹھایا ایک خاص سلیقے اور تہذیب کو لے کر لکھا۔ اسی فضا کو قائم رکھتے ہوئے وہ بڑے

بھی زیر بحث التے ہیں۔ چاہے موضوعات سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے موضوع کو برہان قاطع کا مقدمہ ہو، عملی زندگی کے تلخ تجربے ہوں، زمانے کی ناقدری ہو، افالس

غربت اور پنشن کے مسائل ہوں، مسلسل بیماری، قرض ، بادہ خواری کا تذکرہ ہو، عذرکا

کی نئی ہنگامہ ، گھریلوں پریشانیاں، مالی مصیبتیں، دلی کی صورتحال اوربدیسی حکومت بندوبست۔ غرض وہ س سب کچھ غالب نے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔ جس سے زندگی

میں واسطہ پڑا۔ اس دوران وہ مختلف مواقع پرآس اور پاس دونوں کے شکار ہے۔ تاہم دوستوں

کی خیر خیریت پوچھ لینے کی جوان کی اداتھی اس نے آخری دم تک اسے برقرار رکھا۔ یخی اعتبار سے بے حد اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔چنانچہ یہ خطوط تار

مکاتیب غالب ادبی چاشنی سے مملونظرآتے ہیں۔ ان رقعوں میں ان گنت ادبی مسائل پر گفتگوملتی ہے۔ جس سے اگر ایک طرف اس زمانے کی ادبی صورتحال کےبارے میں آگاہی

ر پتہ چلتا ہے کہ وہ ہوتی ہے تو دوسری جانب غالب کی علمیت کا بھی اندازہ ہوتاہے ۔ او

محض ایک شاعر نہ تھے بلکہ انہیں علم وادب کے مختلف جہتوں کا بھی ادراک تھا۔ یہ خطوط زبان وبیان کا ایک نیا ذائقہ رکھتے ہیں۔ جو اس سے پہلے کی ادبی فضا بالخصوص

مکاتیب کی ذیل میں ہمیں نہیں ملتا۔ ان خطوط میں مزاح نگاری، رپورتاژ، ڈرامہ انشائیہ،

افسانہ، آپ بیتی اور جگ بیتی کے عناصر وافر مقدار میں نظرآتے ہیں جس سے اندازہ تیب کے روسط سے ان اصناف ادب کو مضبوط بنیادیں فراہم ہوتاہے کہ غالب نے اپنے مکا

کیں۔

غالب کے خطوط میں مذاح کی جو چاشنی ملتی ہے وہ داستان امیر حمزہ اوربوستان خیال کی

ں آگے کی چیز ہے۔ ان داستانوں میں عیاروں کی مخصوص چاالکیاں طفالنہ مذاق سے کہی

اور دوسرو ں کو بے وقوف بنانے میں مسخرہ پن دکھانے کی ادائیں انہیں مزاحیہ کردار بنانے کی بجائے محض مسخرگی تک محدودکردیتی ہیں۔ اس مسخرہ پن نے اردومزاح نگاری

یا کیونکہ ایسے کرداروں کو سامنے النے کو بعد میں بھی کئی مقامات پر نقصان بھی پہنچا

اور ان کو کچھ کر دکھانے کے لئے فنکار بھی فطری چال پر چلنے کی بجائے کرتب بازی میں الجھ گئے ۔ اردو کی پرانی داستانوں مین فحش قصوں اور لطیفوں سے ظرافت کا آمیزہ

بنتے ہوئے تیار کرنے کے برعکس مرزاغالب کے خطوط ایک بھرپور تہذیب کے عکاش

آداب وبرتاؤ کے ایک سلیقے کے ساتھ منظرنامے پر ابھرتے ہیں۔

354

غالب سے قبل کی اردونثرمسجع، مقفی اور تکلف کی آوردہ تھی۔ غالب نے اس پیچیدگی سے انحراف کرتےہوئے سادہ نگاری کی ترجیح دی اور مشکالت سے کنارہ کرتے ہوئے ہلکے

