سید زادی کا غیر سید سے نکاح - WordPress.com

55
0 کا غیر سید سے زادی سید نکاح موسویعلی سید عبدال

Transcript of سید زادی کا غیر سید سے نکاح - WordPress.com

0

سید زادی کا غیر سید سے

نکاح

سید عبدالعلی موسوی

1

1--------------------------------------------------------------------- مقدمہ

6---------------------------------------------------------------- مقام کا سادات

12-------------------------------------------------- فرق میں سیدہ غیر اور سیدہ

16------------------------------------------------قوانین استثنائی لیے کے سادات

21------------------------------------------------------------وضاحت کی کفو

27---------------------------------------------------علت کی ہونے حرام صدقہ

30---------------------------------------------بنانا حاکم کو غیر کسی پر سادات

-واقعہ کا السالم علیہ العابدین زین امام بن زید بن عیسی حضرت اور سادات رضوی

---------------------------------------------------------------------------34

35—جوابات ہمارے اور دالئل کے حامیوں کے نکاح سے سید غیر کے سیدزادی

------------------36 لیلد سے فتاوی مخالف کے روایات کی السالم علیھم ائمہ -1

کرنا قیاس پر خواتین ہاشمی کو زادیوں سید -2--------------------------------41

دلیل سے شادی کی السالم علیھا زینب سیدہ -3----------------------------------45

شادی کی زادی سید سے سید غیر متقی -4-------------------------------------46-

ہے؟ رکھتا تعلق سے برصغیر صرف مسئلہ یہ کیا -5---------------------------49

50---------------------------------------------------------------خالصہ کالم

1

مقدمہ

اور کئی آج کے زمانے میں مکتب تشیع پر ہر روز نئے نئے وار کیے جا رہے ہیں

سارے دشمنان اھل بیت تشیع کا روپ دھارے ہمیں دھوکہ دے رہے ھیں۔ نئے نئے

شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں، اور چونکہ لوگ ائمہ کرام علیھم السالم کی تعلیمات

تا کہ انہوں نے کیا فرمایا، اس وجہ سے سے دور ہیں، زیادہ تر انہیں علم ہی نہیں ہو

یہ لوگ اس سازش میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔

یعقوب محمد بن الکافی کے مؤلف شیخ یہ سازشیں آج سے شروع نہیں ہوئیں، بلکہ

کلینی نے اپنے مقدمے کے آغاز میں ہی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کے

کے قائل ہو گئے تھے، اور اسے پھیالنے کے لیے زمانے میں بھی لوگ جہالت

کوشاں تھے۔ ان کے الفاظ کچھ یوں ہیں

وتوازرهم الجهالة على دهرنا أهل اصطالح من شكوت ما أخي يا فهمت فقد بعد، أما

طرقها عمارة في وسعیهم

اما بعد! اے میرے بهائی! میں آپ کے شکوے کو سمجه گیا ہوں کہ ہمارے زمانے

قدر جہالت کے عادی ہو گئے ہیں، اور اس کو استوار کرنے کے کے لوگ کس لیے کس قدر کوشاں ہیں1

اس سازش کا آغاز اس انداز سے کیا گیا کہ لوگوں کو ائمہ اہل بیت علیھم السالم کی

احادیث سے دور کر دیا گیا۔ شیخ کلینی رحمہ ہللا الکافی کے مقدمے میں یہ روایت

پیش کرتے ہیں

زالت وآله علیه هللا صلوات نبیه وسنة هللا كتاب من دينه أخذ من: " السالم علیه وقال

الرجال ردته الرجال أفواه من دينه أخذ ومن يزول أن قبل الجبال "،

1

الکافی، جلد 1، صفحہ 5

2

رسول صلی هللا علیہ امام علیہ السالم نے فرمايا: جس نے اپنا دين کتاب هللا و سنت

سے حاصل کیا، وه پہاڑ کی طرح ثابت قدم رہتا ہے، اور جس نے اپنا و آلہ وسلم دين لوگوں کی افواہوں سے حاصل کیا، تو لوگوں نے اسے خود ہی رد کر ديا2

اور پھر اس کے بعد وہ الکافی کے تالیف کرنے کا سبب بیان کرتے ہیں۔ فرماتے

ہیں

ما الدين، علم فنون جمیع من[ فیه] يجمع كاف كتاب عندك يكون أن تحب إنك: وقلت

به والعمل الدين علم يريد من منه ويأخذ المسترشد، إلیه ويرجع المتعلم، به يكتفي

العمل، علیها التي القائمة والسنن السالم علیهم الصادقین عن الصحیحة باآلثار

میں کہتا ہوں:میں تمہارے لیے يہ پسند کرتا ہوں کہ تمہارے پاس ايک کتاب ہو کہ

جس میں میں علم دين کے تمام فنون جمع ہوں، جو کے متعلم )يعنی علم کی تالش

کرنے والے( کے لیے کافی ہوں، اور وه اس کی طرف رجوع کر سکے، اور اس

میں سے حاصل کر سکے علم دين اور عمل کر سکے ان صحیح روايات پر جو کے

سے مروی ہیں، اور ان کی قائم کرده سنن کہ جس پر عمل معصومین علیهم السالم کیا جا سکے 3

یعنی شیخ کلینی کا مقصد یہ تھا کہ صحیح روایات پر مشتمل ایک جامع کتاب لوگوں

کے پاس پیش کی جا سکے

اسی طرح شیخ صدوق رحمہ ہللا نے بھی من ال یحضرہ الفقیہ تالیف کرنے کا مقصد

ں درج کیااپنی کتاب کے مقدمے میں یو

ولم أقصد فیه قصد المصنفین في إيراد جمیع مارووه، بل قصدت إلى إيراد ما افتي به

وأحكم بصحته وأعتقد فیه أنه حجة فیما بیني وبین ربي

اور میرا اراده ديگر مصنفین کی طرح نہیں کہ جو روايت ملے اس جمع کر دوں

بلکہ میرا اراده يہ کہ ان روايات کو جمع کروں جن کی بنیاد پر میں فتوی ديتا ہوں،

2

7، صفحہ 1الکافی، جلد 3

8، صفحہ 1الکافی، جلد

3

ان پر صحیح ہونے کا حکم لگاتا ہوں، اور میرا يہ عقیده ہے کہ يہ میرے اور میرے رب کے درمیان حجت ہیں4

ہ کے خالف سازش کرنے والوں نے پہال کام ہی یہ کیا کہ دین کی مگر مذہب حق

اصل و بنیاد کو بدل دیا۔ لوگوں کو احادیث سے دور کر دیا گیا، اور احادیث کو

پرکھنے کا جو ذریعہ ائمہ اہل بیت علیھم السالم نے بتایا تھا، اور جس پر ہمارے

متقدمین عمل کرتے رہے، اسے بدل دیا گیا؛ آج احادیث کو بنیادی طور پر علم

الرجال سے پرکھا جا رہا ہے، حاالنکہ آپ الکافی کا مقدمہ پڑھیں تو اس میں شیخ

کا طریقہ بتایا ہے۔ پرکھنےکلینی نے احادیث کو

بلکہ اگر آپ کبھی انٹرنیٹ پر ناصبی لوگوں کا الکافی پر اعتراض پڑھیں، تو وہ یہی

صحیح احادیث ہیں، مگر الکافی میں کہ ہے کہ جناب! کلینی رحمہ ہللا تو کہتے ہیں

اس کی اکثریت تو ضعیف ہے۔

جواب آپ کو یوں ملے گا، جیسا کہ عالمہ محمد حسن صاحب الکافی اب اس کا

پر، باب درج کرتے ہیں 14، صفحہ 1کے اردو ترجمے کے مقدمے میں، جلد

ايک مشہور اعتراض اور اس کا جواب

اور پھر اس اعتراض کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شیخ کلینی نے کہا کہ میں نے

الکافی میں صحیح روایات کو درج کیا، مگر اس کتاب میں صحیح روایات کی تعداد

، اور باقی ضعیف ہیں۔ 302، قوی 1116، موثق 144ہے، اسی طرح حسن 5072

اب وہ اسکا جواب دیتے ہیں اور کہتے ہیں

ض کا جواب يہ ہے کہ يہ اعتراض متقدمین و متاخرين کی اصطالح سے "اس اعترا

عدم واقفیت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ورنہ حقیقت حال سے واقف کار جانتے ہیں

مؤلف عالم کی فرمائش بهی صحیح ہے، اور مذکوره باال تقسیم بهی درست ہے کہ

ه علیحده ہے متقدمین و متاخرين کی اصطالح علیحدحديث صحیح کے باره میں

جسے نہ سمجهنے کی وجہ سے يہ اعتراض پیدا ہوا ہے۔۔۔"

"۔۔۔۔اب خبر واحد کی متقدمین کے نزديک صرف دو ہی قسمیں تهیں: صحیح اور

غیر صحیح۔ خبر صحیح ہر اس حديث کو کہتے تهے جس کے ساته کچه ايسے

4 من ال یحضرہ الفقیہ، جلد 1، صفحہ 3-2

4

جا سکے، ا قرائن داخلیہ و خارجیہ ہوں جن کی بناء پر اس پر اعتماد و وثوق کی

آئمہ اطہار کے قريب العہد ہونے کی وجہ سے متقدمین کے پاس ايسے قرائن

ن نہ ہوتی تهی وه اسے غیر ئبکثرت تهے کہ جو حديث اس طرح محفوف القرآ

صحیح سمجهتے تهے"

آگے فرماتے ہیں

ايک ضروری وضاحت: يہاں اس بیان کا اظہار بهی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ

اگرچہ متاخرين کی اصطالح کے مطابق کافی میں ہر قسم کی صحیح و حسن و قوی

و موثق و ضعیف وغیره اقسام کی احاديث موجود ہیں مگر اس امر پر تمام علمائے

اعالم کا اتفاق ہے کہ اس میں ايک حديث بهی موضوع و مجہول نہیں ہے اور اس

کے متعلق متاخرين کی يہ انتہائی چهان بین بهی محض اس لیے ہے کہ اگر کسی

وقت بالفرض کتب اربعہ کی احاديث میں باہم تعارض واضح ہو جائےتو اس کے بل

ورنہ عدم تعارض بوتے پر بعض روايات کو دوسری بعض پر ترجیح دی جا سکے

"ہیںث قابل اعتما د و عمل کی صورت میں کافی کی تمام احادي

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آج آپ کے پاس وہ قرائن موجود نہیں، تو کیا آپ خود

اہل سنہ کے سے ہی قرائن بنانا شروع کر دیں گے؟ اور نئے نئے اصول بنائیں گے؟

ہاں علم الرجال کا آغاز جس زمانے میں ہوا تھا، اس وقت ہمارے ائمہ علیھم السالم

حیات تھے، بلکہ بخاری و مسلم اسی زمانے سے تعلق رکھتے تھے۔ کیا آپ نے اہل

سنہ کی یہ ساری اصطالحات، مرسل، منقطع وغیرہ ائمہ علیھم السالم کی تعلیمات

؟پڑھی ہیںمیں

کہ یہ میرا موضوع نہیں، اور اس وجہ سے مجھے میں اس پر زیادہ یقین کیجیے

بات کروں گا کبھی تفصیل سے عنوان پر کھوں گا، ہللا نے موقع دیا تو اسنہیں ل

مگر ایک بات تو واضح ہے کہ احادیث کو پرکھنے کا انداز بدال گیا ہے

کرنے کی سختی بنیاد پر رد "راوی" کی حاالنکہ ائمہ علیہم اسالم نے روایات کو

کے ساتھ ممانعت کی ہے 5۔ اس کے برعکس ان لوگوں کے لیے دعا کی ہے جو ان

کے اقوال کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں6۔

5

علل الشرائع میں شیخ صدوق یہ روایت پیش کرتے ہیں

5

اب سوچیے کہ جب یہاں تک تبدیلی کر دی گئی، تو پھر کیا کچھ بدال گیا ہو گا۔ اور

کیا کچھ شبہات پیدا کیے گئے ہوں گے۔

، اور پیدا کیا گیاایک شبہ سید زادی کے غیر سید سے نکاح کے معاملے میں بھی

چونکہ زیادہ تر لوگوں کو علم ہی نہیں کہ ائمہ معصومین علیہم السالم نے اس ضمن

میں کیا فرمایا ہے، کئی سارے لوگ اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس وجہ سے میں

اس مقالے میں اس بات کا خصوصی نے یہ سوچا کہ ایک مختصر مقالہ لکھا جائے۔

خیال رکھا گیا ہے کہ ائمہ کرام علیہھم السالم کی تعلیمات کو پیش کیا جائے۔ حاشیے

میں ہم نے ضروری نکات کو مزید واضح کیا ہے۔

عبدہللا عن احمد بن ابو عبدہللا عن عن محمد بن اسماعیل ابی رحمہ ہللا : قال حدثنا محمد بن ابو

بن البزیع عن جعفر بن بشیر عن عن ابی حصین عن عن ابی بصیر عن احدھما علیہما السالم قالو:

اس حدیث کو رد مت کرو جو تمہیں کوئی خارجی یا قدری یا مرجئی ہماری نسبت سے بیان

حق ہو اور تم ہللا کی تکذیب کر بیٹھوکرے کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اس میں کچھ

)علل الشرائع ج 2، ص 395 ؛ نیز اصول الکافی کے اردو ترجمے میں عالمہ ظفر حسن

( 418-417، ص 2۔ مالحظہ ہو ج صاحب نے اس سند کو صحیح قرار دیا

6

( میں ایک 398، ص 2؛ اردو ترجمہ میں ج 3، حدیث 391-390، ص 1اصول کافی )ج

روایت ملتی ہے

محمد بن یحیی عن احمد بن محمد عن حسین بن سعید عن حماد بن عیسی عن حسین بن مختار عن زید الشحام عن امام ابی عبدہللا علیہ السالم

کہ میں نے امام ابو عبدہللا علیہ السالم سے کہا: ہمارے قریب ایک شخص ہے راوی کہتا ہے

جس کا نام کلیب ہے۔ آپ کی جو بات اس سے بیان کی جاتی ہے، وہ کہتا ہے کہ میں نے اسے تسلیم کیا تو ہم نے اس کا نام ہی کلیب تسلیم رکھ لیا ہے ۔ امام نے فرمایا کہ اس پر

کہ تم جانتے ہو کہ تسلیم کیا ہے؟ ہم خاموش ہو گئے۔ امام نے رحمت ہو۔ پھر امام نے پوچھا فرمایا کہ وہ قول خدا کے سامنے فروتنی و عاجزی اختیار کرتا ہے اور ہللا فرماتا ہے ک جو

لوگ ایمان الئے اور نیک عمل کیا اور اپنے رب کے سامنے فروتنی کی

میں صحیح قرار دیا ہے 802، ص 4عالمہ باقر مجلسی نے اس روایت کو مراۃ العقول ج

6

سادات کا مقام

دیکھیے سب سے پہلے تو یہ سوال اٹھے گا کہ کیا سید و غیر سید میں، آل اور امت

کہ نہیں؟ اور کیا ان کو کوئی فضیلت حاصل ہے کہ نہیں؟ اس کا میں کوئی فرق ہے

جواب لینے کے لیے ہم شیخ صدوق کی کتاب، عیون اخبار الرضا کی طرف رجوع

کرتے ہیں۔ اس میں انہوں نے ایک باب باندھا

واألمة العترة بین الفرق في المأمون مع السالم علیه الرضا مجلس ذكر باب

السالم کی اس مجلس کا ذکر جو مامون کے ساتھ ہوئی، یعنی امام رضا علیہ عترت و امت کے فرق کے بارے میں7

یعنی یہ نام ہی واضح کر دیتا ہے کہ فرق ہے اور اگر آپ یہ باب پڑھو گے تو آپ

کو یہ بالکل واضح ہو جائے گا کہ کتنا فرق ہے۔ یہ روایت و باب ہم آگے بھی

ت کی وضاحت کر دیں کہ عترت بمعنی ال مخلتف مواقع پر نقل کریں گے۔ ایک با

ہے۔ اور یہ خود اسی روایت میں امام علیہ السالم نے واضح کیا۔ ان سے پوچھا گیا

علیه الرضا فقال االل؟ غیر أم األل أهم العترة عن الحسن أبا یا أخبرنا:العلماء قالت

االل هم: السالم

عترت ال ہے یا اس کا غیر؟ علماء نے پوچھا کہ اے ابو الحسن یہ بتائیے کہ کیا

امام علیہ السالم نے جواب دیا کہ آل

یہ شبہ اس موقع پر دور کرنا ضروری تھا۔ خیر اب اس روایت کا ایک حصہ آپ

کو ہدیہ کرتے چلیں

7

207، صفحہ 2عیون اخبار الرضا، جلد

7

عز ہللا ان: الحسن أبو فقال الناس؟ سائر على العترة ہللا فضل هل: المأمون فقال

ذلك وأین: المأمون له فقال كتابه محكم في الناس سائر على العترة فضل ابان وجل

آدم اصطفى ہللا ان: )وجل عز ہللا قول في السالم علیه الرضا له فقال ہللا؟ كتاب من

سمیع وہللا بعض من بعضھا ذریه العالمین على عمران وآل إبراهیم وآل ونوحا

(علیم

مامون نے پوچھا کہ کیا ہللا نے عترت کو تمام لوگوں پر فضیلت دی ہے؟ امام نے

جواب دیا کہ کہ ہللا نے دوسروں پر عترت کی فضیلت کو قرآن میں واضح بیان کیا

ہے۔ مامون نے پوچھا کہ کس مقام پر؟ تو امام نے اس آیت کی تالوت کی

من بعضھا ذریه العالمین على عمران وآل إبراهیم وآل ونوحا آدم اصطفى ہللا ان)

علیم سمیع وہللا بعض )

احادیث میں یہاں تک بیان ہوا ہے کہ سادات کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔

ایک روایت ہدیہ کرتے چلیں

الحسن بن محمد حدثني قال عنه ہللا رضي الولید بن أحمد بن الحسن بن محمد حدثنا

الحسن أبي عن خالد بن الحسین عن معبد بن علي عن هاشم بن إبراهیم عن الصفار

رسول ابن یا له فقیل عبادة ذریتنا إلى النظر قال السالم علیه الرضا موسى بن علي

النظر بل قال" ص" النبي ذریة جمیع إلى النظر أو عبادة منكم األئمة إلى النظر ہللا

بالمعاصي یتلوثوا ولم منھاجه یفارقوا لم ما عبادة" ص" النبي ذریة جمیع إلى

امام رضا علیہ السالم نے فرمایا کہ ہماری ذریت کو دیکھنا عبادت ہے۔ پوچھا گیا

کہ اے ابن رسول ! کیا صرف ائمہ کو دیکھنا عبادت ہے یا یہ ساری ذریت کے

لیے ہے۔ امام علیہ السالم نے جواب دیا کہ ساری ذریت کے لیے ہے جب تک وہ

نبی اکرم صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے منہاج سے نہ ہٹیں اور معصیت8 میں مبتال نہ ہوں9

8

ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ معاصی کا مطلب مخالفت کرنا یا دشمنی کرنا ہے۔ جیسا کہ

میں بھی بیان ہوا ہے 562المنجد کے اردو ترجمہ، صفحہ

9 55، صفحہ 1عیون اخبار الرضا، جلد

8

ایک زمانہ تھا جب سادات کی اھل بیت علیہم السالم کے ساتھ نسبت کی وجہ سے

بہت عزت کی جاتی تھی۔ الحمد ہلل کچھ علماء نے اس بارے میں تحریر بھی کیا تھا،

رکھنے والے عالمہ محمد لقاگرچہ آج لوگ اس سے آگاہ نہیں۔ پاکستان سے تع

حسین نجفی نے اپنی کتاب احسن الفوائد10 میں اس بارے میں اچھی گفتگو کی ہے-

وہ ایک جملہ لکھتے ہیں

حضرات يہ کہتے ہیں کہ گناہگار سادات کی تعظیم بعض کم توفیق اور کوتاه انديش

ايسے کے لوگ تو کچه البالی قسم و تکريم کا شرعا کوئی حکم نہیں ہے بلکہ گناہکار افراد کی سیادت میں بهی شک کرنے لگتے ہیں11

مالحظہ ہو کہ عالمہ صاحب ان افراد کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں

نیز، موصوف ایک باب قائم کرتے ہیں

صحیح النسب سادات کا تائب ہو کر مرنا

بن اور اس ضمن میں عالمہ صاحب امام حسن عسکری علیہ السالم کے وکیل احمد

اسحاق اور سید حسین قمی کا واقعہ درج کرتے ہیں۔ سید حسین قمی شراب نوشی

کرتے تھے اور اس وجہ سے احمد بن اسحاق نے ان کا مشاہرہ بند کر دیا اور ملنے

سے انکار کر دیا ۔ پھر جب احمد بن اسحاق امام عالی مقام کے پاس گئے، تو امام

ہ دیا کہ اگر تمہارے پاس ہمارے اوالد نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا اور کہ

کے لیے وقت نہیں، تو ہمارے پاس تمہارے لیے وقت نہیں۔ بعد میں جب شرف

سید حسین سے نہیں مال تھا۔ اس پر میں کیوں زیارت حاصل ہوا تو وجہ بتائی کہ

امام نے ان سے کہا

ان کی نسبت جو کچه بهی ہو ہر حال میں سادات کا اکرام و احترام الزم ہے کیونکہ

ہماری طرف ہے۔ ہر گز کبهی ان کو حقیر نہ سجمهو اور نہ ان کی توہین و تذلیل کرو ورنہ نقصان اٹهانے والوں میں ہو جاؤ گے12

پر بھی 324-323، صفحہ 50یہ واقعہ عالمہ باقر مجلسی نے بحار االنوار، جلد

درج کیا ہے

تفصیل کے لیے ان کی کتاب احسن الفوائد، صفحہ 637-647 مالحظہ کریں10 احسن الفوائد، صفحہ 643 11

احسن الفوائد، صفحہ 64812-647

9

میں عالمہ صاحب نے یہ روایت بھی پیش کی کہ رسول ، احسن الفوائد،اسی کتاب

نے فرمایا کہ ملسو هيلع هللا ىلصہللا

اکرموا اوالدی الصالحین ہلل و الطالحین لی

میری اوالد کی عزت کرو، اگر نیک ہوں تو هللا کے لیے اور اگر بدکار ہوں تو

میرے لیے

یا یعنی سادات کی عزت کرنا واجب ہے، اور اگر سادات کو حقیر سمجھا جائے

توہین و تذلیل کی جائے تو نقصان ہو گا،اس موضوع پر دیگر روایات بھی موجود

ہیں۔

شیخ صدوق کا شمار اہل تشیع کے جید ترین علماء میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں یہ

روایت درج کرتے ہیں

رسول هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم نے فرمايا کہ جب میں مقام محمود پر کهڑا ہوں

گا تو میں اپنی امت کے ان افراد کی شفاعت کروں گا جنهوں نے گناہان کبیره کیے

میں ان لوگوں کی شفاعت نہیں کروں گا جنهوں ! ہوئے ہوں گے مگر خدا کی قسم نے میری اوالد کو اذيت دی ہو گی13

شیخ صدوق نے تو ایک پورا باب من ال یحضرۃ الفقیہ میں درج کیا ہے جس کا نام

ہے

اوالد علی کے ساته نیک سلوک کرنے کا ثواب14

اس میں وہ یہ روایت درج کرتے ہیں

قسم کے 4رسول هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم نے فرمايا کہ میں قیامت کے دن

لوگوں کی شفاعت کروں گا خواه وه اپنے ساته ساری دنیا کے گناه ہی کیوں نہ

لے آئیں ۔

وه شخص جو میری اوالد کی نصرت و مدد کرے ( 1)

امالی شیخ صدوق، مجلس 79، صفحہ 217، روایت نمبر 313

من ال یحضرۃ الفقیہ، ج 2، صفحہ 42۔ اردو ترجمہ میں ج 2، صفحہ 4814

10

وه شخص جو میری اوالد کی تنگدستی میں اس کے لیے اپنا مال خرچ کرے( 2)

وه شخص جس نے اپنی زبان و دل سے میری اوالد سے محبت کی( 3)

وه شخص جس نے میری اوالد کی حاجت روائی کی کوشش کی جب لوگ ( 4) اسے چهوڑ ديں15

اس سے اگلی روایت میں شیخ صدوق نے یہ روایت بیان کی کہ جن لوگوں نے آل

یا نیکی کی ہو یا انہیں کپڑے دیے رسول صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کو پناہ دی ہو،

قیامت میں و آلہ وسلم ہیہللا عل یصلکھانا کھالیا ہو تو اس کا صلہ رسول ہللا ہوں یا

یہ دیں گے کہ انہیں وہاں لے جائیں جہاں ان کے اور اھل بیت اطہار علیھم السالم

کے مابین کوئی حجاب نہیں ہو گا

تشیع کی دنیا میں سادات کی اس قدر عزت کی جاتی تھی کہ سادات کی تعظیم کو

عقائد میں سمجھا جاتا تھا۔ عالمہ حسین بخش جاڑا، جن کی تفسیر انوار النجف کسی

تعارف کی محتاج نہیں، انہوں نے اپنی کتاب لمعۃ االنوار فی عقائد االبرار میں

سادات کی تعظیم کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ یہ کتاب بنیادی طور پر عقائد کی

کتاب ہے

عالمہ محمد حسین نجفی کی جس کتاب کا حوالہ ہم نے آغاز میں دیا ، یعنی احسن

د، یہ کتاب بھی بنیادی طور پر شیخ صدوق کی کتاب االعتقادات الفوائد فی شرح العقائ

کا ترجمہ و تشریح ہے۔ شیخ صدوق نے سادات کے بارے میں شیعہ عقیدہ بیان کیا،

اور اسی مقالے میں ہم وہ پیش بھی کریں گے کہ آخر ہمارا عقیدہ ہے کیا جسے آج

پیش ہی نہیں کیا جا رہا

ہ ہے آج لوگ تقوی کی آڑ میں سادات کی عزت و یہ ساری باتیں بتالنے کا مقصد ی

ناموس پر حملہ کر جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جب ایک بندہ اپنے گمان

میں متقی بن گیا ہے ، اب اسے سادات کی تعظیم و تکریم سے مکمل چھوٹ مل

گئی ہے ۔ وہ یہ فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ابلیس نے خدا کی بہت عبادت کی، اس

نے جو غلطی کی وہ یہ تھی کہ جب حضرت آدم کو ہللا نے ایک عزت سے نوازا،

، روایت نمبر 48، صفحہ 2۔ اردو ترجمہ میں ج 42، صفحہ 2من ال یحضرۃ الفقیہ، ج ؛ ، صفحہ 2اور اسی طرح کی ایک روایت متفرق اسناد کے ساتھ عیون اخبار الرضا، جلد 1726

65 پر بھی درج ہے 15

11

وہ اسے برداشت نہیں کر سکا، اور اس کا انجام سب کے سامنے ہے ۔ ایک مثال

لیجیے ۔ فرض کریں ایک شخص کے والدین گناھگار ہوں تو کیا ان کی متقی اوالد

ہ متقی بننے کے دعوے میں ان کی توہین کر سکتی ہے؟ اور اگر وہ کریں تو کیا و

حق بجانب ہوں گے؟ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہم کسی کے تقوی کو ویسے

بھی نہیں جانچ سکتے۔ ہمارے سامنے کو تو کوئی اچھا منافق آ جائے تو ہم اسے

بھی شاید اچھا مومن سمجھ بیٹھیں

مدہ مثال پر ایک بہت ہی ع 645عالمہ محمد حسین نجفی نے احسن الفوائد، صفحہ

دی کہ جس طرح بد اعمال والدین کی عزت و تکریم واجب ہے، اسی طرح غیر

صالح سادات کی رسول ہللا و اھل بیت علیھم السالم سے نسبت کی وجہ سے عزت

کرنا واجب ہے

یاد رکھیے کہ جب ہللا کسی کو ایک عزت دے دیتا ہے، تو اس سے ضد نہیں لگائی

۔ مثال کے طور پر بیوی پر شوہر کی اطاعت کچھ جاتی، اسے تسلیم کیا جاتا ہے

امور میں واجب ہے۔ اب ہللا نے شوہر کو فضیلت دی ہے تو ایک متقی عورت یہ

نہیں کہہ سکتی کہ میرا شوہر چونکہ غیر صالح ہے، اس وجہ سے یہ اب میری

اطاعت کرے

کہہ اسی طرح ایک صالح و متقی غالم اپنے غیر صالح آقا کے بارے میں یہ نہیں

کہ جناب میں صالح ہوں، متقی ہوں، آب آقا پر واجب ہے کہ میری خدمت سکتا

کرے

نے شوہر کی اطاعت کرنی ہے، اور غالم نے آقا کی۔ ہاں قیامت والے دن ہللا بیوی

ان کے تقوی پر فیصلہ کرے گا

12

سیده اور غیر سیده میں فرق

ایک سیدہ اور غیر ! یہ سواالت کیے جاتے ہیں کہ جناب آج آپ توجہ دیجیے گا کہ

سیدہ میں کیا فرق ہے ؟ سید میں اور غیر سید میں کیا فرق ہے ؟

چلیے ایک روایت ہدیہ کرتے ہیں

شیخ صدوق علل الشرائع میں یہ روایت نقل کرتے ہیں

ک امام جعفر الصادق علیہ السالم فرماتے ہیں کسی کے لیے يہ جائز نہیں کہ بی

وقت حضرت فاطمہ علیہا السالم کی اوالد میں دو لڑکیوں کو نکاح میں جمع کرے

کیونکہ جب ان کو يہ خبر پہنچتی ہے، تو انہیں شاق گذرتی ہے۔ راوی نے پوچها

کہ کیا ان تک يہ خبر جاتی ہے؟ امام عالی مقام نے جواب ديا کہ ہاں ! خدا کی قسم 16

یاد رہے کہ شیخ طوسی نے بھی اس روایت کو ایک اور سند17 سے نقل کیا ہے۔ نیز

شیخ محمد بن حسن الحرعاملی نے اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں اس پر ایک باب

باندھا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اسے ممنوع سجمھتے تھے18 ۔ اس بات

کے بیان سے بھی ہوتی ہے ( صاحب حدائق الناظرۃ)کی تائید شیخ یوسف بحرینی

انہوں نے درج کیا کہ شیخ حر عاملی اور شیخ جعفر بن کمال الدین اس بات جس میں کو ممنوع سمجھتے تھے19

16

علل الشرائع ، شیخ صدوق، جلد 2، صفحۃ 590

17

63، روایت 463، صفحہ 7تہذیب االحکام، جلد

18

388-387، ص 14؛ اور ایک اور طبع میں ج 503، ص 20وسائل الشیعہ، ج

19

13

اس روایت پر توجہ دیجیے ۔ آپ کو واضح الفاظ میں معلوم ہو گا کہ سیدہ اور غیر

۔ نہ صرف یہ کہ قانون الگ ہے، بلکہ ایک سیدہ کو جب سیدہ میں فرق موجود ہے

لیھا السالم کا خبر ہوتی ہے تکلیف ہوتی ہے، بی بی ع

اسی طرح امام رضا علیہ السالم سے ایک روایت آتی ہے

امام عالی مقام فرماتے ہیں

وبناتكم أمھاتكم علیكم حرمت: )التحریم آیة في وجل عز ہللا فقول العاشرة وأما

ہللا لرسول صلبي من تناسل وما ابني وابنة ابنتي تصلح هل فاخبروني اآلیة( وأخواتكم

له تصلح أحدكم ابنه كانت هل فاخبروني: قال ال: قالوا حیا؟ كان لو یتزوجھا ان( ص)

حیا؟ كان لو یتزوجھا ان

علیه لحرم آله من كنتم ولو آله من ولستم آله من انا النى بیان هذا ففي: قال نعم: قالوا

واألمة االل بین فرق فھذا أمته من وأنتم آله من النى بناتي علیه حرم كما بناتكم

پر رقم طراز 544-543، ص 23اپنی شہرہ آفاق کتاب، الحدائق الناظرہ، ج شیخ یوسف بحرینی

ہیں

المحدث الشیخ محمد بن جن لوگوں نے اس مسئلے میں حرام ہونے کو قطعی قرار دیا، ان میں الحسن الحر العاملي )عطر ہللا مرقدہ( اور الشیخ الفقیه الشیخ جعفر بن كمال الدین البحراني