تیار کی۔پھلکے انداز میں شگفتگی کی نئی روش اخ

غالب نے اپنی نثر کی تعمیر میں استعادہ، ذومعنی الفاظ، تجنیس اور تضادسے بھی خوب کام

لیا۔ گویا انہوں نے محض واقعات سے ہی نہیں زبان وبیان سے بھی مذاح کی تخلیق میں

مددلی۔

جہاں تک بات غالب کے فارسی خطوط کی ہے۔ اس کا تعلق ان کی مکتوب نگاری کے ابتدائی

ایک دوسرے کو دور سے بنتا ہے ۔ اس دور میں فارسی کا بول باال تھا۔ اس لئے عمومامیں ۱۸۳۹تجارتی اور دیگر اغراض کے پیش نظر فارسی میں خطوط لکھے جاتے تھے۔

فارسی جو ملکی انتظام، ہندوستانی درباروں سے خط وکتابت اور مقامی دفتروں کی

پنی اس حیثیت سے معزول کردی گئی۔ چنانچہ ضروریات کے لئےاستعمال کی جاتی تھی، اہندوستانی دربارو سے خط وکتابت اور مقامی دفتروں کی ضروریات کے لئے اردو کا

تک غالب نے بھی فارسی میں خط وکتابت کی اس کے بعد ۱۸۵۰استعمال کیا جانے لگا۔

اثر نظر آتا نا شروع کئے۔ ان کے اردو خطوط پر بھی فارسی کا انہوں نے اردو میں خط لکھہے چونکہ وہ فارسی کا رچاہوامذاق رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ فارسی کے اثرات نے ان

کی اردونثر کو بوجھل نہیں بنایا۔ فارسی خطوط میں غالب نے نئی نئی تراکیب تراشی ہیں۔ یہ

تراکیب اپنی الگ شان وشکوہ رکھتی ہے۔ ا ن خطوط کی زبان شستہ، تراکیب عمدہ اور واستعارات کا نتشبیہات

چناؤ منفردہے۔ صنائع وبدائع کا استعمال اور نادر خیاالت کی بہتات نے ان خطوط کے معنوی حسن کو بڑھادیا ہے۔

غالب کے اردواورفارسی خطوط میں جہاں بہت ساری باتیں قدرمشترک کی صورت رکھتی مسائل، انتظامی ہیں۔ ان کی زندگی اور زمانے کے حاالت و واقعات، اس دور کے معاشرتی

میں دونوں زبانوں میں لکھے گئے خطوط اپنے امور اور ادبی ماحول وہیں اس تقابلی تجزیے

طورپر الگ الگ رنگ بھی رکھے ہیں ۔ یہ زبان وبیان اور مسائل علم وادب اور تصوف کو پیش کرنے کا منفرد قرینہ ہے جو ان کے فارسی انداز کو اردو سے جداکرتا ہے۔

مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان دونوں زبانوں میں غالب ان مکاتیب کےاظہار کا سلیقہ رکھتے تھے۔ اور ان زبانوں میں لکھی گئی نثری تحریروں سے ہمارے ادب

کے موجودہ سانچے فکرکی کی زرخیزی اور قلم کی دآلویزی ارتقااور نمودکی نئی منزلوں

کا سراغ پاتے ہیں۔

355

وسفارشاتتجاویز

غالب کی نثرکا مطالعہ کرتے ہوئے محقق کا ذہن کئی ایسے گوشوں کی طرف گیا جن

پر غالبیات کے ضمن میں تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مرزاغالب کا پر لطف

مکالماتی انداز نگارش متعددمقامات پر مختصرجملوں میں ڈرامائی صورت اختیار جس ذہانت کے ساتھ غالب کے ہاں رجستگی کرلیتاہے۔ مکالمے کا یہ اختصاراور ب