)قدس ہللا روحه( شامل ہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنے والد کے لکھائی میں اس روایت کے نقل کرنے کے بعد پایا جسے صدوق نے نقل کیا

نے اس حدیث کو اس سند کے ساتھ نقل کیا الفقیه النبیه الشیخ جعفر بن كمال الدین البحراني

-:اور اس کے بعد یہ لکھا ہے کہ ہے، ہے، اور اس سے تعارض رکھنے والی کوئی روایت موجود نہیں۔ اس لیے یہ حدیث صحیح"

یہ جائز ہے کہ اس سے قرآن کے عموم کو تخصیص دی جا سکے۔ اس لیے امام حسن و ا امام حسین علیھما السالم کی نسل میں سے دو سید زادیوں کا بیک وقت نکاح میں جمع کرن

حرام ہے")شیخ جعفر کا کالم ختم ہوا(اس روایت کو شیخ طوسی نے التھذیب میں بھی نقل لیا ہے تاہم وہ سند صحیح نہیں۔ مگر اس

ہے بظاہر صحیحشیخ )یعنی جعفر بن کمال الدین ( نے اسے جس سند سے نقل کیا ہے، وہ مگر میں یہ نہیں جانتا کہ انہوں نے اسے کہاں سے اخذ کیا ہے، تاہم ناقل کا نقل کرنا کفایت

کر جاتا ہے۔)میرے والد کا کالم ختم ہوا( میں یہ گذارش کرتا چلوں کہ یہ انہوں نے علل الشرائع سے اخذ کیا ہے۔ تاہم میرے والد اس

ں انہیں یہ ہدیہ کرتا سے آگاہ نہیں تھے۔ کاش وہ آج زندہ ہوتے تو می

14

اور دسواں مقام، هللا نے آيت تحريم میں کہا کہ تمہارے لیے حرام ہیں تمہاری

زنده ہوتے تو کیا جائز ملسو هيلع هللا ىلصمائیں، بیٹیاں ، بہنیں۔۔۔مجهے بتاؤ کہ اگر آج رسول هللا

تها کہ میری بیٹی يا میرے بیٹے کی بیٹی يا میری اوالد میں کوئی لڑکی ان سے

ديا کہ نہیں۔ آپ نے پهر پوچها کہ اگر آج وه زنده شادی کريں؟ سب نے جواب

ہوتے تو کیا تمہاری بیٹی کے لیے جائز تها کہ ان سے شادی کريں؟ سب نے جواب

ديا کہ ہاں۔ امام عالی مقام نے کہا کہ يہ ثابت کرتی ہے کہ میں ان کی آل ہوں اور تم

ی بیٹیوں کے لیے جیسا کہ میر نہیں وگرنہ تمہاری بیٹیوں کے لیے بهی حرام ہوتا،

حرام ہے، اور میں ان کی آل ہوں اور تم امت؛ اور يہ فرق ہے آل میں اور امت میں۔۔۔۔۔20

یعنی امام عالی مقام علیہ السالم نے بالکل واضح الفاظ میں اعالن کیا کہ آل اور ہیں،

اور امت اور۔ ان میں فرق ہے۔

آل محمد وہ ہیں کہ جن کی بیٹیوں کا نکاح رسول ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم اور

سے نہیں ہو سکتا، جبکہ امتی وہ ہیں کہ جن کی بیٹیوں کا نکاح ہو سکتا ہے۔ بالکل

واضح ہے کہ سیدہ و غیر سیدہ میں فرق ہے۔

پر بھی درج 94-93اسی طرح کی روایت شیخ صدوق نے معانی االخبار، صفحہ

کی ہے

بشیر، ابن جعفر عن الحسن، بن محمد عن ہللا، عبد بن سعد حدثنا: قال - ہللا رحمه - أبي

:عن الحسین بن أبي العالء، عن عبد ہللا بن میسرۃ، قال: قلت ألبي عبد ہللا علیه السالم آل إنما: فقال محمد آل نحن: قوم فیقول(. 1) محمد وآل محمد على صل اللھم: نقول إنا

نكاحه محمد على وجل عز ہللا حرم من محمد

صل راوی نے امام الصادق علیہ السالم سے پوچھا کہ جب ہم کہتے ہیں )اللھم

محمد( تو قوم کہتی ہے کہ ہم آل محمد ہیں۔ امام علیہ السالم نے وآل محمد على

جواب دیا کہ آل محمد وہ ہیں کہ جن کا نکاح ہللا نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ

وسلم سے حرام قرار دیا ہے

20

عیون اخبار الرضا، جلد 2، صفحہ 216

15

، اور ایک غیر یہ روایات واضح الفاظ میں بیان کر رہی ہیں کہ ایک سیدہ میں

سیدہ میں فرق ہے۔

اگر کوئی اس پر بضد ہے کہ نہیں ہے، تو اس کا ہم کیا کر سکتے ہیںاب

16

سادات کے لیے استثنائی قوانین

ابھی ہم نے آپ کو ایک سیدہ و غیر سیدہ میں فرق دکھالیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا

ہے کہ کیا سادات کے لیے کچھ استثنائی و خصوصی قوانین ہیں جو ان پر الگو

ہوتے ہیں۔ چلیے یہ ہم آپ کو رئیس المحدثین شیخ صدوق کے زبانی دکھالتے ہیں

موصوف فرماتے ہیں21

رسول کہ يہ ہمارا عقیده حضرت علی علیہ السالم کی اوالد کے بارے میں يہ ہے

کیونکہ مودت رکهنا واجب ہے کی اوالد ہے۔ ان سے و آلہ وسلم ہیهللا عل یهللا صل

يہ اجر رسالت ہے جیسا کہ هللا نے فرمايا کہ ان سے کہو کہ میں تم سے کوئی اجر

نہیں مانگتا مگر يہ کہ میرے قرابتداروں سے مودت رکهو۔

۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ يہ لوگوں کے ہاتهوں کی صدقہ حرام ہے ور ان کے لیے ا

اپنے غالموں ( يعنی سادات)گندگی ہے جس سے انہیں طہارت مل جاتی ہے۔ تاہم يہ

اور کنیزوں کو اپنا صدقہ دے سکتے ہیں، نیز ايک دوسرے کو بهی دے سکتے

ہیں

اخمس ملے گبلکہ اس کی جگہ ان کو زکاة نہیں اور ان کے لیے

نیک لوگوں ہے، اور گناہگاروں کے لیے دوگنا گناهاور ہمارا عقیده ہے کہ ان میں

ہے کے لیے دوگنا ثواب

نے و آلہ وسلم ہیهللا عل یرسول هللا صلکیونکہ ک دوسرے کے کفو ہیں يہ اي اور

کی اوالد کو ديکه کر کہا کہ ہماری حضرت علی علیہ السالم اور حضرت جعفر بیٹیاں ہمارے بیٹوں کے لیے ہیں اور ہمارے بیٹے ہماری بیٹیوں کے لیے22

21

111االعتقادات شیخ صدوق، صفحۃ

22

17

، کتاب النکاح، باب 4384، روایت نمبر 393، ص 3یہ روایت من ال یحضرۃ الفقیہ، ج

اکفاء/کفو میں موجود ہے ۔ اس موقع پر بہتر ہو گا کہ ہم شیخ صدوق کی اس کتاب کا تھوڑا تعارف کروا دیں۔ شیخ صدوق خود اس کتاب کے مقدمے میں رقم طراز ہیں

إیراد جمیع مارووہ، بل قصدت إلى إیراد ما افتي به وأحكم ولم أقصد فیه قصد المصنفین في

بصحته وأعتقد فیه أنه حجة فیما بیني وبین ربي

اور میرا ارادہ دیگر مصنفین کی طرح نہیں کہ جو روایت ملے اس جمع کر دوں بلکہ میرا ح ہونے ارادہ یہ کہ ان روایات کو جمع کروں جن کی بنیاد پر میں فتوی دیتا ہوں، ان پر صحی

کا حکم لگاتا ہوں، اور میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ میرے اور میرے رب کے درمیان حجت ہیں

سید مہدی بحر العلوم طباطباعی اس بارے میں مزید لکھتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب الفوائد الرجالیہ، پر درج کرتے ہیں 300، ص 3ج

یگر کتب پر ترجیح دی، اس کی ہمارے اصحاب میں جنھوں نے اس کتاب کو کتب اربعہ کی د

کا بہترین حافظہ ، روایات درج کرنے میں ثابت ہونا، اس کتاب کا الکافی شیخ صدوق/وجہ انکے بعد لکھا جانا اور ان کی جانب سے روایات کی صحت کی ضمانت لینا شامل ہے۔ اس کی

وایت ملے، وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ قصد نہیں کیا تھا کہ دیگر مصنفین کی طرح جو راسے درج کریں، بلکہ وہ روایات جمع کرنا تھا کہ جن کی بنیاد پر یہ فتوی دیتے ہیں، ان پر صحیح ہونے کا حکم لگاتے ہیں، اور جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان حجت ہیں۔ اور

اسی وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ شیخ صدوق کی مرسل روایت ابن ابی عمیر کی مرسل روایت ند ہےکی مان

مرسالت صدوق کے بارے میں اسی طرح کے اقوال آپ کو شیخ بہاء الدین عاملی، محقق سید داماد، محقق شیخ سلمان بحرانی وغیرہ کے حوالے سے بھی ملیں گے۔ تفصیل کے لیے من ال

کی طرف رجوع کریں 28، ص 1یحضرۃ الفقیہ کے اردو ترجمے، ج

عبدہللا مامقانی کی رائے بھی پیش کی جا رہی ہے، اس بات کو مزید تقویت دینے کے لیے شیخ

شیخ مامقانی کا شمار علم الرجال کے جید ترین علماء میں ہوتا ہے۔ ان کی کتاب، تنقیح المقال فی علم الرجال، علم الرجال کی بہت مشہور کتاب ہے۔ اسی طرح انہوں نے علم الرجال کے

اس کی تلخیص عالمہ علی اکبر غفاری نے اصولوں پر بھی ایک کتاب لکھی، مقباس الھدایۃ۔پر وہ ان حضرات کی فہرست دیتے ہیں کہ جن کی 65کی۔ تلخیص مقباس الھدایہ کے صفحہ

مرسل روایت بھی معتبر مانی جاتی ہے، اور اس میں سر فہرست شیخ صدوق کا نام ہے ۔

یہاں پر میں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ میری نظر میں اس روایت کے مستند ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ من ال یحضرہ الفقیہ میں موجود ہے۔ میں پہلے ہی اس بات

کی وضاحت کر چکا ہوں کہ ہمارے متقدمین علم الرجال کو اس طرح استعمال نہیں کیا کرتے پر درج 22، صفحہ 1سی مراۃ العقول، جلد اس بنا ڈالیں۔ عالمہ باقر مجلاس تھے کہ اسے ہی

کرتے ہیں

18

مما المعتبرة األصول تلك أمثال في الخبر وجود أن: فیه عندي والحق ذلك في القول وخالصة

عند بعض على تبعضھا لترجیح األسانید إلى الرجوع من البد لكن ، به العمل جواز یورث التعارض

کالم یہ، اور میرے نزدیک حق یہ ہے: کہ کسی روایت کا معتبر کتب میں ہونا اس پر خالصہ

عمل کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن جب ان میں تعارض ہو تو پھر اسناد کی طرف رجوع کیا جاتا ہے تاکہ ایک دوسرے پر ترجیح دی جا سکے

لتی ہے، نیز دیگر قرائن حاالنکہ آپ آگے پڑھیں گے کہ اس روایت کو مزید دالئل سے تقویت م

سے بھی یہ واضح ہے کہ ایک سیدہ کا کفو سید ہی ہو سکتا ہے۔

یہاں پر میں اس بات کو بھی واضح کر دوں کہ میں بذات خود اس بات کا قائل نہیں کہ علم الرجال کو احادیث کا بنیادی معیار ہونا چاہیے۔ یہ ایک طویل بحث ہے، اور کبھی زندگی میں

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ائمہ علیھم السالم و اس کی وضاحت کروں گا۔مال ت موقعکے زمانے میں ہی اہل سنت کے ہاں علم الرجال پروان چڑھ چکا تھا، اور وہ اس کے بنیاد پر احادیث کو جانچ رہے تھے۔ مثال کے طور پر محمد بن اسماعیل بخاری ائمہ علیھم السالم کے

اور صحیح بخاری کا جمع کر چکے تھے جس میں انہوں نے علم میں موجود تھے، زمانے الرجال کے اصولوں پر روایات کو جمع کیا تھا، اہل سنت کے دیگر علماء بھی علم الرجال پر

ل یا مدلس راویان کی بات ، مگر ہمارے ائمہ علیھم السالم نے کبھی مرسکام کر رہے تھے نیز یہ کہ جب بھی ائمہ طرح سے تعلیم دی۔ نہیں کی، اور نہ ہی کبھی علم الرجال کی اس

علیھم السالم سے سوال ہوا کہ ثقہ کی بات مانی جائے یا غیر ثقہ کی، تو وہ اس بات کو زیادہ اہمیت دیتے تھے کہ جس کی بات قرآن و سنت کے مطابق ہو۔

دوسری اہم بات یہ کہ اس بات کا تعین کیسے ہو گا کہ جن لوگوں کو علمائے جرح و تعدیل

سوال یہی قائم کیا جاتا ہے ناں کہ نے ضعیف قرار دیا ہے، وہ واقعی میں ضعیف تھے؟ دیکھیے شیخ کلینی یا شیخ صدوق سے غلطی بھی تو ہو سکتی ہے، اور ہمارے پاس تو وہ

م ایسا کر لیتے ہیں کہ علم الرجال کی بنیاد پر ایک نیا قانون بنا کر قرائن اب نہیں ہے، سو ہ روایات کو دیکھ لیتے ہیں۔

تو جناب! یہ اعتراض تو پھر علمائے جرح و تعدیل پر بھی آئے گا۔ آپ ان کی بات کو بھی تو

ہوں بال دلیل مان رہے ہو۔ کیا آپ کے پاس ہر راوی کے لیے وہ قرائن موجود ہیں کہ جن پر ان نے کسی کو ثقہ یا ضعیف قرار دیا؟ یا کسی کو غالی کہہ ڈاال؟

گئے مثال کے طور پر معلی ابن خنیس کی مثال لے لیں۔ ان کے بارے میں شیخ نجاشی یہ کہہ

علیه یعول جدا،ال ضعیف سخت ضعیف ہیں، ان کی طرف توجہ نہیں دی جاتی

19

مالحظہ ہو رجال النجاشی، صفحہ 417

حاالنکہ ان کے لیے امام علیہ السالم سے مروی ہے کہ یہ جنتی ہیں۔ مثال کے طور پر سید

پر تحریر کرتے ہیں 260، صفحہ 19خوئی معجم رجال الحدیث، جلد

بن الرحمان عن عبد عمیر أبي ابن عن العبیدي، حدثني: قال صیر،ن بن حمدویه حدثني "

بمكة، مجاورا السالم علیه ہللا أبي عبد عند كنت: قال جابر، بن إسماعیل حدثني: قال الحجاج، فخرجت: قال حدث؟ بالمدینة حدث هل فتسأل مرا وعسفان تأتي حتى اخرج إسماعیل یا: لي فقالعسفان من فارتحلت أحد، یلقني فلم عسفان أتیت حتى مضیت ثم أحدا، فلم ألق مرا أتیت حتى ال،: قالوا بالمدینة حدث؟ حدث هل: لھم فقلت عسفان من زیتا تحمل عیر لقیني منھا خرجت فلما السالم، علیه ہللا عبد أبي إلى قال فانصرفت. خنیس بن المعلى له یقال الذي العراقي هذا قتل إال

الجنة دخل لقد وہللا أما: قال نعم،: فقلت خنیس؟ المعلى ابن قتل إسماعیل یا: لي قال رآني فلما ". صحیحة الروایة: أقول .

" اسماعیل بن جابر کہتے ہیں کہ میں امام جعفر الصادق علیہ السالم کے ساتھ مکہ میں مقیم

کیا تھا کہ انہوں نے مجھے کہا کہ اے اسماعیل تم مرا اور عسفان جاؤ، اور وہاں پوچھو کہ مدینہ میں کچھ ہوا ہے؟ پس میں نکال، اور مرا میں مجھے کوئی نہ مال، تو میں عسفان گیا،

وہاں بھی کوئی نہ مال، خیر وہاں سے نکال تو سوار عسفان سے تیل الدهے آتے دکھائی دیے۔ ان سے پوچھا کہ کیا مدینہ میں کچھ ہوا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں بس ایک عراقی تھا

بن خنیس کہتے ہیں، اسے قتل کر دیا گیا ہے۔ تو میں واپس آیا اور امام الصادق جسے معلیعلیہ السالم سے مال۔ انہیں نے دیکھتے ہی پوچھا کہ اے اسماعیل! کیا معلی بن خنیس کو قتل

کر دیا گیا؟ میں نے کہا جی۔ امام عالی مقام علیہ السالم نے کہا: خدا کی قسم! وہ جنت میں داخل ہو گیا

یں )آغہ خوئی( کہتا ہوں: یہ روایت صحیح ہےم

خوئی صاحب کی رائے کا خالصہ آغہ جواہری نے المفید من معجم الرجال الحدیث، صفحہ میں یوں پیش کیا 612

كتاب له -( ع) الصادق أصحاب من: ہللا عبد أبو خنیس بن المعلى - 12525 - 12496 - 12500

منھا جملة وفي متظافرة، مدحه في الروایات ،(ع) ہللا عبد أبي شیعة خالصي من القدر، جلیل - الكذاب یكون كیف إذ صدوقا ورجال نفسه في خیرا كان انه یظھر ومنھا الجنة أهل من انه صحاح

ع) الصادق لعنایة موردا ویكون للجنة مستحقا )، معلی بن خنیس امام الصادق علیہ السالم کے اصحاب میں تھے۔ ان کی ایک کتاب تھی۔ وہ

جلیل القدر اور امام الصادق علیہ السالم کے خالص شیعوں میں تھے۔ ان کی مدح میں بہت روایات ہیں، اور ان صحیح روایات میں ہے کہ وہ اہل جنت میں ہیں۔ اور ان سے ظاہر ہوتا

ہے کہ ایک ہو سکتا تھے، اور سچے/صدوق تھے، یہ کیونکرنفس کے ہے کہ وہ بہت اعلی، اور امام صادق علیہ السالم کی عنایت کا مستحق ہوجھوٹا جنت کا مستحق

20

شیخ صدوق کے اس کالم کے بعد ہمیں کچھ بھی اور تحریر کرنے کی ضرورت

نہیں۔ انہوں نے تو مسئلہ بالکل ہی ختم کر دیا یہ کہہ کر کہ شیعہ عقیدہ یہ ہے کہ

سادات آپس میں ایک دوسرے کے کفو ہیں۔ یہ الگ بات کہ آج کی دنیا میں اپ کو یہ

ساری باتیں کسی منبر سے سنائی نہیں دیں گی اور نہ ہی کوئی عالم فاضل بتائے گا۔

بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ کو کوئی کفو یا اکفاء کے بارے میں بتائے گا ہی نہیں۔

چلیے معلی بن خنیس کی تو یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ جنتی بھی بن گئے، اور ان کے لیے روایات بھی ہم تک پہنچ گئیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہم صرف علمائے الرجال کی رائے کو لے کر باقیوں لوگوں کو جانچیں گے، تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ صحیح ہی ہو

گی؟

تاہم میں نے جا بجا اس مقالے میں آپ کو اسناد کے بارے میں بھی بتایا ہے، اور اس کا مقصد ہ جناب! یہ ساری روایات تو کسی الئق ہی نہیں۔ ہم تو اپنے یہ ہے کہ کوئی یہ نعرہ نہ لگائے ک

بنائے اصولوں پر انہیں جانچیں گے

21

کفو کی وضاحت

ت اٹھا کر دیکھیں تو آپ کا اس کی دیکھیے کفو ہوتا کیا ہے؟ اگر آپ عربی کی لغا

معنی ملیں گے

"مثل، نظیر، مماثل"23

رسول ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا

فیهم وانكحوا األكفاء انكحوا(: وآله علیه هللا صلى) هللا رسول قال: قال وبإسناده - 3

لنطفكم واختاروا .

ان میں شادی کرو، اور اپنی رسول هللا نے فرمايا: اپنے کفو سے نکاح کرو، اور اوالد کے لیے انہیں اختیار کرو24

ہاں یہاں پر ایک سوال قائم کیا جاتا ہے کہ جناب پھر تو سادات کے لیے بھی الزم

ہوا کہ وہ غیر سیدہ سے شادی نہ کرے۔۔۔۔۔۔

اس کی مختصر سے وضاحت کر دیں کہ ہمارے پاس روایات میں یہ موجود ہے کہ

درجے میں شادی کر سکتا ہے، بلکہ کچھ علماء کا تو خیال ہے کہ مرد اپنے سے کم یہ مستحب ہے، چاہے وہ کنیز ہی کیوں نہ ہو25

23

، طبع مکتبہ قدوسیہ، اردو بازار الہور756المنجد، صفحہ

24 15، حصہ دوم، صفحہ 5؛ اردو ترجمہ جلد 332، صفحہ 5الکافی، ج

25

، 5؛ اردو ترجمہ جلد 362، صفحہ 5جلد کلینی رحمہ ہللا ایک روایت اپنی کتاب، الکافی،پر درج کرتے ہیں 49حصہ دوم، صفحہ

عن علي بن إبراهیم، عن أبیه، عن أحمد بن محمد بن أبي نصر، عن أبي الحسن الرضا علیه

السالم قال: سألته عن الرجل یتزوج المرأة ویتزوج أم ولد أبیھا، قال: ال بأس بذلك

22

لیکن اگر ایک غالم کو اس کی بیوی خرید لے، تو ان کا نکاح باطل ہو جاتا ہے26

ل ہوا اس شخص کے بارے میں جو ایک عورت سے شادی امام رضا علیہ السالم سے سواکرتا ہے، اور اس عورت کے باپ کی ام ولد کنیز سے شادی کرتا ہے؟ آپ علیہ السالم نے

جواب دیا: اس میں کوئی قباحت نہیں

78، صفحہ 20عالمہ مجلسی نے سند کو حسن قرار دیا ۔ مالحظہ ہو مراۃ العقول، جلد

ایک مرد کی بیٹی اور اس کی کنیز ایک ہی مرتبے میں تو نہیں ہو اب یہ بالکل واضح ہے کہ سکتی۔ بہر کیف فرق ہے

اس روایت کو عالمہ محمد بن حسن الحر العاملی نے وسائل الشیعہ، جلد 14، صفحہ 48 کے

اس باب میں درج کیا

باب انه یجوز للرجل الشریف الجلیل القدر ان یتزوج امرأة دونه حسبا ونسبا وشرفا حتى األمة بل یستحب ذلك

باب: ایک شریف اور جلیل القدر مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک عورت سے شادی کرے

تر ہو حتی کہ کنیز کے ساتھ بھی، بلکہ یہ جو حسب، نسب اور شرف میں اس سے کم مستحب ہے

26 پر درج 306، صفحہ 14سید محسن حکیم طباطباعی اپنی کتاب، مستمسک العروۃ الوثقی، جلد

کرتے ہیں کہ

اذا اشترت العبد زوجتہ بطل النکاح و تستحق المھر ان کان ذلک بعد الدخول

لے، تو ان کا نکاح باطل ہو جاتا ہے، اور عورت یعنی اگر ایک غالم کو اس کی بیوی خرید مہر کی حقدار ہو جاتی ہے اگر دخول کے بعد ہو

، صفحہ 2، حصہ 5؛ اردو ترجمہ جلد 484، صفحہ 5واقعہ ہمیں الکافی، جلد ایک اسی طرح

پر ملتا ہے 192

ن قیس، علي بن إبراهیم، عن أبیه، عن ابن أبي نجران، عن عاصم بن حمید، عن محمد ب - 1

عن أبي جعفر )علیه السالم( قال: قضى أمیر المؤمنین )علیه السالم( في سریة رجل ولدت

لسیدها ثم اعتزل عنھا فأنكحھا عبدہ ثم توفي سیدها وأعتقھا فورث ولدها زوجھا من أبیه ثم

قولتوفي ولدها فورثت زوجھا من ولدها فجاءا یختلفان یقول الرجل: امرأتي وال أطلقھا والمرأة ت

23

اس کی ایک اور مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ روایات میں ملتا ہے کہ رسول

علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہللا صلی ہللا

عبدي وال یجامعني، فقالت المرأة: یا أمیر المؤمنین إن سیدي تسراني فأولدني ولدا ثم اعتزلني

فأنكحني من عبدہ هذا، فلما حضرت سیدي الوفاة أعتقني عند موته وأنا زوجة هذا وأنه صار

مملوكا لولدي الذي ولدته من سیدي وإن ولدي مات فورثته هل یصلح له أن یطأني؟ فقال: لھا

هل جامعك منذ صار عبدك وأنت طائعة؟ قالت: ال یا أمیر المؤمنین قال: لو كنت فعلت لرجمتك

اذهبي فإنه عبدك لیس له علیك سبیل إن شئت أن تبیعي و إن شئت أن ترقي وإن شئت أن تعتقي

امام ابو جعفر الباقر علیہ السالم فرماتے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السالم نے ایک کنیز کے

بارے میں فیصلہ دیا جو کہ اپنے آقا کے بچے کی ماں بنے، پھر اس آقا نے اسے علیحدہ کر

لیا، اور اس کا نکاح اپنے غالم کے ساتھ کر دیا۔ وہ آقا مر گیا اور وہ غالم )جو اس کنیز کا

شوہر ہے( اس بیٹے کو وراثت میں مل گیا۔ پھر وہ بیٹا بھی مر گیا، اور غالم اس عورت کو،

اس غالم کی بیوی تھی، وراثت میں مل گیا جو اب

اب ان میں اختالف پیدا ہو گیا۔ مرد کہہ رہا تھا کہ تم میری بیوی ہو، اور میں نے تمہیں طالق

نہیں دی

جب کہ عورت کہتی تھی کہ تم میرے غالم ہو، میں جماع نہیں کروں گی۔

ھے خریدا، اور مجھ سے عورت نے کہا: اے امیر المومنین علیہ السالم: میرے آقا نے مج

ایک بیٹا پیدا کیا۔ پھر اس نے مجھے علیحدہ کیا، اور میرا نکاح اس غالم سے کر دیا۔ اور

جب میرے آقا کی وفات کا وقت آیا تو اس نے اپنی موت کے قریب مجھے آزاد کر دیا۔ پس یہ

گیا۔ اور میں میرے آقا سے پیدا ہونے والے میرۓ بیٹے کی ملکیت بن گیا۔ پھر میرا بیٹا مر

نے اسے میراث میں پایا۔ یا اسے حق ہے کہ مجھ سے جماع کرے؟

آپ علیہ السالم نے اس عورت سے فرمایا: کیا جب یہ تمہارا غالم بنا ہے، اس نے تم سے

جماع کیا ہے، اور تم نے اس کی اطاعت کی ہے؟ عورت نے جواب دیا: نہیں

یا ہوتا تو میں تمہیں رجم کرتا۔ جاؤ یہ تمہارا آپ علیہ السالم نے فرمایا: اگر تو نے ایسا ک

غالم ہے، اور اسے کوئی اختیار نہیں۔ اگر چاہو تو اسے بیچ دو، اگر چاہو تو رکھو، اگر چاہو

تو آزاد کر دو

پر اس سند کو حسن قرار دیا ہے 285، صفحہ 20عالمہ مجلسی نے مراۃ العقول، جلد

24

:حدثنا أبو محمد جعفر بن النعیم الشاذاني رضي هللا عنه قال

الحسین بن عن علي بن معبد حدثنا إبراهیم بن هاشم عن أحمد بن إدريس حدثنا

علي علیهم عن أبي الحسن علي بن موسى الرضا عن أبیه عن آبائه عن خالد

يا علي لقد عاتبتني رجال قريش في أمر فاطمة :(قال: قال لیرسول هللا )ص السالم

وقالوا: خطبناها إلیك فمنعتنا وتزوجت علیا فقلت لهم: وهللا ما انا منعتكم وزوجته بل

هللا تعالى منعكم وزوجه

فهبط على جبرئیل علیه السالم فقال: يا محمد ان هللا جل جالله يقول: لو لم أخلق علیا

بنتك كفو على وجه األرض آدم فمن دونهعلیه السالم لما كان لفاطمة ا .

رسول هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم نے فرمايا: اے علی! قريش کے کئی مرد فاطمہ

کے معاملے میں مجه سے ناراض ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ سے فاطمہ کا

ہاته مانگا مگر آپ نے انکار کر ديا اور اس کی شادی علی سے کر دی۔ تو میں نے

جواب ديا کہ خدا کی قسم! میں نے اسے منع نہیں کیا بلکہ هللا نے اس سے منع

مجه پر جبرئیل نازل ہوئے اور کہا: اے محمد! هللا فرما رہے ہیں کہ اگر میں کیا۔

نے علی علیہ السالم کو خلق نہ کیا ہوتا تو روئے زمین پر آپ کی بیٹی فاطمہ کا کوئی کفو نہ ہوتا، نہ آدم نہ کوئی اور27

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی بی علیہ السالم کی شہادت کے بعد موال علیہ السالم

نے شادی نہیں کی تھی؟ ظاہر ہے کی تھی۔ تو کیا وہ خواتین موال کے ہم پلہ تھیں؟

بے شک وہ سب ہماری ملکہ ہیں مگر وہ بہر کیف موال کے برابر تو نہ تھیں

ں وہ یہ ہے کہ مرد اپنے سے نچلے طبقے میں شادی جو نکتہ ہم بیان کرنا چاہتے ہی

کر سکتا ہے مگر عورت نہیں۔

ہم یہاں پر اس بات کی بھی وضاحت کر دیں کہ روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ

مومن مومنہ کا کفو ہے، تاہم یہ ایک عام قاعدہ ہے

عمومی ہوتے ہیں، کچھ خصوصی یاد رکھیے گا کہ کچھ قوانین

ے لیے پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ انہوں نے اس بات کو واضح ہم شیخ صدوق ک

مثال کے طور پر ان کے لیے کیا ہے کہ سادات کے لے الگ قوانین موجود ہیں

27

پر یہ روایت دو اسناد سے نقل کی گئی ہے 203، صفحہ 2عیون اخبار الرضا، جلد

25

۔ بلکہ انہوں نے مودت کا واجب ہونا، ان پر غیر سید کے صدقہ کا منع ہونا، وغیرہ

ے۔ آپ دوبارہ جا کر ان تو یہ عقیدہ بھی بیان کیا کہ سادات کا ثواب و گناہ بھی دگنا ہ

کا قول پڑھ لیں۔

اسی طرح ہم پہلے ہی یہ روایت بیان کر چکے ہیں کہ دو سید زادیوں سے بیک

حتی کہ سید محسن حکیم طباطباعی نے بھی جب اپنا فتوی وقت نکاح نہیں ہو سکتا۔

لگایا تو یہ کہا کہ یہ جائز تو ہے مگر کراہت/مکروہ ہے28۔ یعنی قوانین میں فرق تو

یہ کراہت دوسری لڑکیوں کے لیے تو نہیں ہے۔ ہے۔

معروف ایرانی مجتہد، سید عبدالحسین دستغیب صاحب تو اس بات تک کے قائل

تھے کہ سادات جہنم میں نہیں جائیں گے۔29

28

پر فرماتے ہیں 263-262، صفحہ 14سید محسن حکیم مستمسک العروۃ الوثقی، جلد

۔ االقوی جواز الجمع بین فاطمتین علی کراہۃ ا سکتا ہے کراہت یعنی قوی یہ ہے کہ بی بی فاطمہ کی نسل سے دو لڑکیوں کو جمع تو کیا ج