جلوہ گرہوتی ہے اس کی روشنی میں خطوط غالب میں ڈرامائیت پرتحقیقی کام توجہ

طلب ہے۔ غالب کے فارسی واردوخطوط ایک خاص طرز کی مجلس زندگی کا پتہ دیتے ہیں۔ اس

ا ماحول میں چشم دید واقعات ومشاہدات کے ساتھ داخلی کیفیات مل کر رپورتاژ ک

تاثرپیداکردیتے ہیں۔ اس ضمن میں عمل اور ردعمل کے ان گنت رنگوں پرغالب کے خطوط ازسرنو تحقیقی مطالعے کے متقاضی ہیں۔

غالب نے اپنے خطوط میں زندگی کے حاالت وواقعات اور قلبی وذہنی احساسات کو

عملی تجربات کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ اورجس پیرائے میں انہوں نے سیاسی، ماجی، معاشی اور معاشرتی اثرات کا ذکر کیا ہے۔ وہاں آپ بیتی اور جگ بیتی کا س

منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ نگارشات سوانحی ادب کے نئے باب رقم

کرتی ہیں۔ نکتہ دانوں کے لئے یہاں بھی صالئے عام ہے۔ خطوط کے غالب کی بعض تحریری دقیق علمی و ادبی نکات کی حامل ہیں۔ ان میں

تو یہ سنجیدہ علمی مضامین کی صورت ساھ تقریظوں اور دیباچوں کو ماالیا جائے

اختیار کر لیتے ہیں۔ مضمون اور مقالہ نویسی اور انشا پردازی میں ان مکاتیب سے تحقیقی محاکمے کے نئے دروا ہوتے ہیں۔

تع صحبتوں مکاتیب غالب زندہ زندہ نثر کے غماز ہیں۔ ان میں مجلس زندگی کی تمام

سے لطف اندوز ہونے اور بات نکالنے کی کاریگری ملتی ہے۔ نیز باتوں باتوں میں معمولی موضوع تک پہنچنے میں انشاپردازی کے نمونے بھی جلوہ دکھاتے ہیں۔ اور

یہ جوہر غالب کی نثر کو جدید انشائیہ کے قریب تر التی ہے۔ جدید مضمون نویسی اور

یں غالب کے خطوط سے تحقیقی مطالعے کی راہیں کل انشائیہ نگاری کے مباحث م سکتی ہیں۔

غالب کے معاصرین اور ان کے بعد آنے والے ادیبوں اور دانشوروں کے مکاتیب کا

تقابلی مطالعہ بھی تحقیق کا موضوع بن سکتا ہے۔ جو تصویریں ملتی ہیں۔ جس مکاتی غالب میں منظر، ماحول اور بو قلموں کیفیات کی

کے ساتھ وہ پورا نقشہ آنکھوں کے سامنے کھینچتے ہیں۔ اس لخاظ سے طرح جزئیات

وہ اردو کے پہلے مرقع نگار بن کر ابھرتے ہیں۔ اسی روشنی میں غالب کی مرقع نگاری پر الگ سے تحقیقی کام ہونا چاہئے۔

غالب نے اپنے خطوط کو ذومعنی الفاظ، صنائع و بدائع، استعارے، تجنیس لفظی، نادر

اور تضاد کے عمل سے بھی دلکش بنایا۔ اور انہی سے مذاح کی فضا بھی پیدا تشبیہات کی۔ زبان و بیان کی اسی دآلویزی کے ضمن میں ان کے اردو اور فارسی خطوط کا

تقابلی مطالعہ بھی تحقیق کا متقاضی ہے۔

356

حوالہ جات

ء ص ۱۹۴الہور ( "عبادت بریلوی ڈاکٹر" غالب اور مطالعہ غالب ادارہ ادب و تنقید ۱

۴۰۴ ،۴۰۵

۱۰ص ۱۹۷۷( مقدمہ مولوی عبدالحق تالیف مکتوبات حالی مرتبہ سجاد حسین ۲

۴۰۲ص ۲۰۰۲( الطاف حسین حالی یادگار غالب خزینہ علم و ادب اردو بازار الہور ۳

( شاہد ماہلی مرتبہ بیسویں صدی کا تخلیقی ذہن اور غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۴