پر

پھر آگے وہ یہ بتاتے ہیں کہ اخباریوں کی ایک جماعت اس کی حرمت کی قائل ہوئی۔

میں ایک بار بھی اس بات کی وضاحت کر دوں کہ میری نظر میں ائمہ علیھم السالم کا قول اہم ہے، کسی کی رائے نہیں۔ میں قطعی طور پر اس کا قائل نہیں کہ خود پر کوئی لیبل لگا

دوں، اور پھر اس لیبل کا دفاع کرنا شروع کر دوں۔ جو حق ہے، بس وہی حق ہے

29 ، طبع دارالبالغہ، 111عقائد و مفاھیم، سید عبدالحسین دستغیب، صفحہ : موصوف اپنی کتاب،

؛ پر فرماتے ہیں ھجری 1413بیروت،

بی بی فاطمہ علیہا السالم کی ذریت جہنم میں داخل نہیں ہو گی، اور انہیں آگ نہیں جالئے گی، گار ہوں، اس وجہ سے کہ وہ نہیں مرتے مگر یہ کہ وہ صاحب ایمان ہوتے ہیں۔ اگر وہ گناہ

تو وہ اسی دینا میں توبہ کی توفیق حاصل کر لیتے ہیں، یا پھر دنیوی بالؤں میں گرفتار ہو کر مصبیت جھیل لیتے ہیں، یا پھر برزخ میں عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں، یا پھر بروز قیامت

گی سختیاں جھیل لیں گے، یا پھر انہیں بی بی زہرا علیہا السالم کی شفاعت نصیب ہو جائے عمومی طور پر ہللا نے بی بی فاطمہ علیھا السالم کی حرمت و شرف کیے سبب ان کی ذریت

کی کفر پر موت سے حفاظت کی ہے تاکہ وہ جہنم میں داخل نہ ہوں

26

یہاں پر ایک سوال بھی اٹھتا ہے، وہ یہ کہ شیخ صدوق نے یہ شیعہ عقیدہ بیان کیا کہ

کیونکہ يہ اجر رسالت ہےواجب ہے مودت رکهنا ان سے

اگر آپ حقائق کی دنیا میں رہیں تو آپ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ میاں بیوی

میں لڑائیاں ہوتی ہیں، بلکہ میں خود ایک سیدہ کے واقعے سے آگاہ ہوں کہ غیر

اہ دی گئی، اور اسے طالق ہو گئی۔سادات میں بی

سوال یہ ہے کہ جس وقت یہ حاالت چل رہے ہوں، اس وقت مفتی حضرات اس

ایمان پر کیا فتوی لگانا چاہیں گے جو کہ ایک واجب امر کی حالت شخص کے

مخالفت کر رہا ہو گا؟ کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مودت کا حق ادا کر رہا ہے؟

یا پھر بھی وہ مومن ہے؟کیا وہ اجر رسالت ادا کر رہا ہے؟ اور اگر نہیں، تو ک

جو گناہ ان کے قابل معافی ہوتے ہیں، وہ ہللا معاف کر دیتا ہے، اور باقی گناہ توبہ کے سبب نیوی بال و آزمائش میں مبتال کر دیتا ہے، یا پھر برزخ کے محو کر دیتا ہے، یا پر انہیں د

عذاب میں، یا پر قیامت والے دن کے صعوبت میں، اور اس کی طوالت میں )یعنی قیامت کا دن طویل ہو جائے گا( حتی کہ ان کو بی بی علیھا السالم کی شفاعت نصیب ہو جائے گی اور وہ

جہنم میں داخل نہیں ہوں گے

27

صدقہ حرام ہونے کی علت

آپ نے بار بار یہ سنا ہو گا کہ سادات پر صدقہ حرام ہے۔ اس بات کی علت شیخ

صدوق نے روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں بیان کی کہ

ےہان کو صدقہ بھی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ لوگوں کے ہاتھوں کی گندگی

یہ امام رضا علیہ السالم کی روایت میں موجود ہے

امام عالی مقام فرماتے ہیں

طھروا ألنھم لھم یحل ال الناس أیدي أوساخ وھي وآله( ص) محمد على محرمه الصدقة

ووسخ دنس كل من

محمد و آل محمد پر صدقہ حرام ہے کیونکہ يہ لوگوں کے ہاتهوں کی گندگی ہے

سے کو ہر قسم کے گندگی و نجاست اور ان کے لیے حالل نہیں۔ کیونکہ هللا نے ان

پاک کیا ہے30

اب اس روایت میں صدقے کی حرمت کا ذکر کیا گیا، اور امام نے وہ وجہ بتائی کہ

ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ گندگی ہے، اور چونکہ ہللا نے جس وجہ سے اسے حرام کیا گیا

انہیں ہر گندگی سے دور کیا، تو اس وجہ سے صدقہ بهی حرام ہو گیا حاالنکہ اگر

و صدقے میں دیے گئے نوٹ یا روپے کی نجاست قطعی نہیں ہوتی آپ غور کریں ت

یا یعنی اگر آپ کو کوئی صدقے کا نوٹ پکڑا دے کہ کسی کو دے دیجیے گا، تو ک

آپ ہاتھ دھونا شروع کر دیں گے؟

اگر آپ کبھی روایات پڑھیں تو ائمہ اہلبیت علیھم السالم نے اس پر فخر کیا ہے کہ

سے دور رکھا گیا مثال کے طور پر موال کچیل انہیں لوگوں کے ہاتھوں کے میل

مشکل کشاء علیہ السالم فرماتے ہیں

علي بن إبراھیم، عن أبیه، عن حماد بن عیسى، عن إبراھیم بن عمر الیماني، عن - 1

أبان بن أبي عیاش، عن سلیم بن قیس قال: سمعت أمیر المؤمنین علیه السالم یقول: نحن

30

عیون اخبار الرضا، جلد 2، صفحہ 216

28

وہللا الذین عنى ہللا بذي القربى، الذین قرنھم ہللا بنفسه ونبیه صلى ہللا علیه وآله، فقال: "

ى رسوله من أھل القرى فلله وللرسول ولذي القربى والیتامى والمساكین ما أفاء ہللا عل

" منا خاصة ولم یجعل لنا سھما في الصدقة، أكرم ہللا نبیه وأكرمنا أن یطعمنا أوساخ ما

.في أیدي الناس

سلیم بن قیس سے مروی ہے کہ میں نے موال علیہ السالم کو سنا: و هللا ہم ہی وه

وی القربی فرما کر اپنی اور نبی کے ساته ذکر فرمايا ہے۔ پهر ہیں جن کو هللا نے ذ

هللا نے فرمايا کہ جو مال فئے هللا نے اہل قريہ سے اپنے رسول کو داليا ہے، وه

هللا، اس کے رسول، ذی القربی، يتیموں اور مسکینوں کے لیے ہے؛ اور يہ ہمارے

ہیں رکها۔ هللا نے لیے خاص طور پر ہے۔ هللا نے ہمارے لیے صدقہ میں حصہ ن

اپنے نبی کو عزت و کرامت دی، اور ہمیں عزت و کرامت دی لوگوں کے ہاتهوں کے میل کچیل سے کہ ہم وه کهائیں31

یعنی موال علیہ السالم اس بات کو کرامت و عزت کہہ رہے ہیں کہ ہللا نے انہیں اس

میل کچیل سے دور رکھا۔

یہاں اگر میں آپ سے پوچھوں کہ کیا ایک سید زادی کو غیر سید صدقہ دے سکتا

ہے؟ یہی جواب ہو گا کہ نہیں۔ میں وجہ پوچھوں تو آپ کہیں گے کہ جناب یہ گندگی

کیا منی نجاست نہیں؟ وسائل ہے، میل کچیل ہے۔ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ

الشیعہ میں شیخ عاملی نے پورا باب باندھا ہے نجاسۃ المنی کے نام سے32۔ یہ نکتہ

اٹھانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مجھے آج تک کبھی کسی نے بھی کوئی روایت

نہیں دکھائی کہ جس میں سیدزادی کا غیر سید سے نکاح جائز ہونے کی بات ہو، بس

ادھر ادھر کی باتیں کی جاتی ہیں، تو پھر اس بات پھر کیوں نہیں سوچا جاتا؟

گا کہ اسی سبب اکفاء کی بات کی جاتی ہے۔ روایات کے رو سے یاد رکھیے

صدقے کی حرمت کو امام علیہ السالم نے اکفاء میں شمار کیا ہے۔ الکافی میں ایک

روایت آتی ہے، جس کا ایک جزو ہم ابھی پیش کر رہے ہیں، یہ روایت ہم آگے بھی

پیش کریں گے ابن جنید کے فتوے میں

31 الکافی، جلد 1، صفحہ 539

32

1021، ص 2اور دوسری طبع میں ج 423، ص 3وسائل الشیعہ، ج

29

م سے مروی ہے امام الصادق علیہ السال

فقال له أبو عبد هللا )علیه السالم( إنك لكفوفي دمك وحسبك في قومك ولكن هللا عز

وجل صاننا عن الصدقة وهي أوساخ أيدي الناس فنكره أن نشرك فیما فضلنا هللا به

من لم يجعل هللا له مثل ما جعل هللا لنا

ارا کفو خون و حسب کے لحاظ امام ابو عبدهللا الصادق علیہ السالم کہتے ہیں کہ تمہ

سے تمہارے قوم میں ہے۔ هللا نے ہمارے لیے صدقہ حرام قرار ديا، اور ہمیں يہ

اس میں اس کو شريک کريں ہمپسند نہیں کہ جو فضیلت هللا نے ہمیں دی ہے، جسے هللا نے ہماری طرح نہیں بنايا33

کفو کی بنیاد پر اس روایت میں امام عالی مقام علیہ السالم نے واضح الفاظ میں

رشتے کو ٹھکرا دیا۔ اور اس روایت کی تائید شیخ صدوق کی پیش کردہ روایت سے

ہوتی ہے، جس سے یہ بالکل ثابت ہو جاتا ہے کہ سادات ہی آپ میں ایک دوسرے

کے کفو ہیں

اب جو لوگ سیدہ کی غیر سید سے نکاح کی وکالت کرتے ہیں، وہ کبھی بھی کوئی

جس میں امام علیہ السالم نے اس کی اجازت دی ہو، بس روایت نہیں التے کہ

تاویالت و کہانیاں شروع کر دیتے ہیں

33

الکافی، جلد 5، صفحہ 345

30

سادات پر کسی غیر کو حاکم بنانا

ہیں۔ شیخ صدوق اپنی ہدیہ کرتے ایک اور روایت چلیے ہم اس موضوع کی تائید میں

سند34 کے ساتھ امام جعفر الصادق علیہ السالم سے نقل کرتے ہیں کہ

زياد ابن امام عالی مقام فرماتے ہیں ہیں کہ ايک بار میں اور میرے کچه گهر والے

!اے علی و فاطمہ علیهم السالم کی اوالدعبید هللا کے پاس گئے، تو اس نے کہا کہ

تم لوگوں کو ديگر مسلمانوں پر کیا فضیلت حاصل ہے ؟ امام نے جواب ديا کہ

بهی تو ہے کہ ہم نہیں چاہتے ايک يہ فضیلت میں سے فضیلتوںلوگوں پر ہماری

ہم پر ہمارے سوا کوئی حاکم بنے اور اے کاش کہ کوئی بهی اس امر کی خواہش کہ

نہ کرے کہ وه خود کو ہم لوگوں میں شمار کرے سوائے اس کے کہ وه مشرک ہو جائے۔ راوی کہتا ہے کہ پهر امام نے کہا کہ تم اس حديث کی روايت کرو35

:یں کچھ باتیں بہت اہم ہیںاس روایت م

پہلی تو یہ کہ زیاد بن عبید ہللا جیسا شخص بھی اس بات کو جانتا تھا کہ امیر

المومنین و سیدة نساء العالمین علیہم السالم کی اوالد فضیلت کے قائل ہیں ، بھلے

) واضح کرتے ہی وہ مانے نہ، مگر جانتا تھا کہ یہ اوالد بہر کیف اس کی قائل ہے۔

کہ یہاں پر بھی امیر المومنین و سیدہ علیھما السالم کی اوالد کی بات ہو رہی چلیں

( ؛ موصوف نے بنی ہاشم کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہےہے

34

-شیخ صدوق کی سند کچھ یوں ہے :

حدثنا محمد بن موسی بن متوکل رحمہ ہللا، قال: حدثنا علی بن محمد بن ماجیلویہ عن احمد بن علیہ السالم ابی عبدہللا البرقی عن ابیہ عن حماد بن عثمان عن عبید بن زرارہ عن امام ابو عبدہللا

حلی۔ یہ سب راویان ثقہ و مشہور ہیں۔ ان کی توثیق کے لیے مالحظہ ہو خالصۃ االقوال از

(؛ احمد بن ابو 187(؛ علی بن محمد بن ماجیلویہ )ص 251محمد بن موسی بن متوکل )ص

(؛ حماد بن عثمان )ص 237(؛ ان کے والد محمد بن خالد برقی )ص 63عبدہللا برقی )ص

( 222(؛ عبید ابن زرارہ )ص 125

، ص 2ہ میں ج ؛ اردو ترجم583، ص 2؛ نیز آن الئن لنک میں ج 569، ص 2علل الشرائع، ج

70635

31

اور امام نے بھی اس کی تائید کی، اس کا انکار نہیں کیا اور اپنی کئی فضیلتوں میں

سے ایک فضیلت گنوائی۔

یہ ہے کہ شیخ ابن تیمیہ، جو کہ سخت قسم کے ناصبی ہیں، اور دل چسپ بات

انہوں نے تشیع کے رد میں منہاج السنۃ نامی کتاب لکھی، اس میں وہ خود اس بات

کی اہل بیت سب سے افضل ہیں، اور اس ملسو هيلع هللا ىلصاور آپ ملسو هيلع هللا ىلصکے معترف ہیں کہ آل محمد

کی وجہ وہ یہ بتالتے ہیں کہ ان پر درود و سالم بھیجا جاتا ہے36.

دوسری بات یہ کہ امام عالی مقام نے فرمایا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہم پر ہمارے سوا

کوئی حاکم بنے

ویں آیت ہے 34قرآن مجید میں سورہ النساء کی

بعضه ل الل امون على الن ساء بما فض جال قو م على بعض الر

اس فضیلت کے سبب جو خدا نے ايک کو ( ايک تو )مرد عورتوں پر حاکم ہیں

(ترجمہ از سید مقبول احمد دہلوی)دوسرے پر دی ہے

اب اس آیت پر غور کیجیے گا۔ اس میں صاف واضح ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم

بھی ہے اور اس کو فضیلت بھی حاصل ہے

36

میں فرماتے ہیں 244-243، ص 7موصوف منہاج السنۃ، ج

اس بات کا جنایو سالم بھ ةپر صال ت یاہل ب یپر ہے کہ آل محمد و ان ک ادیسب اس بن ہیاور

اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے جو ہی۔ اور ںیسب لوگوں سے بہتر ہ ہیہے کہ یتقاضا کرتاور عرب ںیعربوں سے بہتر ہ شیاور قر ں،یسے افضل ہ شیہاشم قر یکہ بن ںیکہتے ہ ہی

ںیافضل ہ سےآدم یتمام بن جب وہ ملے احمد، اینے زکر ک یکہ حرب الکرمان سایہمارے ائمہ سے منقول ہے ج ہیاور

سے۔ رہیوغ یدیالحم ریبن منصور اور عبدہللا بن زب دیاسحاق، سع یعلیابو بکر و ابو یکہ قاض سایگروہ ان کے افضل ہونے سے منع کرتا ہے ج کیا اگرچہ

کہ انہوں سایسے ثابت ہے ج ملسو هيلع هللا ىلصاکرم ینب ہی ونکہیہے ک حی۔ مگر پہال قول صحاینے ذکر ک ااوریک یمصطف ںیاوالد م یک لیکہا کہ ہللا نے کنانہ کو حضرت اسماع ںیم حدیث حینے صح

اور ایک یسے مصطف ںیم شیہاشم کو قر یاور بن ،یک یصطفم ںیاوالد م یکو کنانہ ک شیقرایک یسے مصطف ںیہاشم م یمجھے بن

32

ضل ہے اس بات پر تو ہمارے احادیث کی کتابوں میں باب موجود ہیں کہ شوہر اف اور بیوی نے اس کی کئی امور میں اس کی اطاعت کرنی ہے37

ے پر جبکہ امام عالی مقام نے کیا فرمایا تھا؟ ذرا دوبارہ غور کیجیے گا اس نکت

یعنی امام نے تو خود کو افضل قرار دیا اور کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہم پر کوئی

دوسرا حاکم بنے؛

سید زادی پر کسی غیر کو حاکم بھی بنائیں گے ہم تو ! اور کوئی کہے کہ جناب

۔۔۔۔۔۔۔تو اس پر آپ کیا اور اس کے بعد ظاہر ہے کہ اس کو فضیلت بھی حاصل ہو گی

کہیں گے؟

ایک واقعے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتے ہیں۔ جب یزید کے دربار میں

ایک شامی نے یزید سے حضرت فاطمہ بنت الحسین سالم ہللا علیہا مانگی تو سیدہ

37

513، ص 5؛ اور دوسری مطبوع میں الکافی، ج 519ص 3شیخ کلینی نے فروع الکافی، ج

ہر ایک باب بندھا ہے

(ما یجب عن طاعة الزوج على المرأة) یعنی عوت پر شوہر کی اطاعت میں جو واجب ہے

کا جزو ہے کہ 4اور اس میں روایت نمبر

رسول ہللا صلی ہللا علی و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اے گروہ خواتین! تم صدقہ دیا کرو اور

شوہر کی اطاعت کرو

پر صحیح قرار دیا ہے 329، ص 20عالمہ باقر مجلسی نے اس روایت کو مراۃ العقول ج

؛ اور اردو 512، ص 2؛ دوسری مطبوع میں ج 500، ص 2شیخ صدوق نے علل الشرائع، ج

پر ایک باب باندھا ہے کہ 616، ص 2ترجمے میں ج

وہ سبب جس کی بناء پر مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی گئی ہے

و آلہ یہللا عل یرسول ہللا صلاور اس میں ایک طویل روایت ہے کہ جس میں ایک یہودی نے

سے پوچھا کہ مرد کو عوتوں پر کتنی فضیلت و فوقیت ہے؟ جس کے جواب میں نے وسلمنے جواب دیا کہ اتنی فوقیت جیسی آسمان کو زمین پر ہے و آلہ وسلم یہللا عل یرسول ہللا صل

پانی کو زمین پر ہے یا جیسی فضیلت

33

کو خوف محسوس ہوا کہ انہیں اسے دے دیا جائے گا تو انہوں نے حضرت زینب

سیدہ نے اس یزیدی سے کہا کہ بنت علی سالم ہللا علیہاکے کپڑے تھام لیے ۔ اس پر

تو جھوٹ کہتا ہے ۔ نہ تجھے اس امر کا حق ہے نہ تیرے امیر کو۔ اس ! اے ملعون

پر یزید نے کہا کہ وہ یہ حق رکھتا ہے۔ اس پر سیدہ زینب سالم ہللا علیہا نے ایک

جملہ بوال

سے تجهے اس امر کا اختیار نہیں مگر يہ کہ تو ہماری دين اور امت ! خدا کی قسم نکل جائے38

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں سیدہ نے یہ کہا؟

ذرا دوبارہ مالحظہ ہو کہ امام جعفر الصادق علیہ السالم نے کیا کہا تھا

اور اے کاش کہ کوئی بهی اس امر کی خواہش نہ کرے کہ وه خود کو ہم لوگوں

میں شمار کرے سوائے اس کے کہ وه مشرک ہو جائے

اگر سادات میں شمار ہونے کی خواہش پر شرک الزم آئے، تو افضل ہونے پر کیا

ہو گا؟ اب آپ چند سطور پیچھے جا کر دوبارہ پڑھیں کہ سیدہ زینب سالم ہللا علیہا

نے کیا کہا اور کیوں کہا۔

38

۔ 167ایک دوسری مطبوع میں ص ؛ اور 128، ص 3، حدیث 31امالی شیخ صدوق، مجلس

156، ص 45۔ بحار االنوار، ج 310، ص 2مالحظہ ہو احتجاج طبرسی، ج نیز

34

رضوی سادات اور حضرت عیسی بن زيد بن امام زين العابدين علیہ

السالم کا واقعہ

خاص کر ان کی مفاتیح ے نام سے شاید ہی کوئی بے خبر ہو ۔ شیخ عباس قمی ک

الجنان سے تو عالم تشیع کا بچہ بچہ واقف ہے ۔

انہوں نے ایک کتاب لکھی ، منتہی االمال فی التواریخ النبی و اآلل۔ اس میں وہ

رقمطراز ہیں

تاريخ قم میں آتا ہے جس کا حاصل يہ ہے کہ رضوی سادات اپنی بیٹیوں کی شادی

کفو نہ ہونے کے سبب نہیں کرتے تهے۔ اور امام موسی کاظم علیہ اسالم کی 21

بیٹیاں تهیں مگر ان میں کسی کی شادی نہیں ہوئی۔ اور امام محمد تقی بن علی رضا

جائیداديں اپنی ان بیٹیوں اور بہنوں کے لیے وقف 10علیہ السالم نے مدينہ میں کر دی تهیں جن کی شادياں نہیں ہوئیں تهیں39

بھی کافی اہم ہے د بن امام زین العابدین کا واقعہاسی طرح حضرت عیسی بن زی

، 2شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب، منتہی االمال فی تواریخ النبی و االل، جلد جسے

سید نجم الحسن طبع دارالمصطفی العالمیہ، بیروت( میں، اور طبع ثالث، )،81صفحہ

، میں درج کیا ہے۔ حضرت 309ستارے، صفحۃ 14کراروی صاحب نے اپنی کتاب

عیسی تقیہ میں رہتے تھے، اور انہوں نے ایک عورت سے شادی کر لی۔ اسے بھی

نہ بتایا کہ میں کون ہوں۔ ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی ۔ جب اس کے لیے ایک

غیر سید کا رشتہ ایا تو آپ پریشان ہو گئے کہ سیدانی غیر سید سے بیاہی جا رہی

ے ہیں ان کا م الحسن صاحب ایک جملہ لکھتہے۔ اس میں سید نج

يہ شادی جائز نہیں اسلیے کہ يہ لڑکا ہمارا کفو نہیں ہے

یہ جملہ ملتا ہے کہ یہ لڑکا حسب و نسب کے لحاظ سے ہمارا کفو منتہی االمال میں

نہیں

منتہی االمال، ج 2، ص 316-315 39

35

سیدزادی کے غیر سید سے نکاح کے حامیوں کے دالئل اور

ہمارے جوابات

دیکھیے اس معاملے کا حل تو بہت ہی آسان ہوتا ان حامیوں کے لیے اگر ان کے

پاس کوئی ایک بھی روایت موجود ہوتی جس میں سید زادی کے غیر سید سے نکاح

کی بات ہوتی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ایک بھی روایت موجود نہیں۔

آپ کبھی ان لوگوں سے ہم نے مختلف روایات سے اس موضوع پر لکھا۔ مگر

روایات نہیں سنو گے۔ چلیے ان کے کچھ اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں

36

1- ائمہ علیهم السالم کی روايات کے مخالف فتاوی سے دلیل

بجائے اس کے کہ وہ کوئی روایت پیش کریں کہ جس میں امام نے اس بات کی

ہو سکتی ہے، وہ بڑے آرام سے ان اجازت دی ہے کہ سیدہ کی غیر سید سے شادی

فتوے پیش کرنا شروع کر مختلف مجتہدین کے روایات کو جھٹال دیتے ہیں اور

۔ ان فتوؤں کی خرابی آپ کو خمینی صاحب کی زبانی دکھاتے ہیںدیتے ہیں

ہیں کرتے درج صاحب خمینی

ہمارے جو گے آئیں کر لے احکام ایسے وہ تو گے الئیں تشریف حجت حضرت جب

فقہی جو -گے ہوں مختلف سے احکام شدہ استنباط ذریعے کے اجتہادات ناقص

کے مجتہدین وہ گے۔ ہوں مختلف سے ان وہ ہیں کرتے استعمال ہم ضوابط و اصول

کی فقہاء کیونکہ( جدید بکتاب یاتی) گے ہوں مختلف سے احکام شدہ اخذ سے ظنون روش کے برخالف فرمائیں گے40

اب اگر آپ فتوؤں پر چلتے رہے ہوں، تو اس وقت آپ کریں گے کیا؟

اس سے مجھے موال مشکل کشاء کا ایک خطبہ یاد آ رہا ہے۔ پیش خدمت ہے ۔ موال

بد ترین دشمنوں کے بارے میں فرماتے ہیں 2خدا کے نزیدک

دوسرے وه قاضی و مفتی وغیره ہیں جو جہل مرکب کا شکار ہو کر دوسروں کو

ت میں پهانستے ہیں اور فتنوں کو پهیالنے میں مدد کرتے ہیں اور عوام نے جہال

جو جاهل ہیں اس کو عالم سمجه بیٹها ہے حاالنکہ اس کا ايک دن بهی احکام الہیہ

کے بارے میں شبہ سے خالی نہیں۔ اس کے جہل مرکب کی نشانی يہ ہے کہ جلدی

کم اس کے زياده سے جلدی اس نے بہت کچه حاصل کر لیا اس چیز کو جس کا

بہتر ہے يہاں تک کہ جب وه آب گنده سے سیراب ہو گیا اور الطائل باتوں سے پر

اگر -ہو گیا تو قاضی بن بیٹها اور لوگوں کا شبہات سے نکالنے میں ضامن بن گیا

اس نے اپنے سے پہلے قاضی کے حکم کی مخالفت کی تو وه اس سے بے خوف

ے حکم کو اسی طرح توڑ دے گا جیسے اس نے نہ ہوا کہ آنے واال قاضی اس ک

توڑا ہے۔ اور اگر کوئی سخت مسئلہ اس کے سامنے آ جاتا ہے تو وه اپنی رائے

سے انٹ سنٹ بولنا شروع کر ديتا ہے اور ان نا معقول باتوں پر معاملہ ختم کر ديتا

40

تربیت الہور، ناشر ادارہ تعلیم و 282امامت اور انسان کامل،خمینی، صفحہ

37

ہے۔ اور شبہات کی پرده پوشی کے لیے حکم لگاتا ہے جو مکڑی کی جالے کی

ہیں۔ نہ اسے يہ پتہ ہے کہ اس کی رائے صحیح ہے يا غلط، نہ اس کے گمان مانند

میں يہ ہے کہ جس سے انکار کر رہا ہے، اسی میں علم ہے؛ اور نہ وه اس سے

آگاه ہے کہ وه پیروی ظن و قیاس آرائی میں پڑا ہوتا ہے ۔ جبکہ مذہب اس سے

کے سبب قیاس کرتا بالکل الگ ہے۔ اگر وه ايک چیز کا دوسرے سے مشابہ ہونے

ہے تو اپنی فکر کو غلط نہیں سجمهتا۔ اگر کوئی امر اس سے مخفی ہو، اور اسے

قیاس میں نہ ملے، تو وه لوگوں سے اسے چهپاتا ہے تاکہ لوگ اسے کم علم نہ

سمجهیں۔ پس جسارت کر کے حکم لگاتا ہے اور اندهے پن کی کنجی بنتا ہے۔

پر سوار ہیں۔ جس کا اسے علم نہیں، اس شبہات و شکوک و اوہام اس کے حواس

کے بارے میں معذرت نہیں کرتا کہ گم راہی سے بچ سکے۔ اور علم کے حصول

کے لیے پوری کوشش نہیں کرتا کہ علم و دانش ملے۔ احاديث کو ايسے پراگنده کر

ديتا ہے جیسے تیز ہوا گهاس کو ۔ اس کے غلط احکام سے میراث روتی ہے اور

وه اپنے فتوؤں سے حرام شرمگاہوں کو حالل کر ن چیختے ہیں۔ مظلوموں کے خو ديتا ہے اور حالل کو حرام41

اس روایت پر غور کیجیے اور ذرا دنیا پر نظر دوڑائیں۔ آپ کو آج ہر طرف یہ

فتوی دینے والی فیکٹریاں نظر آئیں گی۔ کوئی ایک ایسا مسئلہ نہیں ہو گا جہاں یہ اپنا

دیں اپنے فتوے ہی دیں گے ۔ کبھی بھی حدیث معصوم نہیںرائے نہ دیں۔ یہ آپ کو

جیسا کہ موالئے کائنات نے فرمایا۔ ہاں فتوے روایات کو رد کریں گے، بلکہ گے

جتنے مرضی لے لو

ائمہ علیہم اسالم نے روایات کو رد کرنے کی سختی کے دوبارہ یاد دالتے چلیں کہ

ساتھ مذمت کی ہے42۔ اس کے برعکس ان لوگوں کے لیے دعا کی ہے جو ان کے

41

، 27؛ وسائل الشیعہ؛ ج 117-116، ص 1؛ اور اردو ترجمے میں ج 56-55، ص 1الکافی، ج

231، ص 1؛ االرشاد شیخ مفید، ج 99، ص 2؛ بحار االنوار، ج 39ص

42

علل الشرائع میں شیخ صدوق یہ روایت پیش کرتے ہیں

بن ابو عبدہللا عن عن محمد بن اسماعیل ابی رحمہ ہللا : قال حدثنا محمد بن ابو عبدہللا عن احمدبن البزیع عن جعفر بن بشیر عن عن ابی حصین عن عن ابی بصیر عن احدھما علیہما السالم

قالو:

38

اقوال کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں43۔ مگر یہ گروہ اعتراضات کرنا شروع

کر دیتا ہے حاالنکہ جب ایک بات کا فیصلہ ہمیں معصومین علیہم السالم کی جانب

سے مل جائے، اور کسی کے دل میں بھی اس کے بارے میں اعتراض آ جائے تو اسے روایات میں شرک قرار دیا گیا ہے 44

اس حدیث کو رد مت کرو جو تمہیں کوئی خارجی یا قدری یا مرجئی ہماری نسبت سے بیان

کی تکذیب کر بیٹھوکرے کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اس میں کچھ حق ہو اور تم ہللا

؛ نیز اصول الکافی کے اردو ترجمے میں عالمہ ظفر حسن 395، ص 2)علل الشرائع ج

( 418-417، ص 2صاحب نے اس سند کو صحیح قرار دیا۔ مالحظہ ہو ج

43

( میں ایک 398، ص 2؛ اردو ترجمہ میں ج 3، حدیث 391-390، ص 1اصول کافی )ج

روایت ملتی ہے

ی عن احمد بن محمد عن حسین بن سعید عن حماد بن عیسی عن حسین بن مختار محمد بن یحی عن زید الشحام عن امام ابی عبدہللا علیہ السالم

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام ابو عبدہللا علیہ السالم سے کہا: ہمارے قریب ایک شخص ہے

تا ہے کہ میں نے جس کا نام کلیب ہے۔ آپ کی جو بات اس سے بیان کی جاتی ہے، وہ کہاسے تسلیم کیا تو ہم نے اس کا نام ہی کلیب تسلیم رکھ لیا ہے ۔ امام نے فرمایا کہ اس پر

رحمت ہو۔ پھر امام نے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ تسلیم کیا ہے؟ ہم خاموش ہو گئے۔ امام نے جو ہاتا ہے کفرمایا کہ وہ قول خدا کے سامنے فروتنی و عاجزی اختیار کرتا ہے اور ہللا فرم

لوگ ایمان الئے اور نیک عمل کیا اور اپنے رب کے سامنے فروتنی کی

میں صحیح قرار دیا ہے 280، ص 4عالمہ باقر مجلسی نے اس روایت کو مراۃ العقول ج

44

( میں یہ روایت ملتی 398-397، ص 2؛ اور اردو ترجمہ میں ج 390، ص 1الکافی )ج

ہے

احمد بن محمد البرقی عن احمد بن محمد بن ابی نصر عن حماد بن عثمان عدة من اصحابنا عن عن عبدہللا الکاہلی قال : قال امام ابو عبدہللا علیہ السالم :