۱۷۴ص ۲۰۰۹

۲۳۹ص // // // // ( ۵

ء ص ۲۰۰۶( خلیق انجم غالب کے خطوط جلد دوم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۶

۵۳۲

۳۸۱ص ۱۹۹۹( گیان چند جیں ڈاکٹر رموز غالب ادارہ یادگار غالب کراچی ۷

۳۲۹ص // // // // // ( گیان چند۸

۱۸۲ص ۲۰۰۲ ( فرمان فتح پوری، ڈاکٹر تعبیرات غالب ادارہ یادگار غالب کراچی۹

( شاہد ماہلی مرتبہ بیسویں صدی کا تخلیقی ذہن اور غالب غالب انسٹی ٹیوٹ نئی ۱۰

۲۵ص ۲۰۰۹دہلی

( فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر غالب کا اثر ہمارے ادب اور ادیبوں پر مشحولہ ماہ نو ۱۱

۱۴۹ص ۱۹۹۸مارچ ۳شمارہ نمبر ۵۱الہور جلد نمبر

تخلیقی ذہن اور غالب ، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی ( شاہد ماہلی مرتبہ بیسویں صدی کا ۱۲

۲۴۰، ۲۳۹ص ۲۰۰۹دہلی

ص ۱۹۸۷( خلیق انجم غالب کے خطوط جلد سوم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۱۳

۱۰۸۷

( بحوالہ فیاض محمود سید تنقید غالب کے سو سال "مجلس یادگار غالب الہور" ۱۴

۷ص ۱۹۲۹

۱۹ص ۱۹۷۳علی گڑھ ( آل احمد سرور عکس غالب مسلم یونیورسٹی۱۵

ن سید ڈاکٹر نقوش غالب الوقار پبلی کیشنز الہور ۱۶ ۹۰ص ۱۹۹۵( معین الرحم

اداری یادگار ( حامد حسین قادری موالنا "غالب کی اردو نثر اور دوسرے مضامین" ۱۷

۳۴، ۳۳ص ۲۰۰۱غالب کراچی

357

کتابیات

358

"عود ہندی" مطبع منشی نو لکشور لکھنؤاسدہللا خان غالب دہلوی نجم الدولہ دبیر الملک ۔

ء۱۹۶۲ "قاطع برہان" )فارسی( مطبع نو لکشور لکھنؤ اسدہللا خان غالب

ء ۱۹۶۴ "لطائف غیبی" )اردو( اکمل المطابع دہلی اسدہللا خاں غالب

ء۱۹۶۵ "نامہ غالب" )اردو( مطبع محمدی دہلی اسدہللا خاں غالب

ء۱۹۸۴ کے نئے خطوط" نفرت انوار"غالب انور سدید، ڈاکٹر

"ادبی خطوط غالب" نگار پشین پریس لکھنؤ انور سدید ڈاکٹر

ء۱۹۸۴ "غالب جہاں اور" کاروان ادب ملتان انور سدید ڈاکٹر

ء۱۹۶۹ "غالب نما" ادارہ یادگار غالب کراچی ابن حسن قیصر

ء۱۹۹۵ الہور"غالب شناسی کے کرشمے" ایچ وائی پرنٹر افتخار عدنی

ء۱۹۵۶ "نقد غالب" دلی پرنٹنگ پریس دہلی افتخار الدین احمد ڈاکٹر

ء۱۹۵۳ "یادگار غالب" عالمگیر پریس الہور الطاف حسین حالی

ء۱۹۴۵ " مکاتیب غالب" ناظم برقی پریس الہور امتیاز علی عرشی مرتبہ

ہور ناظم برقی پریس،" فرہنگ غالب" اشاعت خانہ ال امتیاز علی عرشی مرتبہ ء۱۹۴۷

ء۱۹۹۲ "دیوان غالب" مجلس ترقی ادب الہور جون امتیاز علی عرشی

ء۱۹۹۴ پرنٹر ۱۰"غالب کا مقدمہ پنشن" اے این انیس ناگی

ء۲۰۱۵"غالب کا جہاں معنی" غزنی سٹریٹ اردو بازار الہور اسلم، انصاری' ڈاکٹر

طوط" بیکن بکس غزنی سٹریٹ اردو بازار الہور"غالب کے بہتر خ انوار احمد'ڈاکٹر ء۲۰۱۵

ھ ۱۴۳۳ " انتخاب خطوط غالب" میٹرو پرنٹرز الہور، ایوب صابر' ڈاکٹر ء۲۰۱۲

ادارہ یادگار غالب کراچی طباعت اول "نامہ ہائے فارسی غالب"اکبر علی سید ترمیذی ء۱۹۹۹

ء۱۹۲۰ " فکر غالب" پیام وطن پریس دہلی، پرتھوی چندر،

"کلیات مکتوبات فارسی غالب" نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم آباد پرتوروہیلہ' مترجم ومرتب'

ء۲۰۰۸

359

"غالب کے غیر مدون فارسی مکتوبات" عمران روڈ خیابان کالونی پرتو روہیلہ مترجم و مؤلف ء۲۰۱۲فیصل آباد جنوری

روحانی آرٹ پریس الہور "مرتب و مترجم" غالب کے منتخب فارسی مکتوبات، پرتو روہیلہ ء۲۰۰۹

ء۱۹۹۶تسلیم محمد تصور )مدیر( "دو سالہ جشن غالب"، سورج پبلشنگ بیورو الہور

مزنگ روڈ بک سٹریٹ الہور ۳۷"غالب کی سوانح عمری" تنویر احمد علوی ڈاکٹر

ء۲۰۱۵

"غالب فکروفرہنگ" اردو اکیڈمی پاکستان تحسین فراقی ڈاکٹر

ء۱۹۶۰الب" ادارہ نگارش و مطبوعات کراچی "کالم غجلیل قدوائی

ء۱۹۷۲"غالب کی تہذیبی شخصیت" خالد اکیڈمی راولپنڈی جیالنی کامران

"غالب کی اردو نثر اور دوسرے مضامین" ادارہ یادگار غالب کراچی حامد حسن قادری

ء۲۰۰۱

ء۲۰۰۳"مرقع غالب" مجلس ترقی ادب کلب روڈ الہور فروری حمید احمد خان پروفیسر

حسن نظامی دہلوی خواجہ، "مرزا غالب کا روزنامچہ" محبوک المطابع پرنٹنگ پریس دہلی

ء۱۹۴۰

ء۱۹۶۰"غالب ابتدائی دور میں" انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ خورشیداالسالم

ء۲۰۰۰ "غالب کے خطوط" جلد اول غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی خلیق انجم ڈاکٹر

ء۲۰۰۶ "غالب کے خطوط" جلد دوم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی خلیق انجم ڈاکٹر

ء۱۹۸۷ "غالب کے خطوط" جلد سوم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی خلیق انجم ڈاکٹر

ء۱۹۹۳ "غالب کے خطوط"جلد چہارم غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی خلیق انجم ڈاکٹر

ء۲۰۰۰ و پاکستان "غالب کے خطوط" جلد پنجم انجمن ترقی ارد خلیق انجم ڈاکٹر

فروری ۴"غالب کی نادر تخریریں" مکتبہ شاہراہ دہلی نمبر خلیق انجم ڈاکٹر

ء۱۹۴۱

ء ۱۹۸۸"غالب کون" مصطفی وحید شریف الحسن

ء۲۰۱۴"پاکستان میں غالب شناسی" غزنی سٹریٹ اردو بازار الہور شکیل فتافی ڈاکٹر

ر "خیابان" شاہین برقی پریس پشاور فروری ڈاکٹرمرتضی جعفری ڈاکٹشمس الدین صدیقی

ء۱۹۶۹

360

"بیسویں صدی کا تخلیقی ذہن اور غالب" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی شاہد ماہلی ء۲۰۰۹