اگر کوئی قوم ہللا کی عبادت کرے، نماز قائم کرے ، زکوة دے، حج کرے اور رمضان میں

بنائی ہوئی کسی بات کے خالف روزے رکھے مگر ہللا کی بنائی ہوئی یا اس کے رسول کی

39

ان کا جوکہا، حق صرف وہ ہے کہ جو ائمہ علیھم السالم نے میرا نظریہ تو یہ ہے

حکم ہے، اور اسی کے مطابق میں نے یہ مقالہ لکھا، مگر اس اعتراض کا جواب

دینا اس لیے ضروری ہے کہ کئی لوگ ایسے ہوں گے کہ جو اس نکتے کو اہمیت

دیں گے۔ اور وہ یہ کہیں گے کہ جناب! چلیں روایات تو ہیں مگر ہمارے علماء نے

یے فتوی بڑی اہم شے ہے۔ چلیے آپ اس کے مطابق فتوی کیوں نہیں دیا؟ ان کے ل

کو ایک عالم کا تعارف کرواتے ہیں، اور پھر ان کا فتوی دیتے ہیں۔ ان کا نام ہے :

ابن جنید االسکافی۔

نجاشی45 ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں

محمد بن احمد بن الجنید ابو علی الکاتب االسکافی وجہ فی اصحابنا، ثقۃ، جلیل القدر46

رف ثقہ نہیں کہا، بلکہ "وجہ فی اصحابنا" قرار دیا گیا۔" وجہ" چہرے اب ان کا ص

کو کہتے ہیں جو کہ شناخت کا باعث ہوتا ہے۔ جلیل القدر اردو میں بھی استعمال ہوتا

کوئی معمولی ہستی نہیں تھے۔ نہ تو یہ ہے اس وجہ سے واضح ہے۔ گویا یہ

لم ہونے کی تہمت لگا پ ان پر کم عبرصغیر سے تعلق رکھتے تھے اور نہ ہی آ

سکتے ہیں۔ بلکہ یہ اپنے دور میں تشیع کی پہچان تھے، جلیل القدر تھے

چلیے مالحظہ ہو کہ ان کا کیا فتوی تھا

بات کرے یا اس کے دل میں اس طرح کا خیال گذرے تو وہ مشرک ہے۔ پھر امام عالی مقام نے اس آیت کی تالوت کی کہ تیرے رب کی قسم یہ لوگ ایمان نہیں الئیں گے جب تک اے

وں رسول تجھے اپنے اختالفات میں حکم نہ قرار دیں اور پھر تمہارے فیصلے سے اپنی دلمیں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور تمہارے فیصلے کو مکمل ظور سے تسلیم نہ کر لیں۔

پھر امام نے فرمایا کہ تم پر خدا و رسول کے احکامات کو تسلیم کرنا واجب ہے

قرار دیا ہے حسنمیں 279، ص 4عالمہ مجلسی نے اس روایت کو مراۃ العقول، ج 45

بن علی النجاشی ایک بہت بڑا نام ہے، اور ان کی کتاب فہرست شیعہ علم الرجال میں شیخ احمد

کا شمار کتب الرجال میں ( جو کہ رجال النجاشی کے نام سے مشہور ہے)اسماء مصنفی الشیعہ

سب سے بلند پایہ کتب میں ہوتا ہے

رجال النجاشی، ص 385، راوی نمبر 104746

40

فتاوی ابن الجنید میں لکھا ہے

اسالم جامع ہے اور اس کے ماننے والے خون کے اعتبار سے : ابن الجنید نے کہا

ے جن پر صدقہ حرام ہے کیونکہ يہ ان کی ايک دوسرے کا کفو ہیں۔ سوائے ان ک

اس لیے ان پر واجب ہے کہ يہ آپس میں شادی دوسروں پر فضیلت کا باعث ہے؛

کیونکہ کہیں ايسا نہ ہو کہ صدقہ اس کے لیے حالل ہو جائے جس پر يہ کريں

حرام ہے جب اس کا بیٹا اس سے منسوب ہو گا جس کے لیے صدقہ (اصل میں )

حالل ہے47۔ابن جنید نے اس پر اس روايت سے استدالل قائم کیا ہے جو علی بن

هالل نے روايت کی کہ ايک خارجی امام الصادق علیہ السالم کے پاس آيا اور کہا کہ

میں هشام سے مال اور میں نے اس سے يہ يہ سوال کیا اس نے مجهے يہ يہ بتايا۔

ام نے کہا کہ اور اس نے مجهے کہا کہ يہ اس نے آپ سے سنا ہے۔ امام عالی مق

ہاں يہ میں نے اس سے کہا ہے۔ تو اس خارجی نے کہا کہ پهر میں آپ سے رشتہ

تمہار کفو کرم و حسب کے لحاظ طلب کرتا ہوں۔ امام عالی مقام نے جواب ديا کہ

سے تمہارے قوم میں ہے۔ هللا نے ہمیں صدقہ سے بچايا کہ يہ لوگوں کے ہاتهوں

اس شرف میں انہیں شامل کريں کہ جو ہماری کا میل ہے۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ طرح نہیں بنائے گئے۔۔۔۔48

چلیں کہ یہ روایت بنیادی طور پر الکافی میں موجود ہے۔ یعنی شیخ کلینی یاد دالتے

نے اس بات کو الکافی میں تسلیم کیا، اور شیخ صدوق نے من ال یحضرہ الفقیہ میں،

کہ سادات آپس میں کفو ہیں

ایک سید ہی ہے، جو کہ کہ ایک سیدہ کا کفو قرائن بھی موجود ہیں نیز اس پر دیگر

ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں

حاالنکہ متقدمین کے زمانے میں الکافی و من ال یحضرہ الفقیہ کے حوالے ہی کافی

ہمیں اتنے دالئل دینے ہوتے۔ اس پر شیخ صدوق کا بیان مسئلے کو حل کر چکا ہوتا۔

تی ، مگر افسوس کہ دین کا اساس ہی بدل دیا گیاکی ضرورت ہی نہ پڑ

ابن جنید یہ کہہ رہے ہیں کہ سیدہ پر صدقہ حرام ہے۔ اگر اس کی شادی کسی غیر سید سے 47

ہو جائے، جس پر صدقہ حالل ہے، تو جو بیٹا ہو گا، اس کے لیے بھی صدقہ حالل ہے۔ اب اگر اس بیٹے کو صدقہ ملے، اور وہ اسے ماں پر خرچ کر دے، تو اس طرح تو اس کے لیے

پر وہ اصل میں حرام ہے۔ بھی حالل ہو جائے کہ جس یہ روایت الکافی ج 5، ص 345 پر درج ہے48

41

2- سید زاديوں کو ہاشمی خواتین پر قیاس کرنا

دیکھیے ہر انسان جاندار ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر جاندار بھی انسان

ہے۔ اسی طرح ہر مومن مسلمان ہے، مگر ہر مسلمان مومن نہیں۔ اب ہوتا کیا ہے کہ

ی خواتین کی غیر ہاشمی مردوں سے شادی کی بات ہوئی کچھ روایات میں ہاشم

ہے؛ مگر کیا ہاشمی خواتین اور سیدزادی میں فرق ہے کہ نہیں؟ اور جب فرق ہے،

جو ابھی آگے بیان بھی ہو گا جب امام علیہ السالم نے ہاشمی بادشاہ سے کہا کہ

ی ہے مگر تمہاری بیٹی سے نبی اکرم صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کی شادی ہو سکت

ہماری بیٹی سے نہیں، یعنی صاف الفاظ میں فرق بیان کیا اور وہ بھی شادی ہی کو

لے کر، تو پھر یہ قیاس آرائی کیوں؟

یہ روایت بنیادی طور پر ایک مناظرہ اس ضمن میں ہم ایک روایت پیش کرتے ہیں۔

تھا جو کہ امام رضا علیہ السالم کا مامون کے دربار میں ہوا۔ اس کا نام ہی یہ ہے

مةباب ذكر مجلس الرضا علیه السالم مع المأمون في الفرق بین العترة واأل - 23

امت باب: امام رضا علیہ السالم کی مجلس کا ذکر جو مامون کے ساته ہوا، عترت و

کے فرق کے بارے میں

مامون کون ہے؟ یہ ایک عباسی خلیفہ تھا، یعنی بنی عباس سے تعلق رکھتا تھا۔ اور

صاف ظاہر ہے کہ ہاشمی تھا۔ اور اس پورے باب میں اس نے کسی ایک مقام پر یہ

نہیں کہا کہ ان سب فضائل میں تو میں بھی شامل ہوں۔ یا کہیں پر کہا ہو کہ آل محمد

ں بھی شامل ہوں۔ آپ پورا مناظرہ پڑھ لیجیے۔میں تو می

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اس باب کا نام ہی یہ واضح کر رہا ہے کہ عترت اور امت

میں فرق ہے۔۔۔۔۔۔اس پر توجہ دیجیے

اسی مناظرے سے ہم نے آپ کی خدمت میں وہ حصہ بھی پیش کیا تھا کہ جس اب

میں امام نے کہا تھا کہ تمہاری بیٹیوں کی شادی نبی اکرم صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم

کے ساتھ ہو سکتی ہے، مگر میری نہیں، اور یہ اس لیے کہ میں آل ہوں اور تم امت۔

ٹھایا کہ جناب! یہ فضیلت تو مجھے بھی اس مقام پر بھی مامون نے یہ نکتہ نہیں ا

42

حاصل ہے، میری بیٹی کی شادی بھی رسول ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ

اس نے کہیں پر بھی یہ نکتہ نہیں اٹھایا کہ میں آل میں شامل ہوں -نہیں ہو سکتی

امام عالی مقام فرماتے ہیں اسی مناظرے میں ایک مقام پر

ذلك في الناس تكلم حتى العترة خال ما مسجدہ من الناس( ص) اجهفاخر الرابعة وأما

وأخرجتنا؟ علیا تركت: ہللا رسول یا: فقال العباس تكلمو

وأخرجكم تركه وجل عز ہللا ولكن وأخرجتكم تركته انا ما(: ص) ہللا رسول فقال

اور چوتهی بات يہ کہ رسول هللا نے سب کو مسجد سے نکال ديا سوائے عترت

! بهی بولے کہ يا رسول هللا عباسحضرت کے، پس لوگ بولنا شروع ہو گئے اور

رسول ؟ نکال ديا ہمیںآپ نے آپ نے حضرت علی علیہ السالم کو چھوڑ دیا، اور

تمہیں نہیں نکاال بلکہ اسے نہیں چهوڑا اور میں نے هللا نے جواب ديا کہ میں نے

هللا نے اسے چهوڑا ہے، اور هللا نے تمیں نکاال ہے49

اب سوال یہ ہے کہ حضرت عباس کون؟ یہ رسول ہللا کے چچا ہیں۔ ان سے بنی

عباس چلی۔ یہ بنی ہاشم میں شامل ہیں۔ اور انہیں رسول ہللا نے عترت میں شامل

نہیں کیا۔

کو ذہن میں رکھیے گا کہ ہمارا موضوع بنیادی طور پر وہ ہیں کہ جن پر اس بات

کا اطالق ہوتا ہے۔ یا جیسا کہ حدیث میں آیا فاطمتین؛ یعنی بی بی "ہماری بیٹیوں"

فاطمہ علیہا السالم کی بیٹیاں

یہاں پر ایک اور روایت سے بھی ہم استفادہ کرتے چلیں۔ امام موسی کاظم علیہ

عہ ہارون الرشید کے پاس گئے، اور اس نے امام عالی مقام سے کہا السالم ایک دف

: فقلت فاطمه بني معشر بها تعرفون التي التقیه وتركت صدقتني ان االمان لك قال

واحده شجره في ونحن علینا فضلتم لم اخبرني: قال شئت عما المؤمنین أمیر يا اسأل

عما وهما طالب أبي ولد وانتم العباس بنو انا واحد وانتم ونحن المطلب عبد وبنو

ألن: قلت ذلك؟ وكیف: قال اقرب نحن: فقلت! سواء؟ منه وقرابتهما( ص) هللا رسول

طالب أبي ام من وال هللا عبد ام من هو لیس العباس وابوكم وام الب طالب وأبا هللا عبد

49

210، صفحہ 2عیون اخبار الرضا، جلد

43

جس آپ کو میری طرف سے امان ہے اگر آپ سچ بولیں اور اس تقیہ کو چهوڑ ديں

کے لیے بنی فاطمہ معاشرے میں مشہور ہے

امام عالی مقام نے جواب ديا: پوچهیں جو آپ پوچهنا چاہیں

اس نے پوچها: آپ لوگ اپنے آپ کو ہم سے افضل کیوں سمجهتے ہیں جبکہ ہم

اور آپ ايک ہی شجرے سے ہیں۔ يعنی عبدالمطلب کی اوالد ہیں تو ہم اور آپ ايک

وئے اور آپ ابو طالب کی اوالد۔ اور وه دونوں ہی رسول ہوئے۔ ہاں ہم بنی عباس ہ

هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم کے چچا تهے۔ اور قرابت رسول میں دونوں برابر

ہوئے۔

امام نے جواب ديا کہ ہم زياده قريب ہیں۔ اس نے پوچها کہ وه کیسے؟ امام عالی

کے ماں و باپ ايک ہی مقام نے جواب ديا کہ وه اس لیے کہ عبدهللا و ابو طالب تهے، مگر عباس کی ماں الگ تهی50

اس روایت میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ہارون الرشید اس بات سے

مکمل آگاہ تھا کہ بنی فاطمہ خود کو ان جیسا نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان سے

کہ اس اور امام عالی مقام نے اس بات کی تردید نہیں کی حاالن افضل سمجھتے ہیں۔

وقت کے جو حاالت تھے، اس میں شدید تقیہ تھا حتی کہ خود ہارون یہ کہہ رہا ہے

کہ آپ تقیہ کے لیے مشہور ہیں۔ بالکل واضح ہے کہ امام علیہ السالم نے اپنے فرق

کو بیان کیا۔

اسی روایت میں بھی آپ کو یہ ملے گا کہ امام موسی علیہ السالم نے ہارون سے

پوچھا

تجیبه؟ كنت هل كريمتك الیك فخطب نشر( ص) النبي ان لو المؤمنین أمیر يا: فقلت

: له فقلت بذلك وقريش والعجم العرب علي افتخر بل اجیبه؟ ال ولم هللا سبحان: فقال

يلدك ولم ولدنى( ص) النه: فقلت ولم؟: فقال( 3) ازوجه وال الى يخطب ال( ص) لكنه

آپ کی بیٹی کے لیے شادی کا رشتہ اگر رسول هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم

بهجیں، آپ قبول کريں گے؟

ہارون نے جواب ديا کہ بالکل، کیوں نہیں بلکہ میں تمام عرب و عجم و قريش پر

فخر کروں گا

50

196؛ اور اردو ترجمہ حصہ سوئم چہارم، صفحہ 162، صفحہ 2االحتجاج طبرسی، جلد

44

امام نے کہا: مگر نہ وه میری بیٹی کے لیے رشتہ بهیجیں گے اور نہ ہی ہم کريں

گے۔

ہارون نے پوچها کہ وه کیوں؟

امام نے جواب ديا: اس لیے کہ ہم نے کی اوالد ہیں اور آپ نہیں51

اس بات پر ہم پہلے بھی کافی روایات پیش کر چکے ہیں۔ مگر ان کو مزید قوت

دینے کے لیے ہم نے یہ بات دوبارہ لکھی

اس لے بنی ہاشم والی روایات سے سید زادی کے نکاح پر دلیل قائم کرنا صحیح

الگ ہیں۔نہیں۔ کیونکہ ان کے لیے قوانین

اور یہ بات ہم نے مختلف روایات سے یہ واضح کیا کہ ائمہ علیھم السالم نے خود کو

بنی عباس سے بھی الگ رکھا۔ اور بار بار فرق بیان کرتے رہے۔ جس میں شادی

کے الگ قوانین بھی انہوں نے بیان کیے۔

51

198؛ اور اردو ترجمہ میں صفحہ 164، صفحہ 2اسی کتاب کے جلد

45

3- سیده زينب علیها السالم کی شادی سے دلیل

اعتراض یہ سیدہ زینب سالم ہللا علیھا کی شادی کو لے کر کرتے ہیں۔ ایک اور

حاالنکہ اگر یہ لوگ روایات کو پڑھیں ، ان پر غور کریں تو ان کے دلوں پر لگے

تالے کھل جائیں گے اور یہ اس طرح کا سوال ہی نہ کریں

میں نے آپ کی خدمت میں شیخ صدوق کا قول نقل کیا تھا جس کے آخر میں ایک

روایت تھی۔ دوبارہ مالحظہ ہو

نے و آلہ وسلم ہیهللا عل یرسول هللا صلکیونکہ يہ ايک دوسرے کے کفو ہیں اور

کی اوالد کو ديکه کر کہا کہ ہماری حضرت جعفر حضرت علی علیہ السالم اور

کے لیے ہیں اور ہمارے بیٹے ہماری بیٹیوں کے لیے بیٹیاں ہمارے بیٹوں

ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یہ مقالہ ان کے بارے میں ہے جن پر "ہماری بیٹیوں"