"غالب کا فن مکتوب نگاری" صفی حیدر دانش

ء۱۹۶۹صاحبزادہ احسن علی خان "مفہوم غالب" مکتبہ میری

ء۲۰۱۲شکر پریس الہور "اسدہللا خان غالب" گنج صباء مرزا

ء۱۹۷۹"اطراف غالب" مکتبہ کارواں الہور عبدہللا سید ڈاکٹر

ء۲۰۰۰"ماثر غالب" ادارہ یادگار غالب کراچی عبدالودود قاضی

"اطراف غالب" گلوب پبلشرز لوہاری گیٹ الہور عابدہللا سید ڈاکٹر

اظہار سنز اردو بازار الہور "غالب شناس موالنا امتیاز علی عرشی" عبدالرحمن بٹ ء۲۰۱۴

ء۱۹۹۷"انتخاب خطوط غالب" اردو اکیڈمی سندھ کراچی اکتوبر عبادت بریلوی ڈاکٹر

ء ۱۹۹۴ستمبر ۲۵"غالب اور مطالعہ غالب" ندیم یونس پرنٹرز الہور عبادت بریلوی

ء۲۰۱۴ار الہور "اردو نثر کا اسلوبیاتی مطالعہ" غزنی سٹریٹ اردو باز عقیلہ جاوید ڈاکٹر

ء۱۹۸۷"غالب کا فن" ادارہ ادب تنقید الہور عبادت بریلوی ڈاکٹر

"انتخاب خطوط غالب" اردو اکیڈمی سندھ کراچی عبادت بریلوی ڈاکٹر مشرف لغاری

ء۱۹۷۰

ء ۱۹۵۲"محاسن کالم غالب" انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ عبدالرحمن بجنوری

ء ۱۹۲۹ارہ یادگار غالب کراچی "بزم غالب" اد عبدالرؤف

ء ۱۹۸۵"مطالعہ خطوط غالب" نسیم بک ڈپو لکھنؤ عبدالقوی دسنوی

ء۲۰۰۵"غالب" غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی غالم رسول مہر

ء۲۰۱۵"غالیبیات مہر" مجلس ترقی ادب الہور مئی غالم رسول مہر

ء ۲۰۰۳اقبال الہور مارچ "محاسن خطوط غالب" بزم غالم حسین ذوالفقار ڈاکٹر

)راز گجراتی( "تذکرہ غالب اور غالب پسند عام" راز گجراتی غالم حسین چوہدری

ء۱۹۷۳

ء۱۹۶۲"حصہ اول" کتاب منزل الہور غالم رسول مہر خطوط غالب

"نوائے سروش مکمل دیوان غالب مع شرح" غالم علی پرنٹرز اشرفیہ پارک غالم رسول مہر

الہور فیروز فور روڈ

361

ء۲۰۰۲"نقوش ادب" سنگ میل پبلی کیشنز الہور فرزانہ سید

ء۲۰۰۵"غالیبیات فرمان فتح پوری" اداری یادگار غالب کراچی فرمان فتح پوری ڈاکٹر

ء۱۹۹۹" توقیت غالب انجمن ترقی اردو ہند دہلی" کاظم علی خان ڈاکٹر

ء ۱۹۲۲ور "جہان غالب" مکتبہ کائنات الہ کوثر چاند پوری

ء۱۹۷۶"رموز غالب" مکتبہ جامع لمیٹڈ نئی دہلی گیان چند ڈاکٹر

ء ۱۹۹۸"غالب شخصیت و کردار" ادارہ یادگار غالب کراچی لطیف ہللا پروفیسر

ء۱۹۸۹"غالب کا علمی سرمایہ" یونیورسل بک اردو بازار الہور معین الرحمن سید ڈاکٹر

ء ۱۹۷۴"غالب اور انقالب ستاون" سنگ میل پبلی کیشنز الہور معین الرحمن سید ڈاکٹر

ء۱۹۶۹"اشاریہ غالب" مطبع عالیہ الہور معین الدین سید

ء۱۹۵۳"احوال غالب" انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ مختارالدین احمد

"تالزمہ غالب" مرکز و تصنیف و تالیف نکودر ملک رام

ء۱۹۸۷"مطالعہ غالب" دانش محل امین الدولہ پارک لکھنؤ مرزا جعفری خان اثر لکھنوی

ء ۱۹۶۹"ادبی خطوط غالب" نظامی پریس لکھنؤ مرزا محمد عسکری

ء۱۹۲۹"انتخاب غالب" سنگ میل پبلی کیشنز الہور مشرف انصاری

ء۱۹۰۷"انتخاب غالب" اردو اکیڈمی سندھ کراچی ممتاز حسین

ء۱۹۴۹لعہ" انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی "غالب ایک مطا ممتاز حسین

ء ۱۹۲۵"مقام غالب" نقوش پریس الہور موسی خان حکیم

ء۱۹۶۲"خطوط غالب" انجمن ترقی اردو ہند مہیش پرشاد

"حکیم فرزانہ" ادارہ ثقافت اسالمیہ کلب روڈ الہور محمد اکرام شیخ ڈاکٹر

الہور "خیات غالب " فیراز سنز محمد اکرام شیخ

"غالب نامہ" شیخ نذیر احمد مالک کتب خانہ ممبئی محمد اکرام شیخ

ء۱۹۷۰"غالب نام آورم" سنگ میل پبلی کیشنز الہور نادم ستیا پوری

ء۱۹۷۰"خیابان غالب" مدینہ پبلشنگ کمیٹی ہند روڈ نادم ستیا پوری

ہور "ادب لطیف" )غالب نمبر( مکتبہ جدید پریس ال ناصر زیدی ایڈیٹر

ء۱۹۶۵"سرگذشت غالب" الکتاب کراچی ناصر عابدی

362

ء۱۹۶۹"تالش غالب" کتابیات الہور نثار احمد فاروقی

ء۱۹۶۴"غالب کی آپ بیتی" ولید ناظم کتابیات الہور نثار احمد فاروقی

ء۱۹۶۹"محاسن الفاظ" غالب کتابیات الہور نذیر احمد

ء۱۹۶۳کے آئینے میں" مسعود اکیڈمی کراچی "غالب تاریخ نظیر حسین زیدی سید

ء۱۹۶۰"غالب ابتدائی دور" انجمن ترقی الہور اردو علی گڑھ نورسیدالسالم ڈاکٹر

ء ۱۹۶۱"مشکالت غالب" نسیم بک ڈپو نیاز فتح پوری

ء۲۰۰۳"غالب کی مکتوب نگاری" غالب انسٹ ٹیوٹ نئی دہلی نذیر احمد پروفیسر

ء۱۹۶۹"غالب کے خطوط" خیابان غالب نمبر فروری وقار عظیم سید

ء۱۹۶۹"افادات غالب" مطبع عالیہ ٹیمپل روڈ الہور وزیر الحسن عابدی سید

ء۲۰۰۶"وقار غالب" گنج شکر پریس الہور وقار عظیم سید پروفیسر

ء۱۹۹۰"غالب کی راہ گیری ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہ؛ی واجد سحری

ء ۱۹۶۰"باقیات غالب" عزیزالرحمان سندیلویوجاہت علی

ء۱۹۶۰"نظر غالب" سنگ میل پبلی کیشنز الہور وحید قریشی ڈاکٹر

ء۱۹۶۸"سرود غالب" احمد علی شیخ یوسف بخاری دہلوی

"شرح دیوان غالب" غزنی سٹریٹ اردو بازار الہور جنوری یوسف سلیم چشتی پروفیسر

ء ۱۹۵۸