اور "ہمارے بیٹوں" کا اطالق ہوتا ہے۔ روایت میں بالکل واضح طور پر دیکھا جا

اوالد کو بھی وسلم نے حضرت جعفر کی آلہ و علیہ ہللا سکتا ہے کہ رسول ہللا صلی

نے ان کو کیوں شامل وسلم آلہ و علیہ ہللا صلیاب آپ –" میں شمار کیا ہے ہمارے"

ہی دے سکتے ہیں مگر ظاہر ہے وسلم آلہ و علیہ ہللا صلیکیا، اس کا جواب تو آپ

کہ اس دلیل میں اس نکتے کو دیکھنے کے بعد کوئی وزن نہیں رہتا

کرنے والے؟میں اور آپ کون ہوتے ہیں اعتراض

46

4- متقی غیر سید سے سید زادی کی شادی

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیکھیے اگر ایک شخص متقی ہے، تو پھر کیا قباحت ہے؟

حاالنکہ ہم تقوی کو لے کر پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں۔ مگر چونکہ یہ بات بار

بار بیان کی گئی تو تھوڑی سے وضاحت مزید کر دیں

ویں آیت میں ہللا نے 13واں سورہ ہے۔ اور اس کی 49قرآن مجید کا سورہ حجرات

ارشاد فرمایا

ن ذكر وانثی وجعلناكم شعوبا وقبائل لتعارفوا إن يا أيها الناس إنا خلقناكم م

علیم أتقاكم إن الل ند الل خبیر أكرمكم ع

اے لوگوں! ہم نے تمہیں ايک مرد اور ايک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہاری

اقوام اور قبائل بنائے تاکہ تہماری شناخت ہو۔ بے شک هللا کی نظر میں سب سے

زياده مکرم وه ہے جو متقی ہے۔ بے شک هللا علم رکهنے واال اور خبر رکهنے واال

ہے

ک تو اس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اقوام و اس آیت کو توجہ سے پڑھیے۔ ای

قبائل ہللا نے بنائے۔ دوسرا یہ کہ ہللا کی نظر میں، ایک دفعہ پھر دوہرا دوں کہ ہللا

کی نظر میں زیادہ عزت واال، اور مکرم وہ ہے کہ جو متقی ہو۔ اور ساتھ ہی ہللا نے

رکھنے واال اور خبر اپنے دو ناموں کا استعمال کیا۔۔۔۔علیم و خبیر۔۔۔۔۔یعنی علم

رکھنے واال۔

اچھا ایک سوال یہاں پر اور بھی اٹھتا ہے کہ کیا کبھی ہللا نے ان اقوام و قبائل میں

کسی کو فضیلت بھی دی؟ دیکھیے قرآن کیا کہتا ہے۔ سورہ بقرہ میں ہمیں یہ ملتا ہے

ین ی يا بني إسرائیل اذكروا نعمتي التي أنعمت عل لتكم على العالم كم وأن ي فض

میری اس نعمت کو ياد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں اے بنی اسرائیل!

نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی

47

یعنی ایک بات تو واضح ہے کہ ہللا نے اقوام و قبائل بنائے۔۔۔۔۔اور ایسا بھی نہیں ہے

کہ کسی کو کبھی فضیلت دی ہی نہیں۔

آدم اصطفى ہللا انآل محمد کے لیے بھی اسی طرح کا ذکر اس آیت میں موجود ہے )

ت (۔ ہم اس پر پہلے ہی ایک روای العالمین على عمران وآل إبراھیم وآل ونوحا

"سادات کا مقام" کے شروع میں ہی درج کر چکے ہیں

ہاں اب اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ ہللا کی نظر میں بہتر بھی ہو گیا بلکہ اب

وہ اس فضیلت کے لیے جوابدہ بھی ہو گا۔ بلکہ بہتر وہ ہو گا جو تقوی اختیار کرے۔

یلت سے ضد لگا کر اور تقوی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ اس فض

بیٹھ جائیں۔ پہلے بھی یہ گذارش کی تھی، پھر کر رہا ہوں کہ پوری دنیا اس فضیلتوں

پر چل رہی ہے۔ آقا غالم سے افضل، شوہر بیوی سے افضل، والدین اوالد سے

افضل۔

میں اور آپ یہ اندازہ کبھی بھی نہیں لگا سکتے کہ کوئی دوسری اہم بات یہ ہے کہ

ہیں۔ ہو سکتا ہے ہم اسے متقی سمجھیں مگر وہ منافق ہو۔ کیونکہ نہ ہم متقی ہے کہ ن

علیم ہیں نہ ہی خبیر۔ اس لیے یہ کہنا کہ جی ہم تقوی کی بنیاد پر فیصلہ صادر کر

دیں گے، ایک غلط فہمی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ یہاں پر کوئی کہے کہ ہم نماز روزے کی بنیاد پر فیصلہ کر لیں گے۔

ہے کہ کیا صرف نماز روزے ہی کی بنا پر فیصلہ کرنا ہے؟ ایک مگر سوال یہ

روایت مالحظہ ہو تاکہ ہماری بات مکمل واضح ہو سکے

من ال یحضرہ الفقیہ میں یہ روایت موجود ہے

جعفر أبي عن مسلم بن محمد عن أيوب، وأبي عالء، عن محبوب، بن الحسن وروى

إلى الهجرة دار من فیخرجها اجرةالمه االعرابي يتزوج ال: " قال السالم علیه

االعراب

امام باقر علیہ السالم نے فرمايا کہ بیرون مدينہ رہنے والے ديہاتی کسی مہاجره

سے شادی نہ کرے وگرنہ وه اسے دارالهجره )يعنی مدينہ( سے نکال کر ديہات لے جائے گا52

52

48

اب اس روایت کے مطابق اس شادی سے منع کیا گیا؛ اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ

جناب! اگر تو وہ نمازی پرہیزگار ہو تو کر سکتا ہے۔

ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ آج ہم لوگوں کی ظاہری نماز و عبادات کو کافی اہمیت دینا

شروع ہو گئے ہیں

رتا چلوں اس پر ایک روایت ذہن میں آئی، وہ بھی ہدیہ ک

الهمداني محمد ابن أحمد عن التفلیسي علي بن أحمد حدثني قال هللا رحمه أبي حدثنا

موسى اإلمام عن السالم علیه الرضا موسى بن علي عن الهادي علي بن محمد عن

علي العابدين سید عن علي بن محمد الباقر عن محمد بن جعفر الصادق عن جعفر بن

أبي بن علي األوصیاء سید عن علي بن الحسین الجنة أهل شباب سید عن الحسین بن

صالتهم كثرة إلى تنظروا ال قال" ص" محمد األنبیاء سید عن السالم علیه طالب

الحديث صدق إلى انظروا ولكن باللیل وطنطنتهم والمعروف الحج وكثرة وصومهم

األمانة وأداء

لوگوں کی نماز، روزه، حج ، رسول هللا صلی هللا علیہ و آلہ وسلم نے فرمايا کہ تم

نیکیوں ، راتوں کو ان کی تالوت کی کثرت کو نہ ديکهو بلکہ ان کی بات میں صداقت اور ادائیگی امانت کو ديکهو53

یہ جو نبی اکرم نے ہمیں میزان دیا ہے، افسوس آج اس پر شاید ہی کوئی پورا اترتا

ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؛ روایت 261، صفحہ 3اور اردو ترجمہ میں جلد 426 ، صفحہ3الفقیہ، جلد من ال یحضرہ

4479نمبر

53 56، صفحہ 1عیون اخبار الرضا، جلد

49

5- کیا يہ مسئلہ صرف برصغیر سے تعلق رکهتا ہے؟

ایک اعتراض یہ ہے کہ جناب یہ مسئلہ تو پاکستان اور انڈیا کے کم علم لوگوں کی

شیخ حاالنکہ ہم پہلے ہی تخلیق ہے۔ ہمارے جید قسم کے علماء تو اس کے قائل نہیں۔

صدوق کا واضح بیان درج کر چکے ہیں کہ سادات آپس میں ایک دوسرے کے کفو

جنید کے حوالے سے بھی آپ پڑھ چکے ہیں۔ ہیں۔ اسی طرح ابن ال

کیارضوی سادات اور حضرت عیسی بن زید کا واقعہ نے شیخ عباس قمی

صورت برصغیر پاک و ہند سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔یہ سب کسی بھی اور

بس لوگوں کے دھوکہ دینے کی سرشت سے یہ باز آ نہیں سکتے

50

خالصہ کالم

یاد رکھیے گا کہ یہ دنیا ایک آزمائش گاہ ہے۔ ہر شخص کسی نہ ! قارئینمحترم

کسی آزمائش میں ہے۔ کسی کو مال دے کر آزمایا گیا ہے، کسی کہ نہ دے کر، کسی

کی شادی ہو کر آزمائش شروع ہو جاتی ہے، اور کسی کی نہ ہو کر، کسی کو اوالد

دے کر آزمایا گیا ہے اور کسی کو نہ دے کر

آخرت کا دارومدار اس پر ہے کہ کیا ہم اس آزمائش میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں۔

غیر سیدہ خواتین بھی ملیں اہل سنت میں ایسی آپ کبھی غور کیجیے گا تو آپ کو

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی شادی میں کیا گی جن کی شادیاں نہیں ہوئی ہوں گی۔

رکاوٹ ہے؟

ہمارے اس مقالے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ آپ کے سامنے وہ روایات اور قرائن

فیصلہ الئے جائیں کہ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ کا کفو سید ہی ہے۔ تاہم یہ

آپ نے کرنا ہے کہ روایات اھل بیت علیہم السالم سے تمسک کرنا ہے یا فتوؤں کی

آڑ لینی ہے

ھیے گا کہ ہر ایک کا آزمایا جائے گا، اور جب ور یاد رکبس اس بات کو ضر

آزمائش کا وقت آتا ہے، تو ہمیں انتہائی محتاط رہنا ہے۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ و

آلہ وسلم نے تو یہاں تک ارشاد فرمایا کہ

وآله علیه ہللا صلى ہللا رسول قال :

أخذ ومن المحرمات من نجا الشبھات ترك فمن ذلك، بین وشبھات بین وحرام بین حالل

یعلم ال حیث من وهلك المحرمات ارتكب بالشبھات

کے ان اور ہیں، واضح حرام و حالل: فرمایا نے وسلم آلہ و علیہ ہللا صلی ہللا رسول

نجات بھی سے حرام نے اس کیا، ترک کو شبہات نے جس تو ہیں۔ شبھات درمیان

51

ہوا، ہالک اور کیا، ارتکاب کا حرام نے اس کیا، عمل پر شبہات نے جس اور پائی، اور اس انداز سے ہالک ہوا کہ اسے علم بھی نہیں ہوا54

یعنی اس روایت میں صرف حرام کی بات نہیں ہو رہی بلکہ شبہات تک کی بات ہو

رہی ہے کہ اگر آپ ان پر بھی عمل کرو گے تو ایسا ہے جیسے اس نے حرام پر

عمل کیا

یاد رہے کہ اس زمانہ غیبۃ امام القائم کے بارے میں ہمیں امام الصادق کی زبانی

سدیر الصیرفی، ابان بن تغلب، مفضل ابن عمر اور ابو –روایت ملتی ہے ایک

بصیر امام الصادق علیہ السالم کے پاس آتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ آپ خاک پر

ہے ہیں۔ غم و اندوہ کے اثرات آپ کے بیٹھے، آستین و گریبان کھولے گریہ کر ر

چہرے پر نمایاں ہیں۔ اور گریہ ایسا کر رہے ہیں جیسا کہ اکلوتے بیٹے کی ماں

اپنے بیٹے کی الش پر گریہ کر رہی ہو

قارئین کرام! اس طرح کا گریہ ہو رہا ہے، اور امام عالی مقام فرماتے ہیں

دی ہے۔ مجه پر زمین تنگ "اے میرے سید! آپ کی غیبۃ نے میری نیند حرام کر

کر دی ہے، مجه سے دل کا قرار چهین لیا ہے۔ اور میرے غم و اندوه کو ابدی بنا

ديا ہے۔ ايک کے بعد دوسرے کا فقدان ہماری جمعیت اور تعداد کو کم کر رہے ہے۔

پش کوئی ايسے آنسو نہیں جو میری آنکهوں سے ٹپکیں يا آه و فرياد میرے

يہ کہ اس کے اسباب سے زياده سخت مصائب اور سینے سے بلند ہو، مگر

سختیاں جهیلنا پڑتی ہیں۔۔۔"

امام عالی مقام کے اصحاب پریشان ہوئے، اور پوچھا کہ یا امام ! آپ ایسا کیوں رہ

غیبۃ کا رہے ہیں، تو امام نے جواب دیا کہ انہوں نے کتاب جفر کا مطالعہ کیا اور

حاالت دیکھے، امام کے الفاظ یوں ہیں

"اس زمانے میں مومنین پر مصائب نازل ہوں گے اور لوگوں کے دلوں میں غیبۃ

کے طويل ہونے کی بنا پر شکوک پیدا ہوں گے يہاں تک کہ اکثر اپنے دين سے

54

الکافی، جلد 1، صفحہ 68؛ من ال یحضرہ الفقیہ جلد 3، صفحہ 10

52

منحرف ہو جائیں گے، اور اسالم يعنی واليت کے طوق کو اپنے گلے سے اتار ديں گے"55

نے کے بارے میں جان لیا۔ یہ امام علیہ السالم کے الفاظ میں آپ نے اس زما

آزمائشوں کا زمانہ ہے۔ اور اس حد تک آزمائشیں کہ امام عالی مقام اس انداز سے

گریہ کر رہے تھے کہ جیسے ایک ماں اپنے اکلوتے بیٹے کی الش پر کرتی ہے۔

تو پھر اس دور میں ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ امام فرماتے ہیں

نوح، بن أيوب عن الحمیري، جعفر بن هللا عبد حدثنا: قال عنه هللا رضي أبي حدثنا

علیه هللا عبد أبو قال: قال زرارة عن دراج، بن جمیل عن عمیر، أبي بن محمد عن

ذلك في الناس يصنع ما: له فقلت إمامهم، عنهم يغیب زمان الناس على يأتي: السالم

لهم يتبین حتى علیه هم الذي باالمر يتمسكون: قال الزمان؟ .

امام الصادق علیہ السالم فرماتے ہیں کہ لوگوں پر وه وقت آئے گا جب ان کا امام

غائب ہو گا۔ پوچها گیا کہ پهر اس وقت لوگ کیا کريں؟ جواب ديا کہ ان احکامات سے تمسک رکهیں جو ان کے پاس ہیں جب تک حاالت واضح نہ ہو جائیں56

ہمارا واحد مقصد اہلبیت اطہار علیھم السالم کی روایات آپ تک پہنچانا تھا، سو

پہنچا دیا

ائےجہم ہللا سے دعا کرتے ہیں کہ جلد از جلد ظہور امام زمانہ علیہ السالم ہو

آمین

ں آخر میں ہم اھل بیت اطہار علیہم السالم پر درود پاک کا ہدیہ پیش کرتے ہی

د اللهم صل عل د و ال محم ی محم

55

کمال الدین و تمام النعمہ، صفحہ 381؛ اردو ترجمہ جلد 2، صفحہ 357؛ بحار االنوار، جلد 51،

صفحہ 21956

378کمال الدین، صفحہ

53